سندھ کے نئے وزیراعلی کا انتخاب 4 امیدوار میدان میں آگئے
مرادعلی شاہ اور خرم شیر زمان کے علاوہ جام مہتاب ڈہر اور سکندر میندھرو نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں
سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے مراد علی شاہ، خرم شیرزمان، جام مہتاب ڈہر اور سکندر میندھرو نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق سندھ اسمبلی کے نئے قائد ایوان کے لیے امیدوار شام 4 بجے تک کاغذات نامزدگی وصول اور جمع کرائے جاسکتے تھے۔ جس کے بعد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال شروع کردی گئی ہے اور پھر حتمی امیدواروں کا اعلان کیا جائےگا۔
سندھ کے آئندہ وزیر اعلیٰ کے لئے پیپلز پارٹی کی جانب سے مراد علی شاہ اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خرم شیر زمان کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ خرم شیر زمان کے کاغذات نامزدگی میں ڈاکٹر سیما اور ثمرعلی خان جب کہ مراد علی شاہ کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ قائم علی شاہ اور نثار کھوڑو ہیں، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے جام مہتاب ڈہر اور سکندر میندھرو نے مراد علی شاہ کے کورنگ امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور وہ کسی دوسری جماعت کے تعاون کے بغیر ہی اپنا قائد ایوان منتخب کرسکتی ہے۔ جب کہ تحریک انصاف کے صرف 4 ارکان ہیں تاہم اسے مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق سندھ اسمبلی کے نئے قائد ایوان کے لیے امیدوار شام 4 بجے تک کاغذات نامزدگی وصول اور جمع کرائے جاسکتے تھے۔ جس کے بعد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال شروع کردی گئی ہے اور پھر حتمی امیدواروں کا اعلان کیا جائےگا۔
سندھ کے آئندہ وزیر اعلیٰ کے لئے پیپلز پارٹی کی جانب سے مراد علی شاہ اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خرم شیر زمان کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ خرم شیر زمان کے کاغذات نامزدگی میں ڈاکٹر سیما اور ثمرعلی خان جب کہ مراد علی شاہ کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ قائم علی شاہ اور نثار کھوڑو ہیں، اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے جام مہتاب ڈہر اور سکندر میندھرو نے مراد علی شاہ کے کورنگ امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور وہ کسی دوسری جماعت کے تعاون کے بغیر ہی اپنا قائد ایوان منتخب کرسکتی ہے۔ جب کہ تحریک انصاف کے صرف 4 ارکان ہیں تاہم اسے مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر اپوزیشن ارکان کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے۔