سڑک کنارے روشن ہوئیں علم کی شمعیں۔۔۔

فٹ پاتھ اسکولوں میں زیرتعلیم بے گھر بچوں کی آنکھیں بھی ترقی کے سپنے دیکھنے لگیں

گلی کے بچوں کے حوالے سے ہمارا رویہ درست نہیں ہے، منتظم فٹ پاتھ اسکول سیدہ انفاس علی شاہ ۔ فوٹو : فائل

کلفٹن، کراچی کی مصروف ترین شاہ راہ فردوسی پر یک دم دو مسلح محافظ تمام چلتی ہوئی گاڑیوں کو روک لیتے ہیں۔۔۔ ہماری سڑکوں پر کسی طاقت وَر اور صاحب اختیار کے تحفظ کے واسطے ایسی مشق تو ہوتی رہتی ہے، مگر شہر کے اس منہگے اور امیر ترین علاقے میں اس بار منظر کچھ اور تھا۔۔۔ باوردی محافظوں کا یہ عمل کسی صاحب اقتدار یا بااثر شخص کے لیے نہیں، بل کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے، مفلوک الحال بچوں کو سڑک پار کرانے کے لیے تھا۔۔۔ لاکھوں روپے کی چمچماتی گاڑیاں، ان سڑکوں پر رہنے والے بے کس و بے سہارا بچوں کے لیے ٹھیری ہوئی تھیں، بہت سے وہ بچے بھی تھے، جن کے پیروں کے لیے چپل بھی میسر نہ تھی۔۔۔ ہمارے لیے یہ منظر نیا اور حیران کن تھا۔۔۔ مگر اس سڑک کے لیے یہ مشق اب روز کی بات بن چکی ہے۔

ماجرا یہ ہے کہ محافظوں کے جلو میں سڑک پار کرنے والے یہ بچے ایک پل کے نیچے قائم 'فٹ پاتھ' اسکول کے طالب علم ہیں، جو 'اوشین ویلفیئر آرگنائزیشن' کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ یہاں نہ صرف انہیں بلامعاوضہ زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاتا ہے، بلکہ ہر بچے کو چھٹی کے وقت ایک چپس، جوس اور پچاس روپے بھی دیے جاتے ہیں۔

کتابیں، کاپیاں بھی اسکول کی طرف سے ہی فراہم کی جاتی ہیں۔۔۔ اور کھیلنے کے واسطے کچھ کھلونے بھی۔۔۔ دوران تدریس بھی ہم نے دیکھا کہ بچوں کا نظم وضبط برا نہیں تھا کہ ان کی تو تربیت ہی اس طرح کی نہ تھی، لیکن یہاں چٹائیوں پر جُڑ کر بیٹھے اور کورس میں سبق پڑھتے ہوئے یہ بچے واقعی طالب علم دکھائی دیے۔ ایک بچہ پڑھا رہا تھا، باقی سب پڑھ رہے تھے اور دسیوں دوسرے بچے ہاتھ کھڑا کرکے کسی طرح ٹیچر سے اجازت کے متمنی تھے کہ وہ بھی پوری کلاس کو پڑھانے کا شوق پورا کریں۔

زندگی کی تلخیوں کو پی کر پلنے والے سخت جان، بے سہارا بچوں کے لیے قلم تھامنے کا خواب بھلا کیوں کر پورا ہوتا، اکثر بے گھر ہیں، اور اگر کسی کو چار دیواری میسر بھی ہے، انہوں نے تو ہوش ہی مزدوری کرتے ہوئے سنبھالا۔ یہ بچپن، ننھی خواہشیں، کھلونے اور بے فکری کیا ہوتی ہے، وہ کیسے جان پاتے۔ ایسے میں حصول تعلیم کی کوئی راہ ان کے قریب سے بھی گزرتی تو کیسے۔۔۔ لیکن اب ایسا نہیں، سڑک کے کنارے ہی سہی، اب وہ بھی روزانہ تین گھنٹے کے لیے، تھوڑا تھوڑا بچپن جی لیتے ہیں۔۔۔ ننھے منے ہاتھ اب وضع وضع کے رنگ برنگے کھلونوں کا لمس جاننے لگے ہیں۔۔۔ کچھ جو کھلونوں کی عمر جانے کب چھوڑ آئے، وہ بھی بیتے پلوں کی خواہشوں کو آسودہ کرتے ہیں۔ اب انہیں ایک بستہ بھی ملتا ہے، جس میں بسنے والی کتابوں کے حروف نے ان کے احساس کو جلا بخشی ہے۔۔۔ اب وہ حرف سمجھنے لگے ہیں، انہیں لکھنا آگیا ہے، انہیں بولنے کا سلیقہ اور برتنے کا ڈھنگ آنے لگا ہے۔



ہم کچھ دیر کے لیے ان بے خانماں بچوں کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ یہاں زیرتعلیم ایک بچے اللہ بخش سے گفتگو ہوئی، جو اپنے ایک خالہ زاد بھائی کے ساتھ گزشتہ دو سال سے عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب پلاسٹک کی تھیلیاں فروخت کرتے ہیں، ان کے اہل خانہ لاہور میں ہیں۔ ایک ماہ قبل انہوں نے یہ 'اسکول' دیکھا، تو بس پھر یہاں پڑھنے آنے لگے۔ اب اردو، انگریزی حروف، اپنا نام لکھنا اور رنگوں کے نام وغیرہ سیکھ گئے ہیں۔ سماج کے سرد وگرم کو سہنے والے یہ بچے کہتے ہیں کہ تعلیم بہت کام آتی ہے! اگر یہ پیسے نہ بھی دیں، تب بھی پڑھیں گے۔ پوچھا کہ تعلیم کیا کام آتی ہے؟ تو کہا کہ ''ادھر دھوپ میں تھیلیاں بیچنا پڑتی ہیں، پڑھ لکھ کر کسی دفتر میں بیٹھا کریں گے۔۔۔!''

بہاول پور سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم کے دل میں بے سہارا بچوں کے لیے ایسا ہی مفت اسکول کھولنے کی آشا پنپتی ہے، جب کہ اپنے والدین کے ساتھ لب سڑک زندگی بسر کرنے والی ماریہ کی آنکھیں ڈاکٹر بننے کا سپنا دیکھتی ہیں۔

عدنان اپنی ماں، دو بہنوں اور تین بھائیوں کے ساتھ نیلم کالونی میں رہتے ہیں، باپ نے دوسری شادی کرلی اور انہیں چھوڑ دیا ہے، اب عدنان تازہ پاپڑ بیچ کر زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیلتے ہیں۔ دو، تین سال میں کچھ پیسے جمع ہوجاتے ہیں، تو اپنے گاؤں (جو فیصل آباد کے قریب واقع ہے) ہو آتے ہیں۔ یہاں ایک مہینے کے دوران حرف تہجی اور گنتی سے شناسائی حاصل کرلی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ وہ پولیس یا فوج میں بھرتی ہوں۔

ایک اور طالب علم ضمیر، شاہ رسول کالونی میں رہتے ہیں۔ 'فٹ پاتھ اسکول' کے علاوہ مدرسے بھی پڑھتے ہیں۔ والد ڈرائیوری کرتے ہیں۔ پہلے دادا کے پاس اوکاڑہ میں رہتے تھے، اب والدین کے پاس کراچی آئے، تو یہاں کے طالب علم ہوگئے، لکھنا پڑھنا بہتر کر لیا، اب بہ آسانی اخبار وغیرہ پڑھ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بن کر غریبوں کا بلامعاوضہ علاج کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طالبہ عائشہ نے بھی غربت کے سبب کبھی اسکول کا منہ نہ دیکھا، والد چھوٹی موٹی نوکری کرتے ہیں، انہوں نے ہی اسے یہاں پڑھنے بٹھایا۔ نیلم کالونی کی زبیدہ نے کچھ دن قبل اپنے بھائی سے اس اسکول کے بارے میں سنا، تو یہاں آنے لگی،کہتی ہے کہ ''ہم بس ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں۔''



اوشین ویلفیئر آرگنائزیشن کا پہلا اسکول ڈیفنس میں بدرکمرشیل ایریا میں قائم ہے۔ کلفٹن والا ان کا دوسرا اسکول ہے، جو ایک ماہ قبل قائم کیا گیا۔ اوشین ویلفیئر کی رضاکار نیلوفر کہتی ہیں کہ ان بچوں کو اگر ہم بدر کمرشیل والے اسکول بلائیں، تو یہ ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے ہم نے یہیں ان کی پڑھائی کا بندوبست کیا ہے۔ یہاں بچے اب الف، ب اور اے، بی، سی، ڈی کے علاوہ رنگوں، دنوں اور مہینوں کے نام وغیرہ بھی یاد کر رہے ہیں۔ یہاں بچوں کو پڑھانا شروع کیا، تو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شروع میں پولیس نے بھی کافی تنگ کیا۔ بچوں کے ساتھ مارپیٹ بھی کی گئی۔ ایک طالب علم حسین نے بتایا کہ ہم تھیلیاں بیچتے تھے، تو پولیس اہل کار کہتا تھا کہ تم اسکول جاؤ گے، تو یہاں تھیلیاں بیچنے نہیں دوں گا۔

نیلوفر نے بتایا کہ ان میں سے بہت سے بچے یہیں پُل کے نیچے ہی مستقل بسیرا کیے ہوئے ہیں، ان کی مائیں کام کرنے جاتی ہیں، تو بچوں کو یہیں چھوڑ کر جاتی ہیں۔ 'فٹ پاتھ اسکول' میں پڑھنے والے تمام یتیم اور خانہ بدوش بچوں کو پچاس، پچاس روپے دیتے ہیں، البتہ جن کے والد کام کرتے ہیں، انہیں پیسے نہیں دیتے۔ اسکول کے وسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر انحصار ہمارے رضاکاروں کے تعاون پر ہی ہے۔ کچھ دیگر لوگ اسٹیشنری وغیرہ دے دیتے ہیں۔ یہاں 125 بچے اور دو ٹیچر ہیں۔ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر مزید اساتذہ رکھنے پڑیں گے۔

ہماری گفتگو کے دوران اِس اسکول کا وقت تمام ہوا اور کچھ بچوں نے دوسرے اسکول لے جانے کے لیے چٹائیاں، میز کرسیاں، کتابیں، کاپیاں اور بورڈ وغیرہ سمیٹنا شروع کردیے۔ ہم نے بھی بدرکمرشیل ایریا میں واقعے دوسرے 'فٹ پاتھ اسکول' کا رخ کیا، جو ایک خالی پلاٹ پر قائم کیا گیا ہے۔ اس اسکول کا وقت سہ پہر چار بجے شروع ہوتا ہے۔ یہاں پڑھنے والے تقریباً تمام ہی بچے کچرا چننے والے ہیں، جو سارا دن کمر پر تھیلا لادے کوڑے کے ڈھیر کے ذریعے اپنے رزق کا سامان کرتے ہیں۔

ابھی اسکول شروع ہونے میں آدھا پون گھنٹا باقی تھا، ہم نے دیکھا کہ ایک بچہ سڑک کی درمیانی پٹی پر بے نیازی سے بیٹھا ہے۔ یہ اسی اسکول کا طالب علم نجیب اللہ ہے، جو روزانہ بارہ گھنٹے گلیوں اور سڑکوں سے کچرا چنتا ہے، اور اسے فروخت کرکے یومیہ تین، چار سو روپے کما لیتا ہے۔ ایک مہینے سے یہاں زیرتعلیم ہے، لکھنا پڑھنا سیکھ گیا ہے۔ قندھار (افغانستان) سے تعلق ہے۔ حب چوکی میں واقع گھر ہفتے میں ایک بار جاتے ہیں، باقی دن یہیں کی گلیوں میں بسیرا ہوتا ہے۔ جب نجیب اللہ سے پوچھا کہ یہاں پڑھتے ہو تو اس سے تمہارے کام کا حرج نہیں ہوتا؟ تو کہنے لگے کہ ''ہم تین گھنٹے میں کتنا کچرا چن لے گا؟''پیسے اور بریانی نہ بھی ملے (یہاں کے بچوں کو چپس کے بہ جائے بریانی ملتی ہے) تب بھی وہ یہاں پڑھنے کے لیے پرعزم ہیں، کہتے ہیں،''پڑھ لکھ کر افسر وفسر بنے گا، دفترمیں بیٹھے گا۔'' سوات سے تعلق رکھنے والا عطا اللہ بھی کچرا چنتے ہیں اور رات کو یہیں گلی کے کسی کونے پر سوجاتے ہیں۔ دو ہفتے سے یہاں زیرتعلیم ہیں۔ پڑھ کر کچھ بننے کے خواہش مند ہیں۔



ایک نجیب اللہ اور عطااللہ پر کیا موقوف۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہاں کچرا چننے والے بچے جمع ہوتے گئے۔۔۔ پرانے بوسیدہ کپڑوں اور گرد سے اٹے پورے وجود کے باوجود 'اسکول' آنے کی مسرت سے ان کے چہرے خوب دمکتے ہیں۔۔۔ ہم نے دیکھا ابھی اسکول شروع ہونے میں کافی وقت باقی ہے، لیکن کچرا چننے والے بہت سے ننھے منے بچے اپنے اپنے بورے ایک طرف دھرتے ہیں اور جلدی سے اس کی جگہ اسکول کے سامان میں رکھے رنگ برنگے بستوں کے ڈھیر میں سے اپنا بستہ ڈھونڈتے ہیں اور بورے کی جگہ اسے اپنے کندھے پر ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ اس سے تعلیم سے ان کی دل چسپی اور لگن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

فٹ پاتھ اور اسکول کا سمبندھ کیسا؟ اوشین ویلفیئر کی صدر سیدہ انفاس علی شاہ سے پہلا سوال ہم نے بھی یہی پوچھا، جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ سڑکوں پر رہنے والے ان بچوں کے علاج وغیرہ کے حوالے سے کام کر رہے تھے، لیکن ان کی پڑھائی کا سلسلہ نہیں تھا۔ سانحۂ آرمی پبلک اسکول، پشاور (16 دسمبر 2014ء) کے بعد جب یہ لہر آئی کہ اسکولوں کے تحفظ کے لیے دیواریں اونچی کرلی جائیں اور اساتذہ کو اسلحہ دے دیا جائے تو ہم نے اس کے برعکس سڑک کے کنارے ان بے سہارا اور لاوارث بچوں کو پڑھانا شروع کیا، جنہیں دہشت گرد استعمال کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہی دراصل وہ بنیادی ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم دہشت گردی کے مسئلے کو جڑ سے ختم کرسکیں گے۔ اس سے پہلے بھی حسن شیریں اسکول کے نام سے اس طرح کا ایک ادارہ قائم کیا تھا، جو اب ان کی بھانجی چلا رہی ہیں، وہاں پندرہ بچے پڑھتے ہیں۔

بدرکمرشیل ایریا کے فٹ پاتھ اسکول کے سارے بچے افغانی ہیں۔ کلفٹن کے اسکول کے دس ایسے بچے بھی یہاں آتے ہیں، جو پڑھائی میں اچھے ہیں اور ان کے معاشی حالات کافی خراب ہیں۔ اس لیے وہ یہاں کام بھی کرتے ہیں، اور پڑھ بھی لیتے ہیں۔ انہیں یہاں اس کے پیسے بھی دیے جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی گزر بسر بھی ہوجاتی ہے اور یہاں کی مصروفیت کے سبب یہ بچے غلط صحبت سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔ کچرا چننے والے بچے ننگے پیر پھرنے کی وجہ سے الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کے ہاتھ پیر دھلوانے کے علاوہ دوا، کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔

انفاس علی شاہ کو شکایت ہے کہ گلی کے ان بچوں کے لیے لوگوں کا رویہ نہایت غیرمناسب ہے۔ وہ صرف اپنے بچوں کو ہی اپنا سمجھتے ہیں، جو لوگ ان بچوں کا خیال بھی رکھتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ ان بچوں کے لیے ڈھائی، ڈھائی سال پرانی ایکسپائری کی چاکلیٹ دے جاتے ہیں! ان بچوں کو پڑھانے کے حوالے سے مسائل کے اعتراف کے ساتھ ان کا کہنا ہے کہ یہ بچے سماج کو وہی لوٹاتے ہیں، جو انہیں دیا جاتا ہے۔ مسائل کے ذیل میں انفاس علی شاہ نے بتایا کہ کچرا چننے والے یہ بچے نہایت سخت مزاج ہوتے ہیں، ان میں غصہ اور نفرت کے جذبات بہت زیادہ ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے ذراسی بات پر سگے بھائی تک کو زخمی کر دیتے ہیں۔ یہ چوں کہ سارا دن گلی کوچوں میں گھومتے رہتے ہیں، اس لیے ان کے اندر حس نہیں ہوتی، اب پڑھ کر ان کے اندر احساس آنے لگا ہے، ایک بھائی کو ڈانٹ پڑتی ہے، دوسرا بچہ آکر اس کی سفارش کرتا ہے اور اگر کسی بچے کو بطور سزا اسکول سے نکال بھی دیں، تو وہ بچہ چار دن تک اسکول کے آس پاس ہی گھومتا رہتا ہے، پھر آکر معافی مانگتا ہے، یعنی اب ان کے اندر بھی اچھے برے کا جذبہ آنے لگا ہے۔

بچوں کے اندر پڑھنے کی دل چسپی پیدا ہوئی ہے کہ کچرا چُن کر کمانے والے بچے پیسہ خرچ کر کے پڑھنے کو تیار ہیں، تین گھنٹے میں ان کا دل نہیں بھرتا، جب ہم جا رہے ہوتے ہیں، تو جب تک ہماری گاڑی چلی نہیں جاتی یہ بھی کھڑے رہتے ہیں، ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں۔ اگر انہیں سارا دن بھی پڑھایا جائے، تو وہ سارا دن بھی پڑھ لیں گے۔




اسٹریٹ چلڈرن کے طریقۂ تدریس کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اسی طرح غیر رسمی طریقے ہی سے ممکن ہے۔ یہ رات رات بھر کچرا چنتے ہیں، اس لیے ان کے پاس پڑھائی کا یہی وقت ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری اسکول کے بچوں کو اسٹریٹ چلڈرن قرار دے دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے قبل ایک فن کار کی این جی او کو اسٹریٹ چلڈرن کو پڑھانے کے حوالے سے جانا گیا، ان کے اوپر تک تعلقات تھے، اس لیے انہیں شہر کے بڑے بڑے اسکول دے دیے گئے، جن میں ہزاروں بچے پڑھتے تھے۔ سرکاری اسکول کے بچوں کو اسٹریٹ چلڈرن دکھا دیا گیا اور سب ان کی واہ واہ کرنے لگے۔

ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہر اچھا سرکاری اسکول این جی او کو دے دیا گیا ہے، جب کہ خراب اسکول لینے چاہئیں، بل کہ انہیں خود اپنے اسکول بنانے چاہیئں۔ اس لیے این جی اوز والے بھی مجھے اچھا نہیں سمجھتے، ان کے تعلقات بھی ہوتے ہیں، تو وہ رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔

مستقبل قریب کے منصوبوں کے حوالے سے انفاس علی شاہ نے بتایا کہ وہ سب سے پہلے اسکول کا سامان لانے اور لے جانے کے لیے ایک گاڑی لیں گی، اس کے بعد شہر کے مختلف علاقوں میں ایسے اسکول قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ چاہتی ہیں حکومت ہر ضلع میں ایسے بچوں اور بچیوں کا ایک ہوسٹل بنائے۔ آٹھویں کلاس تک لازمی تعلیم کے بعد ان کے رجحان کے مطابق انہیں تعلیم و ہنر سے آراستہ کیا اور وظیفہ ضرور دیا جائے، کیوں کہ یہ دس سے چودہ ہزار روپے تک تو ویسے ہی کمالیتے ہیں، اس لیے کم ازکم 12 ہزار روپے دیے جائیں۔ اسی طریقے سے ہم گلی کے بچوں کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں، ورنہ اتنی این جی اوز ہیں مگر سڑک پر پھرنے والے بچوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

بچے اگرچہ بے گھر اور بے سہارا ہیں، لیکن ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی ہے، نام اور سرپرست کے کوائف درج ہوتے ہیں۔ اس لیے اس تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ ان بچوں کے پاس کوئی قانونی یا شناختی دستاویز نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں سڑک پر پھرنے والے بچے سے مطلب ہے۔ چاہے اس کا تعلق کسی بھی عقیدے اور علاقے سے ہو، اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

روزانہ فی بچہ پچاس روپے اور ان کے کھانے پینے کے اخراجات کی بنا پر یہ سلسلہ اچھا خاصا گراں ہے۔ اس کے اخراجات کیسے اٹھائے جاتے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر تو اوشین ویلفیئر کے رضاکار ہی اس میں حصے دار ہیں، تاہم کبھی کچھ دیگر لوگ بھی ہاتھ بٹا دیتے ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے اپنے اخراجات کئی گنا کم کیے۔ ہماری زندگی کا محور ہی یہ اسکول ہیں۔ اپنے رشتے داروں سے نہیں ملتے، شادیوں میں نہیں جاتے۔ ہمارے اسکول بالکل کُھلے ہیں، کسی بھی وقت کسی بچے سے بھی کہیں بھی پوچھ لیں کہ کس طرح اور کیا پڑھاتے ہیں۔

بچوں کی صرف اتوار کی تعطیل ہے، گرمیوں کی چھٹیاں نہ دینے کا سبب بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگ بچوں کو بہکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے چھٹیوں کا رسک نہیں لے سکتے۔ کبھی دس منٹ تاخیر ہو جائے، تو ان بچوں کے چہرے اتر جاتے ہیں۔ بچے ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ نہیں آئیں، تو فلاں کہہ رہا تھا کہ آپ کی باجیاں بھاگ گئیں۔

لوگوں کے لیے اپنے پیغام میں انفاس علی شاہ نے کہا کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور صرف وہ بچے نہیں، جو آپ کے ہیں، بل کہ گلیوں کے بے گھر، خانہ بدوش بچے بھی۔ اگر آپ ان کو اپنا نہیں سمجھیں گے، تو یہ آپ کے بچوں کے لیے بھی مسائل کا باعث بنیں گے۔ آج ہم دہشت گردی کی صورت میں اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ جو بچے بگڑ کر چور ڈاکو بنتے ہیں وہ کوئی باہر سے آکر نہیں بناتا، بلکہ یہ ہم سب کی غفلت اور غلطیوں کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔

٭ ہر کام 'ڈو اینڈ ڈائی' کے طور پر لیتی ہوں، انفاس علی شاہ
اوشین ویلفیئر کی صدر سیدہ انفاس علی شاہ پندرہ، سولہ سال کی عمر ہی سے عملی زندگی میں سرگرم ہیں۔ بوتیک، فروزن فوڈ کے بعد اب تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ فٹ پاتھ اسکول شروع کیا، تو کاروبار کافی متاثر ہوا، اسے ازسرنو بحال کرنا ہے۔ تعلیمی نظام سے کافی شکایات ہیں۔ جامعہ کراچی سے پرائیویٹ طالبہ کے طور پر بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کے مراحل طے کر رہی ہیں۔

سماجی خدمت کا جذبہ اپنے بزرگوں سے پایا۔ اس حوالے سے خواتین کو زیادہ مخلص خیال کرتی ہیں۔ اوشین ویلفیئر میں کچھ مرد حضرات بھی شامل ہیں، مگر انفاس کا کہنا ہے کہ مرد کام سے پہلے اپنی سہولت اور آرام دیکھتے ہیں، جب کہ ہم خواتین ہر مرتبہ ترجیح کام کو دیتی ہیں اور بیماری اور مصروفیات کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔ گھر سے باہر پیش آنے والی مشکلات کو 'ڈو اینڈ ڈائی' کے طور پر لیتی ہیں، تو پھر کوئی کام مشکل نہیں رہتا۔تعلیم کے میدان میں سرگرمی کا عرصہ پانچ برس پر محیط ہے۔

اس سے پہلے ایک سرکاری اسکول میں کام کیا۔ یہ ایک ناخوش گوار تجربہ تھا، جس میں بقول ان کے کہ فقط پیسہ اور وقت ضایع ہوا۔ ایسے بہت سی غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) ہیں، جو اسکول گود لیتی ہیں اور پھر اس کے نام پر پیسے جمع کرتی ہیں اور پھر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ ہم نے کوئی اسکول نہیں لیا، بل کہ اسکولوں کی ضروریات پوری کیں۔ یہ سلسلہ ڈھائی سال تک جاری رہا۔ لیاری میں ہم نے چالیس ہزار کاپیاں دیں، جو وہاں کے اساتذہ نے 50، 50 روپے میں فروخت کردیں، اس کے بعد ہم نے سڑکوں کے بے سہارا بچوں کے لیے کام شروع کیا، یہ سلسلہ اب دو فٹ پاتھ اسکولوں کی صورت میں جاری ہے۔

٭ سرمایہ دارانہ سفاکیت کا مظہر!
کلفٹن کے فٹ پاتھ اسکول پر ہمیں سرمایہ دارانہ بے رحمی اور اس سفاک نظام کا تضاد ایک ساتھ دکھائی دیا۔ شہر کے اس آسودہ حال حصے میں ملک کی سب سے اونچی عمارت اپنی بلندیوں کے مراحل طے کر رہی ہے۔۔۔ اور اسی کے سائے میں روٹی، کپڑے اور چھت کو ترستے بچے اس مال وزر کے نظام کا خراج بنے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ سرمایہ داروں نے ہر ضرورت کے گرد روپے پیسے کی ایسی مضبوط اونچی فصیل تعمیر کردی ہے کہ خلق خدا بنیادی ضرورتوں تک کے لیے ترس کے رہ گئی ہے۔

کہیں تجوریاں بھری جا رہی ہیں، تو کہیں لوگ جانتے تک نہیںکہ پیسہ کس بلا کا نام ہے، کہیں پُرتکلف کھانے پینے اور ملبوسات کے نام پر لاکھوں روپے پانی کی طرح بہادیے جاتے ہیں، تو دوسری طرف ننگ اور فاقے ہیں۔۔۔ پھر دولت کے ڈھیر پر جمے ہوئے یہ لوگ ''رحم'' کھاتے ہیں اور خیرات کے نام پر چند سکے ان مفلوک الحال لوگوں کی سمت اچھال دیتے ہیں اور دردِانسانیت کے تمغے اپنے سینے پر سجا کر جائز و ناجائز دولت سے سب کی توجہ بھٹکا دیتے ہیں۔ اس طرح غربت کو مٹنا ہے اور نہ ہی یہ مٹی ہے، کیوں کہ غریبوں کے حقوق کے چیمپئن بننے والے یہی سفاک سرمایہ پرست ہی تو اس سماج کی مفلسی، غربت اور بھوک کے اصل ذمہ دار ہیں، لیکن یہ انسانوں کے بنیادی حقوق خیرات کے کشکول میں ڈال کر گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہیں۔ یہ سارا ماجرا کلفٹن جیسے علاقے میں ان مفلوک الحال بے گھر بچوں کو دیکھ کر بہ خوبی سمجھ میں آرہا تھا۔

٭غیرسرکاری تنظیمیں کیوں ناپسند ہیں؟
سیدہ انفاس علی شاہ این جی اوز کی کارکردگی کی سخت ناقد ہیں، کہتی ہیں کہ میں نے اپنی این جی او بھی فقط اس لیے بنائی ہے کہ رجسٹرڈ این جی او کے بغیر کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ ہمارے ہاں کی غیرسرکاری تنظیمیں بنا بنایا اسکول لے کر پیسے حاصل کرلیتی ہیں، حکومت سے الگ پیسے لیتی ہیں اور اس کے بعد اسکول میں پہلے سے زیرتعلیم بچوں کے نام پر چندہ بھی لیتی ہیں۔ اگر این جی اوز یا حکومت اچھا کام کر رہی ہوتی، تو آج گلیوں کے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ حکومت کو چاہیے، وہ خود اپنے اسکولوں کی طرف توجہ دے۔ غیر سرکاری تنظیمیں اپنے علیحدہ اسکول بنائیں۔

این جی اوز کو دنیا بھر سے اتنا پیسہ ملتا ہے، وہ اسے خرچ کیوں نہیں کرتیں۔ انہیں اگر حکومت ہی کے اسکول چلانے ہیں، تو پھر ان کا کیا فائدہ؟ اسی صورت حال کی وجہ سے انہوں نے کسی این جی او سے جڑنے کے بہ جائے، شروع سے ہی الگ حیثیت میں کام کیا۔ کہتی ہیں کہ کام غریبوں کے لیے کر رہے ہیں اور اپنے پروگرام پنج ستارہ ہوٹل میں جا کر کرتے ہیں، جہاں مقررین کو آکر بولنے کے لیے بھاری رقم دیتے ہیں۔ ٹریننگ پروگراموں کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں۔ حکومت ادارے این جی او کو دے رہی ہے، تو خود کیا کر رہی ہے؟ ہمارے ہاں جس اداکار، گلوکار اور کھلاڑی کو دیکھیے، وہ این جی او بنالیتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا نہیں ہوتا، بل کہ وہ لوگ این جی او کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ہمارے ہاں اپنی این جی او بنانے کا رجحان زیادہ ہے۔

٭ ''آپ کو بہت شوق ہے ناں۔۔۔!''
سڑک کے کنارے درس وتدریس کے تجربات کا تذکرہ کرتے ہوئے انفاس علی شاہ نے بتایا کہ کچھ دن پہلے ایک پولیس والے نے ان سے کہا کہ آپ کو بہت شوق ہے ناں سڑک پر پڑھانے کا۔ دہشت گرد تو این جی اوز والوں کو سامنے سے گولی مارتے ہیں، میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے، وہ میرے ماتھے پر گولی ماریں، مجھے کوئی پروا نہیں۔ جب اللہ پر ایمان ہو اور خوف صرف اسی کا ہو تو سارے کام آسان ہوجاتے ہیں۔

'اوشین ویلفیئر' کی رکن نیلوفر نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دن ایک شخص نے آکر ہنگامہ کیا کہ وہ مسلمان بچیوں کو پڑھنے نہیں دے گا، اسے پولیس کے حوالے کیا، تو پولیس نے اسے سبزی فروش کہہ کر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہمارے تحفظ کے لیے پولیس کے سپاہی کبھی آتے تھے اور کبھی نہیں، اس لیے اب ہم نے اپنے دو محافظ رکھ لیے ہیں۔ یہ محافظ روزانہ اسکول شروع ہونے سے آدھے گھنٹے قبل آجاتے ہیں اور اپنی حفاظت میں بچوں کو سڑک پار کراتے ہیں اور اس کے بعد ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

٭پُل بدصورت لگتا ہے!
کلفٹن میں فٹ پاتھ اسکول جس پل کے نیچے قائم ہے، وہ پل ایک نجی تعمیراتی ادارے نے تعمیر کرایا۔ جب انہوں نے یہاں بچوں کو پڑھانا شروع کیا، تو اس ادارے نے بھی اعتراض کیا کہ اس سے ''پُل بدصورت لگے گا'' جس پر انہوں نے کہا کہ جب بچے یہاں بے یارومددگار پڑے ہوتے ہیں، غلط استعمال ہوتے ہیں، تب پُل کی خوب صورتی متاثر نہیں ہوتی؟ اب اگر بچے پڑھ رہے ہیں، تو پُل بدصورت لگنے گا۔ اس طرح پولیس اور سول سوسائٹی سے لے کر این جی اوز تک۔۔۔سب ہی کو تکلیف ہونے لگتی ہے۔ یہ پل اگرچہ ایک نجی تعمیراتی ادارے نے بنوایا ہے، لیکن یہ عوامی ملکیت ہے۔

سڑک کے کنارے بچوں کو پڑھاتے دیکھ کر جہاں بہت سے لوگوں کو اعتراض ہوا وہیں ایک دفعہ ایک غیرسرکاری تنظیم کی خاتون نے بھی بہت لے دے کی کہ یہ کیا تم سڑکوں پر بیٹھ گئیں، سامنے میرا اسکول ہے، وہاں جاؤ۔ جب انہیں یہ کہا گیا کہ یہ گلیوں میں رہنے والے بچے ہیں، یہیں پر پڑھتے ہیں۔ یہ تو آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ اتنے عرصے سے کام کر رہی ہیں، ایک سرکاری اسکول گود لیا ہوا ہے اور آپ کے اسکول کے باہر ہی سے مجھے پچاس بچے مل جاتے ہیں، جنہیں آپ اسکول سے نکال دیتی ہیں، انہیں ہم پڑھا رہے ہیں۔ انفاس کا کہنا ہے کہ ان خاتون کو یہ فکر ہوگئی کہ اگر ان کے اسکول کے باہر ہی یہ دو سو بچے لے کر بیٹھ گئی، تو ان پر بات آئے گی کہ انہیں پڑھانے کے لیے بچے کیوں نہیں ملے، ان کے لیے فنڈ کا مسئلہ ہو جائے گا۔
Load Next Story