اٹلی کا قدیم ترین شہرجس کے مکین آج بھی غاروں میں آباد ہیں

سبھی غاروں میں چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جن میں روشن دان بھی ہیں اور برآمدے بھی۔

سبھی غاروں میں چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جن میں روشن دان بھی ہیں اور برآمدے بھی۔:فوٹو : فائل

جنوبی اٹلی میں Matera نام کا ایک قدیم شہر پایا جاتا ہے جو اپنے گھروں کے حوالے سے ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ان گھروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سب قدیم ترین غاروں میں بنے ہوئے ہیں جن میں آج بھی لوگ رہتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔

ان غاروں والے گھروں کو مقامی زبان میں Sassi کہتے ہیں۔ غاروں میں بنے ہوئے یہ گھر ایک چٹانی تنگ وادی کی ڈھلوانوں پر موجود ہیں۔ یہ تنگ وادی اصل میں زمانۂ قدیم میں ایک بہت بڑے دریا کے بہاؤ کی وجہ سے وجود میں آئی تھی، مگر آج وہاں کوئی دریا تو نہیں بہتا، البتہ اس کی جگہ ایک چھوٹا سا چشمہ ماضی کے اس دریا کی یادگار کے طور پر ضرور موجود ہے۔

غاروں والے دنیا کے ان قدیم ترین گھروں کے بارے میں آثار قدیمہ کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ یہ اٹلی میں صحیح معنیٰ میں پہلی انسانی آبادی یا بستی تھے جو پتھر کے دور کے لگ بھگ وسط میں قائم کیے گئے تھے اور یہ زمانہ کم و بیش 9000 سال سے بھی پہلے کا ہے۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ وہ انسانی بستیاں ہیں جو اس کرۂ ارض پر نہ صرف قدیم ترین ہیں، بل کہ یہاں کا غاروں پر مشتمل cave city وہ شہر ہے جو زمانۂ قدیم سے آج تک مسلسل آباد چلا آرہا ہے، یعنی یہ نہ کبھی اجڑا اور نہ یہاں کے مکین اپنے غاری گھروں کو چھوڑ کر کسی بھی وجہ سے یہاں سے کہیں اور گئے، بلکہ وہ بڑی مستقل مزاجی سے آج بھی یہاں رہ رہے ہیں اور عہد قدیم کی پرامن اور پرسکون فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔ دنیا کے ہنگاموں اور افراتفری سے بالکل الگ تھلگ یہ لوگ اپنی زمین اور اپنی ہواؤں میں بہت خوش ہیں۔

Matera میں آباد پہلی انسانی بستیاں ان غاروں پر مشتمل ہیں جو اس خطے کے قدرتی غاروں میں آباد ہوئی تھیں، گویا یہاں انسان نے کھلی فضا میں اپنے گھر یا محل بنانے کے بجائے یہاں کے بند غاروں کے اندر اپنے لیے پناہ گاہیں بنائی تھیں، یہ قدرتی پناہ گاہیں انہیں اتنی پسند آئیں کہ پھر اس طرز پر یہاں مسلسل گھر آباد ہوتے چلے گئے اور اس طرح یہاں کے قدیم غار انسانی بستیوں کی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔ یہاں کی آبادیوں کے وجود میں آنے کا سب سے بڑا کریڈٹ یہاں کی جغرافیائی صورت حال کو جاتا ہے۔



ایک تو یہاں کے قدرتی اور قدیم غار انسانی کمین گاہوں کے لیے نہایت موزوں تھے، اوپر سے یہاں کا لینڈ اسکیپ یعنی ہیئت ارضی بھی بہت ہی شان دار تھا۔ جو قدرتی غار پہلے سے موجود تھے، انہیں تو انسان نے خود ہی آباد کرلیا تھا، پھر جیسے جیسے ضرورت پڑتی رہی، ویسے ویسے انسان نے خود اپنے گھروں کے لیے ان قدیم چٹانوں میں مزید غار کھودنے شروع کردیے، انہوں نے خود گھر نہیں بنائے، بل کہ چٹانوں کو غاروں کی صورت میں کھود کر انہیں اپنے زمانے اور عہد کی قدیم صورت میں ہی اپنے لیے رہنے کے قابل بنالیا۔

اس علاقے کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے غاروں والے یہ گھر یعنی Sassi پتھروں سے بنائی گئی جھونپڑیوں کا ایک بے ترتیب جُھنڈ ہے جو خود بہ خود ہی یہاں کے شان دار لینڈ اسکیپ میں مدغم ہوگیا ہے، مگر ان دل کش گھروں کے پیچھے جو گھر بنے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، وہ یہاں کے لوگوں کی اس جدوجہد کو بیان کرتے ہیں جو انہوں نے ان گھروں کو بناتے ہوئے کی تھی۔ غاروں میں یہ گھر بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا، بل کہ اس کے لیے یہاں کے لوگوں نے شب و روز جاں فشانی سے کام کیا تھا اور ان کے لیے اپنی جانیں تک گنوائی تھیں۔

مزید یہ کہ شروع کے یہ غاری گھر دیکھنے میں پتھر سے تیار کی گئی جھونپڑیاں نظر آتے تھے، مگر ان کے پیچھے بہت اچھے اور پیارے غار ہیں جو اصل میں ان مکانات کا سامنے والا یا بیرونی حصہ ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ غاری شہر یعنی Matera آہستہ آہستہ ترقی کرتا چلا گیا اور یہاں کے رہنے والوں نے اپنی آسانی کے لیے خود ہی اس پتھریلی وادی میں گلیاں اور سڑکیں بھی کھود لیں اور کچھ مقامات پر پتھر کی سیڑھیاں بھی تراش لیں جہاں سے یہاں کے رہنے والے چڑھ کر اوپر جاسکتے ہیں۔ پتھریلی گلیوں اور سڑکوں میں تو اب دور جدید کی گاڑیاں بھی بھاگتی دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم بیسویں صدی کے اواخر تک Matera کا خطہ پورے اٹلی میں غریب ترین سمجھا جاتا تھا۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بستی کے پتھریلے اور چٹانی سلسلے میں مسلسل نئے سوراخ تراشے جاتے رہے اور یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو گھر فراہم کرنے کے لیے تعمیراتی کام برابر جاری رہا۔ یہاں کے مکینوں نے نہ صرف اپنے لیے غاری گھر تعمیر کیے، بل کہ علاقے کے لیے ہر طرح کی سہولیات بھی فراہم کیں۔ بعض اوقات تو انہیں چٹانوں میں کئی کئی پرتوں کو توڑنا پڑا جو بلاشبہہ بہت مشکل اور کٹھن کام تھا، مگر یہاں کے لوگوں نے اپنے گھروں کے لیے کسی محنت سے منہ نہ موڑا اور اپنے لیے قدیم طرز کے محفوظ گھر تعمیر کرلیے جن پر نہ کسی کے حملے کا ڈر تھا اور نہ دنیا کی کسی قوم کے بری نظر سے دیکھنے کا خوف!

دوسری جنگ عظیم کے بعد غاروں میں رہنے والے ان لوگوں میں سے کچھ نے بادل نخواستہ اپنے قدیم گھروں سے Matera ٹاؤن کے جدید اور فیشن ایبل علاقوں سے صرف اس لیے ہجرت کی، کیوں کہ ان کے غاری گھر خاصے بوسیدہ ہوچکے تھے۔ مگر یہ جدید علاقے بھی پہاڑی چٹانوں پر ہی آباد تھے۔

اس کے باوجود آج بھی یہاں قدیم ترین چیمبر یا بڑے بڑے کمرے موجود ہیں جن میں کوئی نہیں رہتا۔ ان چیمبروں کو یہاں کے لوگوں نے فراموش کردیا ہے۔ ان مقامات کی کیفیت پر 1993میں بہت غوروفکر کیا گیا تھا اور ان کی بحالی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔

تاہم یہ علاقہ بجلی اور پینے کے صاف پانی سے محروم تھا، یہاں نکاسی آب کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ یہاں کے لوگ زندگی کی اہم اور بنیادی ضروریات سے محروم تھے، کیوں کہ یہاں دکانیں تک نہیں تھیں۔ یہاں کے لوگ کھانے کے نام پر ایک خاص قسم کی خوراک ہی کھاتے تھے جو روٹی، تیل، کچلے ہوئے ٹماٹروں اور کالی مرچ پر مشتمل ہوتی تھی۔

یہاں تک کہ آسودہ حال گھرانے بھی اپنے مویشیوں کے ساتھ غیرصحت بخش ماحول میں رہتے تھے۔ ان حالات میں اس علاقے میں وبائی بیماریاں بھی خوب پھیلتی تھیں، خاص طور سے ملیریا نے اس علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ مسولینی کے آمرانہ دور میں اس علاقے کے لوگ شدید غربت میں مبتلا تھے۔ ان کے نہایت کسمپرسی والے حالات زندگی ایک اطالوی ڈاکٹر کارلو لیوی نے اپنی کتاب "Christ stopped at Eboli" میں بیان کیے ہیں۔

اس شہر کے حسین و جمیل غاری گھر دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ گزرتے وقت نے اس قدرتی بستی کا حسن زیادہ خراب نہیں کیا ہے۔ دنیا بھر کے اکثر فلم سازوں اور ڈراما نویسوں نے یہاں کی بہت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔ ان خوب صورت اور قدرتی بستیوں کو ٹی وی کی متعدد سیریلز میں بھی دکھایا گیا ہے۔


دوسری جنگ عظیم کے بعد اٹلی کی نئی حکومت نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح cave city کے غاروں میں رہنے والوں کو جدید گھروں میں منتقل کردیا جائے، مگر یہاں کے لوگ اپنے ان قدیم گھروں سے اتنا پیار کرتے ہیں کہ وہ یہاں سے ہلنے کو بھی تیار نہ ہوئے اور اس طرح حکومت کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ پھر اٹلی کی حکومت نے زبردستی کچھ لوگوں کو ان جدید گھروں میں منتقل کردیا جو پہاڑی سلسلے کے بالکل اوپر بنائے گئے تھے اور یہاں بھی سارا ماحول قدیم ہی تھا۔

1993 کے بعد Matera کی سوئی ہوئی قسمت اس وقت جاگ اٹھی جب یونیسکو نے Matera کے ان قدیم غاری گھروں کو اور یہاں کے غاروں میں بنے ہوئے تمام گرجاگھروں کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دینے کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ بھی اس قدیم شہر کی طرف ہوگئی اور اس کے غاروں میں بنے ہوئے قدرتی گھر انہیں اپنی طرف کھینچنے لگے۔ اس وقت سے لے کر اب تک متعدد غاروں کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے اور انہیں پرسکون، آرام دہ اور خوب صورت گھروں کی شکل دے دی گئی ہے۔ بعض غاروں کو تراش خراش کے بعد جدید اسٹائلش ہوٹلوں اور ریستورانوں کا روپ عطا کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد سیاحوں کی دل چسپی اس علاقے میں اور بھی بڑھ گئی ہے اور وہ اس قدرتی غاروں پر مشتمل بستی کو دیکھنا چاہتے ہیں جس نے یونیسکو کو اس حد تک متاثر کردیا کہ اس نے اس مقام کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج اس قدیم غاری شہر میں زندگی کی بہت سی آسائشیں، سہولیات اور آسانیاں میسر ہیں۔ موسم گرما میں یہ شہر ٹھنڈا ہوتا ہے اور موسم سرما میں گرم۔ یہاں کی پرسکون فضاؤں میں بہت امن ہے، بڑا پیار ہے، ایئر کنڈیشنرز کی نہ یہاں کوئی ضرورت ہے اور نہ فکر۔

Vardzia کا گرجا گھر


جنوبی جارجیا کے غاروں میں Vardzia نامی ایک گرجا گھر موجود ہے۔ پہلے اس کا وجود نہیں تھا، مگر جب وہاں کے کوہ Erusheti کی ڈھلوانوں پر کھدائی کی گئی تو اس گرجا گھر کا پتا چلا۔ یہ پہاڑ دریائے Kura کے بائیں کنارے پر Aspindza نامی مقام سے لگ بھگ 30کلومیٹر دور واقع ہے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہ خانقاہ 20ویں صدی کے دوسرے نصف میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے غار پہاڑی چھجے کے ساتھ ساتھ کوئی 500میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں تعمیر کیے گئے گرجا گھر کا زمانہ 1180کا عشرہ ہے۔ یہ تامار اور رستاویلی عہد میں بنایا گیا تھا جسے اس خطے کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ ان غاروں کی دیواروں پر شان دار قسم کی پینٹنگز بھی بنائی گئی ہیں۔ سولہویں صدی میں جب اس خطے پر عثمانی تسلط قائم ہوگیا تو اس کا زیادہ تر حصہ انہی کے قبضے میں جانے کے بعد ویران ہوگیا۔ اب اس کا شمار یہاں کے ثقافتی ورثے میں کیا جاتا ہے اور اسے یونیسو ورلڈ ہیریٹیج کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔

سوویت دور میں محکمۂ آثار قدیمہ کے تحت جو کھدائیاں کی گئیں ان سے پتا چلا کہ Vardzia کا خطہ کانسی کے دور میں بھی موجود تھا، مگر اس وقت یہ غیرآباد تھا۔ یہاں کے رہائشی غار جو دریائے Kura کے ساتھ واقع ہیں، یہ کم از کم پانچویں صدی قبل مسیح میں بھی موجود تھے۔ بعد میں یہاں کے پہاڑوں اور غاروں کو تراشا گیا اور متعدد آبادیاں قائم کی گئیں۔

غاروں کو تراشنے کا یہ سلسلہ کئی صدیوں تک چلتا رہا اور آج بھی Vardzia نامی یہ گرجا گھر قرب و جوار سے آنے والوں کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ واضح رہے کہ Vardzia اصل میں اس خطے میں حکومت کرنے والے ایک بادشاہ کی بیٹی کا نام تھا جس کے نام پر ان مہیب اور پرشکوہ غاروں کو کاٹ کر یہ بے مثال چرچ قائم کیا گیا۔ دنیا بھر کے سیاح Vardzia گرجا گھر کو دیکھنے یہاں بڑے ذوق و شوق سے آتے ہیں۔

Derinkuyuترکی کا زیرزمین شہر جو غاروں میں بسا ہوا تھا


Derinkuyu ترکی وہ شہر ہے جو کسی زمانے میں زیرزمین غاروں میں آباد تھا، یہ شہر آج بھی موجود ہے۔ اسے یونانی زبان میں Cappadocian کہتے ہیں۔ Derinkuyu شہر لگ بھگ 60میٹر (200فٹ) کی گہرائی میں واقع ہے، اس کے غاروں میں آج بھی 20ہزار سے زیادہ افراد رہتے بستے ہیں جن کے ساتھ ان کے مویشی بھی ہیں اور غذائی اسٹور بھی۔ یہ پورے ترکی میں سب سے بڑا زیرزمین غاری شہر ہے جسے کھدائی کرکے نکالا گیا تھا۔ یہ کافی دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کے لیے 1969میں کھولا گیا تھا، یہاں کا لگ بھگ نصف سے زیادہ زیرزمین شہر سیاحوں کے لیے کھلا ہوا ہے۔ وہ آرام سے ہر طرف جاسکتے ہیں اور اسے دیکھ سکتے ہیں۔ اس شہر کے بڑے بڑے پتھروں سے دروازے بھی بنائے گئے ہیں جنہیں ضرورت کے وقت اندر سے بند کیا جاسکتا ہے۔ اس غاروں والے شہر کے کئی فلور ہیں اور ہر ایک کا پتھریلا دروازہ ہے۔

اس شہر میں انسانی ضرورت کی ہر چیز اس غاروں والے شہر میں ملتی ہے، یہاں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ غاروں میں آباد ہونے کے باعث یہاں آنے جانے میں کوئی مشکلات ہوں، یہاں کے لوگ بڑی آسانی سے کہیں بھی آ اور جاسکتے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ ان غاروں کے بارے میں اندازہ ہے کہ انہیں ابتدائی طور پر آٹھویں اور ساتویں صدی قبل مسیح میں تراش خراش کے بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ کسی زمانے میں یہ شہر بہت شان دار ہوا کرتا تھا۔ عثمانی سلطنت کے دور میں ان شہروں کو پناہ گزینوں کی رہائش کے لیے بھی استعمال کیا گیاتھا۔ کچھ لوگوں نے انہیں بیرونی حملہ آوروں سے بچنے کے لیے بھی استعمال کیا تھا۔ لیکن یہ غاروں والا شہر آج بھی پوری آن بان کے ساتھ اپنی جگہ موجود ہے اور دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دے رہا ہے۔

گوندرانی: بلوچستان میں واقع غاروں کا شہر


گوندرانی پاکستان کا وہ انوکھا شہر ہے جو بلوچستان کے علاقے بیلا کے غاروں میں آباد ہے۔ اسے روحوں کا شہر بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ تاریخی شہر بیلا کے قدیم شہر سے 20کلومیٹر دور شمال میں اور کراچی سے 175کلومیٹر دور واقع ہے۔

اس شہر بے مثال کی اصل تاریخ تو ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی یہ پتا چل سکا ہے کہ ان غاروں کو کس قوم نے تراشا تھا، لیکن تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ یہ شہر آٹھویں صدی میں بدھ مت کی ایک بہت بڑی خانقاہ تھا۔ اس وقت یہ جگہ بدھ مت کی سلطنت میں شامل تھی۔ اس ضمن میں تاریخی حوالے بھی موجود ہیں، مگر کچھ حوالے اسے بدھ مت کا حصہ مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے، البتہ اس میں بدھ مت کے طرز تعمیر کی خصوصیات موجود ہیں۔ گوندرانی کے غاروں کو مقامی لوگ ''پرانے گھر'' کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ ٹھوس conglomerate میں تراشے گئے ہیں۔

سبھی غاروں میں چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جن میں روشن دان بھی ہیں اور برآمدے بھی۔ برطانوی دورحکومت میں ان غاروں کی تعداد 1500بتائی گئی تھی مگر اب صرف 500باقی رہ گئے ہیں۔ ان غاروں کی حالت خاصی خستہ ہے جو آہستہ آہستہ ختم ہورہے ہیں۔ ان کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ ان قدیم اور تاریخی غاروں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ہمارے ماضی کے یہ نشان مٹ نہ سکیں۔
Load Next Story