اے روشنیوں کے شہر بتا
گفتگو کا موضوع موسیقی تھا، خواجہ خورشید انور موسیقی کے کسی گھرانے سے متعلق نہیں تھے
وہ شہر جہاں ''نت سویرے '' رہتے تھے، جہاں درختوں پر چڑیوں کے بسیرے رہتے تھے، جہاں بادل گھنیرے رہتے تھے، جہاں متوالوں کے ڈیرے تھے، مکھ پر سانجھ سویرے رہتے تھے۔
اے روشنیوں کے شہر بتا
اجیالوں میں اندھیاروں کا
یہ کس نے بھرا ہے زہر بتا
اے روشنیوں کے شہر بتا
پہلے میں یہ بتادوں کہ یہ مصرعے موسیقار خواجہ خورشید انور کے ہیں۔ خواجہ صاحب بہت بڑے موسیقار تو تھے ہی، کبھی کبھی اپنے فلموں کے گیت بھی لکھ لیتے تھے۔ یہ مصرعے خواجہ صاحب کی فلم چنگاری کے ایک گیت کا مکھڑا ہیں۔ گیتوں کی دنیا میں گیت کے ابتدایئے کو مکھڑا کہا جاتا ہے۔ جیسے غزل کا مطلع ہوتا ہے۔ فلم چنگاری انھوں نے بنائی تھی، ہدایت کار بھی وہی تھے اور موسیقار بھی۔ اس گیت کو مہدی حسن صاحب نے گایا تھا اور یہ گیت آج بھی شوق سے سنا جاتا ہے۔
خواجہ صاحب کا ذکر آہی گیا ہے تو میں یہ بھی لکھتا چلوں کہ یہ عظیم فنکار انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی تحریک میں ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے شامل تھا، آزادی کی وہی تحریک جس کا قائد بھگت سنگھ تھا، نوجوان خورشید انور نے بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر غاصب انگریز کی حکومت کی چولیں ڈھیلی کرنے کے لیے کئی بم دھماکے کیے، اسلحے کے ڈپو اڑائے، انگریز فوجی قافلوں پر حملے کیے۔انگریزوں کے جانے کے آثار نمایاں نظر آنے لگے تو خورشید انور نے تعلیم کی طرف دھیان دیا۔ مقابلے کا امتحان پاس کیا اور سرکار نے انھیں بطور ڈپٹی کلکٹر چارج لینے کے لیے مشرقی پنجاب کے کسی شہر کا پروانہ عطا کیا، خواجہ صاحب ریل گاڑی میں بیٹھ کر لاہور سے روانہ ہوئے۔ دوران سفر ایک صاحب سے گفتگو شروع ہوئی۔
گفتگو کا موضوع موسیقی تھا، خواجہ خورشید انور موسیقی کے کسی گھرانے سے متعلق نہیں تھے مگر انھوں نے اس علم کو جید صاحب علم استادوں سے سیکھا تھا۔ وہ صاحب بمبئی کی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے خواجہ صاحب سے کہا کہ آپ بمبئی میں قسمت آزمائیں، آپ کی جگہ وہیں ہے اور خواجہ خورشید انور ڈپٹی کلکٹری چھوڑ کر موسیقار بن گئے اور پھر ایسے ایسے لازوال گیت تخلیق کیے، انھیں سروں میں ڈھالا کہ بڑے بڑے گھرانوں والے دنگ رہ گئے۔ وہ بہت بڑے موسیقار تو بن گئے مگر ان کا دل اپنے ہی لوگوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔
بھگت سنگھ کے اثرات ان کی شخصیت میں کبھی مدھم نہیں ہوئے۔ وہ انسان کی آزادی کے قائل تھے۔ وہ ایک ایسا سماج چاہتے تھے جہاں سب کے ساتھ انصاف ہو، کوئی اونچ نیچ نہ ہو، سب برابر ہوں، خوشحالی سب کا حصہ ہو۔ ان ہی خیالات کی وجہ سے خواجہ صاحب کا حلقہ یاراں حمید اختر، آئی اے رحمان، فیض احمد فیض، حبیب جالب، ریاض شاہد جیسے دوستوں پر مشتمل تھا۔ حبیب جالب کیمپ جیل لاہور میں قید تھے۔ کیمپ جیل کے قریب ہی خواجہ خورشید انور رہتے تھے۔
جالب صاحب پولیس کے سپاہی کو ایک رقعہ خواجہ صاحب کے لیے دیتے، جس میں لکھا ہوتا ''خواجہ صاحب! سگریٹ بھجوادیں'' اور تعمیل کرتے ہوئے خواجہ صاحب سگریٹ کے دو تین کارٹن بھجوا دیتے۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ جالب صاحب ایام اسیری میں اس اصول کے ہمیشہ پابند رہے۔ ان کا مصرعہ ہے ''قفس سے دور ادھر پیاس چھوڑ آئے ہیں''۔ خواجہ خورشید انور نے حبیب جالب کا ایک فلمی گیت کمپوز کیا تھا۔ فلم ''پرائی آگ'' کے پروڈیوسر معروف ترقی پسند قلم کار حمید اختر تھے، اس فلم کے مصنف آئی اے رحمان تھے۔ حبیب جالب کے گیت کو مہدی حسن نے گایا تھا۔ یاد رہے کہ جالب نے فلم کو بھی اپنے خیالات کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنائے رکھا اور وہ اکثر اپنے خیالات کا اظہار کر جاتے تھے۔ گیت ملاحظہ کیجیے۔
اے شام غم بتا کہ سحر کتنی دور ہے
آنسو نہیں جہاں، وہ نگر کتنی دور ہے
دم توڑتی نہیں ہے، جہاں پر کسی کی آس
وہ زندگی کی راہ گزر کتنی دور ہے
اب کوئی پاسباں نہ کوئی اپنا ہم سفر
منزل ہماری کس کو خبر، کتنی دور ہے
کوئی پکارتا ہے تجھے کب سے اے خدا
کہتے ہیں تو ہے پاس مگر کتنی دور ہے
یہ گیت فلم میں اداکار ندیم پر فلم بند کیا گیا تھا۔ بات جو میں کچھ اور کرنا چاہ رہا تھا بس سہارا خواجہ خورشید انور کے مصرعے کا لینا تھا ''اے روشنیوں کے شہر بتا'' اور پھر اپنے شہر کراچی کا رونا پیٹنا لکھنا تھا، کہ کیا شہر تھا اور غاصبوں، لٹیروں، غنڈوں، بدمعاشوں، قاتلوں نے اس روشنیوں کے شہر کے اجیالوں میں اندھیاروں کا زہر بھردیا، مگر خواجہ صاحب کے گیت کا مکھڑا ان ہی کی طرف کھینچ کر لے گیا، تو یہ بھی اچھا ہوگیا بھگت سنگھ کے ایک ساتھی آزادی کے لیے لڑنے والے سپاہی کا ذکر ہوگیا، ہم نے تو اپنی بات کرنی ہے، وقت کے یزیدوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے۔ جیسا عظیم حسینؓ نے کربلا میں اس وقت کے یزید کے لیے انکار کی صورت کلمہ حق بلند کیا تھا۔ کربلا جاری و ساری ہے۔ حسینی کردار کی ضرورت ہے اور حسینی یقین کی سب سے زیادہ ضرورت۔ حسین کے کردار پر نہ صرف سارے مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کا اتفاق ہے۔
وقت کے یزیدوں کے خلاف حسینی پرچم لے کر کھڑے ہوجاؤ، وقت کے یزید خلق خدا کو بھوکوں ترسا رہے ہیں، ان کے لیے پیام موت بن جاؤ۔ اب گفتگو کا نہیں عمل کا وقت ہے۔ یہ وقت کے یزید باتوں سے نہیں مانیںگے، ان کے لیے جالب نے کہا تھا۔
نہ گفتگو سے نہ یہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
کربلا میں بڑی بڑی تجوریوں والے قیمتی گھوڑوں اور اونٹوں کے اصطبلوں والے، اعلیٰ مکانات والے اور فراز جاہ نشین سبھی یزید کا ساتھ دے کر اپنا مال و اسباب بچا رہے تھے۔ آج بھی یہی منظر ہے۔ شہید کربلا کا ذکر ہے تو حبیب جالب کے تین اشعار سلام بہ خدمت امام حسین سن لیں کہ موضوع سے مطابقت بھی رکھتے ہیں۔
جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں میرا رخ بدلنے کو
دل و نگاہ میں وہ سرزمین آج بھی ہے
صعوبتوں کے سفر میں ہے، کاروان حسینؓ
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے