آپ اور آپ کے تیس دشمن
اگر آپ یہ دیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی ناکامی کا ذمے دار کون ہے،
KARACHI:
آپ اپنے آپ کو یاد دلانے کے لیے یہ الفاظ تحریر کر کے کسی ایسی جگہ لٹکا دیں جہاں روزانہ آپ کی نظر پڑ سکے، کیونکہ یہ الفاظ آپ کی زندگی بدل دیں گے، الفاظ یہ ہیں ''دنیا کو کر کے دکھائیں کہ آپ کے ارادے کیا ہیں۔'' دنیا کے عظیم فیصلے جو تہذیبوں کی بنیاد بنے، بڑے بڑے خطرات مول لے کر کیے گئے، جس کا اکثر مطلب موت ہوتا تھا۔ لنکن نے آزادی کا معروف اعلان جس نے امریکا کے سیاہ فاموں کو غلامی سے آزادی دلوائی، یہ جاننے کے باوجود کیا کہ اس عمل سے اس کے ہزاروں دوست اور سیاسی حامی اس کے خلاف ہو جائیں گے۔
وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے اس فیصلے سے ہزاروں افراد لڑائی میں مارے جائیں گے، اسی فیصلے کی وجہ سے لنکن کو قتل بھی کر دیا گیا۔ سقراط نے اپنی زندگی پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے زہر کا پیالہ پینا پسند کیا۔ اپنے اس فیصلے سے اس نے ہزاروں سال پہلے آیندہ آنے والی نسلوں کو سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کا حق دلا دیا۔ جنرل رابرٹ ای لی کا یونین سے علیحدہ ہونے اور امریکا کے جنوبی علاقوں کے لیے کام کرنے کا فیصلہ بھی دلیرانہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ دوسرے لوگ تو اپنی جان سے جائیں گے ہی، اس کو بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ مگر دنیا کا وہ عظیم فیصلہ جس کا تعلق ہر امریکی شہری سے ہے 4 جولائی 1776ء کو فلاڈلفیا میں اس وقت کیا گیا جب 56 آدمیوں نے اس دستاویز پر دستخط کیے جس کے بارے میں وہ سب جانتے تھے کہ ان کے یہ دستخط تمام امریکیوں کو آزادی دلوا دیں گے یا ان کو سولی پر لٹکوا دیں گے۔
ناکامی کا منہ دیکھنے والے تقریباً پچیس ہزار سے زائد مرد و خواتین کے بالکل درست تجزیے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ فیصلہ سازی کی کمی و ناکامی کا تیس بڑی وجوہات کی سرفہرست وجہ ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر ایک مشترکہ دشمن ہے۔ سارتر کہتا ہے ''ہماری حالت ان اداکاروں جیسی ہے، جنھیں گھسیٹ کر اسٹیج پر بٹھا دیا جائے مگر ان کے پاس اسکرپٹ ہو نہ مکالمے اور نہ ہی کوئی مکالمے بنانے والا ہو، اس صورت حال میں اس اداکار کو اپنے مکالمے اور اپنا کردار خود تخلیق کرنا پڑتا ہے، یعنی اس کا جوہر کیا ہے اس کا تعین صرف اور صرف اسے ہی کرنا ہے''۔
ہم اس دنیا میں اپنی مرضی کے بغیر آئے ہیں اور آزاد بھی ہیں، کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کہ ہمیں بتائے کہ ہم کیا کریں، جو کچھ کرنا ہے اپنی مرضی اور اپنے انتخاب سے، اور اپنے انتخاب کی ذمے داری بھی ہمیں ہی اٹھانا ہو گی، اسی لیے ''اے انسان خود کو پہچانو'' قدیم ترین نصیحت ہے۔ اسی لیے آپ اپنے آپ سے ملے بغیر، اسے جانے بغیر، اسے پہچانے بغیر، صرف ناکامی سے ہی مل سکتے ہیں، پھر آپ کو کامیابی سے ملنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا، ہم میں سے اکثر شکست کھانے کے بعد پھر کبھی نہیں اٹھتے، لیکن جو لوگ اپنے آپ سے مل چکے ہوتے ہیں وہ شکست کے بعد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور کوشش کا عمل جاری رکھتے ہیں اور پھر ایک روز دنیا پکار اٹھتی ہے ''شاباش! ہم جانتے تھے تم کر سکتے ہو''۔
اگر آپ یہ دیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی ناکامی کا ذمے دار کون ہے، تو آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو جائیے اور جو شخص وہاں آپ کو کھڑا نظر آئے وہ ہی آپ کی ناکامی کا ذمے دار ہے۔ آئیں ان تیس وجوہات کو جانتے ہیں جن کی وجہ سے آئینے میں کھڑا شخص ناکامی سے دوچار ہوا (1) ناموافق وارثتی پس منظر، (2) زندگی میں متعین مقصد کا فقدان (3) اوسط درجے سے نکلنے کی شدید خواہش اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں، (4) ناکافی تعلیم، (5) خود ضبطی کا فقدان، (6) خرابی صحت، (7) بچپن میں غلط ماحول، (8) کاہلی، (9) استقامت کا فقدان، (10) منفی شخصیت، (11) جنسی خواہش کو قابو میں رکھنے کا فقدان، (12) کچھ نہ کرکے بھی کچھ حاصل کرنے کی خواہش، (13) فیصلہ کرنے کی واضح قوت کا فقدان، (14) ہر وقت خدشات کا لاحق ہونا، (15) غلط شریک حیات کا چناؤ، (16) حد سے زیادہ احتیاط، (17) کاروباری شرکا کا غلط چناؤ، (18) ضعیف الاعتقادی، جہالت، تعصب، (19) غلط پیشے کا انتخاب، (20) کوشش کے ارتکاز کا فقدان، (21) فضول خرچی کی عادت، (22) جذبے اور ولولے کا فقدان، (23) عدم رواداری، (24) زیادتی اور اعتدال کی کمی، (25) دوسروں سے تعاون کرنے کی نااہلیت، (26) ایسی قوت یا ایسے اختیار کا حامل ہوجانا جو اپنی کوشش سے حاصل نہ کیا گیا ہو، (27) قصداً بے ایمانی، (28) خودغرضی، جھوٹی شان، (29) فکر کے بجائے قیاس، (30) سرمائے کی کمی۔
ناکامی کی ان تیس وجوہات میں زندگی کے المیے کا بیان ہے، اب آپ اپنے ان تیس دشمنوں کو پہچان چکے ہیں، جو آپ کے خود کے اندر چھپے ہوئے ہیں اور جو ہر وقت ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں اور جہاں آپ کامیابی کی پہلی سیٹرھی پر پاؤں رکھتے ہیں، یہ تیس کے تیس دشمن آپ کو اسی وقت دبوچ کر واپس نیچے دھکیل دیتے ہیں اور یہ عمل مسلسل اسی طرح سے آپ کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ آپ اپنے اندر بیٹھے دشمنوں کو برا بھلا کہنے یا انھیں ختم کرنے کے بجائے سارا وقت اپنے نصیبوں، اپنی قسمت اور مقدر کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، انھیں کوستے رہتے ہیں، کچھ سوچے سمجھے بغیر۔ ایسا کریں ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیجیے گا، جس وقت آپ اپنے نصیبوں، قسمت اور مقدر کو برا بھلا کہہ رہے ہوں، کہتے کہتے بیچ میں صرف ایک منٹ کے لیے خاموش ہوجائیے گا، جب مکمل خاموشی طاری ہوجائے گی تو آپ کو باآسانی اپنے ان تیس دشمنوں کے قہقہے صاف سنائی دیں گے جو آپ کے اندر سے باہر آرہے ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کے یہ تیس دشمن صرف آپ کی کامیابی کے دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ آپ کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کے بھی اصل ذمے دار ہیں۔
آپ اپنے آپ کو یاد دلانے کے لیے یہ الفاظ تحریر کر کے کسی ایسی جگہ لٹکا دیں جہاں روزانہ آپ کی نظر پڑ سکے، کیونکہ یہ الفاظ آپ کی زندگی بدل دیں گے، الفاظ یہ ہیں ''دنیا کو کر کے دکھائیں کہ آپ کے ارادے کیا ہیں۔'' دنیا کے عظیم فیصلے جو تہذیبوں کی بنیاد بنے، بڑے بڑے خطرات مول لے کر کیے گئے، جس کا اکثر مطلب موت ہوتا تھا۔ لنکن نے آزادی کا معروف اعلان جس نے امریکا کے سیاہ فاموں کو غلامی سے آزادی دلوائی، یہ جاننے کے باوجود کیا کہ اس عمل سے اس کے ہزاروں دوست اور سیاسی حامی اس کے خلاف ہو جائیں گے۔
وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے اس فیصلے سے ہزاروں افراد لڑائی میں مارے جائیں گے، اسی فیصلے کی وجہ سے لنکن کو قتل بھی کر دیا گیا۔ سقراط نے اپنی زندگی پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے زہر کا پیالہ پینا پسند کیا۔ اپنے اس فیصلے سے اس نے ہزاروں سال پہلے آیندہ آنے والی نسلوں کو سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کا حق دلا دیا۔ جنرل رابرٹ ای لی کا یونین سے علیحدہ ہونے اور امریکا کے جنوبی علاقوں کے لیے کام کرنے کا فیصلہ بھی دلیرانہ تھا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ دوسرے لوگ تو اپنی جان سے جائیں گے ہی، اس کو بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ مگر دنیا کا وہ عظیم فیصلہ جس کا تعلق ہر امریکی شہری سے ہے 4 جولائی 1776ء کو فلاڈلفیا میں اس وقت کیا گیا جب 56 آدمیوں نے اس دستاویز پر دستخط کیے جس کے بارے میں وہ سب جانتے تھے کہ ان کے یہ دستخط تمام امریکیوں کو آزادی دلوا دیں گے یا ان کو سولی پر لٹکوا دیں گے۔
ناکامی کا منہ دیکھنے والے تقریباً پچیس ہزار سے زائد مرد و خواتین کے بالکل درست تجزیے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ فیصلہ سازی کی کمی و ناکامی کا تیس بڑی وجوہات کی سرفہرست وجہ ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے کہ فیصلہ کرنے میں تاخیر ایک مشترکہ دشمن ہے۔ سارتر کہتا ہے ''ہماری حالت ان اداکاروں جیسی ہے، جنھیں گھسیٹ کر اسٹیج پر بٹھا دیا جائے مگر ان کے پاس اسکرپٹ ہو نہ مکالمے اور نہ ہی کوئی مکالمے بنانے والا ہو، اس صورت حال میں اس اداکار کو اپنے مکالمے اور اپنا کردار خود تخلیق کرنا پڑتا ہے، یعنی اس کا جوہر کیا ہے اس کا تعین صرف اور صرف اسے ہی کرنا ہے''۔
ہم اس دنیا میں اپنی مرضی کے بغیر آئے ہیں اور آزاد بھی ہیں، کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو کہ ہمیں بتائے کہ ہم کیا کریں، جو کچھ کرنا ہے اپنی مرضی اور اپنے انتخاب سے، اور اپنے انتخاب کی ذمے داری بھی ہمیں ہی اٹھانا ہو گی، اسی لیے ''اے انسان خود کو پہچانو'' قدیم ترین نصیحت ہے۔ اسی لیے آپ اپنے آپ سے ملے بغیر، اسے جانے بغیر، اسے پہچانے بغیر، صرف ناکامی سے ہی مل سکتے ہیں، پھر آپ کو کامیابی سے ملنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا، ہم میں سے اکثر شکست کھانے کے بعد پھر کبھی نہیں اٹھتے، لیکن جو لوگ اپنے آپ سے مل چکے ہوتے ہیں وہ شکست کے بعد بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور کوشش کا عمل جاری رکھتے ہیں اور پھر ایک روز دنیا پکار اٹھتی ہے ''شاباش! ہم جانتے تھے تم کر سکتے ہو''۔
اگر آپ یہ دیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کی ناکامی کا ذمے دار کون ہے، تو آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو جائیے اور جو شخص وہاں آپ کو کھڑا نظر آئے وہ ہی آپ کی ناکامی کا ذمے دار ہے۔ آئیں ان تیس وجوہات کو جانتے ہیں جن کی وجہ سے آئینے میں کھڑا شخص ناکامی سے دوچار ہوا (1) ناموافق وارثتی پس منظر، (2) زندگی میں متعین مقصد کا فقدان (3) اوسط درجے سے نکلنے کی شدید خواہش اور اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں، (4) ناکافی تعلیم، (5) خود ضبطی کا فقدان، (6) خرابی صحت، (7) بچپن میں غلط ماحول، (8) کاہلی، (9) استقامت کا فقدان، (10) منفی شخصیت، (11) جنسی خواہش کو قابو میں رکھنے کا فقدان، (12) کچھ نہ کرکے بھی کچھ حاصل کرنے کی خواہش، (13) فیصلہ کرنے کی واضح قوت کا فقدان، (14) ہر وقت خدشات کا لاحق ہونا، (15) غلط شریک حیات کا چناؤ، (16) حد سے زیادہ احتیاط، (17) کاروباری شرکا کا غلط چناؤ، (18) ضعیف الاعتقادی، جہالت، تعصب، (19) غلط پیشے کا انتخاب، (20) کوشش کے ارتکاز کا فقدان، (21) فضول خرچی کی عادت، (22) جذبے اور ولولے کا فقدان، (23) عدم رواداری، (24) زیادتی اور اعتدال کی کمی، (25) دوسروں سے تعاون کرنے کی نااہلیت، (26) ایسی قوت یا ایسے اختیار کا حامل ہوجانا جو اپنی کوشش سے حاصل نہ کیا گیا ہو، (27) قصداً بے ایمانی، (28) خودغرضی، جھوٹی شان، (29) فکر کے بجائے قیاس، (30) سرمائے کی کمی۔
ناکامی کی ان تیس وجوہات میں زندگی کے المیے کا بیان ہے، اب آپ اپنے ان تیس دشمنوں کو پہچان چکے ہیں، جو آپ کے خود کے اندر چھپے ہوئے ہیں اور جو ہر وقت ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں اور جہاں آپ کامیابی کی پہلی سیٹرھی پر پاؤں رکھتے ہیں، یہ تیس کے تیس دشمن آپ کو اسی وقت دبوچ کر واپس نیچے دھکیل دیتے ہیں اور یہ عمل مسلسل اسی طرح سے آپ کی آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ آپ اپنے اندر بیٹھے دشمنوں کو برا بھلا کہنے یا انھیں ختم کرنے کے بجائے سارا وقت اپنے نصیبوں، اپنی قسمت اور مقدر کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، انھیں کوستے رہتے ہیں، کچھ سوچے سمجھے بغیر۔ ایسا کریں ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیجیے گا، جس وقت آپ اپنے نصیبوں، قسمت اور مقدر کو برا بھلا کہہ رہے ہوں، کہتے کہتے بیچ میں صرف ایک منٹ کے لیے خاموش ہوجائیے گا، جب مکمل خاموشی طاری ہوجائے گی تو آپ کو باآسانی اپنے ان تیس دشمنوں کے قہقہے صاف سنائی دیں گے جو آپ کے اندر سے باہر آرہے ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کے یہ تیس دشمن صرف آپ کی کامیابی کے دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ آپ کی جسمانی اور ذہنی بیماریوں کے بھی اصل ذمے دار ہیں۔