ٹیسٹ سیریز ابھی ختم نہیں ہوئی… سینئرز کو توقعات کا بوجھ اٹھانا ہوگا

البتہ اب بھی کچھ نہ کیا تو حفیظ اور شان دونوں کا کیریئر شدید خطرات کی زد میں آ جائے گا

البتہ اب بھی کچھ نہ کیا تو حفیظ اور شان دونوں کا کیریئر شدید خطرات کی زد میں آ جائے گا:فوٹو: فائل

اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں شکست کے بعد قومی ٹیم ان دنوں خامیاں دور کرنے میں مصروف ہے، کھلاڑی ایجبسٹن میں بھرپور انداز میں انگلینڈ پر حملہ کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

لارڈز میں یادگار کامیابی کے بعد ٹیم کے حوصلے آسمان کو چھونے لگے تھے، ٹورسے قبل اسے خاطر میں نہیں لایا جا رہا تھا، بیشتر لوگوں کی رائے تھی کہ سیریز 4-0 سے انگلینڈ کے حق میں رہے گی، ہمیشہ کی طرح انگلش میڈیا نے بھی نفسیاتی جنگ چھیڑی جس میں بعض کھلاڑی بھی ساتھ مل گئے، ان کا نشانہ خاص طور پر فاسٹ بولر محمد عامربنے، انھیں داغدار ماضی کی وجہ سے طعنے دیے جاتے رہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہو گی کہ جب ٹور میچ میں پیسر نے عمدہ بولنگ کی تو ایک بڑی برطانوی خبر رساں ایجنسی نے اپنی ویب سائٹ پر ''اسپاٹ فکسر کا اچھا کھیل'' جیسی کوئی سرخی لگائی۔

دنیا میں اچھے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں، اس معاملے پر بھی کئی لوگوں نے میڈیا کے رویے کی مذمت کی، ایسے میں جب ٹیم لارڈز کے میدان میں اتری تو نئے روپ میں دکھائی دی، لفظی حملوں کا جواب اچھی کارکردگی سے دیا گیا،مصباح الحق چٹان کی مانند ڈٹ گئے اور شاندار سنچری سے پاکستان کا اسکور باعزت مقام تک پہنچایا، اسد شفیق نے بھی بہترین اننگز کھیلی،سب عامر کے پیچھے لگے رہے مگر بولنگ میلہ لیگ اسپنر یاسر شاہ نے لوٹ لیا، انھوں نے 6 وکٹیں لے کر پاکستان کو پہلی اننگز میں برتری دلا دی۔

دوسری اننگز میں گوکہ بیٹسمین زیادہ کامیاب نہ رہے اس کے باوجود اتنا اسکور بن گیا کہ میزبان کو پریشان کیا جا سکے، باقی کا کام پھر یاسر شاہ نے سنبھال لیا ، راحت علی و دیگر بولرز نے بھی ان کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے پاکستان کو کرکٹ کے گھر لارڈز میں یادگار فتح نصیب ہوئی، اب انگلینڈ کو اندازہ ہوا کہ یہ تو معاملہ ہی الٹ ہو گیا، جسے ہم آسان شکار سمجھ رہے تھے وہ تو خطرناک ٹیم ہے، ایسے میں ثقلین مشتاق کی آمد سے بھی اسے فائدہ ہوا، انھیں اپنے ملک میں بورڈ اہمیت نہیں دیتا اس لیے وقتاً فوقتاً دیگر ٹیموں کیلیے خدمات انجام دیتے رہتے ہیں، انھوں نے انگلش بیٹسمینوں کو یاسر شاہ سے نمٹنے کے گُر بتائے، ساتھ ہی اسپنرز کی بھی رہنمائی کی۔


میزبان ٹیم کو خود بھی شکست کا بہت دکھ تھا کھلاڑی گھنٹوں اپنی خامیوں پر کام کرتے رہے جس کا صلہ اولڈٹریفورڈ میں شاندار فتح کی صورت میں ملا،پاکستانی ٹیم نے اس میچ میں کسی بھی وقت اچھا کھیل پیش نہ کیا، اوپننگ کا دیرینہ مسئلہ اب نجانے کب حل ہو گا، محمد حفیظ پابندی کے سبب بولنگ نہیں کر رہے مگر بیٹنگ میں بھی ان کی پرفارمنس مایوس کن ہے ، شان مسعود بھی ابتدائی دونوں ٹیسٹ میں ناکام رہے، البتہ اب ووسٹر شائر سے میچ میں نصف سنچری بنا دی، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید تیسرے ٹیسٹ میں بھی وہ اور حفیظ ہی اننگز کا آغاز کریں، نوجوان اوپنر سمیع اسلم ٹور میچ میں زیادہ پُراعتماد دکھائی نہ دیے اس نے ان دونوں کا کیس مضبوط بنا دیا ہے۔

البتہ اب بھی کچھ نہ کیا تو حفیظ اور شان دونوں کا کیریئر شدید خطرات کی زد میں آ جائے گا ، ٹور میں اب تک پاکستانی ٹیم کا ایک اور بڑا مسئلہ اظہر علی اور یونس خان کا فلاپ ہونا بھی ہے، اظہر ٹور میچز میں رنز کے انبار لگاتے مگر ٹیسٹ میں اسکور بنانے میں ناکام رہے ہیں، اسی طرح یونس سینئر پلیئر ہونے کے باوجود توقعات پر پورا نہ اتر پا رہے، ایسا لگتا ہے کہ بیٹنگ تکنیک میں تبدیلی کا ان کے کھیل پر خراب اثر پڑا ہے جس طرح وہ پچ پر اچھل کود کرتے ہیں اس پر ہر جگہ مذاق ہی اڑایا جا رہا ہے، انھیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا، بیچارے مصباح کب تک اکیلے بیٹنگ لائن کو سنبھالیں گے، ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، ہر بار وہ ٹیم کیلیے مرد بحران ثابت ہوتے ہیں۔

پہلے ٹیسٹ میں اسد شفیق نے بھی بہترین اننگز کھیلیں، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی بڑا بیٹسمین کریز پر ہو، ان کے بھرپور اعتماد سے کھیلے گئے شاٹس کو ہر کسی نے سراہا، البتہ دوسرے میچ میں وہ بڑی اننگز نہ کھیل سکے، جس طرح پاکستانی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل نہیں ایسا ہی کھلاڑیوں کے ساتھ بھی ہے اس مسئلے کو جلد حل کرنا ہوگا، سرفراز احمد کا کھیل بھی اب تک مایوس کن رہا ہے، وہ30،40 رنز بنا کر سمجھتے ہیں کہ بس ذمہ داری مکمل ہو گئی، انھیں سنچریاں بنانے کا سوچنا چاہیے، ورنہ رضوان ٹیم میں جگہ بنانے کیلیے تیار کھڑے ہیں، وکٹوں کے عقب میں کیچز ڈراپ کر کے بھی سرفراز مسائل کو دعوت دے رہے ہیں۔

بولرز میں عامر اب تک بجھے بجھے دکھائی دیے ہیں شاید انگلش میڈیا نے ان کا مورال گرانے کا مقصد حاصل کر لیا، اگر پیسر کی اگلے میچز میں بھی ایسی ہی کارکردگی رہی تو پاکستان کو مستقبل میں انھیں صرف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی تک محدود کرنے کا سوچنا پڑے گا، گذشتہ دورئہ انگلینڈ اور اب عامر کی بولنگ میں بہت فرق نظر آ رہا ہے، خاص طور پر سوئنگ نجانے کہاں کھو گئی ہے، اسی طرح وہاب ریاض اور راحت علی نے بعض اسپیلز اچھے کیے مگر کارکردگی میں تسلسل سے یہ دونوں بھی واقف نہیں، فتح کیلیے پیس اٹیک کا اچھا پرفارم کرنا لازمی ہے، یاسر شاہ کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔

وہ ایجبسٹن میں بھی لارڈز جیسی شاندار بولنگ کر سکتے ہیں، الیسٹرکک اور جوئے روٹ بہترین تکنیک کے حامل بیٹسمین ہیں،لیگ سپنر کو ان پر قابو پانے کا پلان بنانا ہوگا، ابھی سیریز1-1 سے برابر ہوئی ہے، دو میچز باقی ہیں پاکستانی ٹیم کامیابی حاصل کرنے کی مکمل اہل ہے، شائقین کو بھی اس کا ساتھ دینا چاہیے، فتح پر ہیرو اور ہار پر زیرو بنانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے، انہی کھلاڑیوں نے پہلے ٹیسٹ میں ملک کا نام روشن کیا تھا، اب بھی ایسا کر سکتے ہیں، دوسرے میچ میں ناکامی کے بعد ہوش کے ناخن ضرور لیے ہوں گے، یقین ہے کہ اگلے ٹیسٹ میں گرین کیپس بھرپور انداز میں کم بیک کرتے ہوئے جیت کو گلے لگائیں گے۔
Load Next Story