اے ظالم اسرائیل فلسطینیوں کا پانی تو نہ روک
تواتر کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا شکار ہونے والی غزہ کی پٹی کو پانی کی عدم فراہمی اجتماعی سزا دینے کی بدترین مثال ہے۔
اس عالمی گاوں میں جہاں کا مُکھیا امریکا ہے اور مغربی ممالک اس کے کارندے، اسرائیل کو ہر ظلم کی آزادی ہے، وہ نہتے فلسطینیوں سے جو چاہے سلوک کرے کوئی پوچھنے والا نہیں، کیوںکہ یہ ظلم صہیونی ریاست کی "مجبوری" ہے، جس کی بنیاد ہی ظلم اور جھوٹ پر رکھی گئی اور اس کی توسیع (جو یہودی عقائد اور ایک عظیم صہیونی ریاست کے قیام کے لیے ناگزیر ہے) کی خاطر بچی کھچی ارض فلسطین سے اس کے حقیقی باسیوں کو بے دخل اور جلاوطن کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے مختلف حیلے بہانوں سے کبھی فلسطینیوں پر فضائی حملوں کے ذریعے موت برسائی جاتی ہے تو کبھی ان کی معاش اور مدد کے راستے روک کر ان کے لیے زندگی مزید مشکل کردی جاتی ہے، لیکن جب ایسا کرکے بھی نفرت کے جذبات کم نہ ہوئے تو اب اسرائیل فلسطینیوں کا پانی بند کرکے ان کی زراعت تباہ کرنے اور انھیں پیاسا مارنے کے درپے ہے۔
فلسطینیوں کے علاقے مغربی کنارے میں بسنے والے کی پانی تک رسائی ختم یا نصف فراہمی تک محدود کردی گئی ہے۔ یہ سفاکانہ عمل گذشتہ دنوں چند ہفتوں کے دوران انجام دیا گیا، جب اسرائیل کی فراہمی آب کے قومی ادارے ''Mekorot'' نے فیصلہ کیا کہ مغربی کنارے کے شمال میں واقع شہر نابلوس کے اردگرد کے دیہات جینن، سلفت اور دیگر کے لیے فراہمی آب سرے سے منقطع یا اس میں کمی کردی جائے۔
فلسطینی اتھارٹی کے وزیراعظم رامی حمداﷲ کا کہنا ہے کہ اس فیصلے اور اقدام کے ساتھ ہی اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف "آبی جنگ" چھیڑ دی ہے۔ اسرائیل کی صہیونیت گردی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو پانی Mekorot نے فلسطینیوں پر بند کیا ہے وہ فلسطینیوں ہی کا ہے۔ یہ پانی اسرائیل مغربی کنارے کے زیرزمین قدرتی آبی ذخائر سے غصب کرتا ہے۔ اسرائیلی، بہ شمول مغربی کنارے پر ناجائز طور پر بسنے والے یہودی آبادکار، اس پانی کی بہت بڑی مقدار استعمال کر رہے ہیں، جب کہ فلسطینیوں کو ان کا اپنا پانی فروخت کیا جاتا ہے۔
فلسطینی علاقے کو فراہمی آب بند کرکے اسرائیل یہ پانی برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بندش آب کے ذریعے سفاک صہیونی حکمراں دراصل فلسطینی عوام کو ان کی حریت پسندی کی اجتماعی سزا دینا چاہتے ہیں۔
فلسطینی نژاد امریکی کالم نگار اور مصنف ڈاکٹر Ramzy Baroud اس صیہونی گردی کا انکشاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سب نیا نہیں ہے۔ اسرائیلی ظلم اور جارحیت کا شکار ارض فلسطین پر بچپن گزارنے والے Ramzy Baroud کا کہنا ہے کہ
"مجھے اب تک اپنے والدین کی آوازوں کی لرزش یاد ہے، جب انھیں خوف ہوتا تھا کہ پانی کی فراہمی خطرناک حد تک کم سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہ تذکرہ ہمارے گھر میں تقریباً روز کا معمول تھا۔"
Ramzy Baroud اپنے بچپن کی یادیں آج بھی ان کے دل ودماغ میں چبھ رہی ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں،
"جب کبھی مہاجر کیمپ کے اطراف پتھر اچھالتے فلسطینی بچوں اور اسرائیل کی قابض فوج کے مابین 'تصادم' ہورہا ہوتا، ہم ہمیشہ، جبلی طور پر، بالٹیاں اور بوتلیں اٹھائے انھیں بھرنے کے لیے نکل پڑتے اور اپنے گھر کے اردگرد منتشر ہوجاتے۔"
یہ 1987 کا تذکرہ ہے، جب مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں پہلی انتفادہ تحریک نے جنم لیا تھا۔
انتفادہ کے دوران ایک طرف ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھائے انہیں صہیونی فوجیوں پر اچھالتے بچے ہوتے اور دوسری طرف ان کے سینوں پر گولیاں برساتے درندہ صفت اسرائیلی اہل کار۔ بچوں کی ان جرات مندانہ معرکہ آرائیوں نے ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی اور ان کے اچھالے جانے والے پتھروں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالمی رائے عامہ کے خاموش اور ساکت پانی میں ہلچل پیدا کردی تھی۔ اس تحریک کے دوران جب بھی پتھروں کا بندوقوں سے ٹکراو ہوتا، اسرائیل کی شہری انتظامیہ انتقامی طور پر ایک اقدام ضرور کرتی، جس کے تحت مہاجر کیمپ سے سراٹھانے والی اس "بغاوت" کی سزا اجتماعی طور پر پوری فلسطینی آبادی کو دینے کے لیے اسے پانی سے محروم کردیا جاتا۔ چناںچہ ایسے کسی تصادم کے شروع ہوتے ہی لوگ حفظ ماتقدم کے طور پر جان جوکھم میں ڈال کر پانی کے حصول کے لیے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ اسرائیلی انتظامیہ اور فوج کی کینہ پروری میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایسے کسی تصادم کے ساتھ ہی سخت کرفیو نافذ کردیا جاتا، جس کے دوران پورا علاقہ بند کردیا جاتا اور کسی بھی شخص کو باہر نکلنے کی صورت میں گولی ماردی جاتی۔ اس دوران فراہمی آب روک دینے کے ساتھ بجلی کا سلسلہ بھی منقطع کردیا جاتا تھا۔
انتقامی کارروائی اور اجتماعی سزا دینے کا یہ سلسلہ کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک جاری رہتا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں میں بھوک پنجے گاڑدیتی۔ اس وقت نہتے اور بے اماں فلسطینی مہاجرین مکمل طور پر مسلح فوج کی حامل اسرائیلی انتظامیہ سے ٹکر لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، انہیں اپنے مختصر وسائل کے ساتھ اپنی بقاء کی جدوجہد کرنا ہوتی تھی۔
یوں پانی پر اسرائیلی قبضے کے باعث فراہمی آب بند ہونے کی صورت میں ستم رسیدہ فلسطینیوں کے پاس اس کو سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ بارش کے لیے نمازاستسقا ادا کریں۔ زمین سے آتے پانی کی بندش وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ 1967ء کے بعد سے اب فلسطینیوں کے لیے پانی کا یہ سب سے بڑا بحران ہے، چناںچہ یہ سطور لکھے جانے تک بارش کے لیے نماز استسقا کا سلسلہ بہت بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ اسرائیل کی آبی جنگ کا شکار مغربی کنارے سمیت مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی وہ فلسطینی علاقے ہیں جن پر آج سے 49 سال قبل 1967ء میں اسرائیل نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت قبضہ کرلیا تھا۔ اس وقت سے قابض صہیونی اپنی اجتماعی سزا کی حکمت عملی پر گامزن ہیں، جس میں آزادیاں محدود کردینا اور فراہمی آب سے انکار کرکے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سفاکانہ اور مکروہ عمل سرفہرست ہیں۔
صہیونیوں کی طرف سے محکوم فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچلنے اور انہیں آزادی کی جدوجہد سے باز رکھنے کے لیے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا چلن کوئی آج کا نہیں، اس کی تاریخ بہت پُرانی ہے۔ اس تاریخ کا آغاز 1948ء سے ہوتا ہے، یعنی زمین پر پھوڑے کی طرح نکلنے والی ناجائز ریاست کے قیام کے ساتھ ہی اس پالیسی کا آغاز اُس وقت ہوا، جب اس برس صہیونی ملیشیاوں نے یروشلم کے اردگرد واقع فلسطینیوں کے دیہات کی پانی کی لائن کاٹ دی، جس کا مقصد علاقے کی "نسلی صفائی" تھا۔ صہیونی غنڈوں پر مشتمل یہ ملیشیائیں فلسطینیوں کے جس گاوں یا قصبے پر قبضہ کرتیں، فوری طور پر وہاں کے کنوئیں تباہ کردیے جاتے، تاکہ بستیاں چھوڑ کر جانے والے واپس نہ آئیں۔ آج بھی غیرقانونی یہودی بستیوں کے آبادکار یہی حربے استعمال کر رہے ہیں۔
ساتھ ہی اسرائیلی فوج بھی اسی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ خاص طور پر فلسطینیوں کی پہلی اور دوسری آزادی کی تحریکوں کے دوران یہ آبی ہتھیار کا استعمال کیا گیا۔ دوسری انتفادہ کے دوران اسرائیلی طیاروں نے ان مہاجر کیمپوں اور دیہات پر، جہاں قبضہ کرنا مقصود تھا، بمباری کرکے فراہمی آب کی لائنیں تباہ کردی تھیں۔ اپریل 2002ء میں جب اسرائیلیوں نے جینن کے مہاجر کیمپ پر قبضہ کیا تو کیمپ کے لیے کی جانے والی فراہمی آب کی لائن کو برباد کردیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیلی فوجی تمام اطراف سے کیمپ میں داخل ہوئے اور سیکڑوں معصوم فلسطینیوں کو قتل اور زخمی کر ڈالا تھا۔
تواتر کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا شکار ہونے والی غزہ کی پٹی کو صہیونیوں کی جانب سے پانی روک کر اجتماعی سزا دینے کی بدترین مثال ہے، جہاں نہ صرف دوران جنگ فراہمی آب کو نشانہ بنایا گیا بلکہ پانی کی صفائی کے لیے استعمال ہونے والی بجلی سے چلنے والے جنریٹرز بھی ہدف بنے۔ اگرچہ اس المیے کو ایک عشرہ گزر چکا ہے، تاہم اب تک یہ جنریٹرز مرمت سے محروم ہیں۔
1995ء میں ہونے والے نام نہاد اوسلو معاہدے کے تحت غزہ کو مغربی کنارے سے الگ واٹر سیکٹر قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح غزہ پر اپنی حدود میں موجود آبی ذرائع کو ترقی دینے کی ذمے داری ڈال دی گئی۔ اسرائیلی محاصروں اور حملوں کے دوران غزہ کے آب اندوختوں (جیسے ریت کی چٹانیں، جن کی تہہ میں پانی ہوتا ہے) پینے کے قابل پانی کا 5 سے 10 فیصد پانی حاصل ہوتا رہا، جبکہ اس خطے میں خدمات انجام دینے والی امریکی این جی او American Near East Refugee Aid کے مطابق غزہ کا 90 فی صد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں۔ اس وجہ سے غزہ کی پٹی کے زیادہ تر باسی غیر صاف شدہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں، اس کے مقابلے میں مغربی کنارے کے بسنے والے پانی کے وسیع ذخیرے تک رسائی رکھتے ہیں۔
مغربی کنارے میں زندگی کرنے والوں کے لیے پانی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ پہاڑوں میں موجود آبی ذخائر ہیں۔ اس علاقے کے شمال، مغرب اور مشرق میں واقع لاتعداد طاس واقع ہیں، تاہم اسرائیل نے مغربی کنارے کے باسیوں کی ان طاسوں تک رسائی پابندی عائد کردی ہے۔ یہی نہیں، ان فلسطینیوں کو دریائے اردن کے پانی تک رسائی سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ انسداد غربت کے لیے عالمی سطح پر کام کرنے والی تنظیم Oxfam کے مطابق اسرائیل نے فلسطینیوں کے آبی ذخائر کا 80 فی صد قبضے میں کیے ہوئے ہے۔ 5 لاکھ 20 ہزار اسرائیلی آبادکار مغربی کنارے کے 26 لاکھ فلسطینیوں کے مقابلے میں چھے گنا زیادہ پانی استعمال کر رہے ہیں۔ اسرائیل فراہمی آب کا قومی ادارہ Mekorot مغربی کنارے میں موجود 40 کنووں پر قبضہ جمائے ہوئے ہے اور علاقے میں پانی کی فراہمی کے تمام والوز پر اسرائیل کا ہاتھ ہے، وہ جسے چاہے پانی دے، جسے چاہے نہ دے۔
جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو مغربی کنارے میں درجہ حرارت 38 ڈگری پر ہے۔ اس گرمی میں اس علاقے کے ہر خاندان کو یومیہ صرف فی کس 2 سے 3 لیٹر پانی میسر ہے۔ ایسے میں مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں پر کیا گزر رہی ہوگی، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ان لوگوں کو ہر روز ایک قیامت کا سامنا ہے، مگر انسانی حقوق کی علم بردار دنیا اور مسلم ممالک کو کوئی پروا نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔