خدائی قوانین سے انحراف کا نتیجہ

ہم نے رب کی بنائی ہوئی دنیا میں اس کے بتائے ہوئے اصول نہیں اپنائے بل کہ ان کے مقابلے میں اپنے ذاتی قوانین وضع کرلیے

ہم نے رب کی بنائی ہوئی دنیا میں اس کے بتائے ہوئے اصول نہیں اپنائے بل کہ ان کے مقابلے میں اپنے ذاتی قوانین وضع کرلیے فوٹو : فائل

ربِ عظیم نے یہ دنیا تخلیق کی اور انسان کو اپنا نائب بناکر دنیا میں بھیج دیا، دنیا میں رہنے کے اصول و ضوابط مقرر کیے اور انسان کو ان سے آگاہ کردیا۔ یہ بتادیا گیا کہ ان اصول و ضوابط پر عمل کرنے سے انہیں دنیا میں بھی راحت ملے گی اور اگلے جہان میں بھی وہ آسودہ رہیں گے۔ آج اگر ہم اپنے معاشرے پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر بے سکونی اور بے اطمینانی کا شکار ہیں۔ ہر فرد مختلف مسائل، پریشانیوں، الجھنوں، مصیبتوں اور تکلیفوں میں گھرا ہوا ہے، چاہے کوئی امیر ہے یا غریب، پڑھا لکھا ہے یا جاہل، اعلیٰ ہے یا ادنیٰ، شہری ہے یا دیہاتی، اپنی جگہ زندگی کے مسائل سے شاکی ہے۔

آخر ایسا کیوں ہے اور ہمیں اجتماعی اور انفرادی طور پر اطمینان، خوشی، آرام اور سکون کیوں حاصل نہیں ہے۔۔۔ ؟

اس سوال کے جواب سے پہلے آئیے ذرا درج ذیل مثالوں پر غور کریں۔ اگر ایک فرد کوئی مشین ایجاد کرکے لوگوں میں متعارف کراتا ہے تو وہ اس مشین کو چلانے کے لیے اصول و قوانین بھی بتائے گا تاکہ مشین کو صحیح طریقے سے بغیر کسی نقصان کے استعمال کیا جاسکے۔ اگر لوگ اس مشین کے استعمال کے دوران ان بتائے گئے اصولوں پر سو فی صد عمل کریں گے تو انہیں مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہوں گے اور مشین میں بھی کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس اگر ان اصول و قوانین کو نظر انداز کردیا گیا اور اپنے ذاتی اصول وضع کرکے مشین کو چلانے کی کوشش کی گئی تو نہ تو مطلوبہ نتائج حاصل ہوں گے نہ ہی مشین سلامت حالت میں رہے گی۔

آئیے اب ذرا سائنس کی چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔ اگر پانی بنانا مقصود ہو تو اس کے لیے متعاملات (Reactants) یعنی ردعمل ظاہر کرنے والے عناصر کے طور پر ہائیڈروجن اور آکسیجن ایک طے شدہ نسبت میں درکار ہوتی ہیں اور ایک خاص درجۂ حرارت اور دباؤ بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ہمیں مطلوبہ پیدا وار (Product) یعنی پانی تبھی حاصل ہوگا جب ہم ان تمام عوامل کا سو فی صد خیال رکھیں گے۔ اگر ہائیڈروجن یا آکسیجن میں سے کسی ایک یا دونوں متعاملات (Reactants) کو تبدیل کردیا جائے یا مطلوبہ درجۂ حرارت اور دباؤ کا خیال نہ رکھا جائے تو پانی کبھی نہیں بن سکے گا۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سائنسی قوانین اور اصول انسان کے نہیں بل کہ رب کے بنائے ہوئے ہیں، انسان نے ان کو صرف دریافت کیا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ نیوٹن کے قوانین حرکت رب کے تخلیق کردہ ہیں۔ نیوٹن نے انہیں وضع نہیں کیا بل کہ صرف دریافت کیا ہے۔ ان مثالوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی کام سے کوئی مطلوبہ مقصد تبھی حاصل کیا جاسکتا ہے جب اس کام کو بتائے گئے ضروری اصول و قوانین کے عین مطابق سرانجام دیا جائے۔ اگر متعاملات (Reactants) صحیح نہ ہوں تو مطلوبہ نتیجہ (Product) کبھی حاصل نہیں ہوسکتا۔

یہی ہمارے اس سوال کا جواب بھی ہے کہ آج ہم لوگ بے اطمینانی اور بے سکونی کا شکار کیوں ہیں۔ کیوں کہ ہم نے رب کی بنائی ہوئی دنیا میں رب کے بتائے ہوئے اصول نہیں اپنائے بل کہ ان کے مقابلے میں اپنے ذاتی قوانین وضع کرلیے۔ اس سلسلے میں بے شمار مثالیں ہم اپنی عمومی زندگی سے پیش کرسکتے ہیں لیکن یہاں اختصار کے باعث چند پر ہی اکتفا کیا جائے گا۔

ہمارے رب نے ہمیں اپنے رشتے داروں، غریبوں، ناداروں، یتیموں بے سہاروں اور حاجت مندوں کی مالی امداد کا حکم دیا ہے۔ ہم لوگ نمود و نمائش کی خاطر فضول رسموں پر لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہوئے سو مرتبہ سوچتے ہیں کیوں کہ ہمیں اپنی دولت میں کمی کا خدشہ ہوتا ہے۔




ہمارے رب نے رزق میں برکت کے لیے کمائی کے حلال ذرائع اپنانے کے ساتھ زکوٰۃ، صدقہ اور خیرات دینے کا حکم دیا ہے جب کہ ہم اس اصول کو یک سر فراموش کرکے اپنی دولت میں اضافے کے لیے سود، رشوت اور دیگر ناجائز ذرائع بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے رب نے وضع قطع اور دیگر معاملات میں غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے جب کہ ہم ایسا کرنے کو جدت اور ترقی گردانتے ہیں۔

ہمارے رب نے رات کو جلدی سونے اور صبح جلدی اٹھنے کا حکم دیا ہے اس کے برعکس ہم نے رات کو دیر سے سونے اور صبح دیر سے اٹھنے کو اپنا معمول بنالیا ہے۔

ہمارے رب نے غیر محرم مردوں اور عورتوں کا میل جول منع فرمایا ہے۔ جب کہ ہم عام زندگی میں اس اصول کی ذرا پروا نہیں کرتے بل کہ اسے دقیانوسی قرار دیتے ہیں۔ ہمارے رب نے ہمیں بے حیائی اور برے کاموں سے بچنے کا حکم دیا ہے جب کہ آج فحاشی اور عریانی ہمارے معاشرے میں ایسے سرایت کر گئی ہے کہ ہم اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہے۔

خدائی احکام سے روگردانی کی یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں۔ اگر تفصیلی جائزہ مرتب کرنا مقصود ہو تو ایک ضخیم کتاب ترتیب پاسکتی ہے اگر آپ اپنی زندگی کا بہ غور محاسبہ کریں تو آپ پر یہ بات آشکار ہوگی کہ آپ صحیح راہ سے کتنی دور نکل آئے ہیں۔

اس تمام بحث کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ زندگی میں ایک اہم Product یعنی سکون کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ ہم اصل Reactants یعنی خدا کے بتائے گئے اصول و قوانین کو اپناتے لیکن ہم نے اس کے برعکس غلط Reactants یعنی اپنے وضع کردہ اصول اپنائے اور یوں ہمیں بے سکونی کی شکل میں غلط پیداوار حاصل ہوئی۔ آج بھی اگر ہم خدائی احکام پر عمل پیرا ہوجائیں تو ہماری زندگی امن، سکون اور راحت و آسودگی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر مسائل کے حل کے لیے تمام بحثیں، مذاکرے، حربے اور فلسفے لاحاصل رہیںگے۔
Load Next Story