چھروں سے داغدارمعصوم چہرے

قابض فوج نے نہتے کشمیریوں پر چھرے برسا کر بربریت کی نئی تاریخ رقم کر دی

قابض فوج نے نہتے کشمیریوں پر چھرے برسا کر بربریت کی نئی تاریخ رقم کر دی ۔ فوٹو : فائل

پانچ سالہ زہرہ سری نگر، مقبوضہ کشمیر میں واقع اپنے گھر کی بالکونی میں ہنسی خوشی کھیل رہی تھی۔ اچانک دس بارہ چھرے اس کے چہرے پر آلگے۔ کچھ اس کی آنکھوں کے اندر گھس گئے۔ تکلیف سے تڑپتی معصوم زہرہ چیخیں مارنے لگی اور جلد ہی درد کی شدت سے بے ہوش ہوگئی۔

زہرہ ایک چنچل اور ذہین بچی تھی۔ اس کے والدین کو یقین تھا کہ وہ بڑی ہوکر پڑھ لکھ کے ایک کارآمد شہری ثابت ہوگی۔ مگر بھارتی سکیورٹی فورسز کے چلائے چھروں نے زہرہ کے والدین کے سارے حسین خواب چکنا چور کردیئے۔ آج زہرہ سری نگر کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زہرہ اب شاید زندگی کی رعنائیاں کبھی نہ دیکھ سکے۔ یوں ایک بے گناہ کشمیری بچی بھارتی غاصبوں کے ظلم کی بھینٹ چڑھ گئی۔

زہرہ ہی نہیں آج بیسیوں کشمیری بچے بچیاں اور لڑکے و نوجوان بھارتی سکیورٹی فورسز کے چلائے چھروں کا نشانہ بن کر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں حالیہ احتجاج کے دوران پہلی بار یہ عجوبہ سامنے آیا کہ بھارتی سکیورٹی فورسز نے مظاہروں وجلوسوں میں شامل کشمیریوں کے سینوں اور چہروں کا نشانہ لے کر چھرے چلائے تاکہ انھیں مضروب کیا جاسکے۔ نتیجتاً سیکڑوں بچے بچیاں اپنی بینائی سے محروم ہوگئے۔ آج ان کی دنیا اندھیر ہوچکی اور وہ اپنے پیاروں کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

'چھروں والی بندوق''
نہیں شاٹ گن

دو ہزار سال قبل مشہور یونانی فلسفی ارسطو نے کہا تھا: ''مسلح ناانصافی ظلم کی بدترین شکل ہے۔'' آج دنیا کے سب سے بڑے قید خانے ...مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں مسلمان اسی بدترین ظلم کا شکار ہیں جو بھارتی قابض ان پر توڑ رہے ہیں۔ تاہم دنیا والے اب بھی کشمیریوں کی سسکیوں، آہوں اور چیخوں سے بے خبر رہنے کو ترجیح دیتے اور اپنی خوش وخرم دنیاؤں میں مگن ہیں۔ وہ ظالم بھارتی حکومت کی مذمت میں دوچار بیان دیتے اور یہ سوچ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ان کا فرض پورا ہوگیا۔

عالمی طاقتوں کی مجرمانہ بے حسی کے باعث ہی بھارتی سیکورٹی فورسز کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں کھل کر تحریک آزادی کا گلا گھونٹ سکے۔ مگر اپنی تمام تر چیرہ دستیوں اور مظالم کے باوجود لاکھوں بھارتی فوجی مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی دلیر و جری کشمیر ی ابھرتا اور اپنا لہو دے کے تحریک آزادی کی شمع پھر روشن کردیتا ہے۔ تاریخ کشمیر عبدالقدیر سے لے کر برہان مظفر وانی تک ایسے بہادر مجاہدوں سے بھری پڑی ہے۔

8 جولائی کو برہان وانی نے جام شہادت نوش کیا، تو وادی کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کے خلاف زبردست احتجاج شروع ہوگیا۔ جگہ جگہ کشمیری عوام جلوس نکالنے اور مظاہرے کرنے لگے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کی خاطر بھارتی سکیورٹی فورسز ایک ایسا ہتھیار استعمال کرنے لگیں جسے بھارتی میڈیا میں ''چھروں والی بندوق'' قرار دیا گیا۔ حقیقت میں یہ پمپ ایکشن شاٹ گن ہے جسے دنیا بھر میں افواج استعمال کرتی ہیں۔

فرق یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کو جب جلوس منتشر کرنے ہوں، تو وہ اپنی شاٹ گنوں میں ایسے کارتوس استعمال کرتی ہیں جن میں سب سے چھوٹے تقریباً چھ سو چھرے موجود ہوتے ہیں۔ یہ کارتوس جب 50 گز دور سے چلایا جائے تو اس سے نکلنے والا چھرا جسم پر زور سے لگتا ہے، مگر جلد کے اندر نہیں گھستا۔ اسی لیے بھارتی میڈیا مسلسل یہ پروپیگنڈا کرتا رہا کہ مقبوضہ کشمیر میںسکیورٹی فورسز ''بے ضرر'' اسلحہ استعمال کررہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ''بے ضرر'' اسلحے نے کیونکر سیکڑوں کشمیری اندھے اور زخمی کرڈالے؟

دراصل یہ خود ساختہ ''چھروں والی بندوق'' جب بیس تیس گز دور سے چلائی جائے، تو ایک خطرناک ہتھیار بن جاتی ہے۔ تب بندوق کے چھرے ایک انسان کو مار بھی سکتے ہیں اور اس بار مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی سکیورٹی فورسز کو یہ براہ راست حکم دیا کہ احتجاج کرنے والوں پر قریب سے اور ان کے چہروں اور سینوں پر چھرے مارے جائیں۔ گویا مودی حکومت مظاہرین کو زخمی کرکے انہیں خوفزدہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن مودی حکومت کا یہ ظالمانہ وار خالی گیا اور پوری وادی کشمیر میں کرفیو کے باوجود نوجوان اور لڑکے ٹولیوں کی شکل میں احتجاج کرتے رہے۔

شاٹ گنوں سے چلائے جانے والے یہ چھرے بھارتی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تیار ہوتے ہیں۔ یہ سیسے اور اینٹیمونی دھاتوں سے بنتے ہیں۔ یہ دونوں زہریلی دھاتیں ہیں۔ چناں چہ چھرے سے جنم لینے والے زخم کا بروقت علاج نہ ہو، تو چھوت (انفیکشن) پورے جسم میں پھیل جاتی ہے۔ وہ پھر مضروب کو مار ڈالتی ہے۔

تادم تحریر بھارتی سکیورٹی فورسز کی بے دریغ فائرنگ سے''چھپن'' کشمیری جام شہادت نوش کرچکے جبکہ زخمی کشمیریوں کی تعداد چار ہزار سے زائد ہوچکی۔ ان میں سے بیشتر چھروں کے ذریعے ہی زخمی ہوئے۔ چھروں والی شاٹ گن بھارتی فوج نے پہلی بار 2010ء میں استعمال کی تھی۔ تب ''امرناتھ یاترا'' کے خلاف کشمیریوں نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ لیکن ماہرین کے مطابق احتجاج کی تازہ لہر تاریخ تحریک آزادی کشمیر میں سب سے زیادہ ہیجان خیز، وسیع و عریض اور جوش و جذبے سے لبریز ہے۔ یہی دیکھیے کہ شہید برہان وانی کی نماز جنازہ میں دو لاکھ کشمیری شریک ہوئے۔ اسے تاریخ کشمیر کا سب سے بڑا جنازہ قرار دیا جاچکا۔


تحریک کا نیا روپ
مقبوضہ کشمیر میں مختلف ادوار کے دوران تحریک آزادی کا ایک جداگانہ روپ رہا ہے۔ مثال کے طور پر 1931ء میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا، تو سینے پر گولی کھانا اس کا نعرہ تھا۔ 1990ء میں نیا دور شروع ہوا، تو وہ نوجوانوں کی شمولیت سے معمور رہا۔2010ء میں گولیوں کا جواب پتھروں سے دینے والے لڑکے تحریک کا شعار بن گئے۔ 2010ء کے بعد برہان مظفر وانی اور دیگر کشمیری مجاہدین نے تحریک آزادی کا شعلہ سوشل میڈیا میں بھی بھڑکا دیا اور اس بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھارتی حکومت و سکیورٹی فورسز کے مظالم عیاں کرنے لگے۔ اسی امر نے بھارتی حکومت کو اتنا چراغ پا کردیا کہ وہ ہر قیمت پر برہان وانی کو ختم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر کار ایک غدار کی مخبری پر وانی کو شہید کرنے میں کامیاب رہے۔

برہان وانی کے شہید ہونے کی خبر جنگل کی آگ کے مانند وادی کشمیر میں پھیل گئی۔ اگلے دن وادی میں جگہ جگہ بھارتی غاصبوں کے خلاف مظاہرے ہونے لگے۔ بھارتی سکیورٹی فورسزتو جیسے کشمیریوں کو نشانہ بنانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں۔ وہ بے دریغ مظاہرین پر نہایت قریب سے چھرے چلانے لگیں۔ چناں چہ ان چھروں نے ہزارہا کشمیریوں کے بدن اور چہرے داغدار کردیئے۔ اب چھروں کے نشانوں سے داغ دار چہرے ہی تحریک آزادی کا نیا روپ بن چکے۔ یہ داغدار چہرے بھارتی غاصبوں کی وحشت و بربریت کا منہ بولتا ثبوت اور ان کے ظلم کی خوفناک داستان بیان کرتے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب 2010ء میں بھارتی سکیورٹی فورسز نے شاٹ گنوں المعروف بہ چھروں والی بندوق کا استعمال شروع کیا، تو تب موجودہ وزیراعلیٰ مقبوضہ کشمیر، محبوبہ مفتی اپوزیشن میں تھیں۔ انہوں نے چھروں کے استعمال پر شدید احتجاج کیا اور انہیں انسانی حقوق کے منافی قراردیا۔ مگر آج وہ وزیراعلیٰ بنی بیٹھی ہیں اور محبوبہ مفتی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنے نہتے ہم وطنوں کو بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم سے محفوظ رکھ سکیں۔ یہ سچائی ثابت کرتی ہے کہ وہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی محض کٹھ پتلی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارتی حکومت سے مطالبہ کرچکیں کہ مقبوضہ کشمیر میں چھروں کے استعمال پر پابندی لگائی جائے، مگر ظالم بھارتیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ماہرین انسانی حقوق کے مطابق دنیا میں چھروں والی بندوقوں کا سب سے زیادہ استعمال مقبوضہ کشمیر ہی میں کیا جاتا ہے۔2013ء میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا تاکہ ریاست میں چھروں والی بندوقوں کے استعمال پر پابندی لگوائی جاسکے۔ جموں و کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے، مگر اس کے ہائی کورٹ میں ہندو جج زیادہ ہیں۔ چناںچہ انہوں نے پابندی کی درخواست خارج کردی۔ گویا مظلوم کشمیریوں کو عدالت سے بھی انصاف نہیں مل سکا۔ اب وہ کس کا در کھٹکھٹائیں۔

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟
طرفہ تماشا یہ ہے کہ عالمی طاقتوں میں چین کو چھوڑ کر کسی نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت دکھانے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ اکلوتی سپرپاور، امریکا تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگیا کہ یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ حالانکہ امریکا کے بانیوں میں شامل مشہور امریکی مدبر، تھامس جیفرسن کا قول ہے:

''جب کسی ملک میں ناانصافی سکہ رائج الوقت بن جائے، تو شہریوں کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں۔''

اسی طرح امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کی خاطر کھڑے ہونے والے مدبر، مارٹن لوتھر کنگ کا چشم کشا قول ہے'': جو کوئی ظلم ہوتا دیکھ کر آنکھیں پھیرلے، وہ بھی ظالم کا ساتھی بن جاتا ہے۔'' اس کا مطلب ہے کہ آج امریکا سمیت بہت سے ممالک بھارتی ظالموں کے ساتھی بن چکے۔

1977ء میں جب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی گئی تو مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک آزادی کا آغاز ہوا۔ جلد ہی پاکستان سے بھی کشمیری نوجوان مقبوضہ کشمیر پہنچ کر بھارتی سکیورٹی فورسز کے خلاف جہاد کرنے لگے۔ اس دوران بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے سازش سے کشمیری جہادی تنظیموں میں پھوٹ پڑوادی۔ کشمیریوں کے تقسیم ہونے سے تحریک آزادی کو بہت ضعف پہنچا اور کشمیری عوام مجاہدین سے تقریباً لاتعلق ہوگئے۔

تحریک آزادی کشمیر کا اگلا موڑ 2010ء میں آیا جب کشمیریوں نے ہندو بالادستی کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔ انہی دنوں برہان مظفر وانی بھی مقبوضہ کشمیر کے افق پر نمودار ہوا۔ 1990ء کے بعد وہ پہلا مقامی گوریلا لیڈر تھا جس نے بلند آہنگی سے اعلان کیا کہ وہ علاقہ ترال سے تعلق رکھتا ہے۔ برہان پھر سوشل میڈیا کی مدد سے مقبوضہ کشمیر کے دیگر نوجوانوں کو بھی دعوت دینے لگا کہ وہ بھارتی غاصبوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔برہان کی سرگرمیوں نے وادی کشمیر میں ہلچل سی پیدا کردی اور وہاں نیم مردہ تحریک آزادی میں دوبارہ جان پڑنے لگی۔ اس امر نے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو شدید پریشان کردیا۔ چناں چہ وہ برہان کی جان کے درپے ہوگئی اور اسے شہید کرکے ہی دم لیا۔ مگر شہید برہان اپنا کام کرچکے تھے۔

ایک زمانہ تھا کہ مجاہدین کے جنازے میں مٹھی بھر لوگ ہی شریک ہوتے۔ مگر اب مقبوضہ کشمیر میں کوئی مجاہد شہید ہو، تو اس کے جنازے میں اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ اسی طرح چند سال قبل تک مقبوضہ کشمیر میں یہ خیال عام تھا ''جن لڑکوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں، انہیں مرنے دو ہمیں کیا۔ وہ اپنے کیے کا نتیجہ خود بھگتیں۔'' لیکن آج مقبوضہ کشمیر میں کسی مجاہد کو محفوظ کرنے کی خاطر بچے تک پتھر اٹھالیتے ہیں۔ غرض شہید برہان جیسے مجاہدین کی زبردست سرگرمیوں اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے مسلسل مظالم کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی روح میں نئی جان پڑچکی۔ نمایاں بات یہ ہے کہ اس تحریک آزادی میں مقامی کشمیری نوجوانوں کی اکثریت ہے اور ان کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

آج وادی کشمیر کے گوشے گوشے میں بھارت کے خلاف مزاحمت کا نعرہ گونج رہا ہے۔ اب کشمیری نوجوان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں ''ہم وطنو! جہاد کا وقت آپہنچا۔ آؤ غاصب بھارتیوں سے دو دو ہاتھ کرو۔ شاید ہم شکست کھاجائیں۔ لیکن ہم ان کا مقابلہ نہیں کرتے، تو گویا پہلے ہی اپنی ہار تسلیم کرچکے۔ جاگ کشمیری جاگ!''
Load Next Story