معراج محمد خان بھی جدا ہوئے
ہم دنیا کے وہ عجیب لوگ ہیں، جو مرنے والے کی یاد میں تو زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں،
ہم دنیا کے وہ عجیب لوگ ہیں، جو مرنے والے کی یاد میں تو زمین وآسمان ایک کردیتے ہیں، مگر اس شخص کی زندگی میں چند سطور لکھ کر اسے طمانیت بخشنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ اپنی اسی عادت کی وجہ سے اکثر کف افسوس ملنا پڑتا ہے کہ کاش یہ سطور مرحوم کی زندگی میں کیوں نہ تحریر کردیں۔ جب رشید حسن خان کا انتقال ہوا، تو ان پر اظہاریہ لکھتے ہوئے یہ سوچا تھا کہ معراج بھائی پر اپنے تاثرات ان کی زندگی ہی میں لکھ دیں گے۔ مگر کسی نہ کسی سبب معاملہ ٹلتا چلا گیا اور وہی ہوا جو عموماً ہوتا ہے، یعنی آج ان کے اس دنیا سے رخصت ہوجانے پر ان کی یادوں کے چراغ جلانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
معراج محمد خان مرحوم 1960 سے 80 تک تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر معاشرے میں ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کی علامت بنے قطب تارے کی طرح چمکتے رہے۔ جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عوامی حقوق کی جدوجہد میں صعوبتیں برداشت کرتے گزرا، وہیں آخری عمر بیماریوں سے جوجھتے گزری۔ ان کی پوری زندگی دیانتداری، اصول پسندی اور نظریاتی راسخیت سے عبارت رہی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) سے انھوں نے جس فکری اور نظریاتی سفر کا آغاز کیا، وہ آخری سانس تک جاری رہا۔ وہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جو سیاست کو عبادت تصور کرتی تھی اور عوام کے حقوق کا حصول جس کا اولین مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔
معراج محمد خان مرحوم نے طلبا سیاست میں اس وقت قدم رکھا، جب ملک پر پہلا مارشل لا نافذ ہوچکا تھا۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی اور آزادی اظہار پر قدغن لگے ہوئے تھے۔ ان کے برادر بزرگ منہاج برنا آزادیٔ صحافت کے لیے میدان عمل میں سرگرم تھے۔ 1926 میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے صنعتی تعلقات کے جو قوانین ترتیب دیے تھے اور جنھیں برطانوی حکومت نے من وعن قبول کرتے ہوئے نافذ کیا تھا، ایوب خان نے بیک جنبش قلم ان قوانین کو منسوخ کرکے محنت کشوں کے استحصال کا ایک نیا دروازہ کھول دیا تھا۔ جب کہ پورا ملک سیاسی اور سماجی حبس کے مہیب آسیب کے زیر اثر جاچکا تھا۔
معراج محمد خان 1962 میں جوہر حسین مرحوم کے NSF کی صدارت چھوڑنے پر اس کے صدر منتخب ہوئے اور انتھک محنت کرکے اسے ملک کی ایک انتہائی متحرک اور فعال طلبا تنظیم بنادیا۔ یہ معراج محمد خان کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ NSF کراچی سے نکل کر ملک کے کونے کونے تک پھیل گئی اور ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں یونٹ قائم ہوگئے۔ انھوں نے اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے طلبا حقوق کے علاوہ جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کی جدوجہد کو مہمیز لگائی اور کھل کر آمریت کو چیلنج کیا۔ 1964 میں جب روس اور چین کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے تو برصغیر کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی تقسیم ہوگئیں۔ نتیجتاً NSF بھی دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ امیر حیدر کاظمی کی قیادت میں روس نواز دھڑے کے الگ ہوجانے سے NSF کے چین نواز دھڑے کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس کی بنیادی وجہ معراج محمد خان کی فعال اور متحرک قیادت تھی۔
معراج محمد خان کی شخصیت اور سیاسی افکار کو سمجھنے کے لیے NSF کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ ان کی شخصیت سازی میں اس تنظیم کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس سے قبل بھی تحریر کیا ہے، اب پھر عرض ہے کہ 1954 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) پر پابندی کے بعد ترقی پسند طلبا نے سرکاری سرپرستی میں قائم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) میں شمولیت اختیار کرکے اسے ایک ترقی پسند طلبا تنظیم بنادیا۔ 1962، 1964 اور 1968 میں NSF نے طلبا حقوق اور ایوبی آمریت کے خلاف کامیاب تحاریک چلائیں۔ 1964 کی طلبا تحریک کا نتیجہ تھا کہ کراچی سے ایوب خان کو شکست کا سامناکرنا پڑا، جب کہ 1968 کی تحریک ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔
ایک حقیقت پسندانہ طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ملکی تاریخ کی اہم سیاسی وسماجی شخصیات کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے کردار اور شخصیت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں پر بھی گفتگو کی جائے۔ تاکہ عام آدمی انھیں دیو مالائی شخصیت سمجھنے کے بجائے، ایک ایسا رہنما سمجھیں، جس سے غلطیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں۔ معراج محمد خان مرحوم نے 1967 میں NSF کی صدارت ڈاکٹر رشید حسن خان مرحوم کو منتقل کرکے عملی سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ اس دوران جہاں ایک طرف اپنی نظریاتی کمٹمنٹ، اصول پرستی اور دیانت داری کی وجہ سے بلاشک و مبالغہ انتہائی محترم شخصیت قرار پائے، وہیں ان سے بعض ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جنھوں نے نہ صرف ان کی سیاسی زندگی کو خاصی حد تک متاثر کیا، بلکہ ان کے مخلص نظریاتی ساتھیوں کے لیے بعض مشکلات بھی پیدا ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کے قیام میں ان کا کردار ایک درست فیصلہ تھا، کیونکہ اس وقت ایک ایسی آزاد خیال، مڈل کلاس سے سیاسی جماعت کی اشد ضرورت تھی، جو عوامی مسائل کے واضح ادراک کے ساتھ ان کے حل کی سوجھ بوجھ رکھتی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ 1967 میں اپنے قیام کے وقت سے 1970 کے عام انتخابات تک پیپلز پارٹی اپنے کردار اور سیاسی اپروچ میں اربن مڈل کلاس کی نمایندہ جماعت تھی، جسے دیہی مسائل کا بھی واضح ادراک تھا۔ مگر دسمبر 1971 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس کا ترقی پسندانہ کردار گہناتا چلا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں سمیت 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے ''پرچی نہیں برچھی'' کا نعرہ لگا کر ٹکٹ واپس کردیے۔ جس کی وجہ سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے 17 اہم رہنما قومی اسمبلی میں نہیں پہنچ پائے۔ نتیجتاً فیوڈل سیاستدان اس پر حاوی آگئے۔ اس غلطی کا خود مرحوم معراج محمد خان کو بھی اندازہ تھا۔
کراچی میں وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو کی جانب سے محنت کشوں پر فائرنگ پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی خاموشی پر وہ احتجاجاً وزارت اور پارٹی سے علیحدہ ہوگئے۔ یہ ایک درست، بروقت اور قابل تحسین فیصلہ تھا۔ 1974 میں جب انھوں نے قومی محاذ آزادی قائم کی، تو انھیں ملک بھر کے ترقی پسند دوستوں کی حمایت حاصل ہوئی۔ محدود وسائل کے باوجود اس جماعت کے پورے ملک میں یونٹ قائم ہوئے۔ تحریک بحالی جمہوریت (MRD) میں ان کا کردار انتہائی فعال تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس اتحاد میں کئی بڑی ملک گیر جماعتیں شریک تھیں، مگر سب سے زیادہ کارکن اس چھوٹی جماعت کے گرفتار ہوئے۔ جب کہ 1998 میں قومی محاذ آزادی کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ جس کی راقم سمیت ان کے سبھی مخلص دوستوں نے مخالفت کی۔ مگر چونکہ وہ اور ان کی جماعت فیصلہ کرچکے تھے، اس لیے انھوں نے دوستوں کے مشوروں کو نظر انداز کردیا۔ جلد ہی دوستوں کے خدشات درست ثابت ہوئے اور یہ ہنی مون کوئی چار برس سے زائد نہ چل سکا اور 2002 میں ختم ہوگیا۔
تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد انھوں نے آیندہ لائحہ عمل کے لیے دوستوں سے صلاح مشورے شروع کیے ہی تھے کہ انھیں پہلے سے لاحق سانس کا عارضہ شدت اختیار کرگیا۔ بیماری کے اس شدید حملہ سے وہ وقتی طور پر تو بچ گئے، لیکن ان کی صحت بری طرح متاثر ہوگئی۔ ان کی بینائی 1974 میں اساتذہ کی تحریک کے دوران سر پر لاٹھی لگنے سے پہلے ہی متاثر ہوچکی تھی۔ اس طرح خواہش کے باوجود وہ سیاسی عمل میں متحرک کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سوائے چند ایک سیمیناروں میں شرکت کے وہ کسی بڑی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے۔
اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ معراج محمد خان پاکستان کی سیاست کی ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے، جنھوں نے حقوق انسانی اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی اور آخری سانس تک اس آدرش پر قائم رہے، جو ان کی زندگی کا کل اثاثہ تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں ان کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرا۔ یہ طے ہے کہ پاکستان میں جب بھی آمریتوں کے خلاف ہونے والی جدوجہد کی تاریخ رقم ہوگی تو اس میں معراج محمد خان کا نام سرفہرست ہوگا۔ حق مغفرت کرے ایک عجب قلندر صفت انسان تھا، جس نے اپنے لوگوں کی خوشحالی کی خاطر اپنی زندگی میں خوشیاں کم دیکھیں، صعوبتیں زیادہ برداشت کیں۔
معراج محمد خان مرحوم 1960 سے 80 تک تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر معاشرے میں ظلم و ستم اور ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کی علامت بنے قطب تارے کی طرح چمکتے رہے۔ جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عوامی حقوق کی جدوجہد میں صعوبتیں برداشت کرتے گزرا، وہیں آخری عمر بیماریوں سے جوجھتے گزری۔ ان کی پوری زندگی دیانتداری، اصول پسندی اور نظریاتی راسخیت سے عبارت رہی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) سے انھوں نے جس فکری اور نظریاتی سفر کا آغاز کیا، وہ آخری سانس تک جاری رہا۔ وہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جو سیاست کو عبادت تصور کرتی تھی اور عوام کے حقوق کا حصول جس کا اولین مقصد حیات ہوا کرتا تھا۔
معراج محمد خان مرحوم نے طلبا سیاست میں اس وقت قدم رکھا، جب ملک پر پہلا مارشل لا نافذ ہوچکا تھا۔ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی اور آزادی اظہار پر قدغن لگے ہوئے تھے۔ ان کے برادر بزرگ منہاج برنا آزادیٔ صحافت کے لیے میدان عمل میں سرگرم تھے۔ 1926 میں بانی پاکستان محمد علی جناح نے صنعتی تعلقات کے جو قوانین ترتیب دیے تھے اور جنھیں برطانوی حکومت نے من وعن قبول کرتے ہوئے نافذ کیا تھا، ایوب خان نے بیک جنبش قلم ان قوانین کو منسوخ کرکے محنت کشوں کے استحصال کا ایک نیا دروازہ کھول دیا تھا۔ جب کہ پورا ملک سیاسی اور سماجی حبس کے مہیب آسیب کے زیر اثر جاچکا تھا۔
معراج محمد خان 1962 میں جوہر حسین مرحوم کے NSF کی صدارت چھوڑنے پر اس کے صدر منتخب ہوئے اور انتھک محنت کرکے اسے ملک کی ایک انتہائی متحرک اور فعال طلبا تنظیم بنادیا۔ یہ معراج محمد خان کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ NSF کراچی سے نکل کر ملک کے کونے کونے تک پھیل گئی اور ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں یونٹ قائم ہوگئے۔ انھوں نے اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے طلبا حقوق کے علاوہ جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کی جدوجہد کو مہمیز لگائی اور کھل کر آمریت کو چیلنج کیا۔ 1964 میں جب روس اور چین کے درمیان تنازعات پیدا ہوئے تو برصغیر کی کمیونسٹ پارٹیاں بھی تقسیم ہوگئیں۔ نتیجتاً NSF بھی دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ امیر حیدر کاظمی کی قیادت میں روس نواز دھڑے کے الگ ہوجانے سے NSF کے چین نواز دھڑے کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جس کی بنیادی وجہ معراج محمد خان کی فعال اور متحرک قیادت تھی۔
معراج محمد خان کی شخصیت اور سیاسی افکار کو سمجھنے کے لیے NSF کو سمجھنا ضروری ہے، کیونکہ ان کی شخصیت سازی میں اس تنظیم کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس سے قبل بھی تحریر کیا ہے، اب پھر عرض ہے کہ 1954 میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) پر پابندی کے بعد ترقی پسند طلبا نے سرکاری سرپرستی میں قائم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) میں شمولیت اختیار کرکے اسے ایک ترقی پسند طلبا تنظیم بنادیا۔ 1962، 1964 اور 1968 میں NSF نے طلبا حقوق اور ایوبی آمریت کے خلاف کامیاب تحاریک چلائیں۔ 1964 کی طلبا تحریک کا نتیجہ تھا کہ کراچی سے ایوب خان کو شکست کا سامناکرنا پڑا، جب کہ 1968 کی تحریک ان کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔
ایک حقیقت پسندانہ طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ ملکی تاریخ کی اہم سیاسی وسماجی شخصیات کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے کردار اور شخصیت کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں پر بھی گفتگو کی جائے۔ تاکہ عام آدمی انھیں دیو مالائی شخصیت سمجھنے کے بجائے، ایک ایسا رہنما سمجھیں، جس سے غلطیاں بھی سرزد ہوسکتی ہیں۔ معراج محمد خان مرحوم نے 1967 میں NSF کی صدارت ڈاکٹر رشید حسن خان مرحوم کو منتقل کرکے عملی سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ اس دوران جہاں ایک طرف اپنی نظریاتی کمٹمنٹ، اصول پرستی اور دیانت داری کی وجہ سے بلاشک و مبالغہ انتہائی محترم شخصیت قرار پائے، وہیں ان سے بعض ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں جنھوں نے نہ صرف ان کی سیاسی زندگی کو خاصی حد تک متاثر کیا، بلکہ ان کے مخلص نظریاتی ساتھیوں کے لیے بعض مشکلات بھی پیدا ہوئیں۔
پیپلز پارٹی کے قیام میں ان کا کردار ایک درست فیصلہ تھا، کیونکہ اس وقت ایک ایسی آزاد خیال، مڈل کلاس سے سیاسی جماعت کی اشد ضرورت تھی، جو عوامی مسائل کے واضح ادراک کے ساتھ ان کے حل کی سوجھ بوجھ رکھتی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ 1967 میں اپنے قیام کے وقت سے 1970 کے عام انتخابات تک پیپلز پارٹی اپنے کردار اور سیاسی اپروچ میں اربن مڈل کلاس کی نمایندہ جماعت تھی، جسے دیہی مسائل کا بھی واضح ادراک تھا۔ مگر دسمبر 1971 میں اقتدار میں آنے کے بعد اس کا ترقی پسندانہ کردار گہناتا چلا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھیوں سمیت 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے بجائے ''پرچی نہیں برچھی'' کا نعرہ لگا کر ٹکٹ واپس کردیے۔ جس کی وجہ سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے 17 اہم رہنما قومی اسمبلی میں نہیں پہنچ پائے۔ نتیجتاً فیوڈل سیاستدان اس پر حاوی آگئے۔ اس غلطی کا خود مرحوم معراج محمد خان کو بھی اندازہ تھا۔
کراچی میں وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو کی جانب سے محنت کشوں پر فائرنگ پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی خاموشی پر وہ احتجاجاً وزارت اور پارٹی سے علیحدہ ہوگئے۔ یہ ایک درست، بروقت اور قابل تحسین فیصلہ تھا۔ 1974 میں جب انھوں نے قومی محاذ آزادی قائم کی، تو انھیں ملک بھر کے ترقی پسند دوستوں کی حمایت حاصل ہوئی۔ محدود وسائل کے باوجود اس جماعت کے پورے ملک میں یونٹ قائم ہوئے۔ تحریک بحالی جمہوریت (MRD) میں ان کا کردار انتہائی فعال تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ اس اتحاد میں کئی بڑی ملک گیر جماعتیں شریک تھیں، مگر سب سے زیادہ کارکن اس چھوٹی جماعت کے گرفتار ہوئے۔ جب کہ 1998 میں قومی محاذ آزادی کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ جس کی راقم سمیت ان کے سبھی مخلص دوستوں نے مخالفت کی۔ مگر چونکہ وہ اور ان کی جماعت فیصلہ کرچکے تھے، اس لیے انھوں نے دوستوں کے مشوروں کو نظر انداز کردیا۔ جلد ہی دوستوں کے خدشات درست ثابت ہوئے اور یہ ہنی مون کوئی چار برس سے زائد نہ چل سکا اور 2002 میں ختم ہوگیا۔
تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد انھوں نے آیندہ لائحہ عمل کے لیے دوستوں سے صلاح مشورے شروع کیے ہی تھے کہ انھیں پہلے سے لاحق سانس کا عارضہ شدت اختیار کرگیا۔ بیماری کے اس شدید حملہ سے وہ وقتی طور پر تو بچ گئے، لیکن ان کی صحت بری طرح متاثر ہوگئی۔ ان کی بینائی 1974 میں اساتذہ کی تحریک کے دوران سر پر لاٹھی لگنے سے پہلے ہی متاثر ہوچکی تھی۔ اس طرح خواہش کے باوجود وہ سیاسی عمل میں متحرک کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سوائے چند ایک سیمیناروں میں شرکت کے وہ کسی بڑی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے۔
اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ معراج محمد خان پاکستان کی سیاست کی ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے، جنھوں نے حقوق انسانی اور سماجی انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی اور آخری سانس تک اس آدرش پر قائم رہے، جو ان کی زندگی کا کل اثاثہ تھا۔ اسی جرم کی پاداش میں ان کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرا۔ یہ طے ہے کہ پاکستان میں جب بھی آمریتوں کے خلاف ہونے والی جدوجہد کی تاریخ رقم ہوگی تو اس میں معراج محمد خان کا نام سرفہرست ہوگا۔ حق مغفرت کرے ایک عجب قلندر صفت انسان تھا، جس نے اپنے لوگوں کی خوشحالی کی خاطر اپنی زندگی میں خوشیاں کم دیکھیں، صعوبتیں زیادہ برداشت کیں۔