سرگودھا میں سی پی ایل سی کا قیام

سی پی ایل سی کے تحت شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر انٹرنیٹ نگرانی کے کیمرے بھی نصب کیے جائیں گے.

سی پی ایل سی کا پیٹرن ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد حفیظ کو منتخب کیا گیا ہے فوٹو : فائل

سرگودھا میں سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کا قیام عمل میں آگیا ہے اور سی پی ایل سی نے کام شروع کر دیا ہے۔

سی پی ایل سی کا پیٹرن ٹی ٹونٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد حفیظ کو منتخب کیا گیا ہے جب کہ سابق ایم این اے ملک عدنان حیات نون کو چیف، پرائیویٹ اسکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری مظہر علی خان کو ڈپٹی چیف اور مہناز عطاء چوہدری کو جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ سی پی ایل سی کے آئین میں ارکان پر بعض پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں جس سے ذاتی پسند و ناپسند کا خاتمہ ہو گا۔ اسی طرح ارکان کے انتخاب کے لیے سخت طریقۂِ کار اپنایا گیا ہے اور سی پی ایل سی میں غیر سیاسی افراد کی نام زدگی کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

سی پی ایل سی کو پہلے مرحلہ میں، تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیوں کی تشکیل کا ٹاسک دیا گیا ہے جب کہ سی پی ایل سی کے تحت شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر انٹرنیٹ نگرانی کے کیمرے بھی نصب کیے جائیں گے جس سے جرائم کے روک تھام میں مدد ملے گی۔ سی پی ایل سی کا صدر دفتر تھانہ کینٹ میں قائم کیا گیا ہے جہاں لین دین، ثالثی اور معمولی تنازعات کے مقدمات ٹرانسفر کیے جائیں گے جن پر سی پی ایل سی کے ارکان ثالثی کا کردار ادا کریں گے۔ سی پی ایل سی کا قیام پولیس آرڈر کی شقوں کے تحت کیا گیا ہے اور سی پی ایل سی کسی بھی کیس کا فیصلہ غیر جانب دار بنیادوں پر کرنے کی پابند ہو گی۔

لین دین کے تنازعات اور مقدمات کی شرح میں پچھلے کچھ عرصہ میں یقیناً اضافہ ہوا ہے اور اب تو کروٹوں کے لین دین کے تنازعات میں لوگ مخالفین پر ڈکیتی کے مقدمات بھی درج کروادیتے ہیں اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ سی پی ایل سی کا سب سے بڑا ٹارگٹ ایسے تنازعات کا مقدمہ کے اندراج سے قبل تصفیہ ہو گا جب کہ سی پی ایل سی کے لیے سب سے بڑا چیلنج جرائم کی شرح میں کمی لانا بھی ہو گا۔ معاشرے کی بے راہ روی' تعلیم کی کمی اور بے روزگاری' مہنگائی سے تنگ کئی افراد جرائم کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور بدقسمتی سے انصاف کا طریقۂِ کار انتہائی پیچیدہ ہے جس سے ایسے افراد کو ان کے اصل مقام پر لا کر ان کو اچھا شہری بنانے میں مشکلات کا بھی ایک پہاڑ کھڑا ہو جاتا ہے جب کہ سی پی ایل سی کو ایسے افراد کی قانونی راہ نمائی اور ایسے افراد کو دوبارہ معاشرے کے کار آمد دھارے میں بھی ایسے شہریوں کی شمولیت کو ممکن بنانے پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ جیلوں میں کئی ایسے افراد دیکھے جا سکتے ہیں جو نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔




علاوہ ازیں جو افراد جرم کی دنیا کو چھوڑ کر کار آمد شہری بننے پر مائل ہیں، ان کی حوصلہ افزائی سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایسے افراد کی کونسلنگ کے لیے ہمارے ملک میں کوئی ادارہ نہیں اور نہ ہی ان پر توجہ دی جاتی ہے بل کہ ان کو حالات کے بے رحم تھپیڑوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سی پی ایل سی کو آگے بڑھ کر ایسے افراد کی کونسلنگ اور ان کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانا چاہیے۔ سرگودھا ضلع میں جرائم کی نوعیت ذاتی دشمنی کے واقعات پر زیادہ تر مبنی ہے اور ذاتی دشمنیوں کے خاتمہ کے لیے آج تک کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا اس کے علاوہ شہری حد تک معمولی جھگڑے کے کیس بھی زیادہ ہیں جن کے مستقل تصفیے کی ضرورت ہوتی ہے۔

پچھلے کچھ برسوں میں سرگودھا میں آشنا کے ساتھ خواتین کے فرار کے مقدمات کی تعداد میں اضافہ بھی سامنے آیا ہے جن میں زیادہ تر مدعی اغوا کا مقدمہ درج کروا دیتے ہیں۔ تھانوں کی سطح پر بننے والی مصالحتی کمیٹیوں میں تمام مکاتبِ فکر کے علاوہ متعلقہ تھانے کی حدود میں جامع مساجد کے امامین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ سابق ایس ایس پی سرگودھا ناصر خان درانی اپنے دور میں غیر جانب دار امام مسجد کی ضمانت پر منشیات کے کیسوں کو حل کرتے رہے۔

سابق ایس ایس پی ڈاکٹر طارق مسعود یٰسین نے بھی یہی روش اپنائی، ڈاکٹر طارق مسعود یٰسین کو سیاسی تبادلے کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے اور اگر طارق مسعود یٰسین دو سال بھی سرگودھا میں تعینات رہ جاتے تو کم از کم سرگودھا پولیس سے جرائم پیشہ اہل کاروں کا خاتمہ ضرور کر جاتے۔ طارق مسعود یٰسین سخت گیر آفیسر تھے مگر ان کے بعد آنے والے افسران نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان، دبنگ پولیس آفیسر ہیں، انہوں نے جرائم پیشہ پولیس اہل کاروں کی بیخ کنی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ان کی دھاک اس وقت بھرپور انداز میں بیٹھی ہوئی ہے تاہم تھانہ کلچر جوں کا توں ہے۔ سی پی ایل سی کے قیام کا کریڈٹ بھی ڈاکٹر رضوان کو جاتا ہے۔

انہوں نے شب و روز کی عرق ریزی کے بعد ارکان کا انتخاب کیا اور متفقہ آئین بھی ترتیب دیا اور یہ کیا کہ سی پی ایل سی کو ایک ادارہ کے طور پر متعارف کروایا۔ پنجاب بھر میں پہلے ون فائیو ڈیجیٹل ریسپانس سنٹر کے قیام کا کریڈٹ بھی ایس ایس پی سرگودھا کو جاتا ہے جہاں جی پی ایس ٹریکنگ سسٹم سے پولیس کو ماہانہ لاکھوں روپے کی پٹرول کی مد میں بچت ہو رہی ہے۔ کوئی پٹرولنگ گاڑی سڑک پر نہ ہو تو اس پر فوری ایکشن ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایس ایس پی سرگودھا نے جو اصلاحات پولیس میں متعارف کرائی ہیں ان کو پائے دار شکل دی جائے تاکہ سسٹم قائم رہے اور لوگ اس سے استفادہ کرتے رہیں۔

 
Load Next Story