ترکی اور پاکستان میں جمہوریت

اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں بعض پسماندہ ممالک کی نسبت کسی حد تک ترقی ہوتی نظر آتی ہے

znzaidi@yahoo.com

گزشتہ دنوں ترکی میں فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا۔ ترک فوج نے جب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر شب خون مارنے کی کوشش کی تو ترکی کے بہادر عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر جمہوریت کا دفاع کیا اور اسے ڈی ریل ہونے بچا لیا۔ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد پاکستان میں جمہوریت اور آمریت پر تکرار کا عمل شروع ہو گیا، بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان موازنہ ایک دلچسپ موضوع بن گیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں ایسا ہوتا تو لوگ مٹھائیاں بانٹتے جب کہ حکمران جماعت کا موقف ہے کہ پاکستان کے عوام اب باشعور ہو چکے ہیں، وہ کسی بھی بغاوت پر ایسا ہی ردعمل ظاہر کریں گے جیسا ترکی دیکھا گیا۔

اگرچہ دونوں ملکوں میں کچھ قدریں مشترک ہیں، مگر جمہوریت کے اعتبار سے دونوں ممالک کے درمیان موازنے کی کوئی تُک نہیں بنتی، کیونکہ ترکی کی سیاست اور جمہوریت بلکہ آمریت بھی اپنے ملک اور قوم کے مفادات کے گرد گھومتی ہے جب کہ پاکستان میں جمہوریت کو آمریت یا اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔یقینا ترکی کے عوام لائق تحسین ہیں کہ جمہوریت کو بچانے کے لیے وہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، مگر اس کے ساتھ کچھ کریڈٹ وہاں کی فوج کو بھی ملنا چاہیے جس نے جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہوئے بھی ٹینک عوام پر چڑھانے کے بجائے عوام سے پٹنے کو ترجیح دی۔ بعض لوگ تو ترک فوج کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ ایسی فوج کو تو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے جو نہتے عوام کے آگے ڈھیر ہو گئی جو اپنے ملک کے عوام کے دلوں میں اپنا رعب، دبدبہ بلکہ خوف پیدا نہ کرسکی۔

ہمارے حکمرانوں کی یہ خواہش باعث احترام ہے کہ پاکستانی عوام بھی ایسی کسی صورتحال کے خلاف نہ صرف سڑکوں پر نکل آئیں، فوج کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں، مگر حکمران یہ بھی تو بتائیں، آخر انھوں نے ایسا کیا کر دکھایا کہ لوگ ان کے لیے لڑنے مرنے کو گھروں سے نکل آئیں۔ اور مٹھائیاں کوئی فوجی بغاوت یا آمریت کی خوشی میں نہیں بانٹی جاتیں بلکہ حکومت کے مظالم سے نجات کی خوشی میں بانٹی جاتی ہیں۔ کاش ہمارے ملک کے بعض دانشور جو جمہوریت کی رٹ لگائے رکھتے ہیں، اور کرپٹ حکمران جو اسی کا راگ الاپتے رہتے ہیں یہ سمجھ اور سمجھا سکیں کہ فقط ''عوام کی رائے'' سے الیکشن جیت کر اقتدار حاصل کر لینے کا نام جمہوریت نہیں ہے، بلکہ جمہوریت تو اکثریتی ''عوام کی دیگر آرا'' کے بھی احترام کا نام ہے۔

ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بلند بانگ دعوؤں کے بجائے دیکھیں کہ ان کی حکومت اب جب کہ اپنے چوتھے مالی سال میں داخل ہو چکی ہے، اپنے منشور اور الیکشن 2013ء میں عوام سے کیے گئے کتنے وعدوں پر عمل کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ پاکستان روشن ہوا؟ خوشحالی آئی؟ یا کسی معاشی دھماکے نے عوام کے نصیب بدل دیے؟ بجلی کی لوڈشیڈنگ بدستور اسی طرح جاری ہے جیسے گزشتہ حکومت کے دور میں تھی، پینے کے صاف پانی کو عوام آج بھی اسی طرح ترس رہے ہیں جیسے 3 سال پہلے ترستے تھے، مہنگائی نے بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔


اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں بعض پسماندہ ممالک کی نسبت کسی حد تک ترقی ہوتی نظر آتی ہے مگر ٹیکس وصولیوں اور ملکی وسائل کے علاوہ قرضوں اور خیراتوں کی مد میں حاصل ہونے والی رقوم کو ہضم کرنا اتنا آسان نہیں، نصف رقم بچانے یا کمانے کے لیے نصف لگانا بھی پڑتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آئے روز نت نئے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے جاتے رہتے ہیں۔ ورنہ یہ کہاں کا انصاف، کہاں کی جمہوریت ہے کہ 50 لاکھ لوگوں کو انکم سپورٹ کے نام پر معمولی سی مالی سہولت دینے کے لیے ساڑھے 19 کروڑ لوگوں کو نچوڑا جائے۔

4، 6 ہزار مخصوص لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے نام پر قرضے دینے کے لیے 100 ارب روپے کے خزانے لٹائے جائیں اور بھوک پیاس سے بلک بلک کر مرتے 200 ملین لوگوں پر ٹیکس در ٹیکس لگا کر یہ رقم وصول کی جائے؟ کیا یہی جمہوریت ہے کہ ایک، 2 لاکھ من پسند لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت دینے کے لیے حکومت سیکڑوں ارب روپے سے ہیلتھ انشورنس اسکیم کا اجرا کردے اور دوسری طرف یہ اربوں روپے حاصل کرنے کے لیے 19 کروڑ 95 لاکھ افراد کے لیے یہی ادویات 30 سے 70 فیصد تک مہنگی کر کے ان کی دسترس سے دور کر دی جائیں؟ کیا 2، 4 لاکھ لوگوں کو سفری سہولت دینے کے لیے بس منصوبہ شروع کرنے کے لیے 19 کروڑ 95 لاکھ لوگوں پر 40 ارب روپے کے ٹیکس لگا دینے کا نام جمہوریت ہے؟ موجودہ حکومت کو جمہوری تو تب ہی قرار دیا جا سکتا ہے جب حکمران اس ملک کے وسائل پر یہاں کے 20 کروڑ عوام کا مساوی حق سمجھیں۔ ہمارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ 19 کروڑ 95 لاکھ لوگوں کا خون نچوڑ کر اپنے منظور نظر یا پسندیدہ افراد کو نوازنے والی حکومت کو جمہوری قرار دیتے رہیں۔

آیئے ایک نظر ملک کے سب سے بڑے جب کہ دنیا کے چھٹے بڑے شہر کراچی پر ڈالتے ہیں۔ ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 20 فیصد جب کہ وفاقی حکومت کو 65 فیصد کما کر دینے والے اس شہر کا مجموعی ملکی روزگار میں حصہ 24 فیصد ہے۔ کراچی کا جغرافیہ ہی دراصل اس کی اہمیت میں اضافے کا موجب ہے، جسے بندرگاہوں نے چار چاند لگا رکھے ہیں۔ صنعتی اعتبار سے بھی اس شہر کی افادیت سے انکار ممکن نہیں، ملک کی بیشتر بڑی صنعتیں یہیں واقع ہیں۔ یہ شہر ہمیشہ ہی سے نظر انداز ہوتا چلا آیا ہے۔ حالیہ بجٹ ہی کو لے لیجیے، صوبائی حکومت نے اس 2 کروڑ آبادی والے شہر کے لیے فقط 10 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے، جس میں سے بچ بچا کر زیادہ سے زیادہ 5 ارب روپے ہی اس شہر کا نصیب ہوں گے۔

اگر جمہوریت پسند حکومت اور جمہوریت پسند دانشور تھوڑی سی جمہوریت اس شہر کا مقدر بنانے کے بارے میں بھی سوچ لیں تو کم از کم ملک کے 10 فیصد عوام یعنی موجودہ حکومت کے ووٹوںکی تعداد سے بھی ایک تہائی زیادہ آبادی کو تو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ اگر ملک کے مجموعی بجٹ (ساڑھے 4 ہزار ارب روپے) کا 10 فیصد (450 ارب روپے) نہ سہی، صرف اس ایک شہر سے مختلف ٹیکسوں کی صورت میں حاصل ہونے والے 2000 ارب روپے میں سے 10 فیصد (200 ارب روپے) ہی خرچ کر دیے جائیں تو چند سال میں یہ دنیا کے بہترین شہروں میں شامل ہو چکا ہو گا۔ اور اگر آپ وفاقی دارالحکومت کو اسی جگہ پر لے آئیں جسے قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے چنا تھا، اور یہاں کے لوگوں دل جیتنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ اس شہر کے لوگ کیسے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر آپ کی حکومت بچائیں گے۔
Load Next Story