مہرباں معیشت کی آغوش میں
یہی رویہ نیولبرل اقتصادیات کی بنیاد رکھتا ہے، لیکن اب ہمیں اس معیشت سے نجات پانا ہو گی
آج تک بھوکے اورغریب عوام کے بارے میں کس نے سوچا ہے، سوائے صدیوں پہلے کے ان ایک دو حکمرانوں کے جن کے دلوں میں خوف خدا تھا، جن کو راتوں کو اس لیے نیند نہیں آتی تھی کہ اگر ان کی ریاست میں ایک شخص بھی بھوکا سو گیا تو وہ خدا کو کیا جواب دیں گے یا پھر ان کے بعد مارکس نے سوچا اوراس کے نظریات پر عمل کرنے والوں نے بھوک اورغربت کو مٹانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو پائے اور منڈی کی قوتوں کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔ انسانی تعلقات بھی کاروبار بن کے رہ گئے ہیں۔ ہرکوئی کم سے کم دے کر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
یہی رویہ نیولبرل اقتصادیات کی بنیاد رکھتا ہے، لیکن اب ہمیں اس معیشت سے نجات پانا ہو گی جس میں سارا پیسا بینکوں میں یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اب ہمیں ایسی معیشت کی طرف جانا ہو گا جو سارے لوگوں اور اس کرہ ارض کا دھیان رکھے۔ اقتصادی نکتہ نظر کا مرکز و محور روپیہ پیسا نہیں بلکہ انسان ہونا چاہیے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے عالمی سماجی اقتصادیات کا محور منڈی رہی ہے۔
اس نقطہ نظر کی بدولت انسانی تعلقات مبادلہ یا تبادلے کے تعلقات بن گئے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اقتصادی طور پر سمجھدار انسان ایسے فیصلے کرتا ہے جن کے نتیجے میں اسے کم سے کم اخراجات کر کے زیادہ سے زیادہ آسودگی حاصل ہو سکے۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن انسان بنیادی طور پرخود غرض واقع ہوا ہے اور اکثر وہ زیادہ سے زیادہ آسودگی حاصل کرنے کے چکر میں دوسروں کے فائدے کو نظراندازکر دیتا ہے اور بعض صورتوں میں دوسروں کو نقصان بھی پہنچاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایک نیا فلسفیانہ نقطہ نظر سامنے آیا، اسے آپ دیکھ بھال یا نگہداشت کی اخلاقیات کہہ سکتے ہیں یعنی اگرہم اقتصادی طور پر سمجھدار انسان کی بجائے ایک مہربان اور شفیق انسان بن جائیں تو کیسا رہے گا؟
نگہداشت کی اخلاقیات ایک نیا فلسفیانہ نقطہ نظر ہے جو تحریک نسواں سے متاثر ہو کر سامنے آیا ہے۔ یہ سیاست، اقتصادیات اور سماجی زندگی میں صنفی شعور والے متبادل کے طور پرسامنے آیا ہے۔ شفیق اور مہربان انسان کی پیراڈائم کثیرالجہتی ہے۔ یہ افراد کے باہمی انحصار کو تسلیم کرتی ہے اور افادیت پسندی کی سمجھداری کے ساتھ ساتھ جذبات کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ نگہداشت کے بہت سے مفاہیم ہیں۔ نگہداشت سے مراد وہ اقدار، رویے اور پریکٹسز ہیں جو لوگوں کے اور ان کے ماحول کے درمیان سماجی تعلقات قائم کرتے ہیں۔
دیکھ بھال اور نگہداشت کے بغیر انسان کا بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسانی زندگی کا آغاز ہی دیکھ بھال سے ہوتا ہے، یہ ایک آفاقی تجربہ ہے۔ ہر ثقافت کی بنیاد دیکھ بھال پر رکھی گئی ہے۔ لوگوں کے اپنے، دوسروں کے اور اپنے ماحول کی دیکھ بھال کے ضوابط اور رواج ہی ثقافت کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہر سماجی تشکیل میں نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال، اپنے ماحول کے سیاق و سباق میں زندہ رہنے کے لیے دیکھ بھال، نباتات کی دیکھ بھال، بیماروں کی دیکھ بھال اور اسی طرح لوگوں کے حالات زندگی، حالات کار اور رہائشی حالات کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے۔
سماج کی بقا کے لیے دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ یہ بات اس وقت واضح ہوتی ہے جب کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا اور کوئی بھی ان لوگوں کی ذمے داری نہیں لیتا جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ سماجی انتشارکی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے، لوگ بچوں کو لاوارث چھوڑ سکتے ہیں، کچرے دان میں پھینک سکتے ہیں، یقین نہیں آتا تو بلقیس ایدھی سے جا کے پوچھ لیجیے۔ بوڑھے لوگوں کو کیسے جوان اولاد ان کے پاس چھوڑ جاتی ہے، یہ بھی وہ آپ کو بتائیں گی۔کراچی اور دیگر شہروں میں گھروں اور محلوں کا جو حال ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔
علاج معالجے کی سہولتیں اتنی مہنگی ہو چکی ہیںکہ غریب آدمی کے پاس سوائے عطائی ڈاکٹروں یا تعویز گنڈوں کا سہارا لینے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں کتنی عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی ہیں، کتنے بچے پانچ سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ اسی طرح اگر ماحولیاتی پائیداری کی بات کریں تو ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری سرگرمیوں کا ماحول پرکیا اثر پڑتا ہے۔ہمیں گرمی لگتی ہے، ہم ایرکنڈیشنر خریدلاتے ہیں، ہم میں سے کون سوچتا ہے کہ یہ ایرکنڈیشنر ہمارے کمرے کو تو ٹھنڈا کر رہا ہے لیکن باہر کے ماحول کی حرارت میں اضافہ کر رہا ہے اور ہمارے ہاں تو اکثر لوگ کنڈا ڈال کے اے سی چلاتے ہیں، ہم میں سے کون جانتا ہے کہ ریفریجریٹر اور دیگر آلات میں استعمال ہونے والی گیسیں اوزون کی تہہ میں سوراخ کر رہی ہیں؟ ہم نے اپنے جنگلات ختم کر دیے ہیں، ہمارے دریا اور جھیلیں سوکھ رہی ہیں، آلودگی بڑھ رہی ہے، بہت سے جانوروں اور پرندوں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں، تھر پارکر میں مور مررہے ہیں، آب وہوا تبدیل ہو رہی ہے اور قدرتی وسائل ختم ہو رہے ہیں۔
آب و ہوا میں انتہائی قسم کی تبدیلیاں دنیا بھر کا مسئلہ ہیں، اس میں امیر اور غریب ممالک کی تخصیص نہیں ہے، یہ اور بات ہے کہ یہ مسئلہ امیر ملکوں کا پیدا کردہ ہے جنہوں نے اپنی ترقی اور آسائشات کے لیے معدنی تیل، گیس اور کوئلے کا بے تحاشا استعمال کر کے گلوبل وارمنگ میں اضافہ کیا، لیکن اب آنے والی تباہی سے بچنے کے لیے سب کو مل جل کرکام کرنا ہو گا، اسی لیے مہربان معیشت کا ماڈل سامنے آیا ہے، جس کی بنیاد ایک شفیق اور مہربان انسان کے نمونے پر رکھی گئی ہے، یہ ایک جامع نقطہ نظر ہے جو فرد اور گروہ کی کثیرالجہت شناختوں اور ان کے باہمی انحصار اور تعلق کو تسلیم کرتا ہے۔ نگہداشت کی اخلاقیات کا تعلق صرف گھریلو سرگرمیوں یا دیکھ بھال کے شعبے سے نہیں ہے بلکہ ہمارے رویے یا اخلاقی تربیت سے بھی ہے، جس کا اظہار لوگوں کے باہمی تعلقات میں مختلف جذبات کے ذریعے ہوتا ہے مثلاََ محبت، گرم جوشی، دوستی، احساس ذمے داری، دوسروں کے بارے میں فکرمندی وغیرہ۔ ایسی معیشت کی تشکیل کے لیے جون ٹرنٹو کی نگہداشت یا دیکھ بھال کی درج ذیل تعریف استعمال کی جاتی ہے۔
دیکھ بھال ایک ایسی سرگرمی ہے، جس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو ہم اپنی دنیا کو برقرار، بحال رکھنے اور بچانے کے لیے کرتے ہیں تا کہ ہم جس حد تک ممکن ہو اس دنیا میںاچھی طرح رہ سکیں۔اس میں ہمارا اپنا وجود، ہمارا ماحول اور وہ سب کچھ شامل ہے جو اس کرہ ارض پر زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
اس کی بنیاد پر ایک مہربان معیشت کی عملی تعریف یوں کی جا سکتی ہے۔
انسانی رویے کی وہ سائنس جس کا مقصداس دنیا کو جس میں ہم رہتے ہیں، قائم رکھنا، اس کے تسلسل کو برقرار رکھنا اور اسے ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے تا کہ ہر ایک کے لیے پائیدار طریقے سے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
سچ پوچھئے تو انفرادی طور پر کچھ لوگ ہمیشہ اس طرح کی کوششیں کرتے رہے ہیں جیسے ہمارے ہاں عبدالستار ایدھی تھے، مگر ہماری معیشت تو نیولبرل معیشت ہے جس میں سمجھدار لوگ اپنے ذاتی اورطبقاتی مفاد کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جب کہ مہربان اور شفیق انسان سب کا خیال رکھتا اور سب کے بارے میں سوچتا ہے اور باہمی اعتماد اور حساسیت کی بنا پر فیصلے کرتا ہے۔ نیو لبرل معیشت میں ایک سمجھدار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کرے گا تو اس سے لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا۔ جب کہ ایک مہربان معیشت میں فرد کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اپنا خیال رکھنے، دوسروں کا خیال رکھنے اور ماحولیات کا خیال رکھنے سے سماجی ڈھانچے کو پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔
نیو لبرل معیشت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کمیاب یا قلیل چیزوں کی بہتر تقسیم منڈی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ جب کہ مہربان معیشت کے پیش نظر انسانوں کی بقا ہوتی ہے۔ نیو لبرل معیشت کے پیش نظرافراد کے درمیان ایک ہی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں، یعنی اشیا اور خدمات کا تبادلہ۔ جب کہ دیکھ بھال کی اقتصادی سوچ جامع اور افراد کے کثیرالجہتی تعلقات، باہمی اعتماد اور دیکھ بھال کے بارے میں ہوتی ہے۔ نیولبرل معیشت ایٹمی معاشرہ تشکیل دیتی ہے یعنی بہت سے خود مختارافراد کا مجموعہ جو خود مختارانہ طور پرکام کرتے ہیں۔ جب کہ مہربان معیشت سماجی جڑت، ربط و ضبط اور باہمی انحصار پر زور دیتی ہے۔
ایک مہربان معیشت اور دیکھ بھال کرنے والے معاشرے کی باتیں کوئی تصوراتی باتیں نہیں ہیںبلکہ سویڈن، فن لینڈ، آئس لینڈ اور ناروے میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ ان ممالک کی پالیسیوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم دونوں کی کامیاب پالیسیوں کو اپنایا گیا ہے، دوسرے لفظوں میں آپ انھیں فلاحی مملکت کہہ سکتے ہیں۔ بچے کی دیکھ بھال کے پروگراموں کا خرچہ حکومت اٹھاتی ہیِ بچے کی پیدائش کے بعد والدین کو فراخدلی سے چھٹیاں دی جاتی ہیں، بچوں یا بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے والے خاندانوں کو مالی مدد دی جاتی ہے۔ علاج معالجے کی سہولت ہر شہری کو مفت حاصل ہوتی ہے، یہ لوگ اپنی دولت کا ایک اچھا خاصہ حصہ غریب اقوام کی مدد کے لیے بھی دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اس طرح کی دیکھ بھال کے کام گھرکی عورتوں کی ذمے داری سمجھے جاتے ہیں، عورت یہ کام مفت کرتی ہے، اس لیے اس کام کی کوئی قدر نہیں کی جاتی کیونکہ علم اقتصادیات کی رو سے کام وہ ہوتا ہے جس کا معاوضہ ملے، ہمارے جیسے ملکوں میں جب عورت معاوضے کی خاطر کام کرنے باہر نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اسے گھریلو ذمے داریوں کو بھی اسی طرح نبھانا پڑتا ہے یعنی اسے دہرا، تہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جب کہ کئیرنگ یا شہریوں کی دیکھ بھال کرنے والی معیشتوں میں ریاست اس طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔
یہی رویہ نیولبرل اقتصادیات کی بنیاد رکھتا ہے، لیکن اب ہمیں اس معیشت سے نجات پانا ہو گی جس میں سارا پیسا بینکوں میں یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اب ہمیں ایسی معیشت کی طرف جانا ہو گا جو سارے لوگوں اور اس کرہ ارض کا دھیان رکھے۔ اقتصادی نکتہ نظر کا مرکز و محور روپیہ پیسا نہیں بلکہ انسان ہونا چاہیے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے عالمی سماجی اقتصادیات کا محور منڈی رہی ہے۔
اس نقطہ نظر کی بدولت انسانی تعلقات مبادلہ یا تبادلے کے تعلقات بن گئے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اقتصادی طور پر سمجھدار انسان ایسے فیصلے کرتا ہے جن کے نتیجے میں اسے کم سے کم اخراجات کر کے زیادہ سے زیادہ آسودگی حاصل ہو سکے۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن انسان بنیادی طور پرخود غرض واقع ہوا ہے اور اکثر وہ زیادہ سے زیادہ آسودگی حاصل کرنے کے چکر میں دوسروں کے فائدے کو نظراندازکر دیتا ہے اور بعض صورتوں میں دوسروں کو نقصان بھی پہنچاتا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں ایک نیا فلسفیانہ نقطہ نظر سامنے آیا، اسے آپ دیکھ بھال یا نگہداشت کی اخلاقیات کہہ سکتے ہیں یعنی اگرہم اقتصادی طور پر سمجھدار انسان کی بجائے ایک مہربان اور شفیق انسان بن جائیں تو کیسا رہے گا؟
نگہداشت کی اخلاقیات ایک نیا فلسفیانہ نقطہ نظر ہے جو تحریک نسواں سے متاثر ہو کر سامنے آیا ہے۔ یہ سیاست، اقتصادیات اور سماجی زندگی میں صنفی شعور والے متبادل کے طور پرسامنے آیا ہے۔ شفیق اور مہربان انسان کی پیراڈائم کثیرالجہتی ہے۔ یہ افراد کے باہمی انحصار کو تسلیم کرتی ہے اور افادیت پسندی کی سمجھداری کے ساتھ ساتھ جذبات کو بھی اہمیت دیتی ہے۔ نگہداشت کے بہت سے مفاہیم ہیں۔ نگہداشت سے مراد وہ اقدار، رویے اور پریکٹسز ہیں جو لوگوں کے اور ان کے ماحول کے درمیان سماجی تعلقات قائم کرتے ہیں۔
دیکھ بھال اور نگہداشت کے بغیر انسان کا بچہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ انسانی زندگی کا آغاز ہی دیکھ بھال سے ہوتا ہے، یہ ایک آفاقی تجربہ ہے۔ ہر ثقافت کی بنیاد دیکھ بھال پر رکھی گئی ہے۔ لوگوں کے اپنے، دوسروں کے اور اپنے ماحول کی دیکھ بھال کے ضوابط اور رواج ہی ثقافت کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہر سماجی تشکیل میں نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال، اپنے ماحول کے سیاق و سباق میں زندہ رہنے کے لیے دیکھ بھال، نباتات کی دیکھ بھال، بیماروں کی دیکھ بھال اور اسی طرح لوگوں کے حالات زندگی، حالات کار اور رہائشی حالات کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے۔
سماج کی بقا کے لیے دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔ یہ بات اس وقت واضح ہوتی ہے جب کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا اور کوئی بھی ان لوگوں کی ذمے داری نہیں لیتا جنہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ سماجی انتشارکی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے، لوگ بچوں کو لاوارث چھوڑ سکتے ہیں، کچرے دان میں پھینک سکتے ہیں، یقین نہیں آتا تو بلقیس ایدھی سے جا کے پوچھ لیجیے۔ بوڑھے لوگوں کو کیسے جوان اولاد ان کے پاس چھوڑ جاتی ہے، یہ بھی وہ آپ کو بتائیں گی۔کراچی اور دیگر شہروں میں گھروں اور محلوں کا جو حال ہے، وہ ہم سب جانتے ہیں۔
علاج معالجے کی سہولتیں اتنی مہنگی ہو چکی ہیںکہ غریب آدمی کے پاس سوائے عطائی ڈاکٹروں یا تعویز گنڈوں کا سہارا لینے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں کتنی عورتیں زچگی کے دوران مر جاتی ہیں، کتنے بچے پانچ سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتے۔ اسی طرح اگر ماحولیاتی پائیداری کی بات کریں تو ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ہماری سرگرمیوں کا ماحول پرکیا اثر پڑتا ہے۔ہمیں گرمی لگتی ہے، ہم ایرکنڈیشنر خریدلاتے ہیں، ہم میں سے کون سوچتا ہے کہ یہ ایرکنڈیشنر ہمارے کمرے کو تو ٹھنڈا کر رہا ہے لیکن باہر کے ماحول کی حرارت میں اضافہ کر رہا ہے اور ہمارے ہاں تو اکثر لوگ کنڈا ڈال کے اے سی چلاتے ہیں، ہم میں سے کون جانتا ہے کہ ریفریجریٹر اور دیگر آلات میں استعمال ہونے والی گیسیں اوزون کی تہہ میں سوراخ کر رہی ہیں؟ ہم نے اپنے جنگلات ختم کر دیے ہیں، ہمارے دریا اور جھیلیں سوکھ رہی ہیں، آلودگی بڑھ رہی ہے، بہت سے جانوروں اور پرندوں کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں، تھر پارکر میں مور مررہے ہیں، آب وہوا تبدیل ہو رہی ہے اور قدرتی وسائل ختم ہو رہے ہیں۔
آب و ہوا میں انتہائی قسم کی تبدیلیاں دنیا بھر کا مسئلہ ہیں، اس میں امیر اور غریب ممالک کی تخصیص نہیں ہے، یہ اور بات ہے کہ یہ مسئلہ امیر ملکوں کا پیدا کردہ ہے جنہوں نے اپنی ترقی اور آسائشات کے لیے معدنی تیل، گیس اور کوئلے کا بے تحاشا استعمال کر کے گلوبل وارمنگ میں اضافہ کیا، لیکن اب آنے والی تباہی سے بچنے کے لیے سب کو مل جل کرکام کرنا ہو گا، اسی لیے مہربان معیشت کا ماڈل سامنے آیا ہے، جس کی بنیاد ایک شفیق اور مہربان انسان کے نمونے پر رکھی گئی ہے، یہ ایک جامع نقطہ نظر ہے جو فرد اور گروہ کی کثیرالجہت شناختوں اور ان کے باہمی انحصار اور تعلق کو تسلیم کرتا ہے۔ نگہداشت کی اخلاقیات کا تعلق صرف گھریلو سرگرمیوں یا دیکھ بھال کے شعبے سے نہیں ہے بلکہ ہمارے رویے یا اخلاقی تربیت سے بھی ہے، جس کا اظہار لوگوں کے باہمی تعلقات میں مختلف جذبات کے ذریعے ہوتا ہے مثلاََ محبت، گرم جوشی، دوستی، احساس ذمے داری، دوسروں کے بارے میں فکرمندی وغیرہ۔ ایسی معیشت کی تشکیل کے لیے جون ٹرنٹو کی نگہداشت یا دیکھ بھال کی درج ذیل تعریف استعمال کی جاتی ہے۔
دیکھ بھال ایک ایسی سرگرمی ہے، جس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو ہم اپنی دنیا کو برقرار، بحال رکھنے اور بچانے کے لیے کرتے ہیں تا کہ ہم جس حد تک ممکن ہو اس دنیا میںاچھی طرح رہ سکیں۔اس میں ہمارا اپنا وجود، ہمارا ماحول اور وہ سب کچھ شامل ہے جو اس کرہ ارض پر زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
اس کی بنیاد پر ایک مہربان معیشت کی عملی تعریف یوں کی جا سکتی ہے۔
انسانی رویے کی وہ سائنس جس کا مقصداس دنیا کو جس میں ہم رہتے ہیں، قائم رکھنا، اس کے تسلسل کو برقرار رکھنا اور اسے ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ہے تا کہ ہر ایک کے لیے پائیدار طریقے سے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
سچ پوچھئے تو انفرادی طور پر کچھ لوگ ہمیشہ اس طرح کی کوششیں کرتے رہے ہیں جیسے ہمارے ہاں عبدالستار ایدھی تھے، مگر ہماری معیشت تو نیولبرل معیشت ہے جس میں سمجھدار لوگ اپنے ذاتی اورطبقاتی مفاد کے مطابق فیصلے کرتے ہیں جب کہ مہربان اور شفیق انسان سب کا خیال رکھتا اور سب کے بارے میں سوچتا ہے اور باہمی اعتماد اور حساسیت کی بنا پر فیصلے کرتا ہے۔ نیو لبرل معیشت میں ایک سمجھدار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کرے گا تو اس سے لوگوں کو بھی فائدہ ہو گا۔ جب کہ ایک مہربان معیشت میں فرد کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ اپنا خیال رکھنے، دوسروں کا خیال رکھنے اور ماحولیات کا خیال رکھنے سے سماجی ڈھانچے کو پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔
نیو لبرل معیشت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ کمیاب یا قلیل چیزوں کی بہتر تقسیم منڈی کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ جب کہ مہربان معیشت کے پیش نظر انسانوں کی بقا ہوتی ہے۔ نیو لبرل معیشت کے پیش نظرافراد کے درمیان ایک ہی طرح کے تعلقات ہوتے ہیں، یعنی اشیا اور خدمات کا تبادلہ۔ جب کہ دیکھ بھال کی اقتصادی سوچ جامع اور افراد کے کثیرالجہتی تعلقات، باہمی اعتماد اور دیکھ بھال کے بارے میں ہوتی ہے۔ نیولبرل معیشت ایٹمی معاشرہ تشکیل دیتی ہے یعنی بہت سے خود مختارافراد کا مجموعہ جو خود مختارانہ طور پرکام کرتے ہیں۔ جب کہ مہربان معیشت سماجی جڑت، ربط و ضبط اور باہمی انحصار پر زور دیتی ہے۔
ایک مہربان معیشت اور دیکھ بھال کرنے والے معاشرے کی باتیں کوئی تصوراتی باتیں نہیں ہیںبلکہ سویڈن، فن لینڈ، آئس لینڈ اور ناروے میں یہ نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ ان ممالک کی پالیسیوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم دونوں کی کامیاب پالیسیوں کو اپنایا گیا ہے، دوسرے لفظوں میں آپ انھیں فلاحی مملکت کہہ سکتے ہیں۔ بچے کی دیکھ بھال کے پروگراموں کا خرچہ حکومت اٹھاتی ہیِ بچے کی پیدائش کے بعد والدین کو فراخدلی سے چھٹیاں دی جاتی ہیں، بچوں یا بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنے والے خاندانوں کو مالی مدد دی جاتی ہے۔ علاج معالجے کی سہولت ہر شہری کو مفت حاصل ہوتی ہے، یہ لوگ اپنی دولت کا ایک اچھا خاصہ حصہ غریب اقوام کی مدد کے لیے بھی دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں اس طرح کی دیکھ بھال کے کام گھرکی عورتوں کی ذمے داری سمجھے جاتے ہیں، عورت یہ کام مفت کرتی ہے، اس لیے اس کام کی کوئی قدر نہیں کی جاتی کیونکہ علم اقتصادیات کی رو سے کام وہ ہوتا ہے جس کا معاوضہ ملے، ہمارے جیسے ملکوں میں جب عورت معاوضے کی خاطر کام کرنے باہر نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اسے گھریلو ذمے داریوں کو بھی اسی طرح نبھانا پڑتا ہے یعنی اسے دہرا، تہرا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جب کہ کئیرنگ یا شہریوں کی دیکھ بھال کرنے والی معیشتوں میں ریاست اس طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔