انڈونیشیا میں قید بے گناہ پاکستانی شہری کی سزائے موت کی تیاری مکمل
پاکستانی حکام کی جانب سے رہائی کی کوششیں کی جارہی ہیں تاہم آج رات میری جان بچانے کا آخری موقع ہے، ذوالفقارعلی
انڈونیشیا میں منشیات اسمگلنگ کے الزام میں ناحق سزائے موت پانے والے پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی سزا پر عملدرآمد کا آج آخری روز ہے جب کہ ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ آج رات تک جان بچانے کا آخری موقع ہے۔
ایکسپریس نیوز نے انڈونیشیا کی جیل میں سزائے موت کے منتظر پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی رہائی کے لئے کوششیں تیزکردی اور اس حوالے سے ایکسپریس نے ذوالفقار علی کی لاہور میں ان کے خاندان سے ٹیلی فون پر بات بھی کرائی جب کہ ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے رہائی کی کوششیں کی جارہی ہیں تاہم آج رات میری جان بچانے کا آخری موقع ہے، انڈونیشئن حکام ایک بار میرے کیس کو دیکھیں، اگر غلط ہوں تو سزا ملنی چاہیئے اور بے گناہ ہوں تو رہائی دی جائے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے ذوالفقارعلی آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ حکومت ایک بار میرے بارے میں انڈونیشئن حکام سے بات کرے، 12 سال سے جھوٹے مقدمے میں جیل کاٹ رہا ہوں جب کہ انڈونیشئن میڈیا بھی میری بے گناہی کا قائل ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: انڈونیشیا میں سزائے موت پانے والے پاکستانی شہری کی رہائی کیلئے اقدامات شروع کردیئے، دفترخارجہ
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ذوالفقار علی سمیت سزائے موت کے دیگر 14 ملزمان کی پھانسی رکوانے کے لئے ٹوئٹر پر مہم شروع کردی اور عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ jokowi@ پر ٹوئیٹ کر کے انڈونیشیائی صدر سے پھانسی رکوانے کی اپیل کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی کے کیس میں انڈونیشیائی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی اور اس کا فیئر ٹرائل نہیں کیا گیا جب کہ پاکستانی شہری کو گرفتاری کے ایک ماہ بعد وکیل تک رسائی دی گئی۔
مقامی اخبار جکارتہ پوسٹ نے لکھا ہے کہ ذوالفقار کو کوئی وکیل بھی فراہم نہیں کیا گیا اور دوران حراست ذوالفقار مترجم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی جب کہ پولیس نے دوران تفتیش ذوالفقار کو چھوڑنے کے لیے رشوت مانگی تھی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ رہا نہ ہو سکا، ذوالقفار کو مئی سے اسپتال میں سروسس کی بیماری کی وجہ سے رکھا گیا تھا جس کی بگڑتی صحت قیدکے دوران تشدد وجہ سے ہوئی۔
انڈونیشیا کے قانون کے مطابق سزائے موت کے قیدویوں کو پول کے ساتھ باندھ کر گولیاں ماردی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ ذوالفقار علی لاہورکا رہائشی ہے جو 15 سال قبل روزگار کے لئے انڈونیشیا گیا تھا جہاں اس کی دوستی بھارتی شہری گردیپ سنگھ کے ساتھ ہوئی جس نے اسے ہیرون اسمگلنگ کے مقدمے میں پھنسا دیا اور الزام لگایا کہ میرے ساتھ ہیروئن اسمگلنگ میں ذوالفقار بھی ملوث ہے جس کے بعد دونوں کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔
ایکسپریس نیوز نے انڈونیشیا کی جیل میں سزائے موت کے منتظر پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی رہائی کے لئے کوششیں تیزکردی اور اس حوالے سے ایکسپریس نے ذوالفقار علی کی لاہور میں ان کے خاندان سے ٹیلی فون پر بات بھی کرائی جب کہ ذوالفقار علی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے رہائی کی کوششیں کی جارہی ہیں تاہم آج رات میری جان بچانے کا آخری موقع ہے، انڈونیشئن حکام ایک بار میرے کیس کو دیکھیں، اگر غلط ہوں تو سزا ملنی چاہیئے اور بے گناہ ہوں تو رہائی دی جائے۔
ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے ذوالفقارعلی آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ حکومت ایک بار میرے بارے میں انڈونیشئن حکام سے بات کرے، 12 سال سے جھوٹے مقدمے میں جیل کاٹ رہا ہوں جب کہ انڈونیشئن میڈیا بھی میری بے گناہی کا قائل ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: انڈونیشیا میں سزائے موت پانے والے پاکستانی شہری کی رہائی کیلئے اقدامات شروع کردیئے، دفترخارجہ
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ذوالفقار علی سمیت سزائے موت کے دیگر 14 ملزمان کی پھانسی رکوانے کے لئے ٹوئٹر پر مہم شروع کردی اور عوام سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ jokowi@ پر ٹوئیٹ کر کے انڈونیشیائی صدر سے پھانسی رکوانے کی اپیل کریں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی کے کیس میں انڈونیشیائی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی اور اس کا فیئر ٹرائل نہیں کیا گیا جب کہ پاکستانی شہری کو گرفتاری کے ایک ماہ بعد وکیل تک رسائی دی گئی۔
مقامی اخبار جکارتہ پوسٹ نے لکھا ہے کہ ذوالفقار کو کوئی وکیل بھی فراہم نہیں کیا گیا اور دوران حراست ذوالفقار مترجم کی سہولت فراہم نہیں کی گئی جب کہ پولیس نے دوران تفتیش ذوالفقار کو چھوڑنے کے لیے رشوت مانگی تھی لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ رہا نہ ہو سکا، ذوالقفار کو مئی سے اسپتال میں سروسس کی بیماری کی وجہ سے رکھا گیا تھا جس کی بگڑتی صحت قیدکے دوران تشدد وجہ سے ہوئی۔
انڈونیشیا کے قانون کے مطابق سزائے موت کے قیدویوں کو پول کے ساتھ باندھ کر گولیاں ماردی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ ذوالفقار علی لاہورکا رہائشی ہے جو 15 سال قبل روزگار کے لئے انڈونیشیا گیا تھا جہاں اس کی دوستی بھارتی شہری گردیپ سنگھ کے ساتھ ہوئی جس نے اسے ہیرون اسمگلنگ کے مقدمے میں پھنسا دیا اور الزام لگایا کہ میرے ساتھ ہیروئن اسمگلنگ میں ذوالفقار بھی ملوث ہے جس کے بعد دونوں کو سزائے موت سنا دی گئی تھی۔