خرمی باجوہ قتل مخالفین نے مارا یا ۔۔۔

قتل کی رات اس نے دو تقریبات میں شرکت کی,دوسری تقریب میں ایک شارپ شوٹر نے اس کی زندگی کا اس مرحلہ پر خاتمہ کر دیا .


Kashif Fareed December 01, 2012
باجوہ گروپ نے کبھی پولیس پر ہتھیار نہیں اٹھایا. فوٹو : فائل

10نومبر کی رات تھانہ فیکٹری ایریا کے علاقے ناظم آباد کے محلہ مسلم پارک میں واقع ایک گھر کے سامنے لان میں ولیمہ کی تقریب جاری تھی، ہر طرف خوشیاں رقصاں تھیں۔

مہمان کھانا کھانے میں مصروف تھے کہ ایک مہمان فون سنتا ہوا پنڈال سے باہر نکلا ابھی چند قدم کے فاصلے پر ہی پہنچا تھا کہ اچانک کلاشنکوف کے برسٹ کی آواز نے ہر طرف خوف و ہراس پھیلا دیا، فون سننے والا مہمان خون میں لت پت پڑا تھا، اس کے دو گن مین اور ایک دوست زخمی ہو چکے تھے، گولیوں کی تڑٹراہٹ سن کر لوگ باہر نکلے، ہر طرف خوف اور پریشانی کا عالم تھا، مہمان کی نعش زمین پر پڑی تھی اور زخمی گن مین ٹانگوں میں زخم کھانے کے بعد گر چکے تھے۔

حملہ آور ان کی گنیں بھی لے گئے۔ یہ نامعلوم قاتل جائے واردات سے سبک رفتاری سے فرار ہوگئے۔ بہ ظاہر یہ ایک قتل کی واردات تھی۔ ٹارگٹ کلر اپنے مقصد میں کام یاب ہو چکے تھے، زخمی گن مین اور مقتول کی نعش الائیڈ اسپتال پہنچائی جا چکی تھی۔ اس دوران انکشاف ہوا کہ مقتول کا نام خرم شہزاد عرف خرمی باجوہ ہے۔ یہ خبر آن کی آن میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور میڈیا کی ہاٹ نیوز بن گئی۔ تمام ٹی وی چینلز پر اس خبر کے ٹِکر اور فوٹیج چل رہی تھی۔ اس پر ذرائع ابلاغ کے نمائندے تفصیلی رپورٹس دے رہے تھے اور لائیو تبصرے بھی جاری تھے۔

خرمی باجوہ کون تھا،اس کی ہلاکت پر بہت سے لوگ خوش کیوں تھے اور پولیس کی خوشی بھی سمیٹے کیوں نہ سمٹ رہی تھی؟؟؟ یہ ایک پوری داستان ہے۔ خرمی باجوہ اتنا مشہور کیوں تھا، اس نے کیا کیا تھا، وہ کس طرح کا شخص تھا، اس نے لوگوں کے ساتھ کیا کیا اور پولیس نے اس کے ساتھ کیا کیا ، پولیس کب کب اس کے حوالے سے کیا کیا منصوبے بناتی رہی؟؟؟ یہ کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں ۔

style-1

چالیس، پنتالیس سالہ خرم شہزاد عرف خرمی باجوہ کا تعلق فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ کے علاقہ 107ج ب روپووالی پہاڑنگ سے تھا۔ وہ علاقے کی معروف اور با اثر شخصیت اور ٹرانسپورٹر مختار باجوہ کا بھتیجا اور اسلم باجوہ کا بیٹا تھا۔ وہ خود بھی اپنے تایا اور اس کے بیٹوں کی طرح علاقے میں انتہائی با اثر شخصیت کے طور پر سامنے آ چکا تھا۔ علاقے میں اس کی کئی لوگوں کے ساتھ دشمنی بھی تھی۔ پولیس کے مطابق وہ سماج دشمن عناصر میں سے ایک تھا، اس پر بیس سے زیادہ افراد کے قتل کے بارہ مختلف مقدمے درج تھے مگر وہ ہر مقدمے میں بری ہو جاتا تھا۔

اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے خلاف 1998 سے 2009 تک قتل، ڈکیتی، ہوائی فائرنگ، دہشت گردی، ناجائز اسلحہ رکھنے، اقدام قتل، چوری، قبضہ، مخالفوں کے گھروں کو آگ لگانے، مخالف کو اغوا کرنے سمیت مختلف نوعیت کے35 مقدمات درج ہوئے، بعض مقدموں میں وہ ضمانت پر تھا۔ اس نے چک جھمرہ سے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیا اور یونین کونسل کا ناظم منتخب ہوا۔ پولیس کے مطابق وہ جرائم کی دنیا میں داخل ہوکر ''انڈر ورلڈ ڈان،، کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جب کہ اس کے اہل خانہ اور عزیز واقارب کا کہنا ہے کہ وہ مجرم نہیں تھا اوراس پر اس طرح کے تمام الزامات غلط تھے، وہ ایک دشمن دار آدمی تھا اور دیہات میں دشمنیاں عام ہوتی ہیں، جہاں کمزوری دکھانا دشمن کو جارحیت کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ خرمی باجوہ کے بارے میں پولیس کا ریکارڈ کیا کہتا ہے اور وزیراعلیٰ کو خرمی باجوہ اور دیگر رشتہ داروں سے متعلق بھجوائی جانے والی رپورٹ کیا کہتی ہے؟ ملاحظہ ہو!

''اصل کہانی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں چک نمبر107 ج ب چک جھمرہ میں فقیر حسین کا بڑا خاندان ہونے کی وجہ سے اس کی چودھراہٹ تھی۔ فقیر حسین نمبر دار اور مختار احمد باجوہ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ مختار احمد باجوہ اور فقیر حسین باجوہ کے درمیان 1980 کی دہائی میں ایک خالی پلاٹ پر قبضہ کرنے کی وجہ سے جھگڑا ہوا تھا۔ فقیر حسین گروپ نے خالی پلاٹ پر قبضہ کر لیا، اس بات کا مختار احمد باجوہ کو بہت رنج ہو ا، اسی پلاٹ کی وجہ سے فقیر حسین باجوہ کے بیٹے محمد الیاس کی مختار باجوہ کے بیٹے ثناء اللہ عرف ننھواور عطاء اللہ کے ساتھ لڑائی ہو گئی، جس میں الیاس نے ثناء اللہ اور عطاء اللہ کو زخمی کر دیا۔ بعد میں ثناء اللہ اور عطاء اللہ نے مل کر محمد الیاس کو قتل کر دیا۔ قتل کے بعد فقیر حسین کا ساتھ عاشق علی اور ناظر علی نے دیا اور ایک گروپ بنا لیا اور دوسرا گروپ مختار احمد باجوہ کا بن گیا۔

یہاں سے دونوں گروپوں میں دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ اس کے بعد دونوں خاندانوں میں قتال کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس دشمنی میں تیزی اس وقت آئی جب خرم عرف خرمی باجوہ جوان ہوا۔ جوان ہوتے ہی خرمی باجوہ نے مختلف کارروائیاں شروع کر دیں جن میں اس پرپہلی ایف آئی آر 1998 میں درج ہوئی اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۔ خرمی باجوہ نے اعجاز عرف کاکا فقیر ولد عبدالمجید، ساجد امین عرف پپو ولد اسلم، شہزاد عرف نومی ولد رشید اور فواد رسول ولد محمد اسلم کو ساتھ ملا کر ایک مضبوط گروپ بنا لیا۔ اس گروپ نے خرمی باجوہ کی کمانڈ میں ان گنت جرائم کیے اور علاقے کے لیے دہشت کی علامت بن گئے۔

اس گروپ میں پہلے دونوں ساتھی اعجاز عرف کاکا فقیر اور ساجد امین عرف پپو پر حکومت نے فی کس دو لاکھ روپے انعام بھی مقرر کر رکھا تھا۔ خرمی باجوہ پر 1998 سے لے کر 2009 تک قتل اور ڈکیتی کے 35 مقدمات درج ہوئے جن میں سے دس تو صرف قتل کے ہی تھے۔ خرمی گروپ نے پیسے کے حصول کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ سوتر منڈی میں لین دین کے جھگڑوں میں جس پارٹی نے پیسے دینے ہوتے، اس کے کسی آدمی کواٹھا کر لے جاتے، ان سے رقم وصول کی جاتی، جس میں سے کچھ رقم وہ خود رکھ لیتا اور باقی دوسری پارٹی کو دے دیتا، اسی طرح شہر میں جس پلاٹ کا جھگڑا ہوتا اسے خرمی باجوہ اونے پونے داموں میں خرید کر قبضہ کر کے منہگے داموں فروخت کر دیتا۔ جھمرہ میں واقع جس بس اسٹینڈ پر اچھی کمائی ہوتی، اپنے آدمیوں کے ذریعے قبضہ کر لیتا، یہ تو ہے پولیس کی رپورٹ۔۔۔۔''

مگر دوسری طرف، اس کے اہل خانہ اور عزیز واقارب ان تمام الزامات کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس صرف دبائو میں آکر خرم باجوہ اور ان کے خاندان پر بے بنیاد الزامات لگاتی رہی اور انہیں جھوٹے مقدمات میں ملوث کر تی رہی۔ پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے

''2007 میں خرمی باجوہ کے تایا مختار باجوہ پر قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ شدید زخمی ہوا۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں سے بدلہ لینے کے لیے خرمی باجوہ اور اس کے عزیزوں نے گوجرانوالہ کے قریب سات افراد کو بیک وقت قتل کر دیا، ان سات میں دو راہ گیر بھی شامل تھے جب کہ کئی راہ گیر زخمی بھی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والے پانچ افراد کا تعلق جھمرہ کے ناظر گروپ سے تھا۔ خرمی باجوہ اور اس کے ساتھیوں پر اس قتل کا تھانہ فیروزوالا میں مقدمہ نمبر 201 درج ہوا۔

بعدازاں اس واقعہ کے خلاف فریاد لے کر ناظر گروپ کا ماسٹر بشیر افضل باجوہ گروپ کے خلاف وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پاس پیش ہوا، اسی رنجش کی بنا پر ناظر کے بیٹے بشارت کو اس کے گھر کی دہلیز پر قتل کر دیا گیا، مقتول کے لواحقین نے احتجاجاً نعش چک جھمرہ میں ریلوے ٹریک پر رکھ دی، جو دن بھر وہاں پڑی رہی جس سے ٹرینوں کی آمدورفت معطل ہوئی جس کا وزیراعلیٰ نے سخت نوٹس لیا اور باجوہ گروپ کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی''۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق'' 2009 میں گٹی ریلوے اسٹیشن کے قریب ناظر حسین گروپ کے پانچ افراد عاشق حسین، ذوالفقار، نعیم آرائیں، عبدالمناف اور محمد خان کو کار پر جاتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس پر باجوہ گروپ کے خلاف 10جولائی2009 کو مسرت بی بی کی مدعیت میں پولیس نے مقدمہ نمبر 358 تھانہ چک جھمرہ درج کیا جس میں خرم باجوہ اور اس کے تایا زاد بھائی بھی نام زد تھے۔

خرمی باجوہ اور گروپ کے دیگر افراد روپوش ہوگئے، پولیس نے ان کو ٹارگٹ کر لیا، بسیں قبضہ میں لے لیں، ان کی جائداد کی قرقی کے ساتھ نیلامی بھی کروا دی جس کے خلاف وہ عدالت میں چلے گئے۔ پولیس نے باجوہ گروپ کا گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ خرمی باجوہ کے سر کی قیمت پانچ لاکھ مقرر تھی۔ بالآخر 23 مئی2010 کو لاہور سے خرمی باجوہ کو گرفتار کر لیا گیا، اس سے کچھ ہی قبل دوران اسٹیج کی اداکارہ ہنی شہزادی کے دامِ الفت میں گرفتار ہو کر خرمی اس سے شادی کر چکا تھا، یہ خرمی باجوہ کی دوسری شادی تھی جس سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ قبل ازیں اپنے خاندان میں خرم کی شازیہ نامی خاتون سے شادی ہو چکی تھی جس سے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، دوسری شادی کے باعث خرم باجوہ کے اپنے خاندان میں اختلافات شروع ہوگئے۔ جیل میں رہ کر خرم باجوہ کے جیل سے باہر بھی روابط تھے، اس نے کئی ڈرامے پروڈیوس کئے۔ خرم باجوہ پر صنعت کاروں اور دیگر افراد سے بھتا لینے کے الزامات بھی تھے مگر دل چسپ امر یہ ہے کہ ان الزامات کے تحت اس کے خلاف کوئی ایک بھی مقدمہ کسی تھانے میں درج نہیں۔

خرمی باجوہ کا نام فیصل آباد میں ہی نہیں بل کہ پنجاب بھر میں ایک جانا پہنچانا نام تھا، پولیس نے کئی بار اسے جعلی مقابلے میں پار کرنے کی منصوبہ بندی بھی کی مگر ہر بار خرم کے رشتہ داروں کی طرف سے اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کی بنا پر معاملہ ٹل جاتا رہا۔ کئی ایک پولیس افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کی دھمکی دے کر خرمی سے لاکھوں روپے بھی بٹورے، اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں پولیس افسر، سیاسی شخصیات اور بعض ''مقدس گائے'' کا درجہ رکھنے والی شخصیات بھی شامل تھیں۔ خرمی یاری دوستی نباہنے میں بھی شہرت رکھتا تھا۔ باجوہ گروپ کی ایک خصوصیت رہی ہے کہ اس نے کبھی پولیس پر ہتھیار نہیں اٹھایا، پولیس کے ساتھ اس کے تعلقات میں اتار چڑھا= آتا رہا، کئی پولیس افسروں کو فیصل آباد میں اس لیے تعینات نہیں کیا گیا کہ ان پر الزام تھا کہ ان کے باعث گذشتہ ادوار میں باجوہ گروپ نے مضبوطی حاصل کی۔ وہ اپنے خلاف تمام مقدمات عدالتوں کے ذریعے ختم کرواتا رہا، قانونی جنگ لڑتے لڑتے بالآخر تمام مقدمات سے یا تو بری ہو گیا یا چند ایک میں ضمانت پر تھا۔ رہائی کے بعد خرم باجوہ نے مختلف سماجی تقریبات میں شرکت کرنا بھی شروع کر دی تھی۔

قتل کی رات اس نے شادی کی دو تقریبات میں شرکت کی اور دوسری تقریب میں ایک شارپ شوٹر نے اس کی زندگی کا اس مرحلہ پر خاتمہ کر دیا جب وہ نارمل لائف کی طرف لوٹ رہا تھا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ وہ پولیس، جس کے ہاتھوں اپنی زندگی کو خرم باجوہ نے ہمیشہ غیر محفوظ سمجھا، اس پر اس کے قتل کا الزام نہیں لگ سکا۔کہا جاتا ہے کہ ایک پولیس افسر کے کہنے پر اس کی بیوہ نے قتل کے پچاسی منٹ بعد اپنے مخالفین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرا دیا، یہ باجوہ گروپ کی طرف سے قتل کا پہلا الزام ہے ورنہ ہمیشہ ان ہی پر قتل کے الزامات لگتے رہے۔ شہر میں مختلف حلقے بڑی ذمے داری کے ساتھ الزام عائد کر رہے ہیں کہ خرم باجوہ کو ایک پولیس افسر کے ساتھ پیسے کے تنازع پر قتل کیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس افسر نے خرم باجوہ سے جان بخشی کے لاکھوں روپے مانگے تھے، کچھ رقم ادا کر دی گئی تھی باقی پر تنازع پیدا ہوا، جس پر خرم باجوہ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن اس طرح کی تمام باتیں اس وقت اپنی حیثیت کھو بیٹھیں جب خرم باجوہ کی بیوہ نے اپنے مخالفین پر قتل کا الزام عائد کر دیا۔ خرم باجوہ سے فائدہ اٹھانے والے سیاسی رہ نمائوں اور دیگر افراد نے اس کی موت کے بعد ایسا منہ پھیرا کہ وہ اس کے جنازے میں بھی شریک نہ ہوئے نہ ہی پولیس کے دامن پر اس کے خون کے چھینٹے پڑے۔ خرم باجوہ کے قتل کا مقدمہ جب عدالت میں چلے گا تو اس کے کئی پہلو سامنے آئیں گے مگر پولیس مطمئن ہے کہ خرمی باجوہ کے قتل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں