حساب

حادثات میں کوئی ایک شخص ہلاک ہو یا ان کی تعداد سیکڑوں میں ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔


Dr Naveed Iqbal Ansari December 01, 2012
[email protected]

KARACHI: یہ منظر میری آنکھوں نے دیکھا کہ ایک برفانی ریچھ کسی پہاڑی کی چٹانوں میں پھنس گیا، چٹانوں کے نیچے دریا کا پانی، اوپر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو ٹیمیں اس ریچھ کو بحفاظت نکالنے کی کوشش میں مصروف، نیچے پانی میں بھی ریسکیو ٹیموں کے افراد ریچھ کو کسی ممکنہ حادثے سے بچانے کے لیے موجود، رسیّاں باندھ کر ریچھ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے، ریچھ نیچے پانی میں گِرتا ہے اور فوراً امدادی ٹیمیں جو پہلے ہی پانی میں کشتی پر سوار ہیں ریچھ کو بچانے کے لیے آگے بڑھتی ہیں، اور بالآخر ریچھ کو بچا لیتی ہیں۔

لیکن یہ خوفناک منظر بھی میری آنکھوں نے دیکھا کہ جب کسی ویران پہاڑی پر نہیں دنیا کے دسویں اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پُر رونق اور مرکزی علاقے میں واقع ایک بلڈنگ میں آگ لگنے کے بعد ایک نوجوان بلڈنگ کی 8 ویں منزل پر 7 منٹ تک کھڑکی میں لٹکا رہا اس اُمید پر کہ شاید کوئی اسے بحفاظت اُتار لے مگر افسوس 7 منٹ بعد وہ نوجوان اپنا جسم سنبھالنے میں ناکام ہوگیا اور بلڈنگ سے نیچے گر کر ہلاک ہوگیا۔

نوجوان کی بے بسی اور حادثے کو میڈیا سے وابستہ لوگ، کیمرے اور لوگوں کا ہجوم بھی دیکھتا رہا مگر شاید سب بے بس تھے، بے حس تھے، مجبور تھے، جو کچھ ہم صبح و شام بوتے ہیں اس کا نتیجہ عملاً دیکھ رہے تھے؟

یورپ کے کسی ملک میں تو ویران علاقے میں کسی جانور کی جان خطرے میں ہو تو نہ صرف اعلیٰ حکام بلکہ امدادی تنظیموں تک اطلاع پہنچ جاتی ہے اور وہ موقعے پر پہنچ کر جان بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کے ہاں ہیلی کاپٹر امدادی کارروائیوں کے لیے موجود ہوتا ہے، محض سرکاری پروٹوکول یا وی آئی پی افراد کے سفر کے لیے نہیں، ان کے ہاں شاہراہیں صاف ستھری اور کھلی و کشادہ ہوتی ہیں، وہاں تخت، ٹھیلے یا پتھارے لگوا کر پولیس بھتہ وصول نہیں کرتی، نہ ہی ان کے ہاں بلڈنگوں میں تنگ اور بغیر ایمرجنسی کے راستے محدود ہوتے ہیں کیونکہ انھیں احساس ہے کہ ایمرجنسی صورتحال کسی بھی وقت، کہیں بھی ہوسکتی ہے۔

ان کے ہاں اداروں میں افراد محض رشوت پر، سفارش پر یا اقربا پرورری کے تحت بھرتی نہیں کیے جاتے، کیونکہ انھیں علم ہے اور یہ شعور ہے کہ اگر ایسا ہوا تو نااہل لوگ اداروں میں چھا جائیں گے، نہ ہی ان کے ہاں ریٹائرڈ افسران اداروں کے سربراہ مقرر کیے جاتے ہیں کیونکہ انھیں علم ہے کہ اس طرح یہ لوگ ''اوپر'' والوں کی خوشنودی تو حاصل کرسکتے ہیں مگر اداروں کو مضبوط اور مستحکم نہیں بناسکتے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب ادارے ہی مضبوط و مستحکم نہ ہوں گے اور سفارش پر نااہل لوگ اداروں میں بھر جائیں تو پھر ... تو پھر... جب ایمرجنسی کی صورتحال پیش آئے گی تو ... نہ فائر بریگیڈ کے پاس گاڑیاں ہوں گی... نہ چاک و چوبند عملہ ہوگا... نہ ہی وہ جائے حادثہ پر بروقت پہنچ سکیں گے... اسی طرح نہ کسی عمارت میں ایمرجنسی میں باہر نکلنے کا راستہ ہوگا... نہ فوری امداد اور بچاؤ کے لیے آگ بجھانے کے آلات دستیاب ہوں گے۔

بس جان بچانے کے لیے بد حواس، بھاگتے دوڑتے بے بس افراد ہوں گے جو باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتے ہوں گے،راستہ نہ ملنے پر کُود کر زندگی بچانے کا جوا کھیلتے ہوں گے، اور باہرکھڑا ہجوم یہ دلخراش منظر دیکھ کر مجبوراً صرف دعا ہی کرتا ہوگا، کیونکہ ان کے پاس کرنے کو صرف دعا ہی ہے، دوا نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ ایسے حادثات میں کوئی ایک شخص ہلاک ہو یا ان کی تعداد سیکڑوں میں ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس چند دن میڈیا پر شور مچے گا، خبریں آئیں گی (اور وہ بھی کوئی بڑا واقعہ ہونے پر کسی نئی بریکنگ نیوز کی نذر ہوجائے گی) اور پھر بس... سب اچھا ہوجائے گا۔

انکوائری کمیشن بنا بھی تو وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا ہوجائے گا کیونکہ انکوائری اور کمیشن بھی تو اداروں کے تحت ہی چلتے ہیں اور جب اداروں میں اپائنٹمنٹ، پروموشن اور سربراہوں کی تقرریاں سب ہی سفارش پر ہوں، نااہل مسند پر بیٹھ جائیں تو پھر... تو پھر یہ تحقیق اور کمیشن بھی میرٹ کے خلاف فیصلہ دے سکتے ہیں، مگر میرٹ پہ نہیں۔

آج دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں یہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ اگر ان کے ہاں انصاف کی فراہمی بند ہوگئی، فیصلے میرٹ کے بجائے رشوت، سفارش پر ہونے لگے اور اداروں میں سربراہوں کا تقرر ہو یا چپڑاسی کا، اگر میرٹ کے خلاف فیصلے ہوئے اور اداروں کے سربراہوں میں ریٹائرڈ افراد کو لاکر نوازا گیا تو پھر صرف ادارے ہی تباہ نہیں ہوں گے بلکہ پورے معاشرے پر اس کا اثر پڑے گا۔

آج ہمارا بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم نے میرٹ پر فیصلے کرنا چھوڑ دیے، نتیجتاً آج ٹریفک سگنل کا منظر ہو یا پارلیمنٹ کا منظر ہو، ہر جگہ نظم و ضبط کی کمی نظر آتی ہے، کوئی ایک ایسا ادارہ نہیںہے جس کو ہم مثال بناکر پیش کرسکیں، یاری دوستیاں نبھا کر، حقدار کو اس کے حق سے محروم کرکے ہم نے آج اپنے معاشرے میں جنگل سے بدتر ماحول پیدا کردیا ہے۔

ایک انسان ناحق مارا جائے یا سیکڑوں افراد کسی فیکٹری میں جل جائیں... ہم کمیٹیاں، کمیشن بناکر عوام کو مطمئن کرنے کی اور میڈیا کو خاموش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور دل کو مطمئن کرنے کے لیے یہ سوچتے ہیں کہ ''اس کی زندگی ہی اتنی تھی، اس کا دنیا میں رزق ہی اتنا تھا'' مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ضرور آئے گا جب ''ذرے ذرے کا حساب ہوجائے گا'' اور جب کوئی خلیفہ دریا کے کنارے کسی کتّے کے بھوکا مرنے کا حساب دے گا تو بھلا میں اور آپ کیا حساب دیں گے؟ جو قوت ذرے ذرے کا حساب لینا جانتی ہو، بھوکے کتّے کے مرنے کا حساب کرنے والی ہو ، وہ کیا کسی 7 منٹ تک لٹکتے انسان کی ہلاکت کا حساب نہ لے گی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں