
ہم ان اداس نغمہ گروں کی طرح جیئے
(قتیل شفائی)
مسلم مسجد کی وجۂ تسمیہ مسلم، مولانا محمد بخش مسلم کا اس مسجد میں قیام اور تقسیم سے قبل مشترکہ ہندوستان میں اس مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینا تھا۔ مولانا محمد بخش مسلم کے مختصر حالات زندگی ایم آر شاہد نے اپنی کتاب ''لاہور میں مدفون مشاہیر'' (ص۔171) پر یوں تحریر کیے ہیں۔
''مولانا محمد بخش مسلم 18 فروری 1887ء کو چھتہ بازار اندرون لاہور میں ایک متوسط گھرانے میں میاں پیر بخش کے گھر پیدا ہوئے۔ میٹرک کا امتحان انہوں نے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ سے پاس کیا۔ 1911-12ء میں منشی فاضل کیا۔ اس کے بعد 1918ء میں بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ اس سال پنجاب یونیورسٹی میں صرف دو مسلمان طالب علم تھے جنہوں نے بی۔اے پاس کیا۔ دوسرے شیخ محمد دین تھے جو مشہور فلمی رائٹر و ڈائریکٹر ریاض شاہد کے والد گرامی تھے۔
1924-25ء میں شدھی کی تحریک زوروں پر تھی، دیو سماج اور ہندو مہاسبھا کے مبلغوں نے کوچہ ڈوگراں لاہور کے چند مسلمانوں کو شدھی کرلیا (ہندوکرلیا) اس سانحہ سے پورا لاہور متاثر ہوا۔ چنانچہ اہل لاہور نے مولانا محمد بخش مسلم سے اپیل کی کہ وہ میدان میں اتریں اور اسلام کی سربلندی کے لیے کچھ کریں۔ ان دنوں بیرون موچی گیٹ ہندوازم اور عیسائیوں کے مبلغ سرعام اپنے مذہب کی حمایت میں درس دیتے تھے۔ چنانچہ آپ بھی بیرون دلی دروازے جا پہنچے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں اسلامی کتب کے علاوہ یورپی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے۔ جس کی وجہ سے پڑھا لکھا طبقہ ان کی تقاریر سے زیادہ متاثر ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شدھی ہو جانے والے ہندو نہ صرف دائرہ اسلام میں داخل ہوئے بلکہ سیالکوٹ کا ایک پورا ہندو خاندان ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا۔'' ان کا تذکرہ پروفیسر محمد اسلم نے بھی اپنی کتاب ''خفتگان خاک لاہور'' (ص۔498) پر اس طرح کیا ہے۔
''مسلم مسجد چوک انار کلی کے جنوب مغربی گوشے میں ایک تہہ خانے کے اندر تحریک پاکستان کے مجاہد مولانا محمد بخش مسلم بی۔ اے محو خواب ابدی ہیں۔ مرحوم بڑے اچھے خطیب تھے قیام پاکستان سے قبل مغربی اور جنوبی ہند سے مدعو کیے جاتے تھے۔ انہوں نے لاہور اور پنجاب کے مختلف شہروں میں مسلم لیگ کو مقبول بنائے جانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ مرحوم مسلم مسجد کے بانی اور خطیب تھے۔ ان کے لوح مزار پر یہ عبارت درج ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یااللہ جل جلالہ ۔۔۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ
مبلغ اسلام مجاہد تحریک پاکستان بانی مسلم مسجد
عالی مرتبت حضرت مولٰینا
محمد بخش مسلم بی اے نور اللہ مرقدہ
ولادت 22 جمادی الاول1304ھ
18 فروری 1888ء
وصال18 جمادی الاول 1407ھ
12 فروری 1987ء
قطعہ تاریخ وصال
پیر صد سالہ محمد بخش آہ
دہرفانی سے گئے وہ بے گماں
کامرانی سے ہوئے وہ ہمکنار
مل گئی ان کو حیات جاوداں
قاطع الماد و کفر و شرک تھے
مسلک سنت کے وہ روح رواں
سر میں تھا سودائے عشق مصطفیٰؐ
درد ملت کی تڑپ دل میں نہاں
صاحب علم و عمل واعظ خطیب
عظمت دین متین کے پاسبان
اہل دل اہل نظر جان شعور
علم و حکمت کا وہ بحر بیکراں
کر رقم ان کاسن رحلت فدا
قلزم دین مسلم خلد آشیاں
(1407ھ)
نتیجہ فکر ابوالطاہر فداحسین فدا
مولانا نہ صرف اعلیٰ درجے کے خطیب و واعظ تھے بلکہ وہ سرسنگیت کا بھی بھر پور گیان رکھتے تھے۔ شدھ سنگیت میں مشکل ترین سازوں میں سے ایک ساز سارنگی کو مانا جاتا ہے۔ مولانا کو سارنگی کے ساز پر بھر پور مہارت حاصل تھی۔ مولانا اپنی زندگی کے آخری ایام تک کارڈ تحریر کرتے رہے اور آخر میں ہمیشہ اپنا نام بمعہ ڈگری تحریر کرتے تھے۔ ''مولوی محمد بخش مسلم بی۔ اے''، مرحوم کے حقیقی نواسہ شفقت حسین آج کل مختلف یونیورسٹیز اور سکولوں میں سنگیت کی تعلیم دیتے ہیں۔
اب مسجد کی تاریخ اور عمارت پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
بیسویں صدی کے اوائل برسوں میں یہ مسجد پانچ سو مربع فٹ سے زائد نہ تھی۔ لوہاری دروازے کے باہر کچھ بزرگوں کی قبور تھیں۔ ان کے قرب میں یہ چھوٹی سی مسجد اس قدیمی باغ کا حصہ تھی۔ یہ عین اس مقام پر تھی جہاں پر انگریز سرکار سے قبل سکھ عہد میں شہر کے گرد خندق تھی۔ اس خندق کو سرکار انگریز نے مٹی سے بھر کر باغ کی شکل میں تبدیل کیا بلکہ لوہاری دروازے کو ازسرنو تعمیر کیا گیا اور اس میں موجود لکڑی کے دروازے کو پرانی طرز کی مرمتوں کے ساتھ بحال بھی کیا۔ مسجد کی پرانی عمارت کے قریب ہی ایک قدیمی کنواں بھی تھا جس سے اردگرد کی آبادی کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
1925ء میں اسی مقام پر انجمن خادم المسلمین قائم ہوئی، انجمن کے قیام کا عمل اس بات کی غمازی تھا کہ مسجد کا ایک خاص قسم کا سیاسی کردار بھی سامنے آرہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1938ء کے بعد یہ مسجد اسلامی اور پاکستانی تحاریک کا نمایاں حصہ رہی۔ مسجد کی شہرت کا دوسرا بڑا سبب مولانا محمد بخش مسلم کی شخصیت تھی۔ وہ نہ صرف ایک انتہائی عالم فاضل انسان تھے بلکہ وہ ایک شعلہ بیان مقرر و خطیب بھی تھے۔ مولانا کی تقاریر اور جمعے کے خطبوں میں مولانا کی فکر انگیز گفتگو عوام بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ مولانا چونکہ مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ اس لیے قیام پاکستان تک سیاسی کردار کے حوالے سے یہ مسلم لیگ کا گڑھ مانی جاتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اس مسجد میں نمازیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا اور اس کی بنیادی وجہ مولانا مسلم ہی تھے۔ پھر ایک وقت آیا کہ مسجد کی انتظامیہ نے مسجد میں توسیع کا منصوبہ بنایا۔ یہ شہر لاہور کی انتہائی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت کی انتظامیہ میں ایسے افراد موجود تھے جوکہ لاہور میں پرانی مساجد کے طرز تعمیر کو بخوبی جانتے تھے۔ وگرنہ اس مسجد کا حال بھی داتا دربار کی مسجد کی مانند ہوتا۔ مسجد کی بنیادی تعمیر میں ایک انتہائی خوبصورت گنبد اور مینار مسجد کا حصہ بنے۔
مسجد کی تعمیرکا احوال نقوش لاہور نمبر1 (ص۔588) پر اس طرح بیان کیا گیا ہے ''حضرت عبدالصمد بانی سلسلہ محدیہ نے 9 جون 1950ء بروز جمعہ اس مسجد کی پہلی اینٹ رکھی اور پونے دو لاکھ روپے کے صرف سے دس سال میں یہ حسین و جمیل مسجد اور اس کا بلند و عالی شان مینار بن کر تیار ہوا۔ اب یہ مسجد لاہور کی قابل دید عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس مسجد کا فن تعمیر اپنی نظیر آپ ہے۔ اس میں نمازیوں کی سہولت اور آرام کے لیے جو انتظامات کیے گئے ہیں وہ شاید اس سے بڑی مساجد میں بھی نہیں ہوں گے۔ یہاں دلوں کا علاج بھی ہوتا ہے۔ دماغ بھی منور ہوتے ہیں اور حکمت بھی ملتی ہے۔ جنوری 1955ء میں یہاں مدرسہ کریمیہ کے شعبہ تجوید کا قیام عمل میں آیا، جہاں قرأت و تجوید کے علاوہ حفظ قرآن کا انتظام بھی ہے۔ پھر جامعہ مدینہ کے تعاون سے ایک اور دارالعلوم قائم کیا گیا جہاں تفسیر، حدیث، فقہ اور علوم اسلامیہ کے علاوہ درجہ پرائمری کے مطابق مروجہ نصاب کی تعلیم دی جاتی اور بچیوں کو دستکاری سکھائی جاتی ہے۔
اس مسجد کی کرسی زمین سے ایک منزل بلند ہے۔ مسجد، صحن اور حوض وغیرہ سب اوپر ہیں۔ نیچے دکانوں کے علاوہ ایک پریس اور فری ہسپتال ہے جس کے مندرجہ ذیل تین شعبے کام کر رہے ہیں۔
(1) فری ڈسپنسری (2) فری ڈینٹل ہسپتال (3) بہود زچہ و بچہ
کئی اور منصوبے زیر تجویز ہیں۔ سالانہ آمدو خرچ کا آڈٹ شدہ حساب باقاعدہ شائع کیا جاتا ہے۔''
مسلم مسجد پر یہ تحریر 1962ء میں چھپے نقوش لاہور نمبر1 کا حصہ تھی۔ مولوی مسلم قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے کام کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1970ء کی دہائی میں جب نفاذ اسلام اور نفاذ مصطفیٰ کی تحریک چلی تو سرکاری اہلکاروں کی جانب سے چلائی گئی گولی کا نشانہ بنے۔ معصوم طالب علموں کے خون کے چھینٹے سالہا سال اس مسجد کی دیواروں کا حصہ بنے رہے۔
پھر دور حاضر میں یہ مسجد نئی نسل میں لوہاری مسجد کے نام سے معروف ہے۔ 2000ء تک یہ تالاب والی مسجد کے نام سے بھی معروف رہی ہے۔ اس کی وجہ مسجد کے صحن کے ساتھ ملحقہ شرقی سیدھ میں ایک تالاب کا ہونا ہے۔ مسجد کی تمام عمارت لب سڑک واقع ہے اور دیکھنے سے مغل عہد کی تعمیر جان پڑتی ہے۔ مسجد کے زمینی حصے پر دو الگ الگ سیدھوں میں دکانیں واقع ہیں۔ ایک سیدھ سرکلر روڈ کی جانب ہے اور دوسری سیدھ لوہاری دروازے کی جانب ہے۔ سرکلر روڈ کی جانب کی دکانوں میں کھلی دوائیوں کا بیوپار ہوتا ہے اور لوہاری کی جانب پھولوں کا کام ہوتا ہے۔ نچلے حصے میں مولوی محمد مسلم کی قبر بھی موجود ہے جبکہ پرانے بزرگوں کی قبور پر سبز گنبد تعمیر کردیئے گئے ہیں۔
مسجد کی تعمیر میں سنگ سرخ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد کی پہلی منزل پر موجود مسجد کے ہال کے سامنے کھلے فرش پر سرخ پتھر کی بڑی بڑی سلیبیں نصب کی گئی ہیں اور ہر دوسری سِل پر مسجد کی عمارت کا نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مسجد کا عظیم الشان مینار بجانب سڑک سیدھ مسجد کے شرقی جنوبی حصے میں واقع ہے۔ مسجد کے ہال کے داخلی دروازے کے ماتھے پر چار چھوٹے چھوٹے مینار تعمیر کیے گئے ہیں اور ان کے درمیان انتہائی خوبصورت چھوٹے چھوٹے چارگنبدوں کے نمونہ جات بھی ہیں۔ مسجد کے داخلی دروازے کے ماتھے پر ''جامع مسجد محمدیہ حنفیہ'' کی تختی نصب کی گئی ہے۔
اندر مسجد کا عظیم الشان ہال دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہال کی دائیں اور بائیں جانب اوپر کی سیدھ کو طالب علموں کے لیے روشیں تعمیر کی گئی ہیں اور ان میں محرابی طرز کے درّے نمایاں ہیں۔ گنبد کے اونچے سقف تلے سبزی مائل رنگ کے شیشے نصب ہیں جوکہ بطور خاص گرمی کی شدت کو زائل کرنے کے لیے نصب کیے گئے ہیں۔ اس مسجدکے باہر سرکلر روڈ سے لاکھوں افراد روزانہ کی بنیاد پر گزرتے ہیں اور اس کے اردگرد بھی ایک گنجان آبادی موجود ہے۔ لیکن ایام کی گردش دیکھیے کہ آج کی نسل مولوی محمد بخش مسلم، ان کی اس عظیم الشان مسجد اور اس کی عمارت کی تاریخ سے کلی طور پر ناواقف ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔