ناران کہانی آخری قسط

بتایا گیا کہ ایبٹ آباد کے متعلقہ راستوں کی تعمیر سی پیک معاہدے کا حصہ ہے

Amjadislam@gmail.com

ISLAMABAD:
ناران میں ٹریفک کے مسائل کی وجہ سے ہم پروگرام سے ایک دن لیٹ پہنچے تھے سو اس تاخیر کو کور کرنے کے لیے واپسی کے پروگرام میں یہ تبدیلی کرنا پڑی کہ اب ہم ایبٹ آباد میں ایک رات رکے بغیر براہ راست اور مسلسل سفر کرتے ہوئے تقریباً چودہ گھنٹے میں لاہور جائیں گے، بچوں کے ساتھ اتنے لمبے سفر کے متوقع مسائل خاصے پریشان کن تھے یہاں بھی برادرم واحد سراج کام آئے اور انھوں نے مشورہ دیا کہ ہم صبح5 بجے ناران سے نکلیں تو تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹوں میں ایبٹ آباد پہنچ جائیں گے۔

یہاں رک کر ناشتہ اور بریک ایک ساتھ کریں اس طرح برہان انٹر چینج سے موٹروے تک پہنچنے کے درمیان صرف ڈیڑھ گھنٹے کا سفر رہ جائے گا جس میں زیر تعمیر شاہیا پل پر مل سکنے والی متوقع رکاوٹ کے علاوہ کوئی اڑچن نہیں، یوں ہم آیندہ پانچ گھنٹے میں بھیرہ ویسٹ ایریا تک پہنچ جائیں گے جہاں کھانے پینے اور تھکن کم کرنے کے لیے ایک ڈیڑھ گھنٹے کا وقفہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرا کوئی راستہ اور طریقہ نہ ہونے کی وجہ سے اس مشورے کو غنیمت سمجھا گیا، لطف کی بات یہ ہے کہ ناران سے نکلنے' مانسہرہ کراس کرنے اور شاہیا پل سے گزرنے کے متوقع مرحلے تو نسبتاً آسانی سے طے ہو گئے مگر برنچ نما ناشتے کے بعد ایبٹ آباد سے نکلنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا کہ چار پانچ کلومیٹر کا راستہ تقریباً سوا گھنٹہ کھا گیا۔

بتایا گیا کہ ایبٹ آباد کے متعلقہ راستوں کی تعمیر سی پیک معاہدے کا حصہ ہے اور امید واثق ہے کہ 2017ء کے آخر تک اس کے ٹریفک سے متعلقہ مسائل بہت حد تک حل ہوجائیں گے لیکن واپسی کے اس سفر میں ناران کے مقامی اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے چند بہت اہم مسائل بار بار ذہن کے دروازوں پر دستکیں دیتے رہے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ -1مانسہرہ بالاکوٹ اورآگے ناران بلکہ بابو سرٹاپ تک موجود کچھ Bottle necks جہاں ٹریفک تقریباً یک طرفہ ہو جاتی ہے اور دو گاڑیاں ایک ساتھ ان تنگ جگہوں یا خطرناک پلوں سے گزر نہیں سکتیں۔-2بجلی کی سپلائی کا مسئلہ (پی ٹی ڈی سی کو بجلی کی سپلائی گزشتہ اکتوبر سے بند ہے سو وہ لوگ صرف شام چھ بجے سے رات دو بجے تک اور صبح سات بجے سے نو بجے تک جنریٹر کے ذریعے اپنے مکینوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں)

-3موبائل کے سگنلز اور وائی فائی کا ناقص انتظام
-4 بے تحاشامہنگائی' صفائی کے ناقص ترین انتظامات اور گاڑیوں کی پارکنگ

-5 پٹرول اور ڈیزل کی فراہمی کے مسائل

ان کے علاوہ بھی ایک دو اور مسائل میں نے اس آخری کالم کے لیے شارٹ لسٹ کر رکھے تھے مگر فیصل آباد لاہور سے ''چشم تماشا'' کے ایک مستقل قاری محمد زبیر صاحب نے ای میل کے ذریعے ایک اور انتہائی اہم مسئلے کی نشاندہی کی ہے اور وہ ہے اس علاقے میں برسوں سے سرگرم ٹمبر مافیا۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ سرکاری انتظامیہ کی مرضی' مجبوری اور تعاون سے بعض خاندانوں کے کارندوں نے وہاں کے خوب صورت جنگلات اور فضا کے لیے انتہائی سود مند درختوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیے ہیں اور بالخصوص بابو سرٹاپ کے راستے میں واقع تو پورے کے پورے جنگل ان لوگوں نے کاٹ کھائے ہیں۔ میں محمد زبیر صاحب کی اس تجویز کی تائید کرتا ہوں کہ ایک موثر سرکاری حکم نامے کے ذریعے یہاں کے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ بند کرایا جائے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے کہ یہ فطرت کے خلاف کھلی جنگ ہے اور بقول اقبال

فطرت' افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

بقیہ مسائل میں سے کچھ انتہائی مقامی ہیں جن کا سدباب بھی مقامی سطح پر ہی ہونا چاہیے مثال کے طور پر نئی عمارات کی تعمیر' گاڑیوں کی پارکنگ' ٹریفک کا بہاؤ غلاظت اور گندگی' بے تحاشا مہنگائی کی روک تھام ایسے مسائل ہیں جو مستعد' اہل اور فرض شناس انتظامیہ کی معرفت فوری طور پر بہت حد تک حل کیے جا سکتے ہیں بلاشبہ کچھ مخصوص مواقع پر غیرمعمولی رش اور وہاں کی معیشت کا پورے سال کے چار پانچ مہینوں پر انحصار ایسے مسائل ہیں جن کے لیے صوبے کی سطح پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن بقیہ مسائل کے حل کے لیے کسی راکٹ سائنس کی نہیں صرف ایمانداری' فرض شناسی اور قانون کی پاسداری کرانے کی ضرورت ہے اور اتفاق سے یہ تینوں باتیں وہاں کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے منشور کا حصہ بھی ہیں۔

کھلے عام اسمگل شدہ پٹرول اور ڈیزل کی انتہائی مہنگی فراہمی سیاحت کے فروغ اور قانون کی عمل داری دونوں کے لیے ایک خطرناک چیلنج ہے اس کے دفاع میں عام طور پر یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بالاکوٹ سے ناران تک کے راستے میں کوئی شخص پٹرول پمپ اس لیے نہیں لگاتا کہ اسے سارے سال کا خرچہ چار مہینوں میں نکالنا پڑتا ہے اور یہ بات اسے وارا نہیں کھاتی۔ میری معلومات کے مطابق ایسی صورت حال میں مہذب اور ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے خصوصی قوانین بناتے اور رعایتوں کا اعلان کرتے ہیں تاکہ شہریوں کو تکلیف نہ ہو۔ اس سفر کے دوران بہت سے ایسے سیاحوں سے ملاقات ہوئی جن کا پٹرول یا ڈیزل طول طویل ٹریفک بلاکس کی وجہ سے ختم ہو گیا اور وہ بچوں سمیت پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ ٹریفک میں مزید بدنظمی پیدا کرنے کا باعث بھی بنے۔
Load Next Story