ترقی پسندوں کا المیہ
ترقی پسندی کی کہانی کوئی دس بیس سال پرانی نہیں۔ یہ قصہ تو کم از کم ایک صدی پہلے کا ہے۔
ترقی پسندی کی کہانی کوئی دس بیس سال پرانی نہیں۔ یہ قصہ تو کم از کم ایک صدی پہلے کا ہے۔ ہمارے پڑوس یعنی روس میں لینن برسر اقتدار آگیا۔ اس کے نظریے کو حبیب جالب نے ایک مصرعے میں سمودیا تھا۔ ''ملیں لٹیروں سے لے لو، کھیت وڈیروں سے لے لو''۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو خوف زدہ ہوجانا تھا۔ اس نظریے کا دوسرا پہلو چالاکی اور سازش سے حکومت پر قبضہ کرنا تھا۔ تیسری بات ایک ہی پارٹی اور ایک ہی اخبار پورے ملک میں ہو۔ یوں جمہوریت اور برداشت کا تو بستر گول ہی ہوجانا تھا۔
چوتھی رائے یہ تھی کہ ''مذہب ایک افیون ہے'' ظاہر ہے اس بات کو مان کر جو لوگ ''کامریڈ'' بن جاتے تھے ان کامذہبی عقائد پر تو ایمان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب قبلہ مکے کے بجائے ماسکو بن گیا تھا تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہم ترقی پسندوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک پاکستان بننے سے پہلے اور ایک پاکستان بننے کے بعد۔ جب برصغیر میں انگریز کا عروج تھا تو کالجز اور جامعات میں پڑھنے والے غریب نوجوانوں کو مارکس اور لینن نے بڑا متاثر کیا۔ ان طالب علموں کے خاندان صدیوں سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مظالم کی چکی میں پستے رہے ہوں گے۔ روس کی معاشی اور فوجی ترقی نے بھی ان نوجوانوں کو رومانویت میں مبتلا کردیا۔
تقسیم ہند کے بعد کمیونسٹ پارٹی انڈیا اور پاکستان میں بٹ گئی۔ دوسری طرف چین میں ماؤ کا انقلاب بھی اسی نظریے کو لے کر کامیاب ہوگیا تھا۔ پاکستان اس وقت امریکا کا اتحادی تھا۔ وہ امریکا جو سرمایہ دارانہ نظام کو کامیاب دیکھنا چاہتا تھا۔ روس واقعتاً درجن بھر ترقی یافتہ ملکوں کے لیے ایک بڑا ڈراؤنا خواب تھا۔ لیاقت کے دور میں کمیونسٹوں نے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جنرل اکبر اور فیض کے علاوہ کئی لوگ گرفتار ہوئے۔ یوں ایوب دور تک لیفٹ کے لوگوں کو بڑا خطرہ محسوس کرکے کچلنے کی کوشش ہوتی رہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں روس اور چین کے حامی آمنے سامنے آگئے۔ یوں ایک نظریے کے علمبردار دو حصوں میں بٹ گئے۔ ان کے اختلاف نے انھیں خود ہی کمزور کردیا اور پھر حکومتوں کو ان پر زیادہ بڑا ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
بھٹو نے ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کا نعرہ دیا تو شیخ محمد رشید، معراج محمد خان اور مبشر حسن جیسے کمیونسٹ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ اقتدار ملنے کے بعد بھٹو نے خوشحالوں اور بدحالوں میں توازن قائم کرنا چاہا، تیزی سے ایجنڈے کو مکمل ہوتے نہ دیکھ کر سرخ سویرے کے ماننے والے بھٹو سے علیحدہ ہوتے گئے اور پانچ برسوں میں پیپلزپارٹی مکمل طور پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں چلی گئی۔ یہ دیکھ کر کمیونسٹ بھٹو سے بالکل مایوس ہوگئے، لیکن اس وقت تک ان کے المیے کی ابتدا نہیں ہوئی تھی۔
ضیا الحق کے ابتدائی دور میں کمیونسٹ کیمپ میں مایوسی تھی۔ اسلام کا پرچار کرنے والا ضیا سرخ آندھی کے علم برداروں کو بالکل نہ بھاتا۔ ایسے میں سوویت روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ اس قدم نے دنیا بھر کے کمیونسٹوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ 80 کے عشرے کی ابتدا تک روس جہاں گھس جاتا وہ واپس نہ جاتا۔ اس تاریخ نے پاکستان کے ترقی پسندوں کے حوصلوں کو جوان کردیا تھا۔
جب کہا جاتا کہ روس کو افغانستان سے نکلنا ہوگا تو ہمارے بائیں بازو کے دوست طنزیہ مسکراہٹ سے اس کا جواب دیتے، دس سال تک افغان پہاڑوں سے سر ٹکرا کر روس ناکام و نامراد ہوکر دریائے آمو کے دوسری طرف چلا گیا۔ امریکی اسلحے، سعودی سرمائے، افغان جذبے اور پاکستانی راہداری نے سرخ آندھی کو خود ہی اپنے خاتمے کا اعلان کرنے پر مجبور کردیا۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، یوں ہر ایک نے سوویت روس کو اپنا دشمن جان کر بدلہ چکایا۔ المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو سوویت روس کے ٹوٹنے کا بڑا غم ہے کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ کیوں تھا۔ انھیں پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا غم نہیں کہ اس میں روس کا ہاتھ کیوں تھا۔ یہ تو تاریخی المیہ ہے۔
پاکستان کے ترقی پسندوں کا اصل المیہ یہ رہا کہ وہ ہوا میں معلق ہوگئے۔ انھیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سوویت یونین میں مارکس اور لینن کے نظریے کی ناکامی کے بعد کس در پر سجدہ ریز ہوں، انھیں امریکا نظر آیا جس کی چوکھٹ پر انھوں نے اپنی جبین نیاز جھکادی، دشمن کے در پر اپنے نظریاتی ہتھیار پھینکنے والوں کے لیے اب دشمن ہی راج دلارا بن گیا تھا۔ اب انھیں کمیونسٹ، کامریڈ اور ترقی پسند کی اصطلاحیں کاٹ کھانے کو دوڑتیں۔ اب انھوں نے امریکا کی پسند اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر کہلوانا شروع کردیا، یوٹرن لینے والوں کو اگر آج کا سیکولر اور گزرے کل کا کمیونسٹ کہا جائے تو وہ اسے گالی سمجھتے ہیں، یہ پہلا المیہ ہے پاکستان کے ترقی پسندوں کا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ''ایشیا سرخ ہے'' کا نعرہ لگانے والوں کا دوسرا المیہ کب سے شروع ہوتا ہے، یہ نئی صدی سے شروع ہوتا ہے، ایوب دور کے نوجوان، زرداری اور ممنون حسین کے دور صدارت میں بزرگی کی حد میں داخل ہوگئے ہیں، مذہب سے دوری نے ان کے لیے ایک نیا المیہ پیدا کیا ہے۔ منٹو کی شراب نوشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ فیض خود ریکارڈ پر ہیں کہ انھوں نے جگر کی خرابی کے سبب ''مشروب مغرب'' سے پرہیز ڈاکٹر کے کہنے پر کیا۔ جب یہی ممانعت ایک قرآنی حکیم کے حوالے سے بیان کی جاتی تو کارل مارکس کی ''داس کیپیٹل'' کا مطالعہ کرنے والوں کی سمجھ میں نہ آتی۔ اسی طرح بیماری میں رب سے دعا کی بات اور انتقال کے بعد خالق حقیقی سے ملنے کا تصور نہ ماضی کے ترقی پسندوں کی لغت میں تھا اور نہ آج کے لبرلز کی ڈکشنری میں ہے۔
آیئے! اب ہم ترقی پسندوں کے المیوں کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں۔ سوویت روس کے افغانستان میں شکست کے بعد ٹوٹ جانا پہلا المیہ تھا۔ پھر چین نے فوراً ہی مارکس کو چھوڑ کر منڈی کو اپنالیا۔ تیسرا المیہ یہ رہا کہ اس امریکا کی چوکھٹ پر مجبوراً سجدہ ریز ہونا پڑا جسے پوری جوانی گالیاں دیتے رہے تھے۔ المیہ کی چوتھی شدت کیا ہوگی کہ اب بڑھاپے میں اپنے آپ کو کمیونسٹ کامریڈ اور ترقی پسند کے بجائے لبرل اور سیکولر کہلوانا پڑا۔ پانچواں المیہ یہ رہا کہ خوامخواہ مذہب سے دوری اختیار کرکے پاکستان کے عوام سے دوری اختیار کی گئی، چھٹا المیہ اب تک جاری ہے۔ یوٹرن تسلیم کرنے کے بجائے اسے ارتقا کا نام دے کر کھسیانے پن کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معافی کے بجائے اکڑ اور سجدہ سہو کے بجائے غرور اور غلط بس میں بیٹھنے کے اعتراف کے بجائے بودے دلائل ہی حقیقتاً پاکستان کے سابقہ ترقی پسندوں کا المیہ ہے۔
چوتھی رائے یہ تھی کہ ''مذہب ایک افیون ہے'' ظاہر ہے اس بات کو مان کر جو لوگ ''کامریڈ'' بن جاتے تھے ان کامذہبی عقائد پر تو ایمان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب قبلہ مکے کے بجائے ماسکو بن گیا تھا تو یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہم ترقی پسندوں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک پاکستان بننے سے پہلے اور ایک پاکستان بننے کے بعد۔ جب برصغیر میں انگریز کا عروج تھا تو کالجز اور جامعات میں پڑھنے والے غریب نوجوانوں کو مارکس اور لینن نے بڑا متاثر کیا۔ ان طالب علموں کے خاندان صدیوں سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مظالم کی چکی میں پستے رہے ہوں گے۔ روس کی معاشی اور فوجی ترقی نے بھی ان نوجوانوں کو رومانویت میں مبتلا کردیا۔
تقسیم ہند کے بعد کمیونسٹ پارٹی انڈیا اور پاکستان میں بٹ گئی۔ دوسری طرف چین میں ماؤ کا انقلاب بھی اسی نظریے کو لے کر کامیاب ہوگیا تھا۔ پاکستان اس وقت امریکا کا اتحادی تھا۔ وہ امریکا جو سرمایہ دارانہ نظام کو کامیاب دیکھنا چاہتا تھا۔ روس واقعتاً درجن بھر ترقی یافتہ ملکوں کے لیے ایک بڑا ڈراؤنا خواب تھا۔ لیاقت کے دور میں کمیونسٹوں نے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جنرل اکبر اور فیض کے علاوہ کئی لوگ گرفتار ہوئے۔ یوں ایوب دور تک لیفٹ کے لوگوں کو بڑا خطرہ محسوس کرکے کچلنے کی کوشش ہوتی رہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں روس اور چین کے حامی آمنے سامنے آگئے۔ یوں ایک نظریے کے علمبردار دو حصوں میں بٹ گئے۔ ان کے اختلاف نے انھیں خود ہی کمزور کردیا اور پھر حکومتوں کو ان پر زیادہ بڑا ہاتھ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
بھٹو نے ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' کا نعرہ دیا تو شیخ محمد رشید، معراج محمد خان اور مبشر حسن جیسے کمیونسٹ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ اقتدار ملنے کے بعد بھٹو نے خوشحالوں اور بدحالوں میں توازن قائم کرنا چاہا، تیزی سے ایجنڈے کو مکمل ہوتے نہ دیکھ کر سرخ سویرے کے ماننے والے بھٹو سے علیحدہ ہوتے گئے اور پانچ برسوں میں پیپلزپارٹی مکمل طور پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں چلی گئی۔ یہ دیکھ کر کمیونسٹ بھٹو سے بالکل مایوس ہوگئے، لیکن اس وقت تک ان کے المیے کی ابتدا نہیں ہوئی تھی۔
ضیا الحق کے ابتدائی دور میں کمیونسٹ کیمپ میں مایوسی تھی۔ اسلام کا پرچار کرنے والا ضیا سرخ آندھی کے علم برداروں کو بالکل نہ بھاتا۔ ایسے میں سوویت روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ اس قدم نے دنیا بھر کے کمیونسٹوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔ 80 کے عشرے کی ابتدا تک روس جہاں گھس جاتا وہ واپس نہ جاتا۔ اس تاریخ نے پاکستان کے ترقی پسندوں کے حوصلوں کو جوان کردیا تھا۔
جب کہا جاتا کہ روس کو افغانستان سے نکلنا ہوگا تو ہمارے بائیں بازو کے دوست طنزیہ مسکراہٹ سے اس کا جواب دیتے، دس سال تک افغان پہاڑوں سے سر ٹکرا کر روس ناکام و نامراد ہوکر دریائے آمو کے دوسری طرف چلا گیا۔ امریکی اسلحے، سعودی سرمائے، افغان جذبے اور پاکستانی راہداری نے سرخ آندھی کو خود ہی اپنے خاتمے کا اعلان کرنے پر مجبور کردیا۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، یوں ہر ایک نے سوویت روس کو اپنا دشمن جان کر بدلہ چکایا۔ المیہ یہ ہے کہ کمیونسٹوں کو سوویت روس کے ٹوٹنے کا بڑا غم ہے کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ کیوں تھا۔ انھیں پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کا غم نہیں کہ اس میں روس کا ہاتھ کیوں تھا۔ یہ تو تاریخی المیہ ہے۔
پاکستان کے ترقی پسندوں کا اصل المیہ یہ رہا کہ وہ ہوا میں معلق ہوگئے۔ انھیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سوویت یونین میں مارکس اور لینن کے نظریے کی ناکامی کے بعد کس در پر سجدہ ریز ہوں، انھیں امریکا نظر آیا جس کی چوکھٹ پر انھوں نے اپنی جبین نیاز جھکادی، دشمن کے در پر اپنے نظریاتی ہتھیار پھینکنے والوں کے لیے اب دشمن ہی راج دلارا بن گیا تھا۔ اب انھیں کمیونسٹ، کامریڈ اور ترقی پسند کی اصطلاحیں کاٹ کھانے کو دوڑتیں۔ اب انھوں نے امریکا کی پسند اپنے آپ کو لبرل اور سیکولر کہلوانا شروع کردیا، یوٹرن لینے والوں کو اگر آج کا سیکولر اور گزرے کل کا کمیونسٹ کہا جائے تو وہ اسے گالی سمجھتے ہیں، یہ پہلا المیہ ہے پاکستان کے ترقی پسندوں کا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ''ایشیا سرخ ہے'' کا نعرہ لگانے والوں کا دوسرا المیہ کب سے شروع ہوتا ہے، یہ نئی صدی سے شروع ہوتا ہے، ایوب دور کے نوجوان، زرداری اور ممنون حسین کے دور صدارت میں بزرگی کی حد میں داخل ہوگئے ہیں، مذہب سے دوری نے ان کے لیے ایک نیا المیہ پیدا کیا ہے۔ منٹو کی شراب نوشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ فیض خود ریکارڈ پر ہیں کہ انھوں نے جگر کی خرابی کے سبب ''مشروب مغرب'' سے پرہیز ڈاکٹر کے کہنے پر کیا۔ جب یہی ممانعت ایک قرآنی حکیم کے حوالے سے بیان کی جاتی تو کارل مارکس کی ''داس کیپیٹل'' کا مطالعہ کرنے والوں کی سمجھ میں نہ آتی۔ اسی طرح بیماری میں رب سے دعا کی بات اور انتقال کے بعد خالق حقیقی سے ملنے کا تصور نہ ماضی کے ترقی پسندوں کی لغت میں تھا اور نہ آج کے لبرلز کی ڈکشنری میں ہے۔
آیئے! اب ہم ترقی پسندوں کے المیوں کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں۔ سوویت روس کے افغانستان میں شکست کے بعد ٹوٹ جانا پہلا المیہ تھا۔ پھر چین نے فوراً ہی مارکس کو چھوڑ کر منڈی کو اپنالیا۔ تیسرا المیہ یہ رہا کہ اس امریکا کی چوکھٹ پر مجبوراً سجدہ ریز ہونا پڑا جسے پوری جوانی گالیاں دیتے رہے تھے۔ المیہ کی چوتھی شدت کیا ہوگی کہ اب بڑھاپے میں اپنے آپ کو کمیونسٹ کامریڈ اور ترقی پسند کے بجائے لبرل اور سیکولر کہلوانا پڑا۔ پانچواں المیہ یہ رہا کہ خوامخواہ مذہب سے دوری اختیار کرکے پاکستان کے عوام سے دوری اختیار کی گئی، چھٹا المیہ اب تک جاری ہے۔ یوٹرن تسلیم کرنے کے بجائے اسے ارتقا کا نام دے کر کھسیانے پن کو ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ معافی کے بجائے اکڑ اور سجدہ سہو کے بجائے غرور اور غلط بس میں بیٹھنے کے اعتراف کے بجائے بودے دلائل ہی حقیقتاً پاکستان کے سابقہ ترقی پسندوں کا المیہ ہے۔