انڈیا چھوڑ دو تحریک
برطانوی حکمرانوں نے ان لوگوں پر اس قدر شدید ظلم و تشدد کیا کہ وہ ان کے لواحقین کو آج تک یاد ہے
جیسا کہ بھارت برطانوی سامراج کی حکمرانی سے آزادی کے68 سال مکمل ہونے کی تیاریاں کر رہا ہے تو اس موقع پر اتر پردیش کے ایک گرد آلود قصبے کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے جس نے 1942ء میں ایک آزاد ملک (اگرچہ یہ آزادی چند ہی روز تک قائم رہ سکی) ہونے کا اعلان کر دیا تھا جس پر اس کو نہایت اذیت ناک مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس آزاد ملک کا نام ''جمہوریہ بالیا''(Ballia) رکھا گیا جس کے سربراہ چیٹو پانڈے تھے جو برطانوی فوج اور پولیس کے حملہ آور ہونے سے چند دن پہلے تک زندہ رہے۔
برطانوی حکمرانوں نے ان لوگوں پر اس قدر شدید ظلم و تشدد کیا کہ وہ ان کے لواحقین کو آج تک یاد ہے۔ ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا' نہایت بے دردی سے مارا پیٹا گیا' گولیاں چلا کر یا زندہ جلا کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ احکامات فلیچر (Fletcher) نامی ایک برطانوی پولیس آفیسر جاری کر رہا تھا جس کے مطابق اس مقامی تحریک آزادی کے اندازاً 130 رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا جن کو پھانسی نہیں دی گئی ان کو درختوں پر چڑھا کر سنگینیں گھونپ کر ہلاک کر دیا گیا۔ جو درختوں پر چڑھنے سے بچ گئے انھیں جیلوں میں بند کر کے الٹا لٹکا دیا گیا تاآنکہ وہ بھوک پیاس سے مر گئے۔ جنھیں الٹا نہ لٹکایا گیا ان کو جیلوں کے فرش پر بٹھا دیا گیا اور ایسی چپاتیاں کھلائی گئیں جن سے انھیں ہیضہ ہو گیا۔
بالیا کے واقعے سے نو آبادیاتی حکمرانوں کے ظلم و تعدی کی کچھ عکاسی ہوتی ہے جس کا سامنا سفید فام حکمرانوں کے ہاتھوں مقامی آبادی کو کرنا پڑا۔ کچھ لوگوں کو برف کے بلاکوں پر لٹا دیا گیا جو وہیں ٹھٹھر ٹھٹھر کر ختم ہو گئے۔ انگریزوں کے ہاتھوں مقامی لوگوں پر کیا جانے والا ظلم نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے ساتھ ہونیوالے ظلم سے خاص مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ جرمنی کے علاقے آشوٹز میں جو یہودیوں کے ساتھ ہوا اس کے مکمل دستاویزی ثبوت موجود ہیں اور یہودیوں کو ''کنسنٹریشن کیمپوں'' میں جھونکنے کے ذمے دار بعض لوگوں کو بعدازاں انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا گیا۔ اتحادی ملکوں کے علاوہ جرمنی میں نازیوں کے بعد آنیوالی حکومت نے بھی ان کا احتساب کیا نیز دی ہیگ میں قائم کی جانے والی عالمی عدالت انصاف سے بھی مجرم پائے جانے والے نازیوں کو انتہائی سخت سزائیں دی گئیں۔یہ مقدمے اسرائیل کی جدید ریاست کی طرف سے دائر کیے گئے مگر افسوس کہ مملکت بالیا نامی علاقوں میں سفید فام حکمرانوں کی طرف سے ہونے والی بربریت کے کوئی ثبوت و شواہد آج تک اکٹھے ہی نہیں کیے گئے۔
اور جہاں تک کمشنر فلیچر اور اس جیسے درندوں کے انجام کا تعلق ہے تو اس کا بھی کوئی علم نہیں جنہوں نے ان گنت بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حالیہ سالوں میں کچھ ایسے فیشن ایبل قسم کے تاریخ دان منصۂ شہود پر نمایاں ہوئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ 200 سال کی نو آبادیاتی حکمرانی سے بھارت نے کھویا کم ہے بلکہ پایا زیادہ ہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ سب سے پہلے رابطہ کاری کے نتیجے میں ہوا۔ یہ فیشن ایبل لیڈرز درحقیقت ٹھگوں کے ایک ایسے گینگ کی مانند ہیں جو خود کو ملبوسات سے آراستہ کرتے ہیں اور پھر برطانوی حکومت سے دو بدو بات کرتے ہیں۔ جہانتک عملی طور پر اس بات کا تعلق ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جس درندگی اور استحصال پر عمل درآمد کیا اس کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ اس کے لیے ایک چھوٹی سی مثال کافی ہو گی۔
یہ برطانوی حکومت کا نمایندہ تھا جس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے اور ولی عہد دلیپ سنگھ کا زبردستی بپتسمہ کیا (عیسائی بنایا) اور یہ بھی برطانوی حکومت کے سرکاری افسر تھے جن میں لارڈ ڈلہوزی وغیرہ شامل تھا جنہوں نے لاہور کا خزانہ لوٹنے کی خوشی میں منعقد ہونے والی تقریب کی صدارت کی اور نو عمر دلیپ سنگھ کو مجبور کیا کہ وہ مشہور عالم تاریخی ہیرا ''کوہ نور'' اپنے ہاتھوں سے برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کو پیش کرے جو کہ آج بھی برطانوی شہنشاہیت کے سر کا تاج ہے۔
جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے 18 ویں صدی میں تجارت کے نام پر اپنا کنٹرول قائم کیا تو اس کے افسر مقامی کسانوں پر تگنا چوگنا ٹیکس عائد کر دیتے تھے جو کسان کو مجبوراً ادا کرنا ہی پڑتا تھا۔ یہ ٹیکس انتہائی خشک سالی بلکہ قحط کے موقع پر بھی نافذ ہی رہتے لیکن اپنے مقامی افسروں کے ان جگہوں پر آنے سے جو فرق پڑا وہ یہ ہے کہ قدرتی آفات کے دوران ٹیکس معاف ہو جاتے ہیں۔بالیا میں 200 سال بعد یہ سوچا جا رہا ہے کہ برطانوی انتظامیہ نے تحریک آزادی کے لیڈروں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ برطانوی افسران اور ان کے مقامی چمچوں (ٹوڈیز) نے اکٹھے ہو کر بڑے پرامن طریقے سے سول اور ملٹری لائنز کو الگ الگ کر دیا اس موقع پر کسی کو کوئی زک نہیں پہنچائی گئی۔
ان دنوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین دوستی و یکجہتی کا بڑا واضح مظاہرہ ہوتا تھا۔ لیکن انگریزوں نے یہاں سے جاتے جاتے ہر قسم کے بھیانک اور وحشیانہ مظالم ڈھائے، وہ بالیا میں قومی پرچم لہرانے کی اجازت دینے پر تیار نہ تھے چنانچہ جو بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتا وہ اسے گولی مار کر ہلاک کر دیتے۔ ایک مسلمان نوجوان ایک جھنڈا لہراتا ہوا ایک طرف سے نکلا لیکن چونکہ یہ برطانوی جھنڈا ''یونین جیک'' نہیں تھا لہٰذا اسے بھی گولی مار دی گئی۔ بالیا میں اس معرکے کی یاد آج بھی فخر و انبساط کے ساتھ تازہ کی جاتی ہے جب کہ ایک پرچم بردار انگریز کی گولی کا نشانہ بنتا تو دوسرا نوجوان پرچم گرنے سے پہلے ہی اسے تھام لیتا اور یوں پے در پے نوجوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔
برطانوی تاج کے فوجیوں نے تقریباً گیارہ پرچم برداروں کو ابدی نیند سلا دیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بالیا کے عوام کی بغاوت کو برطانوی میڈیا نے قطعاً رپورٹ نہ کیا اور یہ دوسری جنگ عظیم کا واقعہ ہے کہ جب ونسٹن چرچل برطانیہ کا وزیراعظم تھا۔ جب یہ جنگ ختم ہونے کی طرف جا رہی تھی تو جو ریکارڈ مرتب کیے جا رہے تھے ان میں یہ بات شامل تھی کہ برطانیہ ہر گزہندوستان کی سلطنت کو نہیں چھوڑے گا۔ چرچل کی یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے۔ ''مجھے انڈینز سے نفرت ہے۔ وہ وحشی لوگ ہیں۔
ان کا مذہب بھی وحشیانہ ہے''۔ مہاتما گاندھی کے بارے میں چرچل کا کہنا تھا کہ ان کو دیکھنے سے متلی آتی ہے۔ وہ مڈل ٹمپل کے علاقے کا ایک گنوار وکیل ہے اور ایک ایسے فقیر کا حلیہ بنا کر رہتا ہے جو مشرق میں عام ہے اور وہ نیم برہنہ عالم میں وائسرائے کے محل کی سیڑھیاں چڑھتا ہے جب کہ اس نے حال ہی میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کروا رکھی ہے تا کہ شہنشاہ انگلستان کے ساتھ برابر کی سطح پر بات کر سکے''۔ چرچل اس عظیم تبدیلی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے کہ بالیا کے چھوٹے سے علاقے میں جو قدم اٹھایا گیا ہے وہ صرف 5 سال کے عرصے میں ملک گیر حیثیت اختیار کر لے گا اور نو آبادیاتی تجارت نہ صرف بھارت سے بلکہ پوری دنیا سے ختم ہو جائے گی اور برصغیر آزاد ہو جائے گا۔ آج برطانوی پارلیمنٹ کے مقابل نہایت تکریم کی جگہ پر چرچل اور گاندھی کے مجسمے ساتھ ساتھ نصب ہیں۔ (ترجمہ: مظہر منہاس)