میری اور آپ کی کہانی

یہ چاپلوس ٹولہ جب اکٹھا ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ قوم کے مسائل اور ان کے حل کی طرف توجہ مبذول کروائے،


فرح ناز July 30, 2016
[email protected]

پاکستان کا سیاسی ماحول ایک ایسا مسئلہ بنا ہوا ہے جو تعلیم، صحت، صنعت، تجارت اور معیشت کے حوالے سے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی حکمراں آئے وہ سیاسی چکر بازی میں پھنس کر رہ گئے، حالات میں تبدیلی کے وعدے، ملک کی قسمت بدلنے کے دعوے بس رکھے کے رکھے رہ گئے، کرسی کے عدم تحفظ کے اس کھیل میں حکمراں ایسے لگتے ہیں کہ ان کو صرف اور صرف اپنا آپ یاد رہ جاتا ہے۔ عدم تحفظ کا مسئلہ بھی کئی مسائل پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ عدم تحفظ میں مبتلا حکمراں ایسے لوگوں میں گھر جاتا ہے جو اس کے حمایتی ہوتے ہیں، سیاسی حلقے ہوں یا بیوروکریسی ایسے افراد جو حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملا سکیں اور ان کی وفاداری صرف اور صرف حکمراں سے ہو اور ہمارے پاس ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو ہر دور میں ہر اقتدار کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہیں اور ہمیشہ موجود حکمراں کے اردگرد نظر آتے ہیں۔

یہ چاپلوس ٹولہ جب اکٹھا ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ قوم کے مسائل اور ان کے حل کی طرف توجہ مبذول کروائے، یہ صرف حکمرانوں کی خدمت اور اپنے مفادات کو ہی فرض سمجھتے رہے ہیں۔ اور بدقسمتی سے عوام کی صعوبتوں کا دور ہر دور میں موجود رہتا ہے۔ لوٹ مار، قانون شکنی اور میرٹ کے قتل عام کی بدترین مثالیں پیدا ہوتی ہیں، جن کی جھلک ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔

عدم تحفظ کا شکار حکمران اپنے مخالفین سے نمٹنا بھی ایک اہم کام سمجھتا ہے اور اپنی فہم و فراست کے لحاظ سے ایسی حکمت عملی بنانے میں مشغول رہتا ہے جس میں سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ خاموشی سے خطرناک انتقامی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ان سب کا نتیجہ حکمراں کے لیے ہی خطرناک ثابت ہوا ہے۔ بیوروکریسی کی کمزور اور عدم تحفظ کا شکار یہ حکمراں ایسی ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ! یہ قوم کو ایسے ایسے ایشوز میں الجھا دیتے ہیں، انھیں گمراہ کر دیتے ہیں، بجائے اس کے کہ یہ لوگ مثبت قدم اٹھائیں، یہ اپنی تمام تر توانائیاں منفی رویوں میں خرچ کرتے ہیں، راہ تعمیر چھوڑ کر منفی راستے اپنا لیتے ہیں، مذہب ہو، فرقہ بندی ہو، علاقائی، لسانیت، یہ ہر طرح قوم کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تاکہ ان کا دور حکومت طویل سے طویل ہوتا جائے اور بدقسمتی سے یہی سب کچھ کرتے کرتے رخصت ہوجاتے ہیں۔

دنیا کے ان ملکوں میں جہاں حکمرانی، دستور اور قانون کے مطابق ہے وہاں کے حکمرانوں کو عدم تحفظ یا کرسی کی فکر نہیں، فکر ہوتی ہے تو ملک کے مفاد کی، بہترین پالیسیوں کی۔

دستور اور قانون مضبوط ہو گا تو ادارے اور عدالتی نظام مضبوط ہو گا، معاشرے میں بگاڑ کم ہو گا اور یقیناً ملک مضبوط ہو گا، صرف اور صرف دیانتدار اور باضمیر افراد ہی اداروں اور قانون کو مستحکم کر سکتے ہیں، قومیں وہی مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتی ہیں جہاں پر آئین اور قانون مضبوط ہوتے ہیں اور ان پہ عمل درآمد ہوتا ہے۔

صاف ستھرے کردار کے حامل، حساب کتاب کے ماہر، شائستہ اور مہذب پڑھے لکھے افراد کی میدان سیاست میں شدید ضرورت ہے۔ اگر اب ان تعلیم یافتہ لوگوں سے سیاست میں آنے کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ سیاست تو کرپٹ لوگوں کے لیے رہ گئی ہے، پاکستان میں ہمارا کیا کام، یہاں اور اتنے کرپٹ لوگوں میں کون ہے جو ایماندار لوگوں کو آگے آنے دے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسی طرح اچھے لوگ سوچتے رہے تو پھر کون آگے آئے گا؟ ان حالات میں پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو بڑی بھیانک تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔

فلاحی ریاست تو دور کی بات، ہمیں اپنے اردگرد عام انسانی قدریں گم ہوتی نظر آتی ہیں۔ ہر دردمند پاکستانی تشویش میں مبتلا ہے، طاقت اور امارت کی بنیاد پر ظلم و جبر، وڈیرہ شاہی، عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات، غیرت کے نام پر خواتین کا قتل، بچوں کا اغوا اور ان کے ساتھ بدکاری کے واقعات، اغوا، دن دہاڑے لوٹ مار، گھروں میں گھس کر ڈاکا زنی کی وارداتیں تقریباً ہر روز کا معمول بن گیا ہے۔ بے روزگاری، انصاف کے نام پر انصاف سے محرومی کا نظام، پولیس اور انتظامیہ کی دانستہ غفلت اور قانون پہ عمل نہ کرنے کا رجحان، رشوت ستانی، ناجائز دولت کے سہارے شان و شوکت کا اظہار، جیسے رجحانات اب معمول کا حصہ ہیں۔

میں اور آپ جب اتنی بے چینی محسوس کرتے ہیں، دکھی ہوتے ہیں تو کیا حکمراں طبقہ سکھ کی سانس لیتا ہو گا، ہاں شاید لیتا ہو گا سکھ کی سانس، کیونکہ وہ ہر اس دکھ سے آزاد ہے جو اس پر فرض ہے۔ ریاست کی ذمے داری بہت بڑی ذمے داری، پاکستان کے وزیراعظم ہونے کے خواب کون نہیں دیکھتا ہو گا، مگر حسین بات تو تب ہو گی جب ہم میں سے حکمراں بننے والے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ریاست کے خواب دیکھے رات رات بھر جاگے، سوکھی روٹی سے پیٹ بھرے اور درخت کے سائے میں سو جائے۔

مگر یہاں تو حساب ہی الٹا ہوا ہے۔ رہنے کے لیے محل، عیش و عشرت بھری زندگی، کئی اربوں روپے تو صرف حکومت چلانے میں چاہیے ہوتے ہیں، ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، پرائم منسٹر سیکریٹریٹ، گورنر ہاؤسز، وزیر اعلیٰ ہاؤسز، ایم این اے اور ایم پی اے ہاسٹلز، وزیروں، مشیروں اور چیئرمینوں کے خرچے، سرکاری گاڑیاں، پٹرول کی حد، نوکروں چاکروں کے خرچے ، ذرا ذرا کام کے لیے ملازمین۔ اور رعایا کا حال یہ ہے کہ عوام بھوک و افلاس کے خوف سے خودکشیاں کر لیں، بچوں کو زہر دے کر مار دیں، دریاؤں میں ڈبو دیں، اﷲ کی پناہ! کون سا دل لگا کر یہ کرسیوں پر جم جاتے ہیں۔ ان کے احساسات جاگتے کیوں نہیں، کیا یہ لوگ سدا اسی دنیا میں رہیں گے، کیا موت ان کو نہیں آئے گی، کیا یہ لوگ اﷲ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں گے، حکمرانی کا شوق، وزارتوں کے مزے نے ان لوگوں کو اتنا بدگمان کردیا ہے کہ نہ ان کی توجہ امن و امان پر ہے، نہ یہ مسجدوں کو فرقہ واریت سے پاک کرتے ہیں۔

مذہبی جذبات کی آڑ لے کر بھی یہ لوگ ایسی ایسی بدگمانیاں پھیلاتے ہیں، مقصد صرف ایک کہ کسی طرح ان کی کرسی جمی رہے، کیا میرا اور آپ کا مذہب کھیل تماشا ہے؟ کیا حقوق و فرائض، انصاف و عدل کی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ بے تحاشا عوام کو لوٹ کر جمع کیا اور پھر اس جمع کیے ہوئے میں سے اپنی اولاد کے لیے حصے بخرے کرتے ہیں اور بلند آوازوں میں عوام کو بے وقوف بناتے ہیں کہ یہ ورثہ ہے۔ کیا خون چوس کر لوگوں کے جان و مال کو کھیل تماشا بنا کر ورثہ بنتا ہے۔

وزارتوں کے ایسے مزے ان کے منہ کو لگے ہیں کہ پارٹی بدلنا بھی ایک ٹرینڈ ہوگیا، بڑی بولی، بڑی وزارت، لو جی پہلی پارٹی چھوڑی دوسری میں پہنچ گئے۔ اربوں روپوں کے مالک لاکھوں ان کے ووٹرز۔ عزت بھی نیک نامی بھی، مگر پھر بھی اور زیادہ کی خواہش۔ نشہ اقتدار میں جو ہے وہ کسی اور میں کہاں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں