ترکی بغاوت کے بعد
ترکی کی بغاوت ماہ جولائی کے وسطی جمعہ کو شروع ہوئی اور صبح ہوتے ہوتے فرو ہو گئی
ترکی کی بغاوت ماہ جولائی کے وسطی جمعہ کو شروع ہوئی اور صبح ہوتے ہوتے فرو ہو گئی، فوج نے عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیے، دنیا کے مختلف لوگوں میں اس بغاوت کو اپنے اپنے انداز میں لیا گیا، ترکی میں یہ پہلی فوجی بغاوت نہ تھی اس سے پہلے بھی 60ء کی دہائی میں 2 کامیاب بغاوتیں ہو چکی ہیں اور جب سے فوجی تسلط جمہوری حکومتوں میں خاصا اہم رہا ہے مگر گزشتہ دس پندرہ برسوں سے آنے والی جمہوری حکومتوں نے عوام کو کچھ نہ کچھ لفظ جمہوریت کے علاوہ بھی دیا ہے۔
جس کی وجہ سے لوگوں نے جان دینے کی ٹھانی، ورنہ وہی ہوتا جو عام طور پر مارشل لا کے اعلان کے وقت ملکوں میں ہوتا ہے، یعنی تالیاں بجتیں، مٹھائیوں کی تقسیم اور جانے والے کے لیے طوق ملامت۔ مگر یہاں ایک نئی تاریخ مزاحمت رقم کی گئی اور چند گھنٹوں میں فوجی بغاوت پسپا ہو گئی اور عام لوگ فوجیوں کو گرفتار کرتے نظر آئے۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ بغاوت کوئی معمولی سی بغاوت تھی، بالکل ایسا نہیں، یہ ایک زبردست فوجی بغاوت تھی جس میں اسکولوں کے اساتذہ کی تعداد ہی تقریباً 25 ہزار کے لگ بھگ تھی، جس کی جانب صدر جمہوریہ ترکی نے ترکی کے ایک معروف مذہبی رہنما مسٹر فتح اللہ گولن پر بغاوت کا الزام لگایا ہے، جو ان دنوں امریکا میں مقیم ہیں اور ان کی واپسی کے لیے صدر اردگان نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
ترکی اور پاکستان کے تعلقات بظاہر بہت بہتر سمجھے جاتے رہے ہیں، مگر بات یہی ہے کہ پاکستان میں دوررس نگاہیں نہیں، وہ تجزیہ نہیں کرتیں، بس ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرتی رہتی ہیں۔ ابھی تو ترکی کے صدر نے تین ماہ کی ایمرجنسی کی بات کی ہے، مگر یہ کئی ماہ پر محیط ہو گی۔ کیونکہ بغاوت کا دائرہ صرف تعلیم کے شعبے میں 50 ہزار لوگوں پر محیط ہے اور فوجی بغاوت میں بھی 3000 افراد موجود ہیں، 99 جنرل اور اعلیٰ عہدیدار ان میں شامل ہیں، گو بغاوت کے شعلے تو بجھ گئے، مگر تپش باقی ہے۔
جب کہ اتنے لوگ اس بغاوت میں شریک ہیں تو خفیہ طور پر اس کا دائرہ کس قدر وسیع ہو گا؟ ذرا غور فرمائیے جس ملک میں 2745 ججوں کو برطرف کیا گیا ہو اس کا دائرہ کس قدر بڑا ہو گا اور پھر اس دائرہ کار نے کس قدر افراد کو متاثر کیا ہو گا، پولیس کے افسران اور دیگر محکموں کے کتنے لوگ اور اس بغاوت میں خفیہ طور پر شریک ہوں گے، صرف پولیس کے محکمے کے 8000 افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ یہ سب باتیں ظاہری طور پر ایک طرف مگر باطنی طور پر اس کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ بغاوت شروع ہو گئی۔
اصل میں ترکی بظاہر تو اپنے محل وقوع کی بدولت ایک بہت تاریخی ملک ہے اور دونوں جنگ عظیم میں اپنی خصوصی پوزیشن بنائے رہا، فوجی اعتبار سے ایک مضبوط ملک رہا ہے۔ 1960ء کی دہائی تک اس ملک میں فوجی حکومت کے اثرات تھے مگر رفتہ رفتہ سول حکومت نے عوام کو ثمرات دیے اور رفتہ رفتہ یہاں سویلین حکومت کی کارکردگی بہتر ہوتی گئی۔ طیب اردگان کی حکومت نے عوام میں قدم جمانے شروع کر دیے، مگر عالمی سیاست میں نیٹو کے رکن ہونے کے باوجود اپنی پالیسی کو یورپی یونین کا رکن بنانے کے لیے اسی کے طرز پر موڑنا شروع کر دیا، مثلاً یورپی یونین میں پھانسی کی سزا کب کی ختم ہو گئی مگر وہ جس کو پھانسی دینا چاہتے ہیں اس سے بھی سہل طریقے ان کے پاس موجود ہیں، وہ مقابلہ کا ماحول پیدا کر کے گولی سے اڑا دیتے ہیں، یہ ترکیبیں تمام نیٹو کے اس رکن ملک نے کیں مگر پھر بھی اس کو یورپی یونین میں داخلہ نہ ملا۔ ترکی نے یورپی یونین کو اشارہ دیا کہ وہ نام نہاد اسلامی تنظیموں کو اپنے علاقے سے شام کے سرحدی شہروں میں داخل ہو کر آئی ایس آئی ایس اور ان کے معاونین کی حمایت کریں۔
دس سال سے زیادہ عرصے سے یہ کام ہوتا رہا اور آخرکار روس جو بشارالاسد کا حمایتی ہے وہ رفتہ رفتہ ترکی کے زبردست خلاف ہو گیا اور اس نے پی کے کے کردوں کی قومی تنظیم کی حمایت شروع کر دی، جس سے کردوں نے اپنا ملک بنانے کے لیے زمین ہتھیانی شروع کر دی، کیونکہ کردستان کے حامی تو خاصے ہیں اور وہ ایک بڑی پٹی پر آباد ہیں، مگر زمینی علاقہ ان کے پاس ایسا کوئی نہیں ہے جس کو وہ کردستان کہہ سکیں۔ البتہ اس جنگ میں پی کے کے جو اردگان کی مخالف ہے، اس نے وہ علاقے جو کبھی شام کے پاس تھے ان کو کردستان پارٹی نے بازیاب کرا لیے۔ یہ وہ علاقے ہیں جن پر سال بھر قبل آئی ایس آئی ایس کا قبضہ تھا مگر کردوں کی یمن فورس نے بڑی دلیری سے داعش سے یہ زمین چھین لی۔
فی الحال فوری نوعیت کے کئی مسائل سے ترکی کے صدر کو نبرد آزما ہونا ہے، انھیں نہ صرف اپنے ملک کے عوام کو پرسکون اور منظم کرنا ہے بلکہ یورپی یونین کو بھی مطمئن کرنا ہے اور کردوں نے اس پراکسی وار میں جو علاقے گنوائے ہیں ان کی واپسی۔ اس تمام پراکسی وار میں ایک تو روس اور امریکا اپنا دائرہ کار بڑھا رہے ہیں، آپ کو یاد ہو گا کہ یمن کی جنگ جب شروع ہوئی تو بعض ہمارے نادان دوستوں نے کہا کہ سعودی عرب کے لیے ہم اپنی فوجیں بھیجیں، مگر حکومت پاکستان نے بظاہر اس میں غیر جانبدار رہنے کا ثبوت دیا۔
گوکہ ملک کے ایک حلقے نے اس جنگ میں فریق بننے کی حمایت کی۔ دراصل یہ امریکا اور روس کی پراکسی وار ہے اور خاص طور پر یہ کہ امریکا اسلحہ کا عالمی طور پر بڑا سپلائر ہے اور خصوصاً ری پبلکن پارٹی کو یہی لوگ اسی کاروبار سے الیکشن کی رقم مہیا کرتے ہیں، اس لیے یہ کبھی نہ چاہیں گے کہ دنیا میں جنگ کے شعلے بجھ جائیں۔ یہ باتیں ری پبلکن امیدوار ٹرمپ اپنی صدارتی تقریر میں بھی جنگوں کے حق میں کہتے رہے ہیں بلکہ ان کی تقریر میں جنگ کی سیاست بھی جھلک رہی ہے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، دنیا کی اس جنگی لپیٹ میں ترکی کے صدر بھی آگئے اور پچاس مسلم ملکوں کے اتحاد کا وہ حصہ بنے اور اس کا حصہ بنتے ہی انھوں نے الیپو (Allepo) کے سرحدی علاقے میں ایک روسی جنگی ہوائی جہاز مار گرایا۔
پائلٹ کو فضا میں ہی مارنے کی کوشش کی گئی مگر وہ زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ گو پائلٹ کو ترک فوجوں نے نہیں مارا بلکہ النصرۃ کے مجاہدین نے مارا تھا مگر روس نے ترکی کو فریق بنا کر نہ صرف الفاظ کی جنگ شروع کر دی بلکہ ترکی سے ہمہ اقسام کے تجارتی راستے منقطع کر دیے، ہوائی سفر بند کر دیا، ٹورازم کا خاتمہ، ترکی کو اناج کی ترسیل جو برسہا برس سے جاری تھی بند کر دی اور ایک اعتبار سے روس نے فوجی ناکہ بندی کر دی اور چھوٹے تابکاری حملے کی دھمکیاں بھی رات دن دی جاتی رہیں۔
لہٰذا ایک طرف معاشی دباؤ جب کہ دوسری جانب بدترین سیاسی الجھنیں بھی دی جا رہی تھیں۔ حالانکہ ترکی نیٹو کے فوجی معاہدے میں مربوط تھا، ایسے موقع پر امریکا اور اس کے اتحادی خاموش تماشائی رہے، لہٰذا ترکی کے صدر نے ایک طویل معافی نامہ پوتن کے حوالے کیا، جب سے ہی امریکی اتحادیوں کا رویہ بدلتا رہا، یہ معاملات کئی ماہ پر محیط رہے، ترکی دو سپر پاور کے درمیان زبردست دباؤ کا شکار تھا، بلکہ صدر اردگان نے دبے دبے الفاظ میں اس بات کا اعلان بھی کیا کہ بغاوت کا آغاز ترکی کے امریکی ہوائی اڈے سے ہوا، اس کے علاوہ 8 فوجی افسران فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر یونان بھی چلے گئے، فوج نے تو اچھا کیا جو جلد ہتھیار ڈال دیے ورنہ ترکی ایک بڑی خوں ریزی سے گزرتا۔ کیونکہ اگر غور کیا جائے تو بغاوت چند گھنٹوں پر محیط تھی مگر اس کی جڑیں بہت گہری۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ترکی کو سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ تو بہت اچھا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی سیٹو اور سینٹو کو خیرباد کہہ دیا تھا اس لیے پاکستان کی فوج امریکی دباؤ کے زیر اثر بالکل نہیں اور آزاد فیصلے ملکی مفاد میں کرتی ہے۔
طیب اردگان نے عوام کو بہت کچھ دیا مگر ترکی کا معاشی استحکام بہت دور ہے۔ ترکی کو اب بالکل آزاد خارجہ پالیسی اپنانی ہو گی کیونکہ معاشی پالیسی اور داخلہ پالیسی سے عوام مطمئن نہیں، البتہ پی کے کے سے اپنے دیرینہ سیاسی مسائل طے کرنے ہوں گے اور امریکا سے بین بین آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن رہنا ہو گا، ترکی کا سیٹو میں رہنا اب آسان نہ ہو گا اور نہ ہزاروں لوگوں کو پھانسی کے تختے پر لٹکانا آسان ہو گا، اردگان جو بھی بولیں، پھانسی خود ان کی حلق میں اٹک کے رہ جائے گی اور نرم پالیسی کا اعلان جلد یا بدیر کرنا ہو گا، یہی تدبر کا تقاضا ہے۔