سیکولرازم کا دشمن بھارت

سیکولرازم کو بھارتی آئین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari July 28, 2016
[email protected]

سیکولرازم کو بھارتی آئین کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ بی جے پی جیسی مذہبی انتہاپسند جماعت کی بھی یہ مجبوری ہے کہ وہ بھارت کے سیکولر نظریے کی مخالفت نہیں کرسکتی، یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی کی قیادت ہندوتوا کے لیے سرگرم بھی رہتی ہے۔ بھارت کے مفکر، دانشور، اہل علم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بھارت کو متحد رکھنے والی طاقت سیکولرزم ہی ہے۔

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جمہوریت کے استحکام میں بھی سیکولرزم کا بڑا دخل ہے۔ بھارت میں رہنے والی مسلم مذہبی جماعتیں بھی یہ سمجھتی ہیں کہ بھارت میں ان کے تحفظ اور بقا کے لیے سیکولرزم ضروری ہے، بلکہ بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل سیکولرزم ہی سے وابستہ ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ نہرو سے لے کر مودی تک کشمیر کے حوالے سے جو پالیسی اپنائے ہوئے ہیں وہ سیکولرزم کو کمزور کرنے کا باعث بن گئی ہے۔ بھارتی حکمران طبقے کی یہ منطق بے معنی اور بے سروپا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اگر کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا گیا تو بھارت میں سیکولرزم کو خطرہ لاحق ہوجائے گا؟ اور مذہبی انتہاپسندی کو فروغ حاصل ہوگا۔

یہ فلسفہ اس لیے سیاسی مفادات کا فلسفہ نظر آتا ہے کہ برصغیر میں مسلم مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ آج جنوبی ایشیا میں مذہبی انتہاپسندی کے فروغ اور استحکام کی واحد وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اگرچہ بھارت کی تمام حکومتیں مسئلہ کشمیر پر یکساں پالیسی کی حامل رہی ہیں لیکن اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمے داری بھارت کی ابتدائی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ اگر پنڈت نہرو ہندو قوم پرستی کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ مسئلہ آزادی کے ابتدائی دور ہی میں بڑی آسانی سے حل ہوچکا ہوتا۔ لیکن نہرو کے دیوالیہ سیاسی بھارت نے برصغیر کو جنگوں، نفرتوں کے جہنم میں اس طرح دھکیل دیا ہے کہ اب اس سے نکلنا آسان نہیں رہا۔

بلاشبہ کشمیر میں باہر سے مداخلت ہوتی رہی ہے لیکن اگر ہم مداخلت کاروں کو ان کے درست تناظر میں دیکھیں تو پھر ذہن میں یہ سوال ابھرنا غیر منطقی نہیں ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی 7 لاکھ فوج کیا مداخلت کار نہیں ہے۔ کشمیر کے عوام بھارتی فوج کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں کیوں کہ مقبوضہ کشمیر میں مارے جانے والے 70 ہزار کشمیریوں کی موت کی ذمے داری بھارتی فوج پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جمہوریت کا مطلب اکثریت کی رائے کا احترام ہے۔ کشمیری عوام کی بھاری اکثریت مسئلہ کشمیر کو اپنی مرضی کے مطابق حل کرنا چاہتی ہے لیکن 68 سال سے بھارت کا حکمران طبقہ کشمیریوں کی خواہش کو طاقت کے ذریعے کچلتا آرہا ہے۔ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی یہ پالیسی جمہوریت کے مطابق ہے؟

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں اگرچہ 68 سال سے کشمیری عوام رائے شماری کے اپنے حق کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، لیکن پچھلے کچھ دنوں سے یہ جدوجہد جس طرح کھلی بغاوت میں بدل گئی ہے اسے طاقت کے ذریعے کچلنے کی روایتی پالیسی سخت نقصان رساں ہوسکتی ہے۔ ایک کشمیری نوجوان کے بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل کے بعد اس نوجوان کے جنازے میں اطلاعات کے مطابق 3 لاکھ کشمیری شریک تھے اور اس ہجوم کے ہاتھوں میں پاکستان کے جھنڈے تھے اور نوجوان شہید کی میت کو پاکستانی پرچم میں لپیٹا گیا تھا۔ کیا بھارتی حکمران اس ردعمل کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے تیار ہے یا وہی کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے کی رٹ لگاتے رہیں گے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ اب آزادی کی یہ جنگ جنگل کی آگ کی طرح پوری وادی میں پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلاؤ کو روکنا اب بھارتی فوج کے لیے ممکن نہیں۔

اس کالم کو پڑھنے کے بعد اس قسم کا تاثر ابھر سکتا ہے کہ یہ کالم کسی مذہب پرست نے لکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کالم ایک ایسا شخص لکھ رہا ہے جو صرف اس خطے کے مسائل کا حل سیکولرزم میں ہی دیکھتا ہے، بلکہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جب تک دنیا مذہب انسانیت کو نہیں اپنائے گی نہ دنیا میں امن آسکتا ہے نہ خوشحالی۔ کیوں کہ بے شمار قسموں کی تقسیم نے انسانوں کو انسان سے حیوان بنادیا ہے اور جب تک انسان مختلف حوالوں سے تقسیم رہے گا وہ ایک دوسرے کا دشمن بنا رہے گا۔

آج دنیا مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جس آگ میں جل رہی ہے، یہ آگ بنیادی طور پر کشمیر اور فلسطین کی ہی لگائی ہوئی ہے اور اس تقسیم کی پشت پناہی سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست کررہے ہیں جو دنیا کے 7ارب سے زیادہ انسانوں کو طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے، کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا کریاکرم صرف عوام کے طبقاتی بنیادوں پر متحد ہونے ہی سے ممکن ہے۔

اگر دنیا کی بڑی طاقتیں خلوص نیت سے کوشش کریں تو مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین آسانی سے حل ہوسکتے ہیں، لیکن سامراجی طاقتیں اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ اگر یہ دو مسئلے عوام کی مرضی کے مطابق حل ہوجائیں تو عالمی سطح پر عوام کے اتحاد کا راستہ کھل جائے گا اور اس قسم کا اتحاد سرمایہ دارانہ نظام اور ہتھیاروں کی صنعت کے لیے موت کا پیغام بن سکتا ہے اور عالمی استحصالی طبقاتی اور ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان اپنے کھربوں ڈالر کے سرمائے کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ اس حوالے سے بھارت کے امریکا کے ساتھ فوجی معاہدے اور مختلف شعبوں میں بھارت امریکی اتحاد اسی عالمی سازش کی ایک کڑی ہے جس کا واحد مقصد سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔