امجد صابری کی جگہ کون لے گا
ریاضت کےبغیر کوئی بھی قوالی گانے کا اہل نہیں،بچوں کو البتہ گروپ کیساتھ بیٹھنے کی اجازت ہے اگر وہ خود اس میں دلچسپی لیں
موسیقی، پہلوانی اور سیاست، ہمارے خطے میں یہ تین ایسے پیشے ہیں جہاں دوسروں کے مقابلے میں اپنی اولاد کو حد درجہ ترجیح دی جاتی ہے۔ جہاں سیاست میں اقرباء پروری پر کھل کے لب کشائی کی جاتی ہے، موسیقی میں اس کا ذکر کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ مثال کے طور پر پٹیالہ گھرانے کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے آپ کا کسی امانت علی خان یا نصرت فتح علی خان سے خون کا رشتہ ہونا لازمی ہے۔ یہ تاج صرف اور صرف گھر کے افراد کے لیے مختص ہے اور اس معاملے میں بحث مباحثے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
صابری گھرانے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ رواں برس 22 جون کو ہونے والے قوال امجد فرید صابری کے بہیمانہ قتل نے ان کے چاہنے والوں، رفقاء اور دوست یاروں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
امجد کی صورت میں صابری خاندان اپنے روحِ رواں کو کھوچکا ہے۔ ایک جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے قتل کے محرکات جاننے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب صابری خاندان کو اپنے ورثے کی حفاظت کی فکر لاحق ہے۔
امجد کے سوئم کے موقع پر صابری خاندان نے نہ صرف قوال پارٹی کے اگلے سربراہان کا اعلان کردیا ہے بلکہ امجد کے نوعمر بیٹے مجد٘د فرید صابری کی دستار بندھی بھی کردی ہے۔ گروپ کا نام امجد فرید صابری قوال پارٹی ہی رہے گا اور امجد کے بنائے قوائد کے تحت ان کے بھائی عظمت فرید صابری اور طلحہ فرید صابری اس کی قیادت کریں گے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے امجد کے بڑے بھائی ثروت فرید صابری نے بتایا کہ قو٘ال خاندان کی چوتھی نسل ابھی خاندانی ورثے کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ
ثروت کے مطابق بچ٘وں کی تعلیم ان کی او٘لین ترجیح ہے۔ مستقبل میں مجد٘د کے علاوہ اس کے چھوٹے بھائی عون محمد صابری اور محب علی صابری، ثروت کے بیٹے طحہ فرید صابری، عظمت کے صاحبزادے بلاول فرید صابری اور طلحہ کے جڑواں بیٹے دائم فرید صابری اور سائم فرید صابری گروپ کی قیادت کے اہل ہونگے۔ ابھی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ثروت صابری نے کہ
صابری خاندان کی بیٹیوں نے آج تک باقاعدہ قو٘الی گانے میں دلچسپی نہیں لی اور بیٹے بھی 17 سال تک کی عمر تک پارٹی کے صاحبِ بیاض نہیں بن سکتے۔ ثروت کے بقول قوالی گانا نہایت ذمہ داری کا کام ہے جس کے لیے سالوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ ریاضت کے بغیر کوئی بھی قو٘الی گانے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ البتہ ان بچ٘وں کو گروپ کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت ضرور ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہ خود اس کام میں دلچسپی لیں ورنہ کوئی زور زبردستی نہیں۔ صابری خاندان میں پرورش کے دوران بچ٘وں کی اپنی پسند ناپسند کا ازحد خیال رکھا جاتا ہے۔
پچاس سالہ ثروت خود ساری عمر اپنے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول احمد صابری کے گروپ میں مینیجر کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ گانے یا کوئی ساز بجانے کی جانب ان کی اپنی طبیعت کبھی مائل نہیں ہوئی اور ان کے والد نے بھی اس بات کا کبھی بُرا نہیں مانا۔ اِس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ
طلحہ فرید صابری اپنے صاحبزادے سائم فرید صابری کے ہمراہ
ویسے تو تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ہونہار امجد ہی تصو٘ر کیے جاتے تھے، لیکن قو٘الی اور گائیکی کو لیکر عظمت کی معلومات کے سب معترف ہیں۔ 44 سالہ عظمت اور 35 سالہ طلحہ امجد گروپ کے اہم ارکان تھے جنہوں نے امجد کے ہمراہ تقریباً ساری دنیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج سے پہلے کبھی ان کی صلاحیتوں کا ذکر نہیں ہوا۔
ثروت کے مطابق اس کی وجہ امجد کی طلسماتی شخصیت ہے۔ ہر کسی کا مرکزِ نگاہ وہی تھا۔ ہم تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ سُر بھی اُسی کا تھا۔
چھ بہنوں اور پانچ بھائیوں میں امجد کا نمبر آٹھواں تھا۔ ہمارا ایک بھائی عصمت فرید صابری جسمانی طور پر معزور تھا جو 29 سال کی عمر میں سن 2008 میں اس دنیا سے چلا گیا۔ ثروت کے بقول امجد کی اپنی عمر 40 سے زیادہ نہ تھی۔
سربراہ کی رحلت کے بعد اس کے وارث کا چناوَ موسیقی سے وابسطہ گھرانوں کی پرانی ریت ہے۔ دستار بندھی کا یہ رواج پاکستان کے اکژ قبائل میں بھی پایا جاتا ہے۔
جب قو٘الی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کے چچا کا انتقال ہوا تب نصرت گائیک کے بجائے طبلہ نواز کی حیثیت سے گروپ کا حص٘ہ تھے۔ لیکن جب خاندان کے فن٘ی ورثے کو آگے لیکر چلنے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آئی تو انہوں نے خود کو ایک ماہر گائیک کے سانچے میں ڈھال لیا۔
یہی کچھ پٹیالہ گھرانے کے بڑے صاحبزادے استاد اسد امانت علی خان کے ساتھ بھی ہوا۔ ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے معروف گلوکار اور اسد کے چھوٹے بھائی شفقت امانت علی نے بتایا کہ جب ان کے والد استاد امانت علی خان دنیا سے پردہ کر گئے تو اسد بھائی نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا اور تب تک ریاضت جاری رکھی جب تک خود کو خاندان کا سربراہ بننے کے قابل نہ سمجھ لیا۔
ویسے تو صابری خاندان بھی اپنا شجرہَ نصب ماضی کے عظیم فنکاروں سے جوڑتا ہے لیکن اس گھرانے میں قو٘الی کا آغاز امجد اور ثروت کے دادا عنایت حسین صابری نے کیا۔ ان کے پیر صاحب حضرت خواجہ حیرت شاہ وارثی نے انہیں قو٘الی شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے بعد اُن کے والد اور چچا کے اس فن کو اوجِ کمال تک پہنچایا گیا۔
کہتے ہیں صابری برادران کی وجہَ شہرت ان دونوں بھائیوں کی کمال جگل بندی تھی۔ ایک جانب لحیم شحیم ڈیل ڈول کے مالک غلام فرید گروپ کی جان تھے تو دوسری جانب مقبول کی ناقابلِ یقین گائیکی ان کی قو٘الی کو پٹری سے اترنے نہیں دیتی تھی۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسے بہن بھائی ہوں گے جن کے مابین نوک جھونک نہیں ہوتی۔ غلام فرید اور مقبول کے درمیان بھی اکثر لڑائی ہوجاتی تھی مگر بالآخر دونوں بھائی صلح کرلیا کرتے تھے۔ سن 1991 میں ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ایک معمولی سا اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار کر گیا۔ ثروت بتاتے ہیں کہ معاملہ پیسوں کا تھا۔ چچا اپنے حص٘ے کے حساب سے زیادہ روپے طلب کر رہے تھے۔ میری تجویز پر اب٘ا جی بالآخر مان گئے تھے اور یوں یہ مسئلہ بظاہرحل ہوگیا تھا۔
سامانِ سفر بندھ چکا تھا، ٹکٹ کنفرم ہوچکے تھے، ہوٹل وغیرہ کی بکنگ مکمل تھی۔ اپریل 1994ء میں صابری برادران کے یورپ ٹور کی تیاریاں مکمل تھیں۔ مغربی برِ٘اعظم کے تقریباً ہر دوسرے ملک میں شوز کرنے تھے۔ روانگی سے دو دن قبل غلام فرید دل کا دورہ پڑنے پر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ثروت کہتے ہیں کہ اب٘ا جی کا دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ اُن کی موت کا خیال کسی کے ذہن میں بھی نہیں آتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔ بس پھر غلام فرید کے چہلم کے بعد مقبول کی قیادت میں پارٹی نے ٹور مکمل کیا۔ اُن کی پہلی برسی ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کرائی تھی۔
صابری خاندان کے لالو کھیت میں واقع اس گھر کے چھوٹے سے کمرے، جہاں تمام ملاقاتیوں کو بٹھایا جاتا ہے، میں غلام فرید کی جو پینٹنگ لگی ہے وہ اسی برسی کے موقع پر کراچی کے ناز سنیما کے پوسٹر بنانے والے کاریگروں نے بنائی تھی۔
ثروت کہتے ہیں اس ٹور کے بعد ایک اور ٹور خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا۔ اُس زمانے میں ایک انگریز لڑکی ہمارے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کیا کرتی تھی۔ اگلے ٹور پر چچا نے اس سے کہا کہ اس مرتبہ ثروت ساتھ نہیں جائے گا۔ جب اس بات کا اُنہیں پتا چلا تو انہوں نے کہا کہ چچا بڑے ہیں، جو وہ کہیں گے وہی ہوگا اور یوں انہوں نے چچا کے حکم کی تعمیل کی۔
دیکھتے دیکھتے غلام فرید کی دوسری برسی آن پہنچی۔ ثروت نے بتایا کہ اس مرتبہ چچا جنوبی افریقہ میں تھے جہاں ان کی ایک اہلیہ مقیم تھیں۔ امجد نے فیصلہ کیا کہ برسی تو لازمی کروانی ہے۔ اس نے آرٹس کونسل والوں سے بات کی اور اب٘ا جی اور چچا کے پرانے ساتھیوں سے کہا کہ میں اب٘ا کے دو کلام پڑھوں گا آپ لوگ میرے ساتھ بجائیں۔ سب نے حامی بھرلی۔ امجد، جن کی عمر اس وقت زیادہ نہ تھی، نے تمام پیرانِ عظ٘ام کو بھی مدعو کیا۔ وہاں برسی کے دوران جیسے ہی امجد کلام گا کر اسٹیج سے نیچے اترے تو کئی حاضرین نے اپنے اپنے گھروں کی محافل میں پڑھنے کے وعدے لے لیے اور یوں آن کی آن امجد نے اپنے کریئر کا آغاز کردیا۔
تین مہینوں کے اندر امجد اور ان کے دوستوں نے اچھ٘ا خاصہ گروپ تشکیل دے دیا اور اپنی سوزوکی میں سوار ہوکر شہر کے دور دراز علاقوں میں جاکر قو٘الی گانا شروع کردیا۔
طلحہ فرید صابری، امجید فرید صابری اور عظمت فرید صبری
اس دوران چچا واپس پاکستان آگئے تھے۔ ثروت کے بقول ان کے بالکل برابر والے گھر میں چچا کا خاندان مقیم ہے۔ پہلے ہمارے گھر کے سامنے ہمارا ایک دفتر ہوا کرتا تھا جہاں اب٘ا جی اور چچا ریاض کیا کرتے تھے۔ امجد وہاں چچا کے پاس اپنی ڈائری لے کرگیا، یہ دکھانے کے لیے کہ کتنے سارے پروگرام مل گئے۔ وہ سمجھ رہا تھا چچا شاباشی دیں گے اور کہیں گے کی تو نے تو میری غیر موجودگی میں کام چلا دیا۔
وہاں مقبول نے امجد کو یہ کہہ کر چلتا کیا کہ اب تم اپنی قو٘الی خود ہی کرو۔ ثروت کے مطابق یہ سن کر امجد کا دل ٹوٹ گیا اور وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس گئے۔ ام٘ی نے اس سے کہا کہ اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ تم جوان آدمی ہو تمہیں کیا پریشانی؟ دل کرتا ہے تو قو٘الی کرو ورنہ تم لوگ پانچ بھائی ہو کچھ نہ کچھ تو کما کر لا ہی سکتے ہو۔
والدہ کی بات سن کر امجد کو حوصلہ ملا اور اس دن کے بعد سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں 1996ء سے بحیثیت قو٘ال ان کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اس دوران مقبول اپنی الگ پارٹی بنا کر قو٘الی کرتے رہے۔ ایک حادثے میں ان کی ٹانگ کی ہڈ٘ی ٹوٹ گئی اور پھر بھارت کے دورے کے دوران وہ ایک جگہ سیڑھیوں سے گرگئے جس کے سبب ان کی کولہے کی ہڈ٘ی بھی ٹوٹ گئی۔ سال گزرتے گئے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ امجد ان سے زیادہ مشہور ہوگئے اور اپنے چچا کو پروگرام دلانے میں مدد کرنے لگے۔ ثروت کہتے ہیں اس تمام ناچاقی کے باوجود انہوں نے چچا سے تعلق قائم رکھا۔ خون کے رشتے ختم تو نہیں کیے جاسکتے۔ ہم آج تک اُن سے بہت محبت کرتے ہیں۔
ثروت کہتے ہیں ویسے تو گانے کے معاملے میں اُن کے چچا کا کوئی ثانی نہیں لیکن امجد بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ایک مرتبہ ہوا یوں کہ کراچی میں ایک جگہ محفل ہورہی تھی اور چچا گا رہے تھے۔ پچھلے دروازے سے امجد داخل ہوا تو تمام سامعین مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔ یہ دیکھ کر چچا نے کہا کہ سوپر اسٹار امجد صابری تشریف لا چکے ہیں، میں آپ کا مزید وقت ضائع نہیں کروں گا۔
کئی ٹی وی چینلز نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح امجد اپنے چچا کے ہمراہ ایک آدھ کلام ریکارڈ کروادیں۔ امجد تو راضی تھا بلکہ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر چچا کہیں گے تو میں پیچھے سنگت میں بیٹھ جاوّں گا لیکن چچا نہیں مانے۔
2011ء میں مقبول اپنے خالق سے جاملے۔ اُن کا بیٹا شمائل مقبول صابری اپنے گروپ کے ہمراہ قو٘الی کرتا ہے۔ اُن کے انتقال کے بعد امجد نے شمائل سے بہت کہا کہ تم میرے ساتھ آجاوّ لیکن وہ بھی نہ مانا۔
ثروت کہتے ہیں اُن کے خاندان نے آج سے پہلے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ مجھے لگتا ہے ہمیں سب کو سچ بتانا چاہیئے۔ میں چچا کی تضحیک کرنا ہرگز نہیں چاہتا لیکن یہ سب واقعات سچ٘ پر مبنی ہیں اور لوگوں تک پہنچنے چاہیئں۔ اگر ہم ان پر بات نہیں کریں گے تو لوگ من گھڑت کہانیاں بنالیں گے۔
غلام فرید کی رحلت کے بعد گھر کے بڑے بیٹے ثروت کے سر پر دستار باندھی گئی۔ میں نے اُسی وقت وہ اتار کر امجد کے سر پر رکھ دی تھی۔ میرے حساب سے وہ اُس کا زیادہ اہل تھا اور اُس نے یہ ثابت بھی کیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
صابری گھرانے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ رواں برس 22 جون کو ہونے والے قوال امجد فرید صابری کے بہیمانہ قتل نے ان کے چاہنے والوں، رفقاء اور دوست یاروں کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
امجد کی صورت میں صابری خاندان اپنے روحِ رواں کو کھوچکا ہے۔ ایک جانب قانون نافذ کرنے والے ادارے قتل کے محرکات جاننے کی کوششوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب صابری خاندان کو اپنے ورثے کی حفاظت کی فکر لاحق ہے۔
امجد کے سوئم کے موقع پر صابری خاندان نے نہ صرف قوال پارٹی کے اگلے سربراہان کا اعلان کردیا ہے بلکہ امجد کے نوعمر بیٹے مجد٘د فرید صابری کی دستار بندھی بھی کردی ہے۔ گروپ کا نام امجد فرید صابری قوال پارٹی ہی رہے گا اور امجد کے بنائے قوائد کے تحت ان کے بھائی عظمت فرید صابری اور طلحہ فرید صابری اس کی قیادت کریں گے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے امجد کے بڑے بھائی ثروت فرید صابری نے بتایا کہ قو٘ال خاندان کی چوتھی نسل ابھی خاندانی ورثے کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ
''جب تک ہمارے بچ٘ے بڑے نہیں ہوجاتے، عظمت اور طلحہ گروپ کی قیادت کریں گے۔''
ثروت کے مطابق بچ٘وں کی تعلیم ان کی او٘لین ترجیح ہے۔ مستقبل میں مجد٘د کے علاوہ اس کے چھوٹے بھائی عون محمد صابری اور محب علی صابری، ثروت کے بیٹے طحہ فرید صابری، عظمت کے صاحبزادے بلاول فرید صابری اور طلحہ کے جڑواں بیٹے دائم فرید صابری اور سائم فرید صابری گروپ کی قیادت کے اہل ہونگے۔ ابھی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ثروت صابری نے کہ
''ان کا سب کچھ ان بچ٘وں کا ہی ہے۔ انہیں ہی اس ورثے کو آگے لیکر چلنا ہے۔''
صابری خاندان کی بیٹیوں نے آج تک باقاعدہ قو٘الی گانے میں دلچسپی نہیں لی اور بیٹے بھی 17 سال تک کی عمر تک پارٹی کے صاحبِ بیاض نہیں بن سکتے۔ ثروت کے بقول قوالی گانا نہایت ذمہ داری کا کام ہے جس کے لیے سالوں کی ریاضت درکار ہوتی ہے۔ ریاضت کے بغیر کوئی بھی قو٘الی گانے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ البتہ ان بچ٘وں کو گروپ کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت ضرور ہے، وہ بھی اس صورت میں کہ وہ خود اس کام میں دلچسپی لیں ورنہ کوئی زور زبردستی نہیں۔ صابری خاندان میں پرورش کے دوران بچ٘وں کی اپنی پسند ناپسند کا ازحد خیال رکھا جاتا ہے۔
پچاس سالہ ثروت خود ساری عمر اپنے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول احمد صابری کے گروپ میں مینیجر کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ گانے یا کوئی ساز بجانے کی جانب ان کی اپنی طبیعت کبھی مائل نہیں ہوئی اور ان کے والد نے بھی اس بات کا کبھی بُرا نہیں مانا۔ اِس حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ
''اب٘ا جی نے ہمیشہ ہمیں اپنی مرضی سے اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کی اجازت دی۔ ہمارے یہاں یہ مانا جاتا ہے کہ اگر بچے کا کسی کام میں دل نہیں تو نہ سہی۔ آپ زبردستی کسی کو آرٹسٹ نہیں بنا سکتے۔''
طلحہ فرید صابری اپنے صاحبزادے سائم فرید صابری کے ہمراہ
ویسے تو تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ہونہار امجد ہی تصو٘ر کیے جاتے تھے، لیکن قو٘الی اور گائیکی کو لیکر عظمت کی معلومات کے سب معترف ہیں۔ 44 سالہ عظمت اور 35 سالہ طلحہ امجد گروپ کے اہم ارکان تھے جنہوں نے امجد کے ہمراہ تقریباً ساری دنیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج سے پہلے کبھی ان کی صلاحیتوں کا ذکر نہیں ہوا۔
ثروت کے مطابق اس کی وجہ امجد کی طلسماتی شخصیت ہے۔ ہر کسی کا مرکزِ نگاہ وہی تھا۔ ہم تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ سُر بھی اُسی کا تھا۔
چھ بہنوں اور پانچ بھائیوں میں امجد کا نمبر آٹھواں تھا۔ ہمارا ایک بھائی عصمت فرید صابری جسمانی طور پر معزور تھا جو 29 سال کی عمر میں سن 2008 میں اس دنیا سے چلا گیا۔ ثروت کے بقول امجد کی اپنی عمر 40 سے زیادہ نہ تھی۔
وراثت کی منتقلی
سربراہ کی رحلت کے بعد اس کے وارث کا چناوَ موسیقی سے وابسطہ گھرانوں کی پرانی ریت ہے۔ دستار بندھی کا یہ رواج پاکستان کے اکژ قبائل میں بھی پایا جاتا ہے۔
جب قو٘الی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ استاد نصرت فتح علی خان کے چچا کا انتقال ہوا تب نصرت گائیک کے بجائے طبلہ نواز کی حیثیت سے گروپ کا حص٘ہ تھے۔ لیکن جب خاندان کے فن٘ی ورثے کو آگے لیکر چلنے کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آئی تو انہوں نے خود کو ایک ماہر گائیک کے سانچے میں ڈھال لیا۔
یہی کچھ پٹیالہ گھرانے کے بڑے صاحبزادے استاد اسد امانت علی خان کے ساتھ بھی ہوا۔ ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے معروف گلوکار اور اسد کے چھوٹے بھائی شفقت امانت علی نے بتایا کہ جب ان کے والد استاد امانت علی خان دنیا سے پردہ کر گئے تو اسد بھائی نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا اور تب تک ریاضت جاری رکھی جب تک خود کو خاندان کا سربراہ بننے کے قابل نہ سمجھ لیا۔
ویسے تو صابری خاندان بھی اپنا شجرہَ نصب ماضی کے عظیم فنکاروں سے جوڑتا ہے لیکن اس گھرانے میں قو٘الی کا آغاز امجد اور ثروت کے دادا عنایت حسین صابری نے کیا۔ ان کے پیر صاحب حضرت خواجہ حیرت شاہ وارثی نے انہیں قو٘الی شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے بعد اُن کے والد اور چچا کے اس فن کو اوجِ کمال تک پہنچایا گیا۔
دو انوکھے بھائی
کہتے ہیں صابری برادران کی وجہَ شہرت ان دونوں بھائیوں کی کمال جگل بندی تھی۔ ایک جانب لحیم شحیم ڈیل ڈول کے مالک غلام فرید گروپ کی جان تھے تو دوسری جانب مقبول کی ناقابلِ یقین گائیکی ان کی قو٘الی کو پٹری سے اترنے نہیں دیتی تھی۔
دنیا میں شاید ہی کوئی ایسے بہن بھائی ہوں گے جن کے مابین نوک جھونک نہیں ہوتی۔ غلام فرید اور مقبول کے درمیان بھی اکثر لڑائی ہوجاتی تھی مگر بالآخر دونوں بھائی صلح کرلیا کرتے تھے۔ سن 1991 میں ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ایک معمولی سا اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار کر گیا۔ ثروت بتاتے ہیں کہ معاملہ پیسوں کا تھا۔ چچا اپنے حص٘ے کے حساب سے زیادہ روپے طلب کر رہے تھے۔ میری تجویز پر اب٘ا جی بالآخر مان گئے تھے اور یوں یہ مسئلہ بظاہرحل ہوگیا تھا۔
سامانِ سفر بندھ چکا تھا، ٹکٹ کنفرم ہوچکے تھے، ہوٹل وغیرہ کی بکنگ مکمل تھی۔ اپریل 1994ء میں صابری برادران کے یورپ ٹور کی تیاریاں مکمل تھیں۔ مغربی برِ٘اعظم کے تقریباً ہر دوسرے ملک میں شوز کرنے تھے۔ روانگی سے دو دن قبل غلام فرید دل کا دورہ پڑنے پر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ثروت کہتے ہیں کہ اب٘ا جی کا دبدبہ اتنا زیادہ تھا کہ اُن کی موت کا خیال کسی کے ذہن میں بھی نہیں آتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہمیں اکیلا چھوڑ گئے۔ بس پھر غلام فرید کے چہلم کے بعد مقبول کی قیادت میں پارٹی نے ٹور مکمل کیا۔ اُن کی پہلی برسی ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کرائی تھی۔
صابری خاندان کے لالو کھیت میں واقع اس گھر کے چھوٹے سے کمرے، جہاں تمام ملاقاتیوں کو بٹھایا جاتا ہے، میں غلام فرید کی جو پینٹنگ لگی ہے وہ اسی برسی کے موقع پر کراچی کے ناز سنیما کے پوسٹر بنانے والے کاریگروں نے بنائی تھی۔
ثروت کہتے ہیں اس ٹور کے بعد ایک اور ٹور خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا۔ اُس زمانے میں ایک انگریز لڑکی ہمارے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کیا کرتی تھی۔ اگلے ٹور پر چچا نے اس سے کہا کہ اس مرتبہ ثروت ساتھ نہیں جائے گا۔ جب اس بات کا اُنہیں پتا چلا تو انہوں نے کہا کہ چچا بڑے ہیں، جو وہ کہیں گے وہی ہوگا اور یوں انہوں نے چچا کے حکم کی تعمیل کی۔
دیکھتے دیکھتے غلام فرید کی دوسری برسی آن پہنچی۔ ثروت نے بتایا کہ اس مرتبہ چچا جنوبی افریقہ میں تھے جہاں ان کی ایک اہلیہ مقیم تھیں۔ امجد نے فیصلہ کیا کہ برسی تو لازمی کروانی ہے۔ اس نے آرٹس کونسل والوں سے بات کی اور اب٘ا جی اور چچا کے پرانے ساتھیوں سے کہا کہ میں اب٘ا کے دو کلام پڑھوں گا آپ لوگ میرے ساتھ بجائیں۔ سب نے حامی بھرلی۔ امجد، جن کی عمر اس وقت زیادہ نہ تھی، نے تمام پیرانِ عظ٘ام کو بھی مدعو کیا۔ وہاں برسی کے دوران جیسے ہی امجد کلام گا کر اسٹیج سے نیچے اترے تو کئی حاضرین نے اپنے اپنے گھروں کی محافل میں پڑھنے کے وعدے لے لیے اور یوں آن کی آن امجد نے اپنے کریئر کا آغاز کردیا۔
تین مہینوں کے اندر امجد اور ان کے دوستوں نے اچھ٘ا خاصہ گروپ تشکیل دے دیا اور اپنی سوزوکی میں سوار ہوکر شہر کے دور دراز علاقوں میں جاکر قو٘الی گانا شروع کردیا۔
طلحہ فرید صابری، امجید فرید صابری اور عظمت فرید صبری
اس دوران چچا واپس پاکستان آگئے تھے۔ ثروت کے بقول ان کے بالکل برابر والے گھر میں چچا کا خاندان مقیم ہے۔ پہلے ہمارے گھر کے سامنے ہمارا ایک دفتر ہوا کرتا تھا جہاں اب٘ا جی اور چچا ریاض کیا کرتے تھے۔ امجد وہاں چچا کے پاس اپنی ڈائری لے کرگیا، یہ دکھانے کے لیے کہ کتنے سارے پروگرام مل گئے۔ وہ سمجھ رہا تھا چچا شاباشی دیں گے اور کہیں گے کی تو نے تو میری غیر موجودگی میں کام چلا دیا۔
وہاں مقبول نے امجد کو یہ کہہ کر چلتا کیا کہ اب تم اپنی قو٘الی خود ہی کرو۔ ثروت کے مطابق یہ سن کر امجد کا دل ٹوٹ گیا اور وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس گئے۔ ام٘ی نے اس سے کہا کہ اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ تم جوان آدمی ہو تمہیں کیا پریشانی؟ دل کرتا ہے تو قو٘الی کرو ورنہ تم لوگ پانچ بھائی ہو کچھ نہ کچھ تو کما کر لا ہی سکتے ہو۔
والدہ کی بات سن کر امجد کو حوصلہ ملا اور اس دن کے بعد سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یوں 1996ء سے بحیثیت قو٘ال ان کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اس دوران مقبول اپنی الگ پارٹی بنا کر قو٘الی کرتے رہے۔ ایک حادثے میں ان کی ٹانگ کی ہڈ٘ی ٹوٹ گئی اور پھر بھارت کے دورے کے دوران وہ ایک جگہ سیڑھیوں سے گرگئے جس کے سبب ان کی کولہے کی ہڈ٘ی بھی ٹوٹ گئی۔ سال گزرتے گئے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ امجد ان سے زیادہ مشہور ہوگئے اور اپنے چچا کو پروگرام دلانے میں مدد کرنے لگے۔ ثروت کہتے ہیں اس تمام ناچاقی کے باوجود انہوں نے چچا سے تعلق قائم رکھا۔ خون کے رشتے ختم تو نہیں کیے جاسکتے۔ ہم آج تک اُن سے بہت محبت کرتے ہیں۔
ثروت کہتے ہیں ویسے تو گانے کے معاملے میں اُن کے چچا کا کوئی ثانی نہیں لیکن امجد بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ ایک مرتبہ ہوا یوں کہ کراچی میں ایک جگہ محفل ہورہی تھی اور چچا گا رہے تھے۔ پچھلے دروازے سے امجد داخل ہوا تو تمام سامعین مڑ کر اسے دیکھنے لگے۔ یہ دیکھ کر چچا نے کہا کہ سوپر اسٹار امجد صابری تشریف لا چکے ہیں، میں آپ کا مزید وقت ضائع نہیں کروں گا۔
کئی ٹی وی چینلز نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح امجد اپنے چچا کے ہمراہ ایک آدھ کلام ریکارڈ کروادیں۔ امجد تو راضی تھا بلکہ اس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر چچا کہیں گے تو میں پیچھے سنگت میں بیٹھ جاوّں گا لیکن چچا نہیں مانے۔
2011ء میں مقبول اپنے خالق سے جاملے۔ اُن کا بیٹا شمائل مقبول صابری اپنے گروپ کے ہمراہ قو٘الی کرتا ہے۔ اُن کے انتقال کے بعد امجد نے شمائل سے بہت کہا کہ تم میرے ساتھ آجاوّ لیکن وہ بھی نہ مانا۔
ثروت کہتے ہیں اُن کے خاندان نے آج سے پہلے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ مجھے لگتا ہے ہمیں سب کو سچ بتانا چاہیئے۔ میں چچا کی تضحیک کرنا ہرگز نہیں چاہتا لیکن یہ سب واقعات سچ٘ پر مبنی ہیں اور لوگوں تک پہنچنے چاہیئں۔ اگر ہم ان پر بات نہیں کریں گے تو لوگ من گھڑت کہانیاں بنالیں گے۔
امجد کی اپنی دستار بندھی
غلام فرید کی رحلت کے بعد گھر کے بڑے بیٹے ثروت کے سر پر دستار باندھی گئی۔ میں نے اُسی وقت وہ اتار کر امجد کے سر پر رکھ دی تھی۔ میرے حساب سے وہ اُس کا زیادہ اہل تھا اور اُس نے یہ ثابت بھی کیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔