مسائل کا واحد حل مشاورت اور مکالمہ
نئی حلقہ بندیوں سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے میں مدد ملے گی ۔
ISLAMABAD:
سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کی نئی حلقہ بندیوں کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی ہے، 14میں سے13 جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، ایم کیو ایم نے بھی مخالفت نہیں کی البتہ سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ دکھانے کا مطالبہ کیا ہے، سیاسی جماعتوں کے نمایندوں سے یہاں ملاقاتوں کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ تحریری حکم نامے سے متعلق ایم کیو ایم کا موقف وزن دار تھا مگر یہ عدالت کا حکم اکتوبر2011 کا ہے، اب حلقہ بندیاں ہم نے کرنی ہیں اور خاکہ بھی تیار کر لیا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے میں مدد ملے گی، پوری قوم کی طرح سپریم کورٹ کو بھی شہر کی خراب صورتحال پر تشویش ہے۔ ہم ان ہی سطور میں بعض معروضی حقائق کے پیش نظر ناگزیر اندیشوں کا اظہار کرچکے ہیں کہ کراچی کو جسے منی پاکستان کے خوبصورت نام سے منسوب کیا گیا ہے ایک غیر معمولی اور انتہائی اندوہ ناک سماجی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ایک اعصاب شکن تنائو میں نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہونا ہے تاہم ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے ریماکس اور فیصلوں پر عدالتی فورم پر اپنی تشویش اور اختلاف رائے کا اظہار کریں، میڈیا میں تند و تیز بیانات سے گریز لازم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ محرم کا پہلا عشرہ دہشت گردی کے بڑے واقعات اور معمول کی ٹارگٹ کلنگ کے عذاب سے بچا رہا لیکن گزشتہ روز ٹارگٹ کلنگ کی لہر نے پھر سے 10 شہریوں کی جان لے لی ۔
مزید برآں ایک طرف سپریم کورٹ کے حکم کو غیر آئینی،غیر اخلاقی،غیر جمہوری ،حتی ٰ کہ متعصبانہ قرار دیا گیا اور کراچی کا تقابلی جائزہ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کی مخدوش صورتحال سے کیا جارہا ہے ۔ایک حساس ادارے کی جانب سے وفاقی حکومت کو دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر اور اہم مقامات کو ممکنہ طور پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے ، جس کی اطلاع پر وفاقی حکومت کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ شہر میں پولیس اور رینجرز کو ہائی الرٹ کر کے ممکنہ دہشت گردی کو ناکام بنایا جائے ، ذرایع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے رینجرز کمپلیکس کی طرز پر دہشت گردی کی جا سکتی ہے جس کے بعد پولیس اور رینجرز نے شہر بھر میں سیکیورٹی اقدامات کو مزید سخت کر دیا ہے ۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال توجہ طلب ہے ، قتل و غارت کا سلسلہ نہ رکا تو شہر مزید المیوں سے دوچار ہوگا۔
بعض طاقتیں اس انتظار میں ہیں کہ کوئی چنگاری بھڑکے تو وہ منی پاکستان کو آگ کا گولہ بنا سکیں کیونکہ سیاسی محاذ آرائی اور اہم سیاسی،انتخابی اور سماجی امور پر اتفاق رائے کے فقدان کے باعث آیندہ حالاتمیں ممکنہ ابتری کا اندیشہ رد نہیں کیا جاسکتا ، انتخابات مکمل پرامن ماحول میں منعقد ہونے چاہئیں ۔ایک اطلا ع یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے درمیان پولیس اور رینجرز کے کریک ڈائون سے بچنے کے لیے ملک گیر ڈیل ہو چکی ہیں، مافیا گروپس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہیں۔اسی تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بیان چشم کشا ہے کہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ فیصلوں سے عوام کا اعتماد بڑھا ہے ، عدلیہ ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کے اقدامات اورعدالتی احکامات پر سنجیدگی سے مکالمہ کیا جائے۔کسی کو اس بات کی شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ کسی خاص صوبہ یا شہر کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔بدامنی کی آگ کسی کو پوچھ کر نہیں پھیلتی ، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بدامنی ، طوائف الملوکی اور لاقانونیت نے تہذیبیں غارت کی ہیں۔اس لیے مشاورت سے معاملات کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کراچی کی نئی حلقہ بندیوں کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی گئی ہے، 14میں سے13 جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، ایم کیو ایم نے بھی مخالفت نہیں کی البتہ سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ دکھانے کا مطالبہ کیا ہے، سیاسی جماعتوں کے نمایندوں سے یہاں ملاقاتوں کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ تحریری حکم نامے سے متعلق ایم کیو ایم کا موقف وزن دار تھا مگر یہ عدالت کا حکم اکتوبر2011 کا ہے، اب حلقہ بندیاں ہم نے کرنی ہیں اور خاکہ بھی تیار کر لیا ہے۔
نئی حلقہ بندیوں سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے میں مدد ملے گی، پوری قوم کی طرح سپریم کورٹ کو بھی شہر کی خراب صورتحال پر تشویش ہے۔ ہم ان ہی سطور میں بعض معروضی حقائق کے پیش نظر ناگزیر اندیشوں کا اظہار کرچکے ہیں کہ کراچی کو جسے منی پاکستان کے خوبصورت نام سے منسوب کیا گیا ہے ایک غیر معمولی اور انتہائی اندوہ ناک سماجی صورتحال کا سامنا ہے ۔ ایک اعصاب شکن تنائو میں نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل ہونا ہے تاہم ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عدلیہ کے ریماکس اور فیصلوں پر عدالتی فورم پر اپنی تشویش اور اختلاف رائے کا اظہار کریں، میڈیا میں تند و تیز بیانات سے گریز لازم ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ محرم کا پہلا عشرہ دہشت گردی کے بڑے واقعات اور معمول کی ٹارگٹ کلنگ کے عذاب سے بچا رہا لیکن گزشتہ روز ٹارگٹ کلنگ کی لہر نے پھر سے 10 شہریوں کی جان لے لی ۔
مزید برآں ایک طرف سپریم کورٹ کے حکم کو غیر آئینی،غیر اخلاقی،غیر جمہوری ،حتی ٰ کہ متعصبانہ قرار دیا گیا اور کراچی کا تقابلی جائزہ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کی مخدوش صورتحال سے کیا جارہا ہے ۔ایک حساس ادارے کی جانب سے وفاقی حکومت کو دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دفاتر اور اہم مقامات کو ممکنہ طور پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے ، جس کی اطلاع پر وفاقی حکومت کی جانب سے محکمہ داخلہ سندھ کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ شہر میں پولیس اور رینجرز کو ہائی الرٹ کر کے ممکنہ دہشت گردی کو ناکام بنایا جائے ، ذرایع کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے رینجرز کمپلیکس کی طرز پر دہشت گردی کی جا سکتی ہے جس کے بعد پولیس اور رینجرز نے شہر بھر میں سیکیورٹی اقدامات کو مزید سخت کر دیا ہے ۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں امن وامان کی صورتحال توجہ طلب ہے ، قتل و غارت کا سلسلہ نہ رکا تو شہر مزید المیوں سے دوچار ہوگا۔
بعض طاقتیں اس انتظار میں ہیں کہ کوئی چنگاری بھڑکے تو وہ منی پاکستان کو آگ کا گولہ بنا سکیں کیونکہ سیاسی محاذ آرائی اور اہم سیاسی،انتخابی اور سماجی امور پر اتفاق رائے کے فقدان کے باعث آیندہ حالاتمیں ممکنہ ابتری کا اندیشہ رد نہیں کیا جاسکتا ، انتخابات مکمل پرامن ماحول میں منعقد ہونے چاہئیں ۔ایک اطلا ع یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کے درمیان پولیس اور رینجرز کے کریک ڈائون سے بچنے کے لیے ملک گیر ڈیل ہو چکی ہیں، مافیا گروپس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہیں۔اسی تناظر میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بیان چشم کشا ہے کہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ فیصلوں سے عوام کا اعتماد بڑھا ہے ، عدلیہ ہر چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی حلقہ بندیوں کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کے اقدامات اورعدالتی احکامات پر سنجیدگی سے مکالمہ کیا جائے۔کسی کو اس بات کی شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ کسی خاص صوبہ یا شہر کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔بدامنی کی آگ کسی کو پوچھ کر نہیں پھیلتی ، دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بدامنی ، طوائف الملوکی اور لاقانونیت نے تہذیبیں غارت کی ہیں۔اس لیے مشاورت سے معاملات کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔