وقت کا تقاضا
ہمارے وطن کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تو ہے لیکن یہاں اداروں میں اسلامی جھلک تک نظر نہیں آتی
اس با ت میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن عزیز میں ہر شعبہ ہائے زند گی میں حکو متی ادارے غیر یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں اور عوام الناس حکومت کے طرز سے انتہائی بیزار۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔ ہر ادارہ مفلوج نظر آتا ہے، جس کو اداروں کی صلاحیت کا اندازہ کرنا ہو تو وہ گھر سے باہر نکلے اور دیکھے اس کی دہلیز سے لے کر گلی کوچوں میں اور تمام شہر کے شاہراؤں پر ہر طرف کوڑا کرکٹ کے ڈھیر، جابجا ٹوٹی ہوئی مخدوش شاہراہیں، کھلے مین ہول، فٹ پاتھ پر تجاوزات، بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ، پانی کی عدم دستیابی اور سپلائی لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ اور وہاں سے پانی کا دریا کی طرح بہنا۔ کیا کیا نقشہ آپ کے سامنے پیش کروں، بازاروں یا تفریح کے پارکس، اسکول ہوں یا دفتر، تھانے ہوں یا عدالتی عمارتیں، سب جگہ کسی قسم کی نہ صفائی ہے، نہ لوگوں کے اٹھنے بیٹھنے کا مناسب انتظام۔ یہ حال پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا ہے۔ایسا ہی حال دوسرے صوبائی دارالحکومتوں کا ہے۔
ہمارے وطن کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تو ہے لیکن یہاں اداروں میں اسلامی جھلک تک نظر نہیں آتی، نہ ہی جمہوری روایات۔ جب کہ یہی وطن ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے تک مملکت اسلامیہ کا ایک رہنما ملک تھا۔ کرپشن اس وقت بھی تھی، لیکن ایسی نہیں جیسی آج ہے۔ رشوت خوری نچلے درجہ تک محدود تھی۔ لیکن آج اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کر پشن ہے، سب مل کر ملک لوٹ رہے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے جس میں کم سے کم درمیانے طبقہ کو کچھ ریلیف ملتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری ختم کرنے کا نہ کوئی منصوبہ آیا، نہ ہی عمر رسیدہ ریٹائرڈ بزرگوں کے لیے بہبود فنڈ میںکوئی اضافہ، بلکہ ماہانہ منافع مزید کم کر دیا۔ جب کہ پارلیمنٹ سے وابستہ تمام لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں شاہانہ اضافہ کر دیا۔
اس طرح تو کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے چلایا جانے والا برصغیر کا خطہ بھی نہیں چلایا گیا تھا۔ کم سے کم بنیادی سہولتوں کو اہمیت تھی۔یہ سب آج کل کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ گزشتہ 20 سال کے عرصے میں سیاسی جماعتوں نے مافیائی طرز عمل اپنایا۔ اپنے ورکرز کو سیاسی کارکن کے بجائے علاقوں کے ایس ایچ او کے اختیارات دیے، چندہ کو بھتہ بنا دیا۔ نتیجے میں ہر کاروباری طبقہ ان کا حصہ دار ہو گیا۔ اس شہر کراچی کو دیکھ لیں، جہاں نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ گیس ہے، مگر لینڈ مافیا زمینوں پر فلک بوس پلازہ بنا کر 300% منافع اٹھا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، اور حال یہ ہے جب لینڈ مافیا کو زمین دستیاب نہیں ہوئی تو ندی نالوں کو پلاٹ کروا کر وہاں پلازہ، بنگلے بنا دیے۔
یہ ظلم سب حکومتی اداروں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور لینڈ ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے فلاحی اداروں کی آڑ میں وہ کچھ کیا جس کا تصور ممکن نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سب ہی اس بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ملک کو قرضوں پر چلایا جا رہا ہے، 16 ہزار ارب کا ملک مقروض ہو گیا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے حزب اقتدار، حزب اختلاف کے ممبران میں سے کوئی بولتا نہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں اس اندھی، گونگی، بہری پارلیمنٹ پر جو کھربوں روپے کے اخراجات کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے، جس سے تمام مزدور سے لے کر ایک طالب علم اور بزرگ سے لے کر پیدا ہونیوالے بچے پر بھی مالی بوجھ پڑ رہا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اتنی مہنگی پارلیمنٹ کو برخاست کیا جائے اور نظام حکو مت کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی کیا جائے، اور موجودہ صدر مملکت کے اختیارات میں اضافہ کر کے صرف سینیٹ کے ذریعے حکومت چلائی جائے، اور صوبائی پارلیمنٹ ختم کر کے بلدیاتی حکومت کو شہری حکومت میں تبدیل کیا جائے۔
جیسا کہ 2002ء میں شہری حکومت کا نظام جنرل نقوی نے بنوایا تھا اور صوبوں میں گورنر کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے اور تمام سرکاری اداروں میں بدنام زمانہ افسران کو جبراً رخصت کر کے ان کے ماتحت صاف ستھری شہرت رکھنے والوں کو آگے لایا جائے۔ محکمہ داخلہ کسی ایسے ریٹائرڈ جنرل کی سربراہی میں دیں جو صاف ستھری شہرت بھی رکھتا ہو اور داخلی نظام کو چلانے کی صلاحیت بھی، جیسے ماضی میں جنرل تھے جنھوں نے سندھ میں داخلہ کا محکمہ چلایا اور تمام ریٹائرڈ فوجی اور ریٹائرڈ جج صاحبان اور شہرت یافتہ وکیلوں کو وزارت عدل و انصاف میں منصب دیے جائیں۔ اور مختصر سی کابینہ ہو، جو اپنے شعبے کے ماہرین کے ذریعے چلائی جائے۔ تمام ملازمتیں خواہ سرکاری ہوں یا نیم سرکاری یا پرائیوٹ، ان کی اسامیوں کو Employment Exchange کے ذریعے ہی پر کرنے کا طریقہ رائج ہو۔
ان تمام اقدامات کے لیے کسی مارشل لاء کی ضرورت نہیں، بلکہ صدر مملکت داخلی امور میں ملزموں اور مجرموں کو پکڑنے اور انھیں فوری سزائیں سنانے کے لیے دفعہ 45 کے تحت فوج کو اختیارات دیں، جہاں کرپشن، دہشتگردی کے الزامات والوں پر مقدمات چلائے جائیں اور تمام پڑوسی ممالک خاص طور پر افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارتی روابط میں بہتری لائی جائے اور ہندوستان سے بھی تجارتی تعلقات کا نیا باب کھولا جائے، اور کسی حال میں بھی نجکاری نہ کی جائے۔ پی آئی اے ہو یا اسٹیل مل، ریلوے ہو، ان اداروں کو منافع بخش بنایا جائے۔
موجودہ وزیر سعد رفیق جو ریلوے کے وزیر ہیں، انھوں نے بڑی محنت سے اس ادارے کو بہتر کیا۔ ایسے وزیر مسلم لیگ میں اور بھی ہیں اور پی پی پی میں بھی اور پی ٹی آئی میں بھی، ایسے لوگوں پر ہی مشتمل مختصر کابینہ بنا کر حکومتی اخراجات کو کم کر کے ساری توجہ انفرا اسٹرکچر، خاص طور پر کراچی اور لاہور پر دیں اور شہر قائد کے لیے صرف 10 سال کے لیے اس صوبے کی آمدنی کا 30% فیصد یہاں کے شہروں اور دیہاتوں کے لیے وقف کر دیں، تا کہ یہ شہر پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشنیوں کا ایسا شہر جہاں کشادہ سڑکیں، بہترین ٹرانسپورٹ، صاف ستھرے تفریح کے مقام اور دوبارہ صنعتی زون کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔
2013ء سے کراچی میں جو امن عامہ کی بہتری نظر آ رہی ہے یہ صرف اس لیے کہ فوج کے ماتحت رینجرز کو 90 دن کی مدت کے لیے کسی بھی ملزم کو پکڑنے کے اختیارات ملنے کی وجہ سے ہے اور جنرل راحیل شریف اس وطن کو ہر حال میں دہشت گردوں اور کرپشن کرنے والوں سے پاک کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 18کروڑ عوام انھیں اپنا نجات دہندہ تصور کر رہے ہیں۔ اس لیے صدر مملکت صرف ایک آرڈیننس کے ذریعے ان کے اختیارات میں اضافہ کر دیں اور پارلیمان کو ختم کر دیں۔ اس میں نہ مارشل لاء کی ضرورت ہے، نہ مافوق الآئین کوئی قدم اٹھانے کی۔ یہ سارے اقدام اس بنیاد پر اٹھائے جائیں کہ فی الحال تمام سیاستدان، سیاسی جماعتیں ایک ناکام نظام حکومت کے ذمے دار ہیں۔
کم از کم 3 سال کے لیے احتساب کا کڑا نظام لایا جائے، جو واقعتاً صرف ان کو مجرم ٹھہرائے جنھوں نے اس ملک کی دولت کو لوٹا ہے اور ان دہشتگردوں کی گردن زنی ہوں جنھوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اصل مجرم وہ نہیں جو آلۂ قتل کے ساتھ پکڑا جائے، اصل مجرم وہ ہے جس نے اسے یہ مذموم حرکت کرنے پر اُکسایا ہے۔ وقت آ گیا ہے جڑیں ختم کی جائیں، مذہبی فرقہ واریت کے لیے مذہبی اور مسلکی جماعتوں کو سیاست سے علیحدہ کیا جائے، ورنہ طالبان جیسی نرسریاں انھی کے زیر سایہ پلتی ہیں۔ جس کو سیاست کرنا ہو وہ مذہب، لسانیت، صوبائیت، علاقائیت اور قبائلیت کا سہارا نہ لے، صرف ایک ملت مسلمہ، ایک مملکت خداداد ان کا مطمع نظر ہونا چاہیے۔
ہمارے وطن کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان تو ہے لیکن یہاں اداروں میں اسلامی جھلک تک نظر نہیں آتی، نہ ہی جمہوری روایات۔ جب کہ یہی وطن ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے تک مملکت اسلامیہ کا ایک رہنما ملک تھا۔ کرپشن اس وقت بھی تھی، لیکن ایسی نہیں جیسی آج ہے۔ رشوت خوری نچلے درجہ تک محدود تھی۔ لیکن آج اوپر سے نیچے تک کرپشن ہی کر پشن ہے، سب مل کر ملک لوٹ رہے ہیں۔ حکومت چلانے کے لیے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے جس میں کم سے کم درمیانے طبقہ کو کچھ ریلیف ملتا۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بے روزگاری ختم کرنے کا نہ کوئی منصوبہ آیا، نہ ہی عمر رسیدہ ریٹائرڈ بزرگوں کے لیے بہبود فنڈ میںکوئی اضافہ، بلکہ ماہانہ منافع مزید کم کر دیا۔ جب کہ پارلیمنٹ سے وابستہ تمام لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں شاہانہ اضافہ کر دیا۔
اس طرح تو کبھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے چلایا جانے والا برصغیر کا خطہ بھی نہیں چلایا گیا تھا۔ کم سے کم بنیادی سہولتوں کو اہمیت تھی۔یہ سب آج کل کیوں ہو رہا ہے؟ اس لیے کہ گزشتہ 20 سال کے عرصے میں سیاسی جماعتوں نے مافیائی طرز عمل اپنایا۔ اپنے ورکرز کو سیاسی کارکن کے بجائے علاقوں کے ایس ایچ او کے اختیارات دیے، چندہ کو بھتہ بنا دیا۔ نتیجے میں ہر کاروباری طبقہ ان کا حصہ دار ہو گیا۔ اس شہر کراچی کو دیکھ لیں، جہاں نہ پانی ہے، نہ بجلی، نہ گیس ہے، مگر لینڈ مافیا زمینوں پر فلک بوس پلازہ بنا کر 300% منافع اٹھا کر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے، اور حال یہ ہے جب لینڈ مافیا کو زمین دستیاب نہیں ہوئی تو ندی نالوں کو پلاٹ کروا کر وہاں پلازہ، بنگلے بنا دیے۔
یہ ظلم سب حکومتی اداروں، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور لینڈ ڈپارٹمنٹ کی ملی بھگت سے ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے فلاحی اداروں کی آڑ میں وہ کچھ کیا جس کا تصور ممکن نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سب ہی اس بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں۔ ملک کو قرضوں پر چلایا جا رہا ہے، 16 ہزار ارب کا ملک مقروض ہو گیا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے حزب اقتدار، حزب اختلاف کے ممبران میں سے کوئی بولتا نہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں اس اندھی، گونگی، بہری پارلیمنٹ پر جو کھربوں روپے کے اخراجات کا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے، جس سے تمام مزدور سے لے کر ایک طالب علم اور بزرگ سے لے کر پیدا ہونیوالے بچے پر بھی مالی بوجھ پڑ رہا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اتنی مہنگی پارلیمنٹ کو برخاست کیا جائے اور نظام حکو مت کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی کیا جائے، اور موجودہ صدر مملکت کے اختیارات میں اضافہ کر کے صرف سینیٹ کے ذریعے حکومت چلائی جائے، اور صوبائی پارلیمنٹ ختم کر کے بلدیاتی حکومت کو شہری حکومت میں تبدیل کیا جائے۔
جیسا کہ 2002ء میں شہری حکومت کا نظام جنرل نقوی نے بنوایا تھا اور صوبوں میں گورنر کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے اور تمام سرکاری اداروں میں بدنام زمانہ افسران کو جبراً رخصت کر کے ان کے ماتحت صاف ستھری شہرت رکھنے والوں کو آگے لایا جائے۔ محکمہ داخلہ کسی ایسے ریٹائرڈ جنرل کی سربراہی میں دیں جو صاف ستھری شہرت بھی رکھتا ہو اور داخلی نظام کو چلانے کی صلاحیت بھی، جیسے ماضی میں جنرل تھے جنھوں نے سندھ میں داخلہ کا محکمہ چلایا اور تمام ریٹائرڈ فوجی اور ریٹائرڈ جج صاحبان اور شہرت یافتہ وکیلوں کو وزارت عدل و انصاف میں منصب دیے جائیں۔ اور مختصر سی کابینہ ہو، جو اپنے شعبے کے ماہرین کے ذریعے چلائی جائے۔ تمام ملازمتیں خواہ سرکاری ہوں یا نیم سرکاری یا پرائیوٹ، ان کی اسامیوں کو Employment Exchange کے ذریعے ہی پر کرنے کا طریقہ رائج ہو۔
ان تمام اقدامات کے لیے کسی مارشل لاء کی ضرورت نہیں، بلکہ صدر مملکت داخلی امور میں ملزموں اور مجرموں کو پکڑنے اور انھیں فوری سزائیں سنانے کے لیے دفعہ 45 کے تحت فوج کو اختیارات دیں، جہاں کرپشن، دہشتگردی کے الزامات والوں پر مقدمات چلائے جائیں اور تمام پڑوسی ممالک خاص طور پر افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارتی روابط میں بہتری لائی جائے اور ہندوستان سے بھی تجارتی تعلقات کا نیا باب کھولا جائے، اور کسی حال میں بھی نجکاری نہ کی جائے۔ پی آئی اے ہو یا اسٹیل مل، ریلوے ہو، ان اداروں کو منافع بخش بنایا جائے۔
موجودہ وزیر سعد رفیق جو ریلوے کے وزیر ہیں، انھوں نے بڑی محنت سے اس ادارے کو بہتر کیا۔ ایسے وزیر مسلم لیگ میں اور بھی ہیں اور پی پی پی میں بھی اور پی ٹی آئی میں بھی، ایسے لوگوں پر ہی مشتمل مختصر کابینہ بنا کر حکومتی اخراجات کو کم کر کے ساری توجہ انفرا اسٹرکچر، خاص طور پر کراچی اور لاہور پر دیں اور شہر قائد کے لیے صرف 10 سال کے لیے اس صوبے کی آمدنی کا 30% فیصد یہاں کے شہروں اور دیہاتوں کے لیے وقف کر دیں، تا کہ یہ شہر پھر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ روشنیوں کا ایسا شہر جہاں کشادہ سڑکیں، بہترین ٹرانسپورٹ، صاف ستھرے تفریح کے مقام اور دوبارہ صنعتی زون کی بحالی کو یقینی بنایا جائے۔
2013ء سے کراچی میں جو امن عامہ کی بہتری نظر آ رہی ہے یہ صرف اس لیے کہ فوج کے ماتحت رینجرز کو 90 دن کی مدت کے لیے کسی بھی ملزم کو پکڑنے کے اختیارات ملنے کی وجہ سے ہے اور جنرل راحیل شریف اس وطن کو ہر حال میں دہشت گردوں اور کرپشن کرنے والوں سے پاک کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ 18کروڑ عوام انھیں اپنا نجات دہندہ تصور کر رہے ہیں۔ اس لیے صدر مملکت صرف ایک آرڈیننس کے ذریعے ان کے اختیارات میں اضافہ کر دیں اور پارلیمان کو ختم کر دیں۔ اس میں نہ مارشل لاء کی ضرورت ہے، نہ مافوق الآئین کوئی قدم اٹھانے کی۔ یہ سارے اقدام اس بنیاد پر اٹھائے جائیں کہ فی الحال تمام سیاستدان، سیاسی جماعتیں ایک ناکام نظام حکومت کے ذمے دار ہیں۔
کم از کم 3 سال کے لیے احتساب کا کڑا نظام لایا جائے، جو واقعتاً صرف ان کو مجرم ٹھہرائے جنھوں نے اس ملک کی دولت کو لوٹا ہے اور ان دہشتگردوں کی گردن زنی ہوں جنھوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اصل مجرم وہ نہیں جو آلۂ قتل کے ساتھ پکڑا جائے، اصل مجرم وہ ہے جس نے اسے یہ مذموم حرکت کرنے پر اُکسایا ہے۔ وقت آ گیا ہے جڑیں ختم کی جائیں، مذہبی فرقہ واریت کے لیے مذہبی اور مسلکی جماعتوں کو سیاست سے علیحدہ کیا جائے، ورنہ طالبان جیسی نرسریاں انھی کے زیر سایہ پلتی ہیں۔ جس کو سیاست کرنا ہو وہ مذہب، لسانیت، صوبائیت، علاقائیت اور قبائلیت کا سہارا نہ لے، صرف ایک ملت مسلمہ، ایک مملکت خداداد ان کا مطمع نظر ہونا چاہیے۔