ہم نمبر ون پر بھی آسکتے ہیں
بھئی بیٹھا ہے تو بیٹھنے دو کہ الوؤں کا تو کام ہی شاخوں پر بیٹھنا ہے اور شاخوں کا کام ہے اپنے اوپر الو بٹھانا
لوگوں کی تو عادت ہے خواہ مخواہ رونے بسورنے کی، ہر کسی بات میں کوئی نہ کوئی منفی پہلو تلاش کر ہی لیتے ہیں
ہر خوشی میں کوئی غم یاد دلا دیتا ہے
دل کا یہ رخ مری نظروں سے نہاں تھا پہلے
لیکن پشاور والوں کا یہ رخ کم از کم ہماری نظر سے کبھی نہاں نہیں رہا ہے اسی لیے تو اتنے اچھے لیڈر جو خدا کے کرم، ہماری حماقتوں اور ان کی چالاکیوں سے ہمیں ملے ہیں ان سے ہمیشہ نالاں رہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ منفی تنقید کرتے رہتے ہیں اور یہ بالکل سچ ہے کیوں کہ پشاور والے منفی تنقید بہت کرتے ہیں لیکن مثبت تنقید کی کبھی توفیق نہیں ہوئی، مثلاً ہمارے موجود سٹ اپ نے پہلے ہی دن کے پہلے ہی گھنٹے کے پہلے ہی منٹ میں ''کرپشن'' کو ختم کر دیا تھا، تھانہ کلچر، پٹواری خانہ کلچر، وزیر خانہ کلچر، چمچہ خانہ کلچر اور وزیروں کے اہل خانہ کلچر کو دوسرے دن کے دوسرے گھنٹے کے دوسرے منٹ میں ختم کر دیا تھا، اس طرح تقریباً سو منٹ میں صوبے کی تمام برائیاں ختم ہو چکی تھیں سوائے وزیروں اور منتخب نمایندوں کے ... لیکن اس پر مجال ہے جو کسی کو ذرا بھی ''مثبت تنقید'' کی توفیق ہوئی ہو اور منفی تنقید کا تو انھوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے مثلاً
ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہو گا
بھئی بیٹھا ہے تو بیٹھنے دو کہ الوؤں کا تو کام ہی شاخوں پر بیٹھنا ہے اور شاخوں کا کام ہے اپنے اوپر الو بٹھانا ... اور پھر انجام گلستاں جو ہو گا سو ہو گا ،کل کی کل دیکھی جائے گی کم از کم آج مثبت تنقید کرو، وزیروں کے بیانات میں ہیرے موتی تلاش کرو، محکموں کے کاموں میں دونوں جہانوں کے فوائد ڈھونڈو اور وزیرو مشیروں اور منتخب نمایندوں کی خوبیاں اجاگر کرو، ان کی ایک یہ خوبی بھی ایک سو قصیدوں کی متقاضی ہے کہ بے چاروں نے خود کو علاوہ اپنے پورے خاندانوں کے مرد و زن کو بھی قوم کی خدمت کے کام پر لگایا ہوا ہے جو نہ دن کو سوتے ہیں اور نہ رات کو جاگتے ہیں بس دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں، مطلب یہ کہ پشاور والے صرف ''منفی تنقیدیے'' ہیں اور مثبت تنقید سے خدا واسطے کا بیر رکھتے ہیں اور اب تو جو خبر ہم آپ کو سنانے والے ہیں اس پر
اب تو آپہنچے ہیں کچھ اور بھی دشوار مقام
تری فرقت میں فقط جی کا زیاں تھا پہلے
یعنی اب تو بین الاقوامی سروے کے مطابق صوبہ خیر پہ خیر کے دارالحکومت یا دارالتقسیم پشاور کو بیس واں نمبر بھی مل گیا، ٹھیک ہے آلودگی ہی میں سہی لیکن نمبر تو نمبر ہوتا ہے۔ وہ ایک لڑکا میٹرک کے امتحان میں فیل ہوا تو بولا ... دیکھو پاس نہ ہوا تو کیا ہوا فیل ہونے والوں میں پہلا نمبر تو میرا ہے، خوشی کا مقام اس میں یہ ہے کہ باقی کے سارے شہر باہر کے ملکوں کے ہیں اور تربور یعنی بھارت کے تو آٹھ شہر ہم سے بھی آگے کے نمبر ہولڈر ہیں، ویسے یہ لفظ آلودگی جو ہے یہ بڑا ہی دھوکے باز بلکہ منافق سا لفظ ہے اور یہ سروے والے بالکل وضاحت نہیں کرتے کہ کس قسم کی آلودگی... کیوں کہ آلودگیاں تو ہزار اقسام کی ہوتی ہیں اگر اس سے مراد پالوشن ہے تو پھر تو خیر ہے لیکن اگر اس میں انسان اور انسان کی مختلف حرکات کو بھی شمار کیا جائے تو پھر تو بات بہت ہی پیچیدہ ہو گئی ہے ۔
آپ نے غور کیا ہے کہ کے پی کے یعنی صوبہ خیر پہ خیر میں اور بھی تو شہر ہیں اور ان میں بھی بہت ''آلودگیاں'' ہیں لیکن نمبر صرف پشاور کو ملتا ہے کیوں؟ کہیں اس آلودگی میں ... اب یہاں ایک مرتبہ پھر وہی پرانی گھسی پٹی کہانی بیچ میں آرہی ہے تو ہم کیا کریں، چلیے آپ کے بھلکڑ پن اور نئے قارئین کے بھروسے پر ایک مرتبہ پھر سہی، کہانی وہی سکندر کے باپ فلپ آف مقدونیہ کی ہے کہ اس نے اپنے لیے ایک بہت ہی شاندار محل بنایا اور پھر اپنے ایک فیورٹ پاگل فلسفی کہ وہ آئے اور اس محل ''پیلا'' کو اپنے قدوم ممنیت لزوم سے شرف یاب کرے۔ دیو جانس ایک عجیب و غریب درویش تھا جو کچھ لوگ کھانے کو دیتے وہ سب کتوں کو کھلا دیتا تھا اس لیے کتے ہمیشہ اس کے اردگرد پڑے رہتے تھے۔
اس لیے اس کا نام کلبی یعنی کتوں والا یعنی سگ پرست پڑ گیا، سکندر کے باپ فلپ کو وہ بہت پسند تھا ایک دن یہ جا کر اس کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور بولا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ میں مقدونیہ کا بادشاہ فلپ ہوں تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ دھوپ کے سامنے سے ہٹ جاؤ یہی بہت ہے، فلپ نے اسے بمشکل اپنے نئے چمچاتے ہوئے محل میں آنے کو راضی کیا، وہ آیا فلپ نے اپنے وزیر خاص کو اس کے استقبال پر مامور کیا ہوا تھا جو اسے لے کر چلا، محل کی بھول بھلیوں میں سے گزرتے ہوئے دیو جانس کو کھانسی اٹھی پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور منہ کا سارا بلغم وزیر استقبال کے منہ پر تھوک دیا، وزیر نے اس وقت کچھ نہیں کہا لیکن بادشاہ سے شکایت کی کہ آپ کے اس معزز مہمان نے یہ حرکت کی ہے۔ بادشاہ نے دیو جانس سے پوچھا کہ تم نے میرے وزیر کے منہ پر تھوک کیوں دیا۔
دیو جانس نے کہا اچھا وہ وزیر کا منہ تھا مجھے تو جب کھانسی اٹھی تو سب سے گندی جگہ جو نظر آئی اس میں تھوک دیا، مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ وزیر محترم کا چہرہ تھا۔ قارئین اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اس کہانی کو اپنے زمانے پر منطبق کرنا چاہتے ہیں، ہم تو صرف اتنا بتانا چاہتے ہیں کہ پرانے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ تھوکا اس مقام پر جاتا ہے جو سب سے گندی ہو، گندا نالہ ہو کوڑے کا ڈھیر ہو یا کوئی برتن یا چہرہ ہو۔ اب یہاں ایک اور کہانی چھاتی نکال رہی ہے چلیے اس سے بھی نپٹ چلتے ہیں، کہتے ہیں کہ کوئی سردار جی غالباً لکھنو کے کسی نواب کا مہمان تھا، ارے ہاں یاد آیا یہ آلودگیوں میں جو نمبر دیے گئے ہیں اور جن میں پشاور کا نمبر بیسواں ہے اس فہرست میں لکھنو کا نمبر اٹھارواں ہے یعنی پشاور سے دو درجے زیادہ یا کم، تو اس نواب صاحب کے مہمان خانے میں سردار جی کو پان کھلایا گیا اب سردار جی کو تھوکنے کی حاجت ہوئی تو وہ جس طرف بھی تھوکنے کو مڑتا نواب کا ملازم ایک چاندی کا صاف و شفاف تھوک دان اس کے آگے کر دیتا، سردار جی تھوکنا ملتوی کر دیتا لیکن ملازم برتن لیے مستعد کھڑا تھا۔
ذرا بھی شک ہوتا تو تھوک دان سامنے کر دیتا، سردار جی تنگ آگیا بولا نواب صاحب اپنے اس ملازم کو سمجھاؤ کہ یہ صاف و شفاف برتن میرے آگے نہ کرے ورنہ میں اسی میں تھوک دوں گا۔ کہیں اس سے بھی آپ یہ نتیجہ نہ نکالیے کہ ہمارے ہاں جو صاف و شفاف اور قیمتی اجلے ''برتن'' پائے جاتے ہیں وہ تھوکنے کے لیے ہی ہوتے ہیں، کیا ہوا اگر اوپر سے صاف و شفاف لگتے ہیں،ہیں تو تھوک دان ہی، بزرگوں نے ویسے کہا ہے کہ گندے نالے کی اینٹ چوبارے میں اگر لگ بھی جائے تو اس کی بدبو نہیں جاتی، بات کچھ گڑ بڑ سی ہو رہی ہے اور پھر پشاور کے منفی تنقیدی تو ویسے بھی بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں اس لیے وضاحتاً عرض ہے کہ دونوں کہانیوں میں خدا نخواستہ اگر روئے سخن کی طرف ہو جائے تو ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں کہ
روئے سخن کسی طرف ہو تو رو سیاہ
سودا نہیں جنوں نہیں وحشت نہیں مجھے
وہ تو پشاور کا آلودگی بیسواں نمبر دیکھ کر زبان کچھ بے ڈھب سی ہو گئی ہے ورنہ جہاں تک اپنے وزیروں کا تعلق ہے تو ان سے اچھا کون ہے بے چارے دن رات بغیر کسی حرص و لالچ کے قوم کی خدمت میں جتے ہوئے ہیں اور ان کے چہرے ماشاء اللہ چندے آفتاب چندے مہتاب ہیں، ہم تو صبح اٹھ کر ناشتہ بھی تب کرتے ہیں جب ان کے چہروں کے دیدار سے مشرف ہو جائیں، جو دیانت، امانت واہ جی واہ ؎ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، وہ تو کچھ اور چہرے ہیں جن کی طرف ہم اشارہ کرنا چاہتے ہیں بلکہ اشارہ ہی کیا صاف صاف بتا دیں کہ ان چہروں میں ہم خود بھی شامل ہیں اور جب سے ہم نے آلودگی میں پشاور کی نمبرنگ سنی ہے تب سے اپنے آپ پر پابندی لگائی ہے کہ شہر کبھی نہیں جائیں گے اس طرح اگر دو چار لوگ اور بھی اپنے چہرے پشاور سے گم کریں تو ہو سکتا ہے کہ ہمارا نمبر بڑھ کر اکیسواں ہو جائے۔
اب یہ ہمیں بالکل بھی پتہ نہیں کہ آلودگی میں کیا کیا شامل ہوتا ہے مثلاً خار دار تاریں اس میں آتی ہیں یا نہیں اگر آتی ہیں تو پشاور شاید نمبر ون پر چلا جائے، بہرحال فی الحال تو اہل پشاور کے لیے یہ مژدہ بھی کافی ہے کہ ان کا نمبر بیسواں ہے یعنی انیس ان سے بھی زیادہ لائق و فائق ہیں لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے جہاں تک ہم جانتے ہیں شہر کے سارے ادارے بڑی تندہی سے مصروف ہیں کسی دن آپ کو یہ مژدہ جان فزا بھی مل جائے گا کہ ہم ترقی کر کے نمبر ون پر آگئے ہیں
یونہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں