آزاد کشمیر ووٹروں کا کھلا پیغام

آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ بھی اسی زاویے سے کیا جانا چاہیے

zahedahina@gmail.com

ISLAMABAD:
کامیابی اور بقا کا راز اس بنیادی اصول میں پنہاں ہے کہ انسان خود کو گزرتے ہوئے وقت اور حالات کے ساتھ ہم آہنگ کرے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے سے خوف اور پریشانی محسوس نہ کرے۔ اس اصول کا اطلاق فرد، گروہ، قوم سمیت سب پر ہوتا ہے۔ اس مشکل اور کڑے مرحلے سے سیاسی جماعتوں کو بھی گزرنا پڑتا ہے۔ اہم بات یہ نہیں کہ تبدیلی کا نعرہ بلند کیا جائے بلکہ اصل حقیقت اور اہمیت اس نکتے کو حاصل ہے کہ پہلے خود کو تبدیل کیا جائے اس کے بعد تبدیلی کا نعرہ لگایا جائے۔

آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج کا تجزیہ بھی اسی زاویے سے کیا جانا چاہیے۔ کشمیر کی حکمران جماعت، پی پی پی اور ملک میں خود کو تبدیلی کی سب سے بڑی علامت قرار دینے والی پی ٹی آئی کا ان انتخابات میں تقریباً صفایا ہوگیا۔ ہمارے ملک میں انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کی روایت نہیں رہی ہے لہٰذا شکست سے دوچار ہونے والی ہر جماعت دھاندلی کا الزام لگاکر انتخابی نتائج کو مسترد کردیتی ہے۔ یہ خودکشی پر مبنی رجحان ہے۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا تجزیہ کرنے کے بجائے دوسروں کے سر الزام ڈال دینے سے مزید ناکامیوں کی راہ ہموار ہوتی ہے اور سیاسی سفر مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ نے نتائج کو قبول کرتے ہوئے فاتح جماعت کو مبارک باد پیش کی تھی جو ایک صائب عمل تھا لیکن آزاد کشمیر میں ان کی پارٹی کے سربراہ اور 25 برس سے ناقابل شکست رہنے والے بیرسٹر سلطان محمود اپنی پہلی انتخابی ناکامی پر اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ انھوں نے یہ اعلان کردیا کہ نہ صرف ان کے حلقے بلکہ پورے آزاد کشمیر میں ووٹروں کو پیسوں کے ذریعے خریدا گیا تھا۔

اس ردعمل سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سلطان محمود غالباً مستقبل میں انتخابی سیاست سے غیر اعلانیہ طور پر دستبردار ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کشمیر کے ووٹروں پر بک جانے کا الزام لگا کر ان کی بدترین توہین کی ہے۔ عوام اپنے مینڈیٹ کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ کوئی طالع آزما ان کے مینڈیٹ پر شب خون مارے اور وہ مسلح طاقت کے سامنے بے بس ہوجائیں تب بھی سب کچھ یاد رکھتے ہیں۔ مستقبل میں انھیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ ان ہی لوگوں کو اپنے مینڈیٹ سے دوبارہ نوازتے ہیں جنھیں اقتدار سے غیر آئینی طور پر بے دخل کیا گیا ہوتا ہے۔

بیرسٹر صاحب کو اپنے نئے ''قائد'' کی پیروی کرتے ہوئے اس الزام سے فوراً رجوع کرنا چاہیے، کہیں یہ نہ ہو کہ انتخابی سیاست کے ساتھ ان کا نئی جماعت میں بھی رہنا ممکن نہ ہوسکے۔ پی پی پی چونکہ آزاد کشمیر کی سیاست میں عرصہ دراز سے ایک موثر کردار ادا کرتی چلی آئی ہے اور حالیہ انتخابات سے قبل وہ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے کشمیر پر حکمرانی بھی کررہی تھی لہٰذا اس کا زیادہ افسردہ ہونا قابل فہم ہے۔

تاہم، پی پی پی پاکستان کی ایک بہت بڑی قومی جماعت ہے، جمہوری جدوجہد میں اس کا کردار تابناک رہا ہے، پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے اس کی قربانیاں بلاشبہ غیر معمولی ہیں۔ ان تمام مثبت عوامل کے تناظر میں پی پی پی سے بجا طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس انتخابی شکست کو محض دھاندلی کا نتیجہ قرار دے کر تلخ حقائق اور خود احتسابی کے تکلیف دہ عمل سے گریز کی راہ ہرگز اختیار نہیں کرے گی۔

پی ٹی آئی اور پی پی پی کو یہ تجزیہ ضرور کرنا چاہیے کہ اس بدترین انتخابی شکست کے چھوٹے اور بڑے اسباب کیا تھے؟ ان سے کہاں اور کیوں غلطیاں سرزد ہوئیں؟ وہ کون سے شعبے ہیں جہاں فوری طور پر اصلاح اور بہتری کی گنجائش ہے۔ متذکرہ تجزیے کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ لیکن میں اس نکتے پر اصرار کروں گی کہ دونوں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ دونوں جماعتیں ادراک نہیں کرسکی ہیں کہ دنیا، خطے اور ہمارے ملک کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور اس تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کی سیاست کے انداز اور طور طریقے بھی بدل رہے ہیں، لہٰذا انھیں بھی ماضی کی سیاسی نفسیات سے باہر نکل کر نئے ایجنڈے اور نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ سیاست کے میدان میں اترنے کی ضرورت ہے۔


2013ء کے عام انتخابات کے بعد سے حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی نے جو روش اختیار کی ہے اس سے کچھ یقین سا ہونے لگتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اب بھی یہی تصور کرتی ہیں کہ پاکستان 60،70، 80 اور 90 کی دہائی سے باہر نہیں نکلا ہے۔ ماضی کی بہت سی چیزیں اب بھی یقیناً موجود ہوں گی لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ماضی جیسا ہی ہے۔

بہت کچھ بدلا ہے، بدل رہا ہے اور بدلے گا۔ اس لیے نہیں کہ ہم ایسا چاہتے ہیں بلکہ اس لیے کہ یہ وقت کا فرمان ہے جس کی حکم عدولی ممکن نہیں۔ انتخابی مہم میں جو تقریریں ہوئیں، جو نعرے لگائے گئے اس سے لگتا تھا جیسے ہم 1970ء اور 1990ء کی دہائیوں میں ہونے والی انتخابی مہم کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ شدید ترین منفی نعرے، بدترین الزامات اور سیاسی حریفوں کو غدار، چور اور لٹیرا قرار دیے جانے سمیت ہم نے ماضی کا ہر نعرہ سنا اور ہر منظر دیکھا۔ ماضی کا پاکستان ہوتا تو نتیجہ شاید کچھ اور نکلتا لیکن یہ آج کی دنیا کا پاکستان ہے، اس لیے نتیجہ بھی مختلف نکلا۔

عوام سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو کہیں تیزی سے بدلنے کی فطری صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہی ان کی یعنی انسان کی بقا کا اولین راز ہے۔ چیونٹی نے بدلتے ماحول سے خود کو ہم آہنگ کیا آج بھی زندہ ہے۔ اس سے لاکھوں گنا بڑا ڈائناسور یہ نہ کرسکا اور دنیا سے فنا ہوگیا۔ بدلو ورنہ مٹ جاؤ۔ یہ نکتہ اس عام آدمی سے زیادہ کون جان سکتا ہے جسے ہر وقت فنا کا خطرہ درپیش رہتا ہے۔ اس کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی، لہٰذا بسا اوقات وہ دانشوروں کے تجزیوں کو مسترد کرکے حیران کن فیصلے کرتا ہے۔

آزاد کشمیر میں شکست سے دوچار جماعتوں کو سیاسی صدمے کی کیفیت سے باہر نکل کر اب اپنی سیاست پر ازسر نو غور کرنا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کے عوام نفرت اور الزامات کی سیاست سے نالاں ہوچکے ہیں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کی منفی سیاست اب ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ ان کو مسلسل خوف کی حالت میں رکھا گیا، انھیں ہر لمحہ ڈرایا جاتا رہا کہ ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں ''دیدہ اور نادیدہ'' دشمن انھیں مٹانے کے درپے ہیں۔ اب عوام خود کو اس حالت سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔

سائنس، ٹیکنالوجی اور اطلاعات کے انقلاب نے عوام میں شعور بیدار کردیا ہے۔ وہ تعلیمی اعتبار سے ناخواندہ ہوسکتے ہیں لیکن ان میں معلوماتی خواندگی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لوگ اب نفرت، بے یقینی اور خوف کی حالت میں نہیں رہنا چاہتے، وہ ناامیدی کی اندھیری قبر سے نکلنا چاہتے ہیں۔ انھیں امید کی کرن چاہیے، ان کو ڈرانے والے نہیں بلکہ امید دلانے والے سیاستدانوں اور دانشوروں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کے سامنے ہے۔ حقائق زیادہ دن نظروں سے اوجھل نہیں رہتے لہٰذا جذباتی تقریروں سے اب سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہیں ملیں گے ۔ جس کو غدار کہیں گے اس کے ووٹ گھٹیں گے نہیں بلکہ بڑھیں گے، یہی آزاد کشمیر میں ہوا۔

پاکستان میں برسراقتدار رہنے والے غیر سیاسی اور سیاسی حکمرانوں کی ''کارکردگی'' عوام کے سامنے ہے۔ ان کے سامنے ان ملکوں بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں جمہوری تسلسل کے باعث ترقی کا سفر جاری رہا اور آج یہ تمام ملک ہم سے کہیں آگے جاچکے ہیں۔ اب عوام کے دل جیتنے اور ان کے ووٹ لینے کے لیے قابل عمل اور سیاسی حریفوں سے بہتر معاشی اور فلاحی ایجنڈا پیش کرنا ہوگا۔ پاکستان میں حزب اختلاف میں شامل تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور پر اقتدار میں موجود ہیں۔

پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی خیبرپختونخوا اور پی پی پی اور اس کی اتحادی جماعتیں سندھ میں برسراقتدار ہیں ۔ باقی جماعتیں بلوچستان میں مسند اقتدار پر فائز ہیں۔ لہٰذا اب سب کو ووٹروں کے سامنے اپنی کارکردگی کا روزنامچہ پیش کرنا ہوگا۔ محض لفاظیوں سے کام نہیں چلے گا۔ جس سیاسی جماعت کی کارکردگی اور ایجنڈا بہتر ہوگا، ووٹ اس کے حق میں پڑیں گے ۔

آزاد کشمیر سے سیاسی جماعتوں کے لیے ووٹروں کا یہ پیغام آیا ہے کہ شائستگی اپنائیں، اپنی کارکردگی بہتر بنائیں، منفی طرز سیاست تبدیل کریں، ماضی کی بیمار سیاسی نفسیات سے باہر نکلیں ورنہ شکست کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔
Load Next Story