طور خم پر نیا باب اور ڈیورنڈ لائن
ان کے ساتھ چند اور بھی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے جوان زخمی ہوئے تھے
PESHAWAR:
اطلاعات کے مطابق آج یکم اگست 2016ء کو پاک افغان بارڈر کے مقامِ طور خم پر ایک نئے اور پُر شکوہ گیٹ کا افتتاح کیا جارہا ہے۔ طور خم گیٹ کا نام ''بابِ پاکستان'' رکھا گیا ہے اور طور خم کراسنگ پوائنٹ کو شہید میجر علی جواد چنگیزی کے اسمِ گرامی سے منسوب و موسوم کیا گیا ہے۔ دونوں نام رکھنے کے لیے حکومتِ پاکستان کے اہم ترین اداروں میں کئی اعلیٰ سطحی میٹنگیں ہوئی ہیں۔ آہنی طور خم گیٹ، جسے سبز ہلالی پرچم کی شکل میں بنایا گیا ہے، کی تعمیر و تشکیل میں پاکستان کی جری سیکیورٹی فورسز کو خون بھی دینا پڑا ہے۔
تقریباً تین سال قبل اس کی تعمیر کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس دوران افغان حکام بار بار، بے جا اعتراضات کرتے اور بار بار رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے۔ وہی گھِسی پِٹی ڈیورنڈ لائن کا ذکر کرتے ہوئے۔ پاکستان نے بھی عزمِ صمیم کر رکھا تھا کہ دہشت گردی روکنے، دہشت گردوں کے خاتمے اور دشمنانِ پاکستان کے سہولت کاروں کا انسداد کرنے کے لیے طور خم پر نیا گیٹ بنا کر رہے گا۔ جون 2016ء کے وسط میں اسی گیٹ کی تعمیر ہو رہی تھی کہ افغان فورسز نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر بھاری اسلحہ برسانا شروع کر دیا۔ نتیجے میں ہماری ایف سی کے جوانمرد اور شیر دل افسر، میجر علی جواد چنگیزی، اچانک حملہ آور افغان فورسز کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ وہ روزے سے بھی تھے اور روزے ہی کی حالت میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
ان کے ساتھ چند اور بھی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے جوان زخمی ہوئے تھے۔ جواباً پاکستانی فورسز نے بھی افغان فوج پر حملے کیے اور ان کی توپیں اور بندوقیں خاموش کرا دی گئیں۔ ہماری سیکیورٹی فورسز نے اپنے شہیدوں اور زخمیوں کا بدلہ لینے میں تاخیر نہیں کی۔ یوں دونوں ہمسایہ ممالک میں کشیدگی مزید بڑھ تو گئی لیکن پاکستان نے طور خم گیٹ کی تعمیر کا سلسلہ جاری رکھا، اگرچہ میجر چنگیزی صاحب کی شہادت کے بعد طور خم گیٹ پر پاکستان نے چھ دنوں کے لیے آمد و رفت بھی بند کر دی تھی۔ یوں جناب اشرف غنی کی افغان حکومت اور افغان سیکیورٹی فورسز کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا۔ طور خم بارڈر سے روزانہ پندرہ سے بیس ہزار افراد گزرتے ہیں۔ سیکڑوں گزرنے والی گاڑیاں اور ہیوی ٹرک اس کے علاوہ ہیں۔
افغانستان سے پاکستان آنے والے مسافروں کی تعداد ہمیشہ زیادہ رہی ہے؛ چنانچہ اسی حساسیت کے کارن طور خم گیٹ (اور اب ''بابِ پاکستان'') کی تعمیر کے لیے گزشتہ دو سال کے دوران مقامی کمانڈروں کی دس بار فلیگ میٹنگیں ہوئیں۔ پاکستان مگر کسی ایک میٹنگ میں بھی گیٹ بنانے سے دستکش نہ ہوا۔ اسی عزمِ صمیم کا نتیجہ نکلا ہے کہ تین دن قبل طور خم پر ''بابِ پاکستان'' تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس پر اب پاکستان کے ہلالی پرچم شان سے لہراتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ نئے بارڈر مینجمنٹ سسٹم کے تحت ''بابِ پاکستان'' سے گزر کر اب وہی افغان پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ سکے گا جس کے پاس قانونی طور پر تصدیق شدہ سفری دستاویزات ہوں گی۔ پہلے والی موجیں اب ختم ہو چکی ہیں۔ گیٹ پر جدید اسلحے اور امیگریشن کے ماڈرن آلات سے مزیّن خیبر لیویز کے اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے اور گاڑیاں چیک کرنے والے سکینرز بھی نصب کیے جا رہے ہیں۔
طورخم بارڈر کراسنگ پوائنٹ کا پاکستان اور افغانستان کے درمیان وہی درجہ ہے جو مقام واہگہ بارڈر کراسنگ پوائنٹ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان حاصل ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد ہے۔
بارڈر خاصا ''مسام دار'' ہے، اتنا مسامدار اور طویل کہ اس پر دوسو ایسے مقامات ہیں جہاں سے آر پار جانا ممکن ہے لیکن اکثر جگہوں پر چونکہ سڑکیں نہیں ہیں اور گزرنے والے راستے دشوار ہیں، اس لیے پیدل ہی بمشکل انھیں عبور کیا جا سکتا ہے۔ ان میں 88 ایسے مقامات ہیں جہاں سے مضبوط جیپیں ہی گزر سکتی ہیں۔ ان اٹھاسی میں سے چھ گزرگاہیں آسان ہیں۔ طور خم، انگوراڈہ اور چمن ان میں آسان ترین، منظم اور مشہور ہیں۔ پاکستان کی کوشش یہ ہے کہ پاک افغان سرحد پر مذکورہ چھ گزرگاہوں پر ویسا ہی مضبوط اور آہنی بندوبست کیا جائے جیسا کہ طور خم کے مقام پر ''بابِ پاکستان'' اور ''شہید علی جواد کراسنگ پوائنٹ'' کی شکل میں کیا گیا ہے۔ اس میں مشکلات اور مسائل تو بہت حائل ہیں لیکن ان ہی سے پاکستان کی سیکیورٹی اور امن بھی وابستہ ہے۔
وزیرِدفاع خواجہ آصف، سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) عالم خٹک اور ڈی جی ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے اگرچہ اجتماعی طور پر ''بابِ پاکستان'' کی افادیت اور نئی بارڈر مینجمنٹ کے بارے میں اچھی توقعات کا اظہار کیا ہے لیکن افغانستان کے بعض شرارتی عناصر اپنی شرانگیزی سے باز نہیں آ رہے۔ وہ طور خم اور پاک افغان سرحد پر دیگر کراسنگ پوائنٹس کے حوالے سے بار بار ڈیورنڈ لائن کے قضیئے کا باجہ بجا رہے ہیں، حالانکہ افغان حکام بخوبی جانتے ہیں اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کا قضیۂ ختم ہو چکا ہے اور ماضی میں افغانستان کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات مدت ہوئی مر کھپ چکے ہیں۔ اس کے باوصف وہ بلا وجہ شور مچا رہے ہیں جو لاحاصل بھی ہے اور بے ثمر بھی۔
بے مقصد ڈیورنڈ لائن کا شوشہ اور شرارہ چھوڑ کر افغان حکام دراصل بھارتی ڈیزائن کی معاونت کر رہے ہیں۔ بعض مغربی ممالک بھی اندر خانے اس شیطنت کا حصہ ہیں۔ مغربی ممالک میں آباد دو ہندو بھارتی نام نہاد دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان میں سے ایک کا نام پروفیسر ڈاکٹر سدھو ہے اور دوسرے کا نام ڈاکٹر دیپک باسُو بتایا جاتا ہے۔ بھارتی خفیہ ادارے بھی ان کی ہر جگہ اور ہر ممکن معاونت کرتے آ رہے ہیں تا کہ ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر پاکستان اور افغانستان کو زیادہ سے زیادہ الجھایا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن ہی اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان عالمی طور پر تصدیق شدہ سرحد ہے۔
افغانستان کا یہ کہنا بھی غلط اور تاریخی طور پر بے بنیاد ہے کہ برطانوی حکومت نے افغان بادشاہ، امیر عبدالرحمن، سے زبردستی ڈیورنڈ لائن معاہدے پر دستخط کروائے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ افغان امیر نے اپنی مرضی اور منشا سے، تشکیلِ پاکستان سے تقریباً 54 برس قبل، اس معاہدے پر دستخط ثبت کر کے اس لائن کو افغانستان کی آخری سرحد تسلیم کیا تھا۔ افغانستان کا یہ مؤقف بھی حقائق کے منافی ہے کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ صرف سو سال کے لیے تھا اور یہ کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ چونکہ افغانستان اور برطانیہ کے درمیان تھا، اس لیے آج ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ افغان حکام کی یہ محض شرارتیں اور شرانگیزیاں ہیں۔ پاکستان ان شرانگیزیوں کو بھی خوب سمجھتا ہے اور ان کے پیچھے کار فرما ہاتھوں کو بھی جانتا پہچانتا ہے۔ افغانستان 1947ء سے لے کر اب تک، متعدد بار عالمی فورموں پر ڈیورنڈ لائن کو افغانستان اور پاکستان کے درمیان بطور انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کر چکا ہے۔
اس کی تغلیط کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ مختلف اوقات میں افغان حکمران 1893ء کے بعد، تین بار، ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کر چکے ہیں۔ انھوں نے 1905ء، پھر 1919ء اور آخری بار 1921ء میں بھی اس معاہدے پر دستخط کیے۔ چاروں بار کسی بھی جگہ یہ لکھا اور کہا نہ گیا کہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ صرف سو سال کے لیے ہے۔ تشکیلِ پاکستان کے بعد ڈیورنڈ لائن کے پاکستانی حصے کی طرف پشتونوں کی تعداد، دوسری طرف کے حصے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ آج خیبر پختون خوا، بلوچستان اور فاٹا کے قابلِ فخر پشتون دہشت گردی کے خلاف شاندار کردار بھی ادا کر رہے ہیں اور پاکستانی سیاست و اقتدار اور فوج میں بھی ان کا حصہ نمایاں ہے۔ بھارت کو بھی اب ڈیورنڈ لائن کے خلاف شیطانیاں کرنے سے باز آ جانا چاہیے۔ پرسوں، 3 اگست 2016ء کو، بھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ دو روزہ دورے پر پاکستان آ رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بھارتی وزیرداخلہ کو غیر مبہم پیغام ملنا چاہیے کہ بھارت ڈیورنڈ لائن کے قضیئے کو نئی ہوا دینے سے باز رہے۔