بحیرۂ جنوبی چین کا تنازع دنیا کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے
سفارتی اور تجارتی لحاظ سے بحیرۂ جنوبی چین کے کنٹرول کا تنازع مشرقی ایشیاکے ممالک کے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
نیدر لینڈز کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی سمندری تنازعات سے متعلق بین الاقوامی ٹریبونل (Permanent Court of Arbitration)کی جانب سے رواں ماہ کی 12تاریخ کو بحیرۂ جنوبی چین (South China Sea) کے قدیم تنازع کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔
چین نے اس ٹریبونل کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے بحیرۂ جنوبی چین کے پانیوں پرایک بار پھر اپنی صدیوں پرانی ملیکت کے دعوے کا اعادہ کیا ہے۔ٹریبونل کے فیصلے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ چین نے فلپائن کے بحری جہازوں اور تیل کے منصوبوں کو خطرے میں ڈال کر فلپائن کی جغرافیائی خودمختاری کے حق کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری جانب چین کے ابلاغی اداروں نے دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (PCA) کو بیرونی طاقتوں کی ''کٹھ پتلی'' قرار دیا ہے اور چینی حکومت نے اس تنازعے کے بعد ایک وائٹ پیپر بھی جاری کیا ہے۔
جس میں اس تنازعے کے پیش منظر اور پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ گزشتہ دوہزار سال سے چینی باشندے بحیرۂ جنوبی چین میں سکونت پذیر ہیں اور چین ہمیشہ سے ان علاقوں اور جزائر پر اپنی خودمختاری کا حق رکھتا ہے۔ چینی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ فلپائن یہ تنازع یک طرفہ طور پر عالمی ثالثی عدالت میں لے کر گیا تھا جس کا اسے کوئی حق نہیں اور نہ ہی ثالثی عدالت اس کی سماعت کا اختیار رکھتی تھی۔ چین نے مزید کہا ہے کہ وہ بحیرۂ چین کے اس حصے پر ایک ائیر ڈیفنس زون قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس سمندری تنازع کے ایک اور فریق تائیوان نے بھی فیصلے کے بعد اس علاقے میں اپنا سمندری بحری جنگی جہاز بھیج دیا ہے جس کے ردعمل میں چینی جنگی طیاروں نے اس علاقے میںفضائی گشت شروع کر دیا ہے۔
چین کے صدر ژی جن پنگ کا کہنا ہے کہ وہ اس خطے میں اپنے ملک کے مفادات کا' سختی سے دفاع'کریں گے۔علاوہ ازیں چین کے وزیر خارجہ نے بھی امریکی اسٹیٹ سیکریٹری جان کیری کو گزشتہ ہفتے ٹیلی فون کر کے چین کی سالمیت اورخودمختاری کو نقصان پہنچانے سے باز رہنے کی تنبیہہ کی ہے۔چینی وزیر خارجہ کا وہ بیان بھی اخبارات کی زینت بنا جس میں انہوں نے اس فیصلے کو ''قانون کی آڑ میں سیاسی مضحکہ خیزی'' قرار دیا۔چین کی جانب سے ثالثی کمیشن پر یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ اس کے پینل میں کوئی بھی ایشیائی باشندہ کیوں شامل نہیں ہے۔ خیال رہے کہ چین بحیرۂ جنوبی چین پر اپنے دعوے کی بنیاد ان ''نو ڈیش لائنز'' پر رکھتا ہے جو بحیرۂ جنوبی چین کے مرکزی علاقے میں دور نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ سینکڑوں متنازع جزیروں ،مچھلی کی بڑی شکار گاہوں اورمونگے کی چٹانوں (Reefs)اور تیل اور گیس کے ذخائر کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے چین اس علاقے کے 90 فی صد حصے کا دعوے دار ہے۔
سفارتی اور تجارتی لحاظ سے بحیرۂ جنوبی چین کے کنٹرول کا تنازع مشرقی ایشیاکے ممالک کے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سمندری گزرگاہ پرچین کے علاوہ ویت نام، تائیوان، ملائشیا، برونائی، فلپائین اور جاپان اپنے حق کے دعوے دار ہیں لیکن عالمی منظر نامے میں اس کے سب سے نمایاں فریق چین اور فلپائن ہیں۔دیگر فریق ممالک کا دعویٰ ہے کہ چین نے 1986ء میں یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے اپنے جنوب میں واقع سمندر پر قبضہ کیا جبکہ شمال میں پیریسل چین پر ویت نام کا دعویٰ ہے اور اسی سمندر کے جنوبی حصے پر ملائشیا، فلپائن اور برونائی کے مشترکہ دعوے ہیں۔
اس علاقے پر قبضے کے لیے 1988ء میں چین اور ویت نام جبکہ 1995ء میں چین اور فلپائن کے درمیان جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔بحیرۂ جنوبی چین کی اہمیت کی ایک وجہ اس راستے سے سالانہ تقریباً 5ٹریلین ڈالرزکی تجارت کا ہونا ہے، جس کے ساتھ دنیا کے کئی اہم ممالک کے مفادات کا براہ راست تعلق ہے۔یہ حجم کے اعتبار سے دنیا بھر کی کل سمندری تجارت کے نصف کے برابر بنتی ہے اور دنیا بھر میں شکار کی جانے والی مچھلی کا 10 فی صد بھی اسی سمندری علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے توانائی کے دو تہائی وسائل جبکہ تائیوان اور جاپان کے 60فی صد اور چین کے درآمد ہونے والے 80 فی صد خام تیل کا دارومدار اسی بحیرۂ جنوبی چین پر ہے ۔
اگربالفرض چین اس آبی گزر گاہ کو ان ممالک کے جہازوں کے لیے بند کر دیتا ہے تو متبادل راستے سے درآمدات پر فلپائن کو سالانہ 600ملین ڈالرز جبکہ جنوبی کوریا 270ملین ڈالرز اورآسٹریلیا کو20 ملین ڈالرز اضافی خرچ کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ بحیرۂ جنوبی چین میںتیل اور گیس کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں جو اس کے ساحل کے آس پاس رہنے والے تمام چھوٹے بڑے ممالک کی اس خطے میں گہری دلچسپی کا بڑا سبب ہیں۔اس سمندر کی تہہ میں انہی ذخائر کی موجودگی کی وجہ سے بعض عالمی تجزیہ کاروں نے اس خطے کو ''دوسری خلیجِ فارس '' بھی قرار دیا ہے۔
امریکن انرجی انفارمیشن ایجنسی کے مطابق بحیرۂ جنوبی چین میں 11بلین بیرل(میکسیکو کے تیل کے کل وسائل کے برابر) تیل جبکہ190 ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ امریکا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین سے مستقل طورپر خطرہ محسوس کر رہا ہے ،آبی گزرگاہوں کے اس تنازعے میں چین کا بالواسطہ حریف ہے اور ماضی میں فلپائن اور تائیوان وغیرہ کے ساتھ عسکری و دفاعی معاہدے کر کے چین پر مسلسل دباؤ بڑھانے کی کوششیں بھی کرتا رہا ہے۔امریکا کا اصرار ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کوآزاد بین الاقوامی پانیوں میںشمار کیا جانا چاہیے اور اس تجارتی آبی گزرگاہ میں نیوی گیشن کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔
یہ مسئلہ فلپائن نے 2013ء میں عالمی ثالثی عدالت میں اٹھایا تھا اور اس نے ثالثی عدالت سے درخواست کی تھی کہ سمندری حدود کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن (UNCLOS) کی روشنی میں چین کے ''نائن ڈیش لائنز'' والے ملکیتی دعوے کاجائزہ لیا جائے ۔ثالثی عدالت کے فلپائن کے حق میں آنے والے فیصلے کے بعد عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کی آراء میں کافی تنوع دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس اہم مسئلے پر دنیا ایک بار پھر دو بلاکوں میں میں تقسیم ہونے جا رہی ہے اور اس معرکے میں چین اور امریکا آمنے سامنے ہوں گے۔
اس حوالے سے بیونس آئرس یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار پولیڈی سیمونے کا تنقیدی تبصرہ دلچسپ ہے ۔ ا ن کا کہنا ہے کہ اس تنازع کو ثالثی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ 2002ء میں فلپائن کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کی صریح خلاف ورزی ہے ،جس میں کہا گیاتھا کہ فریقین اس مسئلے کو دوستانہ مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے حل کر یں گے۔
اس ضمن میں چند برس قبل امریکی جریدے فارن پالیسی میں تجزیہ کار رابرٹ کیپلن نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ''جس طرح پہلی جنگ عظیم کا میدان جرمنی بنا تھا ،اسی طرح بحیرۂ جنوبی چین بھی مستقبل میں ایک بڑی جنگ کا میدان بنے گا''۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ کوئی تباہ کن جنگ نہیں ہو گی بلکہ دھمکیوں اور ایک دوسرے کے بحری جہازوں کو پیچھے دھکیلنے یا ان کی نقل وحرکت پر کڑی نگاہ رکھنے تک محدود ہوگی۔ ہاں اگر چین اس علاقے (نائن ڈیش لانئز کا احاطے) سے بھاری پیمانے پر تیل اور گیس کے ذخائر کے حصول کے لیے کام شروع کرے گا تو صورت حال میں شدید تناؤ پیدا ہو جائے گا۔
پی سی اے کے اس فیصلے کے بعد مختلف ممالک نے اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے چین اور اس کے حریف فلپائن کی حمایت یامخالفت کے اشارے دیے ہیں۔ چین کے ایک اخبار ''چائنا ڈیلی ''نے اپنے صفحۂ اول پر ایسے 50 ممالک کے نام شائع کیے ہیںجو بحیرہ جنوبی چین کے تنازع میں اُس کے ساتھ حمایتی کے طور پرکھڑے ہیں۔
اس فہرست میں جاپان کا نام دیکھ کر '' ٹائم میگزین'' نے لکھا کہ جاپان اس فہرست میں اپنا نام دیکھ کر حیران تو ہوا ہو گا۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق کنیڈا، جرمنی، جاپان،امریکا،فرانس،اٹلی،برطانیہ اور ویت نام اس فیصلے کے حق میں فلپائن کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ کمبوڈیا، کینیا، نائیجیریا، تاجکستان، بھارت، لائبیریا، شمالی افریقہ، تائیوان ،قازقستان، میانمار ، روس،سری لنکا اور پاکستان نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ یہ مسئلہ فریقین کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔
اس ساری صورت حال اور عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندی کو سامنے رکھتے ہوئے چین کو اس اہم آبی گزر گاہ کے حوالے سے از سر نو اپنی پالیسی ترتیب دینا ہوگی تاکہ اسے دیگرطاقتور ممالک کی جانب سے کم سے کم دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرے یہ کہ اگر چین عالمی ثالثی کمیشنوں پر چین مخالف طاقتور ممالک کے زیر اثر ہونے کے خدشات رکھتا ہے تواس کے لیے بہتر آپشن یہ ہو گا کہ وہ اپنے موقف میں کسی حد تک لچک پیدا کر کے اپنے ایشیائی حریفوں کو مذاکرات کی میز پر لائے تاکہ فلپائن، ویت نام،ملائشیا،جاپان اور برونائی وغیرہ کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی جانب مدد کی غرض سے رجوع نہ کرنا پڑے۔خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے فریقین کے درمیان مذکرات ہی بہتر حل کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔
چین اور فلپائن کے درمیان اس دیرینہ تنازع کے سلسلے میں ماضی قریب میں فلپائن کی جانب سے کی جانے والی قانونی چارہ جوئی کے کچھ مراحل یہاں ترتیب وار درج کیے جارہے ہیں۔
22جنوری2013ء : فلپائن نے چین کو اپنے دعوے پر مبنی دستاویز پیش کی ۔
19فروری2013ء: چین نے فلپائن کے اس نوٹیفیکیشن کومکمل طور پر مسترد کر دیا۔
11جولائی 2013ء:دی ہیگ میں اس مسئلے پر ثالثی عدالت کی پہلی میٹنگ ہوئی۔
31جولائی 2013ء: فلپائن نے ٹربیونل کے ضوابط اور طریقہ کار پر اپنی رائے جمع کرائی ۔
یکم اگست 2013ء:چین نے ثالثی عدالت( PCA) کو باخبر کیا کہ وہ فلپائن کی جانب سے اٹھائے گئے اس معاملے کی سماعت کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔
27اگست2013ء : ثالثی عدالت نے پہلے پروسیجرل حکم نامے کی پریس ریلیز جاری کی۔
30مارچ 2014ء : فلپائن نے پی سی اے میں اپنی یادداشت پیش کی۔
14-15مئی 2014ء: دی ہیگ میں ٹریبونل کی دوسری میٹنگ ہوئی۔
21مئی 2014ء :چین نے ٹریبونل کے دوسرے حکم نامے کو بھی مسترد کر دیا۔
29مئی 2014:فلپائن نے ثالثی عدالت کے دوسرے پروسیجرل حکم نامے پر اپنا موقف پیش کیا۔
15دسمبر2014ء: چین نے فلپائن کے خلاف اپنی یادداشت جمع کرانے سے انکار کیا۔
17دسمبر 2014ء : پی سی اے نے پریس ریلیز کے ذریعے تیسرا پروسیجرل حکم نامہ پیش کیا گیا۔
16مارچ 2015ء: فلپائن نے ایک تحریری ضمیمہ ثالثی عدالت میں جمع کرایا۔
20-21اپریل 2015ء:ٹریبونل کی تیسری میٹنگ دی ہیگ میں ہوئی۔
22اپریل2015ء: عالمی ثالثی عدالت نے پروسیجرل آرڈر نمبر 4جاری کیا۔
7 -13جولائی 2015ء : ہیگ میں ثالثی کمیشن کی ایک ہفتے مسلسل سماعت ہوئی۔
29اکتوبر 2015ء : پی سی اے نے اس معاملے کو قابل سماعت قرار دینے کے لیے ایوارڈ جاری کیا۔
12جولائی 2016ء:پی سی اے نے فیصلہ کر دیا کہ چین کا بحیرۂ جنوبی چین کے جزیروں پر ملکیت کا دعویٰ غلط ہے اور اس کی کوئی تاریخی اساس نہیں ہے۔ ثالثی عدالت نے اس فیصلے میں چین کو بین الاقوامی سمندری قوانین سے روگردانی کرنے والا بھی قرار دیا۔
اس کے بعد چین کی جانب سے سفارتی ردعمل اور بحیرۂ جنوبی چین میں غیر معمولی دفاعی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
چین نے اس ٹریبونل کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے بحیرۂ جنوبی چین کے پانیوں پرایک بار پھر اپنی صدیوں پرانی ملیکت کے دعوے کا اعادہ کیا ہے۔ٹریبونل کے فیصلے میں واضح لفظوں میں کہا گیا ہے کہ چین نے فلپائن کے بحری جہازوں اور تیل کے منصوبوں کو خطرے میں ڈال کر فلپائن کی جغرافیائی خودمختاری کے حق کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری جانب چین کے ابلاغی اداروں نے دی ہیگ میں قائم مستقل ثالثی عدالت (PCA) کو بیرونی طاقتوں کی ''کٹھ پتلی'' قرار دیا ہے اور چینی حکومت نے اس تنازعے کے بعد ایک وائٹ پیپر بھی جاری کیا ہے۔
جس میں اس تنازعے کے پیش منظر اور پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چین کا موقف ہے کہ گزشتہ دوہزار سال سے چینی باشندے بحیرۂ جنوبی چین میں سکونت پذیر ہیں اور چین ہمیشہ سے ان علاقوں اور جزائر پر اپنی خودمختاری کا حق رکھتا ہے۔ چینی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ فلپائن یہ تنازع یک طرفہ طور پر عالمی ثالثی عدالت میں لے کر گیا تھا جس کا اسے کوئی حق نہیں اور نہ ہی ثالثی عدالت اس کی سماعت کا اختیار رکھتی تھی۔ چین نے مزید کہا ہے کہ وہ بحیرۂ چین کے اس حصے پر ایک ائیر ڈیفنس زون قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اس سمندری تنازع کے ایک اور فریق تائیوان نے بھی فیصلے کے بعد اس علاقے میں اپنا سمندری بحری جنگی جہاز بھیج دیا ہے جس کے ردعمل میں چینی جنگی طیاروں نے اس علاقے میںفضائی گشت شروع کر دیا ہے۔
چین کے صدر ژی جن پنگ کا کہنا ہے کہ وہ اس خطے میں اپنے ملک کے مفادات کا' سختی سے دفاع'کریں گے۔علاوہ ازیں چین کے وزیر خارجہ نے بھی امریکی اسٹیٹ سیکریٹری جان کیری کو گزشتہ ہفتے ٹیلی فون کر کے چین کی سالمیت اورخودمختاری کو نقصان پہنچانے سے باز رہنے کی تنبیہہ کی ہے۔چینی وزیر خارجہ کا وہ بیان بھی اخبارات کی زینت بنا جس میں انہوں نے اس فیصلے کو ''قانون کی آڑ میں سیاسی مضحکہ خیزی'' قرار دیا۔چین کی جانب سے ثالثی کمیشن پر یہ اعتراض بھی کیا گیا ہے کہ اس کے پینل میں کوئی بھی ایشیائی باشندہ کیوں شامل نہیں ہے۔ خیال رہے کہ چین بحیرۂ جنوبی چین پر اپنے دعوے کی بنیاد ان ''نو ڈیش لائنز'' پر رکھتا ہے جو بحیرۂ جنوبی چین کے مرکزی علاقے میں دور نیچے تک پھیلی ہوئی ہیں اور وہ سینکڑوں متنازع جزیروں ،مچھلی کی بڑی شکار گاہوں اورمونگے کی چٹانوں (Reefs)اور تیل اور گیس کے ذخائر کا احاطہ کیے ہوئے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے چین اس علاقے کے 90 فی صد حصے کا دعوے دار ہے۔
سفارتی اور تجارتی لحاظ سے بحیرۂ جنوبی چین کے کنٹرول کا تنازع مشرقی ایشیاکے ممالک کے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سمندری گزرگاہ پرچین کے علاوہ ویت نام، تائیوان، ملائشیا، برونائی، فلپائین اور جاپان اپنے حق کے دعوے دار ہیں لیکن عالمی منظر نامے میں اس کے سب سے نمایاں فریق چین اور فلپائن ہیں۔دیگر فریق ممالک کا دعویٰ ہے کہ چین نے 1986ء میں یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے اپنے جنوب میں واقع سمندر پر قبضہ کیا جبکہ شمال میں پیریسل چین پر ویت نام کا دعویٰ ہے اور اسی سمندر کے جنوبی حصے پر ملائشیا، فلپائن اور برونائی کے مشترکہ دعوے ہیں۔
اس علاقے پر قبضے کے لیے 1988ء میں چین اور ویت نام جبکہ 1995ء میں چین اور فلپائن کے درمیان جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔بحیرۂ جنوبی چین کی اہمیت کی ایک وجہ اس راستے سے سالانہ تقریباً 5ٹریلین ڈالرزکی تجارت کا ہونا ہے، جس کے ساتھ دنیا کے کئی اہم ممالک کے مفادات کا براہ راست تعلق ہے۔یہ حجم کے اعتبار سے دنیا بھر کی کل سمندری تجارت کے نصف کے برابر بنتی ہے اور دنیا بھر میں شکار کی جانے والی مچھلی کا 10 فی صد بھی اسی سمندری علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا کے توانائی کے دو تہائی وسائل جبکہ تائیوان اور جاپان کے 60فی صد اور چین کے درآمد ہونے والے 80 فی صد خام تیل کا دارومدار اسی بحیرۂ جنوبی چین پر ہے ۔
اگربالفرض چین اس آبی گزر گاہ کو ان ممالک کے جہازوں کے لیے بند کر دیتا ہے تو متبادل راستے سے درآمدات پر فلپائن کو سالانہ 600ملین ڈالرز جبکہ جنوبی کوریا 270ملین ڈالرز اورآسٹریلیا کو20 ملین ڈالرز اضافی خرچ کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ بحیرۂ جنوبی چین میںتیل اور گیس کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں جو اس کے ساحل کے آس پاس رہنے والے تمام چھوٹے بڑے ممالک کی اس خطے میں گہری دلچسپی کا بڑا سبب ہیں۔اس سمندر کی تہہ میں انہی ذخائر کی موجودگی کی وجہ سے بعض عالمی تجزیہ کاروں نے اس خطے کو ''دوسری خلیجِ فارس '' بھی قرار دیا ہے۔
امریکن انرجی انفارمیشن ایجنسی کے مطابق بحیرۂ جنوبی چین میں 11بلین بیرل(میکسیکو کے تیل کے کل وسائل کے برابر) تیل جبکہ190 ٹریلین کیوبک فٹ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ امریکا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین سے مستقل طورپر خطرہ محسوس کر رہا ہے ،آبی گزرگاہوں کے اس تنازعے میں چین کا بالواسطہ حریف ہے اور ماضی میں فلپائن اور تائیوان وغیرہ کے ساتھ عسکری و دفاعی معاہدے کر کے چین پر مسلسل دباؤ بڑھانے کی کوششیں بھی کرتا رہا ہے۔امریکا کا اصرار ہے کہ بحیرۂ جنوبی چین کوآزاد بین الاقوامی پانیوں میںشمار کیا جانا چاہیے اور اس تجارتی آبی گزرگاہ میں نیوی گیشن کی مکمل آزادی ہونی چاہئے۔
یہ مسئلہ فلپائن نے 2013ء میں عالمی ثالثی عدالت میں اٹھایا تھا اور اس نے ثالثی عدالت سے درخواست کی تھی کہ سمندری حدود کے قانون پر اقوام متحدہ کے کنونشن (UNCLOS) کی روشنی میں چین کے ''نائن ڈیش لائنز'' والے ملکیتی دعوے کاجائزہ لیا جائے ۔ثالثی عدالت کے فلپائن کے حق میں آنے والے فیصلے کے بعد عالمی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کی آراء میں کافی تنوع دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس اہم مسئلے پر دنیا ایک بار پھر دو بلاکوں میں میں تقسیم ہونے جا رہی ہے اور اس معرکے میں چین اور امریکا آمنے سامنے ہوں گے۔
اس حوالے سے بیونس آئرس یونیورسٹی سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار پولیڈی سیمونے کا تنقیدی تبصرہ دلچسپ ہے ۔ ا ن کا کہنا ہے کہ اس تنازع کو ثالثی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ 2002ء میں فلپائن کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کی صریح خلاف ورزی ہے ،جس میں کہا گیاتھا کہ فریقین اس مسئلے کو دوستانہ مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے حل کر یں گے۔
اس ضمن میں چند برس قبل امریکی جریدے فارن پالیسی میں تجزیہ کار رابرٹ کیپلن نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ''جس طرح پہلی جنگ عظیم کا میدان جرمنی بنا تھا ،اسی طرح بحیرۂ جنوبی چین بھی مستقبل میں ایک بڑی جنگ کا میدان بنے گا''۔ کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ کوئی تباہ کن جنگ نہیں ہو گی بلکہ دھمکیوں اور ایک دوسرے کے بحری جہازوں کو پیچھے دھکیلنے یا ان کی نقل وحرکت پر کڑی نگاہ رکھنے تک محدود ہوگی۔ ہاں اگر چین اس علاقے (نائن ڈیش لانئز کا احاطے) سے بھاری پیمانے پر تیل اور گیس کے ذخائر کے حصول کے لیے کام شروع کرے گا تو صورت حال میں شدید تناؤ پیدا ہو جائے گا۔
پی سی اے کے اس فیصلے کے بعد مختلف ممالک نے اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے چین اور اس کے حریف فلپائن کی حمایت یامخالفت کے اشارے دیے ہیں۔ چین کے ایک اخبار ''چائنا ڈیلی ''نے اپنے صفحۂ اول پر ایسے 50 ممالک کے نام شائع کیے ہیںجو بحیرہ جنوبی چین کے تنازع میں اُس کے ساتھ حمایتی کے طور پرکھڑے ہیں۔
اس فہرست میں جاپان کا نام دیکھ کر '' ٹائم میگزین'' نے لکھا کہ جاپان اس فہرست میں اپنا نام دیکھ کر حیران تو ہوا ہو گا۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق کنیڈا، جرمنی، جاپان،امریکا،فرانس،اٹلی،برطانیہ اور ویت نام اس فیصلے کے حق میں فلپائن کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ کمبوڈیا، کینیا، نائیجیریا، تاجکستان، بھارت، لائبیریا، شمالی افریقہ، تائیوان ،قازقستان، میانمار ، روس،سری لنکا اور پاکستان نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ یہ مسئلہ فریقین کے درمیان دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔
اس ساری صورت حال اور عالمی سطح پر ہونے والی نئی صف بندی کو سامنے رکھتے ہوئے چین کو اس اہم آبی گزر گاہ کے حوالے سے از سر نو اپنی پالیسی ترتیب دینا ہوگی تاکہ اسے دیگرطاقتور ممالک کی جانب سے کم سے کم دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔ دوسرے یہ کہ اگر چین عالمی ثالثی کمیشنوں پر چین مخالف طاقتور ممالک کے زیر اثر ہونے کے خدشات رکھتا ہے تواس کے لیے بہتر آپشن یہ ہو گا کہ وہ اپنے موقف میں کسی حد تک لچک پیدا کر کے اپنے ایشیائی حریفوں کو مذاکرات کی میز پر لائے تاکہ فلپائن، ویت نام،ملائشیا،جاپان اور برونائی وغیرہ کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی جانب مدد کی غرض سے رجوع نہ کرنا پڑے۔خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کے لیے فریقین کے درمیان مذکرات ہی بہتر حل کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔
چین اور فلپائن کے درمیان اس دیرینہ تنازع کے سلسلے میں ماضی قریب میں فلپائن کی جانب سے کی جانے والی قانونی چارہ جوئی کے کچھ مراحل یہاں ترتیب وار درج کیے جارہے ہیں۔
22جنوری2013ء : فلپائن نے چین کو اپنے دعوے پر مبنی دستاویز پیش کی ۔
19فروری2013ء: چین نے فلپائن کے اس نوٹیفیکیشن کومکمل طور پر مسترد کر دیا۔
11جولائی 2013ء:دی ہیگ میں اس مسئلے پر ثالثی عدالت کی پہلی میٹنگ ہوئی۔
31جولائی 2013ء: فلپائن نے ٹربیونل کے ضوابط اور طریقہ کار پر اپنی رائے جمع کرائی ۔
یکم اگست 2013ء:چین نے ثالثی عدالت( PCA) کو باخبر کیا کہ وہ فلپائن کی جانب سے اٹھائے گئے اس معاملے کی سماعت کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔
27اگست2013ء : ثالثی عدالت نے پہلے پروسیجرل حکم نامے کی پریس ریلیز جاری کی۔
30مارچ 2014ء : فلپائن نے پی سی اے میں اپنی یادداشت پیش کی۔
14-15مئی 2014ء: دی ہیگ میں ٹریبونل کی دوسری میٹنگ ہوئی۔
21مئی 2014ء :چین نے ٹریبونل کے دوسرے حکم نامے کو بھی مسترد کر دیا۔
29مئی 2014:فلپائن نے ثالثی عدالت کے دوسرے پروسیجرل حکم نامے پر اپنا موقف پیش کیا۔
15دسمبر2014ء: چین نے فلپائن کے خلاف اپنی یادداشت جمع کرانے سے انکار کیا۔
17دسمبر 2014ء : پی سی اے نے پریس ریلیز کے ذریعے تیسرا پروسیجرل حکم نامہ پیش کیا گیا۔
16مارچ 2015ء: فلپائن نے ایک تحریری ضمیمہ ثالثی عدالت میں جمع کرایا۔
20-21اپریل 2015ء:ٹریبونل کی تیسری میٹنگ دی ہیگ میں ہوئی۔
22اپریل2015ء: عالمی ثالثی عدالت نے پروسیجرل آرڈر نمبر 4جاری کیا۔
7 -13جولائی 2015ء : ہیگ میں ثالثی کمیشن کی ایک ہفتے مسلسل سماعت ہوئی۔
29اکتوبر 2015ء : پی سی اے نے اس معاملے کو قابل سماعت قرار دینے کے لیے ایوارڈ جاری کیا۔
12جولائی 2016ء:پی سی اے نے فیصلہ کر دیا کہ چین کا بحیرۂ جنوبی چین کے جزیروں پر ملکیت کا دعویٰ غلط ہے اور اس کی کوئی تاریخی اساس نہیں ہے۔ ثالثی عدالت نے اس فیصلے میں چین کو بین الاقوامی سمندری قوانین سے روگردانی کرنے والا بھی قرار دیا۔
اس کے بعد چین کی جانب سے سفارتی ردعمل اور بحیرۂ جنوبی چین میں غیر معمولی دفاعی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔