… ہرگز نہ کر قبول
جنرل پرویز مشرف نے خود کو جو بہت ساری توسیع دی تھی
جنرل پرویز مشرف نے خود کو جو بہت ساری توسیع دی تھی، انھیں جوازبنا کر جنرل راحیل شریف کی مدت میں توسیع کی خاطر بلاضرورت ایک متنازعہ مہم شروع کر دی گئی تھی جب کہ ان کی تین سالہ مدت ختم ہونے میں ابھی ایک سال پڑا تھا۔ جنرل صاحب نومبر 2016ء میں ریٹائر ہو رہے ہیں، آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے میں توسیع کی باتوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے جنرل راحیل شریف کے اس حتمی جملے کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے کہا ہے ''میں توسیع لینے پر یقین نہیں رکھتا اور مقررہ تاریخ پر ریٹائر ہو جاؤں گا''
اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ آرمی چیف نے نہایت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے چنانچہ بہت سے حلقوں میں قیاس کیا جا رہا ہے حکومت کا ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی ارادہ ہے۔ اس حوالے سے بہت سی افواہیں گردش میں رہیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے تین سال سے بڑھا کر چار سال کر دی جائے گی۔
اصل میں یہ سیاستدانوں کا بہت پرانا حربہ ہے جو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انھیں کسی طرف سے اپنے اقتدار کو خطرہ نظر آتا ہے۔ میں نے 22 جولائی 2010ء کو ''توسیع اور توقعات'' کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ جنرل وحید کاکڑنے 1993ء میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرا دی تھی نتیجتاً محترمہ بینظیر بھٹو فتحیاب رہیں جس سے عوام کی وسیع پیمانے پر جذبات کی تشفی ہوئی جب کہ سیاستدانوں اور شہریوں نے اسے مساوی طور پر پسند کیا۔ محترمہ بے نظیر اس قدر مشکور ہوئیں کہ انھوں نے 1996ء میں جنرل کاکڑ کو چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر توسیع دینے کی پیش کش کر دی لیکن جنرل کاکڑ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اس طرح آرمی کی پروموشنز کے سلسلہ میں خلل پڑتا ہے خواہ سینئر فوجی حکام کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں مگر جو اپنی ترقی کی آس لگائے ہوتے ہیں ان کو خاصا صدمہ پہنچتا ہے۔ یہ شکر کا مقام ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے ترقیاں خالصتاً میرٹ پر کی جا رہی ہیں ۔
حکومت کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس بے قاعدگی کو درست کر لینا چاہیے جس کے تحت 1975ء میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (جے سی ایس سی) تخلیق کی گئی تھی۔ اب میں اپنے مضمون بعنوان ''اکیسویں صدی کی جنگیں لڑنا'' کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ کہ اپنے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ کے لیے ہمیں بہت بڑی جغرافیائی گہرائی درکار ہے لہٰذا یہ جنگی کارروائی ایک محدود وقت میں نہایت تیز اور پرجوش ہونی چاہیے کیونکہ یہ مکار دشمن سے زندگی اور موت کا مقابلہ ہو گا۔ اگرچہ اس معرکے میں فضائیہ اور بحریہ بھی شرکت کریں گی لیکن ہار جیت کا اصل فیصلہ زمین پر ہی ہو گا۔
اب میں اپنے 13 مئی 2010ء کے آرٹیکل کا مزید حوالہ دیتا ہوں ہماری جوہری قوت یعنی اسپیشل پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) وغیرہ اور سائبر وارفیئر کو اسٹرٹیجک فورسز میں الگ سے شامل ہونا ہو گا۔ اور ساری کی ساری فورسز کو اکٹھا کرنا اس کے ہاتھ میں ہو اس کے لیے ایک ہوم لینڈ سیکیورٹی کمان ایچ ایم ایس جے سی ایس سی چیئرمین کا ایک ڈپٹی چیئرمین بھی ہونا چاہیے اور اسٹرٹیجک فورسز کا کمانڈر ایک چار ستاروں والا جرنیل ہونا چاہیے۔ ان میں بحریہ اور فضائیہ کے افسران بھی ہونے چاہئیں۔ اب بہت زیادہ بہتر حربی ذہن کے لوگ سامنے آئیں گے جو مجھ سے بہت بہتر طور پر سروسز کی یکجہتی کے رموز و قواعد وضع کر سکیں گے جس سے جے سی ایس سی اور زیادہ موثر ہو جائے''۔
جب معروف دفاعی تجزیہ کار سٹیفن کوہن نے گزشتہ برس واشنگٹن ڈی سی میں ہونیوالے اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں مجھ سے ایک بارود بھرا loaded سوال پوچھ لیا ''کیا تمہارے خیال میں جنرل راحیل شریف کو توسیع لینی چاہیے یا نہیں؟ تو میں نے ''نہیں'' کہہ کر اتنا اضافہ ضرور کیا کہ انھیں اصلاح شدہ جے سی ایس سی کی سربراہی سنبھال لینی چاہیے۔سروسز چیفس کو پہلے بھی چیئرمین جے سی ایس سی کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے جن میں سروہی' ایئر چیف مارشل فاروق فیروز وغیرہ شامل ہیں جو میجر جنرل کے رینک تک پوسٹنگ اور ترقیاں دے سکتے تھے۔
یہ محکمانہ تبدیلی وزارت دفاع کے اندر ہی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ کے ایکٹ کی ضرورت نہیں ہے چونکہ قوم کی زیادہ اکثریت چاہتی ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنی گرانقدر قومی خدمات جاری رکھیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ انھیں جی ایچ کیو میں تمام مسلح افواج کا یونیفائیڈ کمانڈ ہیڈ کوارٹر کی سربراہی سنبھال لینی چاہیے۔ یہ پاکستان کے لیے ''وِن'وِن'' win winصورت حال ہو گی۔ یہ بالکل مختلف بات ہے کہ میاں نواز شریف کو انتخابی مینڈیٹ حاصل ہے لیکن اس جماعت کی قیادت میں آرمی کے سربراہوں کے بارے میں ایک کمپلیکس موجود ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی ایسے پسندیدہ فرد کو منتخب کیا جائے خواہ اس کے لیے اسے اپنے سینئرز کے اوپر سے گزارنا پڑے۔ لیکن یہ تجربات بھی تلخ ثابت ہوتے رہے کیونکہ ان کی جاگیردارانہ ذہنیت اپنے ملازمین کی طرف سے بلاوے پر دوڑ پڑنے کی توقع ہی رکھتے ہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف پاک فوج کے تمام رینکس اور فائل کی اجتماعی محسوسات کا نمایندہ ہوتا ہے۔میں نے جنرل کیانی کی توسیع کی حمایت نہیں کی تھی لیکن اس معاملے پر اختلاف پیدا ہو گیا جو عوام تک پہنچ گیا۔ 13 مئی 2010ء کو میں نے اپنے آرٹیکل میں جو لکھا اس سے جنرل کیانی کے کیمپ میں چہ مگوئیاں ہوئیں ۔ جنرل کیانی اپنے منصب سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے حالانکہ جے سی ایس سی کے چیئرمین کا عہدہ زیادہ پر کشش تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خاصی ہچکچاہٹ کے ساتھ جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دیدی اور یہ کام جولائی 2010ء کی آدھی رات کے وقت کیا گیا جب کہ نومبر کے آنے میں ابھی پانچ ماہ باقی تھے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی جنرل راحیل جیسے سر بلند شخص کو نومبر 2016 ء سے زیادہ وقت دینے پر تیار نہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر جنرل راحیل کو توسیع پیش کی گئی تو انھیں صاف انکار کر دینا چاہیے۔
اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ آرمی چیف نے نہایت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے چنانچہ بہت سے حلقوں میں قیاس کیا جا رہا ہے حکومت کا ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی ارادہ ہے۔ اس حوالے سے بہت سی افواہیں گردش میں رہیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت پارلیمنٹ کے ایکٹ کے ذریعے تین سال سے بڑھا کر چار سال کر دی جائے گی۔
اصل میں یہ سیاستدانوں کا بہت پرانا حربہ ہے جو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب انھیں کسی طرف سے اپنے اقتدار کو خطرہ نظر آتا ہے۔ میں نے 22 جولائی 2010ء کو ''توسیع اور توقعات'' کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ جنرل وحید کاکڑنے 1993ء میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرا دی تھی نتیجتاً محترمہ بینظیر بھٹو فتحیاب رہیں جس سے عوام کی وسیع پیمانے پر جذبات کی تشفی ہوئی جب کہ سیاستدانوں اور شہریوں نے اسے مساوی طور پر پسند کیا۔ محترمہ بے نظیر اس قدر مشکور ہوئیں کہ انھوں نے 1996ء میں جنرل کاکڑ کو چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر توسیع دینے کی پیش کش کر دی لیکن جنرل کاکڑ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اس طرح آرمی کی پروموشنز کے سلسلہ میں خلل پڑتا ہے خواہ سینئر فوجی حکام کتنے ہی مخلص کیوں نہ ہوں مگر جو اپنی ترقی کی آس لگائے ہوتے ہیں ان کو خاصا صدمہ پہنچتا ہے۔ یہ شکر کا مقام ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے ترقیاں خالصتاً میرٹ پر کی جا رہی ہیں ۔
حکومت کو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس بے قاعدگی کو درست کر لینا چاہیے جس کے تحت 1975ء میں جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (جے سی ایس سی) تخلیق کی گئی تھی۔ اب میں اپنے مضمون بعنوان ''اکیسویں صدی کی جنگیں لڑنا'' کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ کہ اپنے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگ کے لیے ہمیں بہت بڑی جغرافیائی گہرائی درکار ہے لہٰذا یہ جنگی کارروائی ایک محدود وقت میں نہایت تیز اور پرجوش ہونی چاہیے کیونکہ یہ مکار دشمن سے زندگی اور موت کا مقابلہ ہو گا۔ اگرچہ اس معرکے میں فضائیہ اور بحریہ بھی شرکت کریں گی لیکن ہار جیت کا اصل فیصلہ زمین پر ہی ہو گا۔
اب میں اپنے 13 مئی 2010ء کے آرٹیکل کا مزید حوالہ دیتا ہوں ہماری جوہری قوت یعنی اسپیشل پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) وغیرہ اور سائبر وارفیئر کو اسٹرٹیجک فورسز میں الگ سے شامل ہونا ہو گا۔ اور ساری کی ساری فورسز کو اکٹھا کرنا اس کے ہاتھ میں ہو اس کے لیے ایک ہوم لینڈ سیکیورٹی کمان ایچ ایم ایس جے سی ایس سی چیئرمین کا ایک ڈپٹی چیئرمین بھی ہونا چاہیے اور اسٹرٹیجک فورسز کا کمانڈر ایک چار ستاروں والا جرنیل ہونا چاہیے۔ ان میں بحریہ اور فضائیہ کے افسران بھی ہونے چاہئیں۔ اب بہت زیادہ بہتر حربی ذہن کے لوگ سامنے آئیں گے جو مجھ سے بہت بہتر طور پر سروسز کی یکجہتی کے رموز و قواعد وضع کر سکیں گے جس سے جے سی ایس سی اور زیادہ موثر ہو جائے''۔
جب معروف دفاعی تجزیہ کار سٹیفن کوہن نے گزشتہ برس واشنگٹن ڈی سی میں ہونیوالے اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں مجھ سے ایک بارود بھرا loaded سوال پوچھ لیا ''کیا تمہارے خیال میں جنرل راحیل شریف کو توسیع لینی چاہیے یا نہیں؟ تو میں نے ''نہیں'' کہہ کر اتنا اضافہ ضرور کیا کہ انھیں اصلاح شدہ جے سی ایس سی کی سربراہی سنبھال لینی چاہیے۔سروسز چیفس کو پہلے بھی چیئرمین جے سی ایس سی کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے جن میں سروہی' ایئر چیف مارشل فاروق فیروز وغیرہ شامل ہیں جو میجر جنرل کے رینک تک پوسٹنگ اور ترقیاں دے سکتے تھے۔
یہ محکمانہ تبدیلی وزارت دفاع کے اندر ہی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ کے ایکٹ کی ضرورت نہیں ہے چونکہ قوم کی زیادہ اکثریت چاہتی ہے کہ جنرل راحیل شریف اپنی گرانقدر قومی خدمات جاری رکھیں تو کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ انھیں جی ایچ کیو میں تمام مسلح افواج کا یونیفائیڈ کمانڈ ہیڈ کوارٹر کی سربراہی سنبھال لینی چاہیے۔ یہ پاکستان کے لیے ''وِن'وِن'' win winصورت حال ہو گی۔ یہ بالکل مختلف بات ہے کہ میاں نواز شریف کو انتخابی مینڈیٹ حاصل ہے لیکن اس جماعت کی قیادت میں آرمی کے سربراہوں کے بارے میں ایک کمپلیکس موجود ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی ایسے پسندیدہ فرد کو منتخب کیا جائے خواہ اس کے لیے اسے اپنے سینئرز کے اوپر سے گزارنا پڑے۔ لیکن یہ تجربات بھی تلخ ثابت ہوتے رہے کیونکہ ان کی جاگیردارانہ ذہنیت اپنے ملازمین کی طرف سے بلاوے پر دوڑ پڑنے کی توقع ہی رکھتے ہیں۔
چیف آف آرمی اسٹاف پاک فوج کے تمام رینکس اور فائل کی اجتماعی محسوسات کا نمایندہ ہوتا ہے۔میں نے جنرل کیانی کی توسیع کی حمایت نہیں کی تھی لیکن اس معاملے پر اختلاف پیدا ہو گیا جو عوام تک پہنچ گیا۔ 13 مئی 2010ء کو میں نے اپنے آرٹیکل میں جو لکھا اس سے جنرل کیانی کے کیمپ میں چہ مگوئیاں ہوئیں ۔ جنرل کیانی اپنے منصب سے الگ نہیں ہونا چاہتے تھے حالانکہ جے سی ایس سی کے چیئرمین کا عہدہ زیادہ پر کشش تھا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خاصی ہچکچاہٹ کے ساتھ جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع دیدی اور یہ کام جولائی 2010ء کی آدھی رات کے وقت کیا گیا جب کہ نومبر کے آنے میں ابھی پانچ ماہ باقی تھے۔ موجودہ حکومت کی طرف سے بھی جنرل راحیل جیسے سر بلند شخص کو نومبر 2016 ء سے زیادہ وقت دینے پر تیار نہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر جنرل راحیل کو توسیع پیش کی گئی تو انھیں صاف انکار کر دینا چاہیے۔