ہماری خارجہ پالیسی
ہماری خارجہ پالیسی میں لچک ہے اور نہ مستقل مزاجی۔ ہمارے چار پڑوسی ممالک ہیں
KARACHI:
ہماری خارجہ پالیسی میں لچک ہے اور نہ مستقل مزاجی۔ ہمارے چار پڑوسی ممالک ہیں۔ چین، ایران، ہندوستان اورافغانستان میں سے صرف چین سے ہمارے بہتر تعلقات ہیں۔ چین نے پاکستان سے حال ہی میں بیالیس ارب ڈالر کے راہداری کا معاہدہ کیا ہے جب کہ چین کے ہندوستان سے اچھے تعلقات نہ ہونے کے باوجود 2015ء میں پچھترارب ڈالر کی تجارت کی ہے اور اگلے سال سو ارب ڈالرکا ہدف ہے۔ پاکستان کے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باوجود پاکستان کا تجارتی حجم ایران، افغانستان اور ترکی سے ایک ارب ڈالر ہے۔ ترکی کا روس سے خراب تعلقات ہونے کے باوجود ترکی روس سے سالانہ چالیس لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدتا ہے اور روس سے مسلسل گیس بھی حاصل کرتا ہے۔ افغانستان کے ہندوستان سے اچھے تعلقات ہونے کے باوجود چین کی کمپنی کو افغانستان نے دنیا کے چار بڑی تانبے کی کانوں میں ایک کا ٹھیکہ دے رکھا ہے۔
چین کے پاکستان سے بہترین تعلقات کے باوجود اس نے ایران کی تین آئل ریفائنری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ چینی کمپنی نیوکلیئر پاور کارپوریشن ملائشیا، مصر، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور بنگلہ دیش میں شفاف انرجی کے 13 منصوبوں پرکام شروع کر رہی ہے، جب کہ ہم نے صرف عرب ممالک، امریکا، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ تک محدود کر رکھا ہے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے رفاقت کے خاتمے سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے۔ برطانیہ کے فیصلے کی وجہ روسی خطرے کا خاتمہ اور امیگریشن کے نرم قوانین ہیں، جس سے مقامی آبادی میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اس سے یورو اور پاؤنڈ کی قدر کم ہوئی ہے جب کہ جی ایس پی پلس کی محصولاتی سہولت متاثر ہونے سے پاکستان کی برآمدات پر منفی اثر پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔
پاکستان کی 29 فیصد برآمدات یورپ کو جارہی ہیں جس میں برطانیہ کا حصہ سات فیصد یعنی1.6 ارب ڈالر ہے، یورپ میں تیس لاکھ جب کہ برطانیہ میں بارہ لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جن میں سے کچھ واپس آنے کو ترجیح دیں گے، جس سے ترسیلات متاثر ہوں گی جب کہ بیروزگاری کا مسئلہ بھی بنے گا۔ اس لیے پاکستان کو زیادہ خود انحصاری کی جانب جانا ہو گا۔ ادھر پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے پر پاکستان کو روزانہ 30 کروڑ روپے جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ حکومت کو ایران کی طرف سے ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے ایران سے گیس کی پرائس پر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے ہوں گے۔ ایران، ترکی کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں چلا گیا ہے اور اس وقت اس کے ترکی کے خلاف تین مقدمات چل رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے گیس کی قیمت پر دوبارہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔
پاکستان کو موجودہ حالات کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن پر فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کا سنگ بنیاد 2013ء میں رکھا گیا تھا، معاہدے کے تحت دسمبر 2014ء تک اس منصوبے کی تکمیل کی ڈیڈ لائن مقررکی گئی تھی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے پر پاکستان کو روزانہ 30 کروڑ روپے جرمانہ عائد ہو سکتا ہے، کیونکہ ایران نے اپنی حدود میں 900 کلومیٹر پائپ لائن بچھا دی ہے جب کہ پاکستان نے اپنی حدود میں 785 کلومیٹر طویل پائپ لائن نہیں بچھائی ہے۔ پاک ایران پائپ لائن کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے امریکی پابندیاں، بلوچستان میں سیکیورٹی کے حالات اور پاکستان کے عرب ممالک سے قریبی تعلقات ہیں، جب کہ بھارت سے ایران کے تیل کے معاہدات پر نہ صرف عمل درآمد ہورہا ہے بلکہ ایران سے تیل پہلے کے مقابلے میں زیادہ سپلائی ہورہا ہے۔ بھارت کی ایران سے تیل کی درآمد میں رواں سال قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال جون کے مہینے میں بھارت کی ایران سے تیل کی درآمد میں گزشتہ سال جون کے مہینے کی نسبت 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھارت نے 2015ء کے پہلے 6 مہینوں میں یومیہ2 لاکھ 16 ہزار بیرل تیل درآمد کیا تھا جب کہ 2016ء کے پہلے 6 مہینوں میں یہ مقدار بڑھ کر 3 لاکھ 42 ہزار بیرل یومیہ ہوگئی ہے، اس میں 58 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی سرکاری تیل کمپنی ہندوستان پٹرولیم نے 2012ء میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں لگنے کے بعد ایران سے تیل کی درآمد بند کر دی تھی، اس کمپنی نے ساڑھے تین سال بعد ایران سے تیل کی درآمد دوبارہ شروع کر دی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ بھارت کے لیے ایران کے تیل کی درآمد 4 لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ جائے گی۔ ادھر پتہ یہ چلا ہے کہ ایران دنیا میں زعفران پیدا کرنے والا ملک نمبر ایک بن گیا ہے۔ دنیا کا 92 فیصد زعفران ایران میں پیدا ہوتا ہے۔ ایران کی قومی زعفران کونسل کے ڈپٹی چیئرمین غلام رضا میری نے بتایا کہ ایران دنیا میں زعفران پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک زعفران کی پیداوار میں ایران کی برابری نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں بھی ایسی پیداوار ہیں کہ جس کا مقابلہ دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر جراحی کے سامان، کھیلوں کا سامان، کرنسی نوٹ چھاپنے کا پریس، پھل، چاول اور مچھلی وغیرہ۔ لیکن ان کی نگہداشت، ترقی میں حکومتی عدم معاونت اور برآمدات میں کاوشوں کی کمی نے ان کی پیداوار میں خاصی کمی کر دی ہے۔ ہاں مگر ہم اسلحے کی پیداوار اور اس کی تجارت میں آگے نکل گئے ہیں۔
اس لیے کہ ہم خود انحصاری سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی پاکستان تھا جو بلاشرکت غیرے دنیا میں جراحی کے سامان کی برآمدات میں پہلے نمبر پر تھا، اسی طرح کھیلوں کے سامان کی برآمدات میں اول نمبر پر تھا۔ پاکستان سے سعودی عرب، اردن، عراق اور دیگر کئی عرب ممالک کرنسی نوٹس چھپواتے تھے، مگر جب ہم نے اپنی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ شروع کیا تو انھوں نے ہم سے چھپوانا اور درآمد کرنا بند کر دیا۔ اب بھی پاکستان چاہے تو چمڑا، ڈیری کی پیداوار، لائیواسٹاک، چاول، مچھلی، پھل اور سبزیاں دنیا میں سب سے بہتر اور زیادہ برآمد کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم بم بنانا چھوڑ کر عوامی ضروریات پر توجہ دیں۔ چونکہ پا کستان ایک خودمختار اور خودانحصار ملک کے طور پر کم اور عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار زیادہ کرتا ہے، اس لیے غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر گامزن نہیں ہو پاتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان ان عالمی مالیاتی اداروں سے علٰحیدگی اختیار کرے، تب جا کر ہم حقیقی خودمختاری اور آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی میں لچک ہے اور نہ مستقل مزاجی۔ ہمارے چار پڑوسی ممالک ہیں۔ چین، ایران، ہندوستان اورافغانستان میں سے صرف چین سے ہمارے بہتر تعلقات ہیں۔ چین نے پاکستان سے حال ہی میں بیالیس ارب ڈالر کے راہداری کا معاہدہ کیا ہے جب کہ چین کے ہندوستان سے اچھے تعلقات نہ ہونے کے باوجود 2015ء میں پچھترارب ڈالر کی تجارت کی ہے اور اگلے سال سو ارب ڈالرکا ہدف ہے۔ پاکستان کے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے باوجود پاکستان کا تجارتی حجم ایران، افغانستان اور ترکی سے ایک ارب ڈالر ہے۔ ترکی کا روس سے خراب تعلقات ہونے کے باوجود ترکی روس سے سالانہ چالیس لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدتا ہے اور روس سے مسلسل گیس بھی حاصل کرتا ہے۔ افغانستان کے ہندوستان سے اچھے تعلقات ہونے کے باوجود چین کی کمپنی کو افغانستان نے دنیا کے چار بڑی تانبے کی کانوں میں ایک کا ٹھیکہ دے رکھا ہے۔
چین کے پاکستان سے بہترین تعلقات کے باوجود اس نے ایران کی تین آئل ریفائنری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ چینی کمپنی نیوکلیئر پاور کارپوریشن ملائشیا، مصر، پاکستان، متحدہ عرب امارات اور بنگلہ دیش میں شفاف انرجی کے 13 منصوبوں پرکام شروع کر رہی ہے، جب کہ ہم نے صرف عرب ممالک، امریکا، برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ تک محدود کر رکھا ہے۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے رفاقت کے خاتمے سے نئے مسائل نے جنم لیا ہے۔ برطانیہ کے فیصلے کی وجہ روسی خطرے کا خاتمہ اور امیگریشن کے نرم قوانین ہیں، جس سے مقامی آبادی میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ اس سے یورو اور پاؤنڈ کی قدر کم ہوئی ہے جب کہ جی ایس پی پلس کی محصولاتی سہولت متاثر ہونے سے پاکستان کی برآمدات پر منفی اثر پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔
پاکستان کی 29 فیصد برآمدات یورپ کو جارہی ہیں جس میں برطانیہ کا حصہ سات فیصد یعنی1.6 ارب ڈالر ہے، یورپ میں تیس لاکھ جب کہ برطانیہ میں بارہ لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جن میں سے کچھ واپس آنے کو ترجیح دیں گے، جس سے ترسیلات متاثر ہوں گی جب کہ بیروزگاری کا مسئلہ بھی بنے گا۔ اس لیے پاکستان کو زیادہ خود انحصاری کی جانب جانا ہو گا۔ ادھر پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے پر پاکستان کو روزانہ 30 کروڑ روپے جرمانہ عائد ہو سکتا ہے۔ حکومت کو ایران کی طرف سے ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے ایران سے گیس کی پرائس پر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے ہوں گے۔ ایران، ترکی کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں چلا گیا ہے اور اس وقت اس کے ترکی کے خلاف تین مقدمات چل رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے گیس کی قیمت پر دوبارہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔
پاکستان کو موجودہ حالات کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن پر فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کا سنگ بنیاد 2013ء میں رکھا گیا تھا، معاہدے کے تحت دسمبر 2014ء تک اس منصوبے کی تکمیل کی ڈیڈ لائن مقررکی گئی تھی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے پر پاکستان کو روزانہ 30 کروڑ روپے جرمانہ عائد ہو سکتا ہے، کیونکہ ایران نے اپنی حدود میں 900 کلومیٹر پائپ لائن بچھا دی ہے جب کہ پاکستان نے اپنی حدود میں 785 کلومیٹر طویل پائپ لائن نہیں بچھائی ہے۔ پاک ایران پائپ لائن کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے امریکی پابندیاں، بلوچستان میں سیکیورٹی کے حالات اور پاکستان کے عرب ممالک سے قریبی تعلقات ہیں، جب کہ بھارت سے ایران کے تیل کے معاہدات پر نہ صرف عمل درآمد ہورہا ہے بلکہ ایران سے تیل پہلے کے مقابلے میں زیادہ سپلائی ہورہا ہے۔ بھارت کی ایران سے تیل کی درآمد میں رواں سال قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال جون کے مہینے میں بھارت کی ایران سے تیل کی درآمد میں گزشتہ سال جون کے مہینے کی نسبت 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بھارت نے 2015ء کے پہلے 6 مہینوں میں یومیہ2 لاکھ 16 ہزار بیرل تیل درآمد کیا تھا جب کہ 2016ء کے پہلے 6 مہینوں میں یہ مقدار بڑھ کر 3 لاکھ 42 ہزار بیرل یومیہ ہوگئی ہے، اس میں 58 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی سرکاری تیل کمپنی ہندوستان پٹرولیم نے 2012ء میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیاں لگنے کے بعد ایران سے تیل کی درآمد بند کر دی تھی، اس کمپنی نے ساڑھے تین سال بعد ایران سے تیل کی درآمد دوبارہ شروع کر دی ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ بھارت کے لیے ایران کے تیل کی درآمد 4 لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ جائے گی۔ ادھر پتہ یہ چلا ہے کہ ایران دنیا میں زعفران پیدا کرنے والا ملک نمبر ایک بن گیا ہے۔ دنیا کا 92 فیصد زعفران ایران میں پیدا ہوتا ہے۔ ایران کی قومی زعفران کونسل کے ڈپٹی چیئرمین غلام رضا میری نے بتایا کہ ایران دنیا میں زعفران پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور دنیا کا کوئی بھی ملک زعفران کی پیداوار میں ایران کی برابری نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں بھی ایسی پیداوار ہیں کہ جس کا مقابلہ دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر جراحی کے سامان، کھیلوں کا سامان، کرنسی نوٹ چھاپنے کا پریس، پھل، چاول اور مچھلی وغیرہ۔ لیکن ان کی نگہداشت، ترقی میں حکومتی عدم معاونت اور برآمدات میں کاوشوں کی کمی نے ان کی پیداوار میں خاصی کمی کر دی ہے۔ ہاں مگر ہم اسلحے کی پیداوار اور اس کی تجارت میں آگے نکل گئے ہیں۔
اس لیے کہ ہم خود انحصاری سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی پاکستان تھا جو بلاشرکت غیرے دنیا میں جراحی کے سامان کی برآمدات میں پہلے نمبر پر تھا، اسی طرح کھیلوں کے سامان کی برآمدات میں اول نمبر پر تھا۔ پاکستان سے سعودی عرب، اردن، عراق اور دیگر کئی عرب ممالک کرنسی نوٹس چھپواتے تھے، مگر جب ہم نے اپنی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ شروع کیا تو انھوں نے ہم سے چھپوانا اور درآمد کرنا بند کر دیا۔ اب بھی پاکستان چاہے تو چمڑا، ڈیری کی پیداوار، لائیواسٹاک، چاول، مچھلی، پھل اور سبزیاں دنیا میں سب سے بہتر اور زیادہ برآمد کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم بم بنانا چھوڑ کر عوامی ضروریات پر توجہ دیں۔ چونکہ پا کستان ایک خودمختار اور خودانحصار ملک کے طور پر کم اور عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر انحصار زیادہ کرتا ہے، اس لیے غیر جانبدار خارجہ پالیسی پر گامزن نہیں ہو پاتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان ان عالمی مالیاتی اداروں سے علٰحیدگی اختیار کرے، تب جا کر ہم حقیقی خودمختاری اور آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔