آگے آگے دیکھیے

حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی ایک موقع پر کالا باغ ڈیم کی حمایت کا عندیہ دے چکی ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ۔۔۔

Abbasather@express.com.pk

BERLIN:
عدالت نے ایک اور ''بحران'' خیز فیصلہ سنا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کے مطابق کالا باغ ڈیم بنایا جائے۔ بات اتنی سادہ نہیں، جتنی آسانی سے کہہ دی گئی ہے۔ کالا باغ ڈیم ایسا منصوبہ ہے جسے نصف پاکستان زندگی کا سوال سمجھتا ہے اور باقی نصف اپنے لیے موت کا پیغام قرار دیتا ہے۔ پنجاب میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ اس ڈیم کے نہ بننے سے پاکستان اگلی دہائی میں بنجر بن جائے گا اور بجلی کا بحران بھی شدید ہو جائے گا۔ پنجاب میں اس خیال کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہے کہ بھارت بہت بڑی رقم خرچ کر کے کالا باغ ڈیم کے خلاف مہم چلوا رہا ہے۔

دوسری طرف چھوٹے صوبوں بالخصوص صوبہ خیبر پختون خوا اور سندھ میں رائے عامہ یہ ہے کہ اس ڈیم سے دونوں صوبے تباہ ہو جائیں گے۔ خیبر پختون خوا والوں کا کہنا ہے کہ ڈیم بنا تو ان کے صوبے کا بیشتر حصہ پانی میں ڈوب جائے گا اور سندھ میں یہ خیال عام ہے کہ پنجاب دریائے سندھ کا پانی غصب کر لے گا۔ دونوں اطراف سے اپنی اپنی دلیلیں اتنی مضبوطی سے دی جاتی ہیں کہ عام آدمی بے یقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کون سے فریق کا موقف درست ہے اور کس کا غلط۔ یہ ڈیم ابھی نہ تو بنا ہے نہ ہی بننے کا امکان ہے لیکن اس کی فزیبلٹی رپورٹ اور دوسرے امور پر پہلے ہی اتنی رقم خرچ کی جا چکی ہے جس سے کئی چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے تھے۔

یہ طے ہے کہ ڈیم قومی اتفاق رائے سے بننا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کے مخالفوں کے خدشات دور نہیں ہو جاتے (یعنی پاکستان جیسے ملک میں ''قومی اتفاق رائے'' جیسا ناممکن، ممکن نہیں بن جاتا، ڈیم کی تعمیر شروع نہیں کی جا سکتی)۔ ایسے حالات میں لاہور ہائیکورٹ کا یہ قطعی حکم کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی جائے، بہت تہلکہ خیز ہے۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنے طور پر کوئی حکم نہیں دے رہی، کالا باغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کچھ عرصہ قبل مشترکہ مفادات کونسل نے کیا تھا، اس پر عمل کیا جائے۔ مطلب یہ کہ عدالت نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے۔ بہت سے لوگوں کیلیے یہ بات نئی ہو گی کہ مشترکہ مفادات کونسل ایسا فیصلہ دے چکی ہے۔

اس لیے کہ یہ فیصلہ آئے 21 سال ہو چکے ہیں اور بے شمار لوگوں کو تو اس کا منظر عام پر آنا ہی یاد نہیں ہوگا۔ نہ صرف کونسل کا وہ فیصلہ ماضی بعید کا حصہ بن چکا ہے بلکہ کالا باغ ڈیم کے حق میں دلیل کے طور پر استعمال ہوتے ہوتے اتنا گھس چکا ہے کہ محدب عدسہ لگائے بغیر اُس کی عبارت پڑھنا انتہائی مشکل ہے۔ ڈیم کے حامی کہتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل میں تمام صوبوں نے ڈیم کی حمایت کی تھی تو اب اختلاف کیوں کیا جا رہا ہے۔ ڈیم کے مخالف کہتے ہیں کہ وہ حکومتی نمائندوں کا فیصلہ تھا۔ عوامی سطح پر اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔


حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی ایک موقع پر کالا باغ ڈیم کی حمایت کا عندیہ دے چکی ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ اندرون سندھ اسے سخت سیاسی نقصان کا سامنا کرنا ہو گا تو اس نے ڈیم کی تعمیر کو قومی اتفاق رائے سے مشروط کر دیا۔ یہی ماجرا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی ہوا۔ پنجاب میں اس کی قیادت ڈیم کی تعمیر کے حق میں بیان دیتی ہے لیکن باقی مقامات پر وہ بھی قومی اتفاق رائے کی شرط لگا دیتی ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں اے این پی کے سوا کوئی اور جماعت کالا باغ ڈیم کے خلاف متحرک نہیں لیکن اندرون سندھ کا معاملہ مختلف ہے وہاں نصف درجن کے قریب قوم پرست جماعتیں ڈیم کے خلاف شعلہ فشاں ہیں، اس دور سیاست کی بہت سی الجھنوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حامی نواز شریف کے اندرون سندھ کی ان تمام جماعتوں سے قریبی رابطے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ آنے والے الیکشن میں قومی پرست اور مسلم لیگ (ن) متحد ہو کر حصہ لیں گے۔ چنانچہ اس بات کے باوجود کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے عدالتی فیصلے کو ماننا سب کا فرض قرار دے دیا ہے۔

نواز شریف کیلیے بہت مشکل ہو گا کہ وہ بھی ڈیم کی حمایت میں قومی اتفاق رائے کے سوا کوئی اور طریقہ کار اپنانے کا مشورہ دیں۔ کالا باغ ڈیم کی کھلی حمایت کرنے پر اندرون سندھ کی قوم پرست جماعتیں ان کا ساتھ چھوڑ سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنی پالیسی حسب سابق رکھے گی اور نواز شریف بھی کوئی واضح موقف نہیں اپنائیں گے۔ تحریک انصاف نے ڈیم کی تعمیر پہلے ہی ''قومی اتفاق رائے'' سے مشروط کر دی ہے گویا یہ جماعت بھی اپنے اِس موقف سے ہٹ چکی ہے کہ عدالتی فیصلے ہر قیمت پر مانے جانا چاہئیں۔ ڈیم کے حق میں یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ نے دیا۔ یہ بات اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔ عدالتیں فیصلہ دیتے وقت سیاسی الجھنوں کوسامنے نہیں رکھتیں۔

ان کا کام میرٹ پر اپنی صوابدید کے مطابق حکم صادر کرنا ہوتا ہے۔ اتفاق کی بات ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسے صوبے کی عدالت نے دیا ہے جس پر دو چھوٹے صوبوں کا الزام ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم بنا کر ان کے مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ محض میرٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہو سکتا ہے سندھ ہائیکورٹ اور پشاور ہائیکورٹ بھی اس کیس کا فیصلہ معاملے کی سیاسی کیفیت کو دیکھ کر نہیں، قانون اور میرٹ کے مطابق دیتیں اور مشترکہ مفادات کونسل کا 21 سال پرانا فیصلہ یاد کرا دیتیں۔ 21 سال گزر گئے اتنے طویل عرصے کے دوران مشترکہ مفادات کونسل کے کسی اجلاس میں فیصلے کو بدلا گیا ہے نہ تائید کی گئی ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ عدالتی میرٹ اپنی جگہ، سیاسی طوفان اپنی جگہ، کراچی کی حلقہ بندیوں کا ایشو پہلے ہی خطرناک شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ فیصلہ سندھ میں نئی سیاسی لہریں اٹھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ جہاں پہلے ہی بلدیاتی آرڈیننس نے آندھی چلا رکھی ہے۔ جوں جوں الیکشن کی تاریخ نزدیک آ رہی ہے، ایک ایک کر کے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو ''حوادث'' کا سبب بن سکتے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Load Next Story