ماں کی عظمت کو سلام

گزشتہ اظہاریے میں ہم نے ایدھی صاحب پر لکھتے ہوئے اختتام میں ان کی والدہ مرحومہ کا تذکرہ کیا تھا

najmalam.jafri@gmail.com

گزشتہ اظہاریے میں ہم نے ایدھی صاحب پر لکھتے ہوئے اختتام میں ان کی والدہ مرحومہ کا تذکرہ کیا تھا، جو کالم طویل ہو جانے کے خدشے کے باعث تشنہ رہ گیا تھا۔ ہمارا خیال ہے کہ ایدھی کے خدمت خلق کے عظیم کارناموں کی اصل محرک ان کی والدہ محترمہ ہی تھیں، جن کے سائے سے وہ کم عمری ہی میں محروم ہو گئے تھے، مگر ابتدائی عمر میں ماں کی تربیت ہر انسان کی شخصیت پر تمام عمر اثر انداز رہتی ہے۔

ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ بحیثیت قوم ہم میں نہ صلاحیت کی کمی ہے نہ جذبہ خدمت کی مگر ہمارا معاشرہ بدعنوانی کی بدترین مثال پیش کر رہا ہے۔ وہ ہی معاشرہ جس میں ایک جانب ایدھی جیسے بے غرض، ذاتی، مفاد سے بالاتر شخص بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب و عقائد، ہر بے سہارا کے سہارا، ہر غم زدہ کے شریک غم، ہر ضرورت مند کے کام آنے والے ہوں اور دوسری جانب غریبوں کے منہ سے نوالہ تک چھیننے والے، غریب کو غریب تر کر کے خود کو دنیا کے امیروں کی صف میں سب سے آگے دیکھنے کے متمنی حکمران۔ آخر معاشرہ اس اخلاقی گراوٹ کا شکار کیوں اور کیسے ہوا؟

اس صورتحال کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں جن میں سرفہرست جاگیردارانہ نظام، نوکر شاہی کا کردار، دولت کے حصول کی دوڑ نے ہم سے ہماری تمام معاشرتی و اخلاقی اقدار چھین لیں۔ اب ہمیں اپنے پڑوسی تو کجا غریب رشتے داروں سے رشتہ نبھاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ پاکستان اﷲ کے پسندیدہ دین کے نام پر قائم ہوا تھا جس میں فرمایا گیا ہے کہ ''تم پیٹ بھر کر کھاؤ اور تمہارا پڑوسی بھوکا رہے تو تم سے اس کے بارے میں باز پرس کی جائے گی'' مگر اسلام کے ٹھیکیداروں نے اسلام کے نام پر تقسیم در تقسیم تو بڑی خوش اسلوبی سے کی مگر اسلام کی حقیقی روح سے لوگوں کو ناواقف رکھا۔ غیر اسلامی بلکہ دور جہالت کی قبائلی رسومات کو عین اسلام بنا کر امیر و غریب کے فرق کو اس قدر بڑھایا کہ اسلام کا معاشی نظام بد نیتی کی نذر ہو گیا۔


اس ساری صورتحال کا براہ راست تعلق جاگیردارانہ نظام سے ہے، اپنی جاگیروں کو وسیع کرنے کے لیے ہر حق دار کے حق کو غصب، عورتوں کو محض جائیداد کی خاطر ان کے تمام حقوق سے محروم کرنا، اپنی رعیت کو ایک وقت کی روٹی تک مہیا نہ کرنا جب ان سے کام جانوروں کی طرح لینا وغیرہ اس نظام کا طرۂ امتیاز ہے۔معاشرتی گراوٹ کی دوسری اہم وجہ شرح خواندگی کی کمی اور جو خواندہ بھی ہیں وہ بھی محض جاہل صاحب ثروت افراد کے وضع کردہ نظام تعلیم کے باعث اپنی اصل طاقت، معاشرتی حیثیت اور ذہنی صلاحیت سے یا تو واقف نہیں یا پھر ان کے اظہار کے تمام ذرایع ان کی دسترس میں ہی نہیں۔ جس معاشرے کے افراد یہی نہ جانتے ہوں کہ ان کی معاشرتی ذمے داری کیا ہے؟ بحیثیت انسان ان کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟ ان کے خواندہ یا ناخواندہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اس صورتحال کے ذمے دار بھی وڈیرے اور جاگیردار ہیں۔

تیسری اور سب سے اہم وجہ مثالی ماؤں کا نہ ہونا ہے۔ مگر یہ وجہ خاصی بعد میں سامنے آئی اور بیان کردہ پہلی دو وجوہات کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے۔ معاشرے بگڑتے ہیں مگر اسی معاشرے سے کوئی قوم کا ہمدرد نکل کر سامنے آتا ہے اور اپنے معاشرے کو از سر نو تعمیر کرتا ہے۔ ایسی ہستیاں جو قوم کی محسن قرار پاتی ہیں۔ ایک نہیں کئی ملکوں اور معاشروں کی مثالیں حالیہ تاریخ کے سینے پر ثبت ہیں۔ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں جب چین کی قوم افیون کی عادی، سست الوجود، کاہل اور بے عمل تھی۔ مگر آج دنیا کی کامیاب اور محنتی قوموں میں شمار ہوتی ہے، مثالیں تو اور بھی کئی ہیں مگر محض ایک اسی مثال کو ہم سامنے رکھ کر اپنی اصلاح کرنا چاہیں تو کیا ممکن نہیں؟ ہم بھی اشرف المخلوقات یعنی انسان ہیں ہمیں بھی اﷲ تعالیٰ نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، اگر ارادہ کرلیں تو کیا نہیں کرسکتے۔

بات ہو رہی تھی ''ماں'' کے کردار کی، اگر ایدھی صاحب کی ماں کی طرح انسانیت کے کام آنے، خدمت خلق کا جذبہ ماں اپنے بچوں کے دل میں جاں گزیں کر دیں تو معاشرے میں پھیلی خود غرضی، حق تلفی اور چھینا جھپٹی کو بڑی آسانی سے قابو کیا جا سکتا ہے، لڑکیوں کو تعلیم دیتے ہوئے جہاں تمام شعبہ ہائے زندگی میں ان کے مثبت کردار کی ضمانت دی جائے وہاں سب سے پہلے ان کو سادگی، بے غرضی، خلوص و ایثار پر مائل کرنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ان ہی خطوط پر پرورش کریں۔ دکھاوا، نمائش، مسابقت اور ہوس دولت نے ماں ہی نہیں بلکہ والدین کے کردار کو بری طرح مسخ کر دیا ہے۔ ایدھی صاحب کی شخصیت اور تمام کارناموں کے پیچھے ان کی والدہ کی ابتدائی تربیت ہی تو کار فرما ہے، لہٰذا ایدھی صاحب کے خدمات کے اعتراف کے ساتھ اس عظیم ماں کو بھی سلام عقیدت پیش کرنا چاہیے جس نے اپنے بیٹے کو عظیم انسان بنایا۔
Load Next Story