حکومت کے آخری بائیس ماہ اور کرنے کے کام

حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث درمیانے اور نچلے طبقے کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے

اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے آخری دو سال میں مضمحل نظام کو کس قدر توانا کرتی ہے۔ فوٹو: پی پی آئی

اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کا ایک اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس سات گھنٹے سے زائد وقت پر محیط تھا۔ اجلاس میں حکومت کی تین سالہ کارکردگی، انفراا سٹرکچر ڈویلپمنٹ ،توانائی اور سماجی ترقی کے منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔

یہ بھی جائزہ لیا گیا کہ کون سے منصوبے مکمل ہوئے ہیں اور کونسے تکمیل کے مراحل میں ہیں اور منصوبوں پر مقررہ اہداف کے مطابق عملدرآمد جاری ہے یا سست روی کا شکار ہے، اجلاس میں وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے باقی ماندہ بائیس ماہ کے لیے ترقیاتی پلان کی منظوری دی اور یہ فیصلہ کیاہے کہ توانائی کے منصوبوں اور توانائی کی صورتحال کے بارے میں وزیراعظم کو روزانہ کی بنیاد پر آگاہ کیا جائے گا، وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ سی پیک کے منصوبوں کی نگرانی وہ خود کریں گے، وزیر اعظم کو لوڈ شیڈنگ سے متعلق روزانہ بریفنگ دی جائے گی۔


جمہوری حکومتوں کو اپنی کارکردگی کا لازمی طور پر جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں حکومت کی تین سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اب حکومت کے پاس دو سال سے بھی کم عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ ماضی کے تین سال کا جائزہ لیا جائے تو بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی کمی نہیں آئی اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے باعث درمیانے اور نچلے طبقے کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ قومی بچت اسکیموں کے منافع میں بہت زیادہ کمی، اشیائے ضروریہ کی مہنگائی اور مہنگے علاج ومعالجے نے سفید پوش طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ حکومت کی ٹیکسیشن پالیسی پر بھی تاجروں اور کاروباری حلقوں کے تحفظات چلے آ رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کی افادیت اور ترجیحات کے حوالے سے بھی بحث ومباحثے جاری ہیں۔ حکومت نے ابھی تک بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہیں دیے۔ اب آخری دو سال میں اختیارات دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخری دو سال میں بلدیاتی ادارے کیا کام کریں گے۔

ان سے یہی کام لیا جا سکتا ہے کہ عام انتخابات میں بلدیاتی نمایندوں اور اداروں کو اپنے حق میں استعمال میں کیا جا سکے۔ یہ سب کچھ عارضی نوعیت کے ڈنگ ٹپاؤ کام ہیں۔ ماضی کی حکومتیں بھی ایسا ہی کرتی چلی آئی ہیں اور اب ایک بار پھر اسی روایت پر عملدرآمد کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس وقت ملک کی گراس روٹ لیول پر حالت یہ ہے کہ کسان کا برا حال ہے، امن وامان کی صورت حال مخدوش ہے، جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، ادارہ جاتی کرپشن بھی کم نہیں ہو سکی۔ یوں دیکھا جائے تو جمہوری نظام کے ثمرات عوام الناس تک نہیں پہنچ سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے آخری دو سال میں مضمحل نظام کو کس قدر توانا کرتی ہے۔
Load Next Story