کیا پاناما لیکس پر تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک فیصلہ کن ثابت ہوسکے گی

’’پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک اور اس کے اثرات‘‘ کے حوالے سے سیاسی رہنمائوں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو

’’پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک اور اس کے اثرات‘‘ کے حوالے سے سیاسی رہنمائوں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو ۔ فوٹو : ایکسپریس

چند ماہ قبل پاناما لیکس نے خفیہ طریقے سے دولت بنانے والی دنیا بھر کی سیاسی و اعلیٰ شخصیات کے حوالے سے خفیہ دستاویزات جاری کرکے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ ان انکشافات کے نتیجے میں بعض ممالک کے سربراہان کو اپنے عہدوں سے استعفے دینا پڑے جبکہ بڑے پیمانے پر پاناما لیکس میں شامل شخصیات کے خلاف کارروائیاں بھی عمل میں لائی گئیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے تاحال کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی جبکہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے ٹی او آرز کے معاملے پر ڈیڈلاک قائم ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے 7 اگست سے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے جس نے سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا کردی ہے۔ اس احتجاجی تحریک کی نوعیت کیا ہوگی، ایجنڈا کیا ہوگا، کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا، دیگر اپوزیشن جماعتیں خصوصاََ پاکستان عوامی تحریک جو گزشتہ سال دھرنے میں تحریک انصاف کے ساتھ شامل ہوگئی تھی وہ اس مرتبہ ساتھ دے گی، جماعت اسلامی جو خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے۔

اس کا لائحہ عمل کیا ہوگا، پاکستان پیپلز پارٹی جو اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے اور جس نے اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا کر اپوزیشن اتحاد قائم کیا ہے وہ اس تحریک کے حوالے سے کیا موقف رکھتی ہے ، حکومت اس تحریک کو کس طرح دیکھ رہی ہے اور اس حوالے سے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے گی، اس طرح کے بیشتر سوالات عوام کے ذہنوں میں گردش کررہے ہیں۔ ان سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ''پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاسی رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہارکیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پرویز ملک
( رکن قومی اسمبلی و مرکزی رہنماپاکستان مسلم لیگ (ن)
پاکستان کی سیاست میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ آزاد کشمیر میں ہمیں کامیابی ملی ہے تو اب سائنٹیفک دھاندلی کا الزام لگایا جارہا ہے، سب اپنی ہار تسلیم کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ جمہوریت میں سب سے بڑے جج انتخابات کے نتائج ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی میں بہت ساری خرابیاں ہیں لیکن یہ اپنی طرف نظر نہیں دوڑاتے، اسی طرح پی ٹی آئی کے اپنے لوگوں کے نام پاناما پیپرز میں ہیں، انہوں نے بینکوں سے قرضے بھی معاف کروائے لیکن تحریک انصاف ان کا ذکر نہیں کرتی ۔ ہم ہمیشہ بڑے ملکی مسائل پر سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، دہشت گردی جیسے بڑے مسئلے پر ہم نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کرکے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا۔ پاناما پر بات ہورہی ہے۔

ہمارا موقف یہ نہیں ہے کہ ہم ٹی او آرز بدلنا نہیں چاہتے یا موثر ٹی او آرز بنانا نہیں چاہتے بلکہ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو کسی شخص کا نام لے کر بنایا جائے، پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کا نام لیا جارہا ہے کیا ان کے لیے قانون الگ ہے؟ عدالت میں پاناما لیکس کی پوری فہرست پیش کی جائے گی اور اس میں سب سے ہی تحقیقات ہونگی لیکن یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ کس شخص سے کارروائی کا آغاز کرتی ہے۔ پاناما پیپرز میں وزیراعظم کا ذاتی نام نہیں ہے بلکہ انہیں بیٹے یا بیٹی کی طرف سے کھینچا جارہا ہے جو درست نہیں ہے۔

ہماری کوشش ہے کہ ٹی او آرز کے معاملے پر اتفاق ہوجائے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ہم حکومت اور اپوزیشن دونوں کے ٹی او آرز عوام کے پاس لے کر جائیں گے اور پھر عوام خود فیصلہ کریں گے کہ کس کے ٹی او آرز حقیقی ہیں۔ عمران خان نے سیاسی جماعتوں کے مشورے کے بغیر احتجاجی تحریک کا اعلان کیا، انہیں دھرنوں سے پہلے کچھ حاصل ہوا نہ اب ہوگا بلکہ ان کے پہلے دھرنوں کے بعد تمام ضمنی انتخابات اور بلدیاتی انتخابات بھی مسلم لیگ(ن) نے جیتے اور عوام نے پی ٹی آئی کو مسترد کیا۔ ہم سیاسی طور پر دھرنے کا سامنا کریں گے بلکہ حکومت دھرنے کے لیے سکیورٹی و دیگر سہولیات بھی فراہم کرے گی جبکہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے بعد حکومت ان سے مشاورت کیلئے رابطہ کرے گی۔الیکشن کمیشن میں وزیراعظم کی نااہلی کی درخواست صرف شہرت کے لیے دی گئی ہے۔

نوٹیفکیشن کے بعد درخواست کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تاہم ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ فنانشل مینجمنٹ کیلئے قرضوں کی ضرورت ہے اور قرض لینے میں کوئی برائی نہیں ہے، آج ملک کے حالات پہلے سے بہتر ہیں، فارن کرنسی ریزرو میں اضافہ ہوا ہے جبکہ ایف بی آر کا ٹارگٹ بھی بڑھ گیا ہے، نتائج مل رہے ہیں لہٰذا ایسی صورتحال میں جب ملک ترقی کررہا ہو تو دھرنے جیسی تحریکوں کا جواز نہیں بنتا۔ ہم نے پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے دور میں کڑے احتساب کا سامنا کیا ہے، ہم بھاری مینڈیٹ کے ساتھ حکومت چلا رہے ہیں جبکہ آزاد کشمیر میں بھی لوگوں نے نواز شریف پر اعتماد کا اظہار کیا ہے لہٰذا ہم ملکی مشکلات کو دور کرنے کیلئے مزید بہترکام کریں گے۔

اعجاز چودھری
( صدرپاکستان تحریک انصاف پنجاب)
پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد سے تحریک انصاف احتساب کا مطالبہ کررہی ہے اور اس حوالے سے ہمارا ایک واضح موقف ہے کہ جن لوگوں کے نام بھی پاناما لیکس میںآئے ہیںان کے خلاف تحقیقات کی جائے۔ جن لوگوں کی وجہ سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے ان کے خلاف کارروائی سے معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے یہ دولت کیسے کمائی ، ٹیکس ادا کیا یا نہیں اور اس دولت کو کس طرح ملک سے باہر منتقل کیا گیا۔

دنیا کے بیشتر ممالک میں اس حوالے سے تحقیقات ہورہی ہیں، بعض کے نتائج بھی آچکے ہیں مگر ہمارے ملک میں اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، ہم نے اسی وقت ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ اگر پارلیمان، عدالت یا کسی ادارے کے نتیجے میں کوئی چیز سامنے نہ آئی تو ہم عوام کی عدالت میں جائیں گے اور یہاں تک کہا گیا تھا کہ اگر حکومت اس پر تحقیقات نہیں کرتی تو پھروہ ہمیں خود سڑکوں پر دھکیل رہی ہے لہٰذا ہماری یہ تحریک اچانک نہیں بلکہ ساڑھے تین ماہ پر محیط ہے۔

گزشتہ تین ماہ میں وزیراعظم 48روز علاج کیلئے بیرون ملک رہے جبکہ دس ، بارہ روز انہوں نے ملک واپس آنے کے بعد آرام کیا۔ وزیراعظم نے بیرون ملک جانے سے پہلے دو مرتبہ قوم سے جبکہ ایک مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور اس میں انہوں نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا، جب پاکستان واپس تشریف لائے تو اس وقت بھی انہوں نے کہا کہ میں خود کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں اور ٹی او آرز کی بات بھی کی لیکن عملاََ کچھ نہیں ہوا، وزیراعظم کی بات کو آگے بڑھانے کے بجائے ایسا لگتا ہے کہ پوری حکومت اور وزراء انہیں بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور اس پر وقت ضائع کیا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف جوائنٹ اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے اور ابھی جو آخری میٹنگ ہوئی تھی ہم اس پر بھی اکٹھے ہیں۔

اپوزیشن اتحاد صرف ٹی او آرز کے ''ون پوائنٹ ایجنڈے'' پر ہے، اتحاد میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ تمام جماعتیں احتجاج بھی اکٹھا کریں گی لہٰذاہماری تحریک سے اپوزیشن کے اتحاد کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہم جوائنٹ اپوزیشن کا حصہ ہیں، پارلیمنٹ کمیٹی میں بھی مل کر کام کریں گے اور سینیٹ کے بل کے حوالے سے بھی ہم اکٹھے ہیں۔ احتساب صرف ہمارا مطالبہ نہیں ہے بلکہ ہمارے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی، عوامی تحریک اور جسٹس(ر) افتخار چودھری کی جماعت بھی وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں جاچکی ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد میں 9بڑی جماعتیں شامل ہیں اور یہ سب عوام میں جاسکتی ہیں۔

جماعت اسلامی کے سالانہ پروگرام میں شامل تھا کہ وہ 2016ء کو کرپشن کے خلاف جدوجہد میں گزاریں گے۔ انہوں نے پہلے بھی ٹرین مارچ کی، پیدل مارچ کا اعلان بھی کیا گیا ہے لہٰذا اس سے کسی کو منع نہیں کیا گیا کہ وہ عوام میں جائے۔پیپلزپارٹی کے اندر پاناما لیکس اور حکومت کے خلاف اپوزیشن کے موثر کردار ادا کرنے کے حوالے سے دو آراء ہیں، خورشید شاہ پہلے دن سے ہی اس پر الگ کھڑے ہیں، ہم ان کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ پیپلزپارٹی قومی سطح کی جماعت ہے اور اسے اپنا فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

اپوزیشن اتحاد میں شامل تمام جماعتوں کا اپنا اپنا مستقبل ہے ، سب نے سیاست کرنی ہے اور الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ ہماری احتجاجی تحریک نہ اچانک ہے اور نہ ہی اس سے پیپلز پارٹی کو کوئی خطرہ ہے۔ مجھے خورشید شاہ اور پیپلزپارٹی کے ان رہنماؤں پر حیرت ہے جو ہماری اس تحریک کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ ہماری تحریک سیاسی جدوجہد ہے اور تمام جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے ایسا کریں گی۔

جب سب لوگ نکلنے کا ارادہ ظاہر کریں گے تو کسی ایک جگہ اکٹھے بھی ہوسکتے ہیں۔ سیاسی جدوجہد منفی نہیں مثبت عمل ہوتا ہے، ہم ملک کے سب سے بڑے ناسور ''کرپشن'' کے خاتمے کیلئے سنجیدہ کوشش کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے بعد کرپشن سب سے بڑا ناسور ہے لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو اس کے خاتمے اور کرپٹ لوگوں کے احتساب کیلئے متحد ہوکر کام کرنا چاہیے۔ اس احتجاجی تحریک میں ہمارا مطالبہ یہ ہوگا کہ جن لوگوں کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں، ان کیلئے ایک قانون بنایا جائے، اس کے بعد ان کا ٹرائل کیا جائے لیکن اس کا آغاز چیف ایگزیکٹو سے کیا جائے۔

تحریک انصاف یہ کہتی ہے جس طرح چیف ایگزیکٹو کا احتساب ہو اس طرح عمران خان کا بھی کرلیا جائے۔ جس دن پاناما پیپرز کے احتساب کا راستہ کھل جائے گا ہمارا مقصد پورا ہوجائے گا۔اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں کہا کہ سوئس اکاؤنٹس میں 200بلین ڈالر ہیں۔ دنیا کے9 ممالک صرف ایک درخواست لکھ کر اپنا پیسہ واپس لاچکے ہیں لیکن ہم ابھی تک ایک روپیہ بھی واپس نہیں لاسکے۔ہمارے ملک پر اس وقت 72بلین ڈالر کے قریب قرض ہے، حکومت کو چاہیے کہ سوئس بینکوں سے پیسہ لاکر قرض اتارا جائے تاکہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ہمارا ایجنڈا بالکل واضح ہے، یہ خواص کا نہیں بلکہ عوام کا مسئلہ ہے لہٰذا کرپٹ لوگوں کا احتساب ہونا چاہیے۔


ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
(مرکزی رہنما جماعت اسلامی )
احتجاج سب کا آئینی حق ہے لہٰذا کوئی کسی کو ملامت نہیں کرسکتا۔ عوام غیر مطمئن ہیں، لوڈشیڈنگ، مہنگائی ، بدامنی اور کرپشن کے ستائے ہوئے ہیں اور اس میں کوئی دورائے نہیں ہے۔ کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں اوپر سے لے کر نیچے تک سرائیت کرچکا ہے اور اس سے عام آدمی انتہائی دکھی ہے۔اس حوالے سے اگر تحریک انصاف نے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے تو اچھی بات ہے۔

جماعت اسلامی بہت پہلے سے ہی کرپشن فری پاکستان تحریک چلا رہی ہے، اس حوالے سے ہم نے مارچ اور ریلیاں بھی نکالی ہیں، اب ہم نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوکس کیا ہے اور اب ہماری ریلیاں اور جلسے آزادی کشمیر کے حوالے سے ہوں گے۔ جہاں تک پاناما لیکس کا تعلق ہے تو اس حوالے سے جوڈیشل کمیشن پر ہی زور دینا چاہیے، اس کیلئے الیکشن کمیشن اور عدلیہ کا راستہ بھی موجود ہے لیکن جوڈیشل کمیشن ایک ہی پوائنٹ اور ایجنڈے پر کام کرے گا۔ پاناما لیکس سے بڑا انکشاف اور ثبوت کوئی نہیں ہے، اس میں سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ہے کہ چوری کا مال کہاں ہے اور کس نے چوری کیا لہٰذا اب ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور بیرون ملک عوام کا پیسہ واپس آنا چاہیے۔

بھارت 90کروڑ ڈالر اپنے ملک میں واپس لا چکا ہے جبکہ ہم ایک روپیہ بھی نہیں لاسکے لہٰذا اب یہ اچھا موقع ہے، اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ٹی او آرز کے معاملے کو الجھایا جارہا ہے، اس سلسلے میں اگر یہ رکاوٹ ہے کہ وزیراعظم کا نام ہونا چاہیے تو اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کو وسعت کا ثبوت دینا چاہیے اوروزیراعظم کو خود کو احتساب کیلئے پیش کرنا چاہیے۔ ہم ابھی تک اس حوالے سے کچھ بھی عدلیہ کو نہیں بھیج سکے، عوام منتظر ہیں لہٰذا اب اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ہمارے ملک پر 70بلین ڈالر کا قرض ہے جبکہ ہمارا پیسہ دوسرے ممالک میں موجود ہے۔ ترکی کی صورتحال نے یہ ثابت کردیا کہ اگر عوام کو سہولیات دی جائیں اور حقوق کا تحفظ کیا جائے تو وہ کس طرح ساتھ دیتے ہیں۔

ترقی میں قرضے صفر ہوگئے ہیں، اب وہ آئی ایم ایف کو قرضے کی پیشکش کررہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں صورتحال مختلف ہے اور روپے کی قدر کم ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ٹی او آرز کے معاملے پر پارلیمنٹ اور جوڈیشل کمیشن کا راستہ استعمال کیا جائے ، اس کے لیے پبلک پریشر بھی ضروری ہے لیکن اس کا فوکس صرف پاناما اور احتساب ہونا چاہیے۔

آزاد کشمیر کے انتخابات کو حکومت کی جانب سے دلیل کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو درست نہیں کیونکہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے حالات مختلف ہیں، وہاں مسلم لیگ (ن) اپوزیشن جماعت تھی جبکہ پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی۔ وہاں پہلی مرتبہ (ن) لیگ نے انتخابات میں حصہ لیا لہٰذا وہاں کی کامیابی پیپلزپارٹی کیخلاف ہوئی ہے، اس سے یہاں کی مقبولیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ کرپشن کے خلاف قوم کا ساتھ دے اور کرپٹ لوگوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے چاہے اس کا تعلق کسی بھی ادارے یا جماعت سے ہو۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ جماعت اسلامی کسی بھی ماورائے آئین اقدام کی حمایت نہیں کرے گی اور نہ ہی یہ قوم کیلئے قابل قبول ہوگا کیونکہ ماضی میں بھی ہم اس سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔

بیرسٹر عامر حسن
(مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
پاکستان پیپلز پارٹی ا س وقت وفاق اور اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے جس کا ثبوت سینیٹ میں پارٹی پوزیشن ہے جبکہ اپوزیشن لیڈر بھی ہماری جماعت سے ہیں۔پیپلزپارٹی جہاں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی چاہتی ہے وہاں یہ بھی چاہتی ہے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی کیا جائے ۔ اپوزیشن کے اتحاد میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

پاناما لیکس نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکومت کیلئے بھی ایک غیر معمولی واقعہ تھا، پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی منی لانڈرنگ ہوئی، وزیراعظم پاکستان اور ان کے خاندان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی، اس پر وزیراعظم کو دو مرتبہ قوم سے خطاب کرنا پڑا، نواز شریف قومی اسمبلی میں اپنا دفاع کرنے بھی گئے اور خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا اعلان بھی کیا مگر یہ صرف اعلان کی حد تک رہا جبکہ ان کے وزراء، وزیراعظم کو احتساب سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکومتی ٹی او آرز مسترد کردیے، پیپلز پارٹی نے تمام اپوزیشن جماعتوں کو متحد کیا، سب کی مشاورت سے مشترکہ ٹی او آرز بنا کر حکومت کا کام آسان کردیا لیکن حکومت انہیں ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔

حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ نئے ٹی او آرز بنانے چاہئیں لیکن اصولی طور پر انہیں اپوزیشن کے ٹی او آرز سپریم کورٹ بھیجنے چاہئیں، اگر سپریم کورٹ انہیں رد کردے تو پھر نئے ٹی او آرز بنا لیے جائیں ۔ میرے نزدیک نومبر کے غیر معمولی مہینے پر سب کی نگاہیں ہیں ، جو لوگ جلدی میں ہیں وہ شاید اس مہینے تک مٹھائیوں کے انتظار میں ہیں جبکہ حکومت بھی شاید اس تاریخ تک ٹی او آرز کے معاملے کو لٹکانا چاہتی ہے ۔ پیپلز پارٹی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کی علمبردار ہے، ہم چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام مضبوط ہو لہٰذا اب وزیراعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

ہم یہ نہیںچاہتے کہ جمہوریت یا احتساب کے نام پر ایسا کوئی نظام آئے جس کی مٹھائیاں کھانے کی بعض لوگ خواہش کررہے ہیں۔تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں، اپوزیشن اتحاد میں یہ طے ہوا تھا کہ احتجاج اگر علیحدہ بھی ہوگا تو سب کو اعتماد میں لیا جائے گا لیکن عمران خان نہ صرف دوسری جماعتوں کی نیت پر شک کرتے ہیں بلکہ اب وہ اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہوں نے خود کہا کہ میرے ساتھ کوئی کھڑا ہویانہ ہو میں کھڑا رہوں گا اور کوئی میرے سے اختلاف رائے رکھتا ہے تو جماعت چھوڑ جائے۔

الیکشن کمیشن کے ممبران کے معاملے پر بھی پیپلز پارٹی نے تمام جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی، ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں،پہلی مرتبہ شریف خاندان کا احتساب ہونے جارہا ہے لہٰذا ایسی صورتحال میں اپوزیشن کا اتحاد بہت ضروری ہے اور پیپلز پارٹی اس حوالے سے کام کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف کی تحریک کے خلاف نہیں ہے، بلاول بھٹو نے تحریک انصاف کے کرپشن کے خلاف موقف کی تائید کی لہٰذااگر عمران خان سب کی مشاورت سے چلتے تو بہتر ہوتا اور حکومت پر زیادہ دباؤ پڑتاجس کے نتیجے میں ادارے بہتر ہوسکتے تھے۔

ٹی او آرز کے معاملے پر ڈیڈ لاک ہے، ہمارے سامنے بھی احتجاج کا راستہ موجود ہے، پیپلز پارٹی اس حوالے سے عنقریب لائحہ عمل کا اعلان کرے گی، ہم پہلے اپنے لوگوں کو موبلائز کریں گے اور ایسا ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں احتجاج کے لیے کسی ایک پوائنٹ پر اکٹھا ہوجائیں۔ اب پاناما لیکس پر احتساب ضرور ہوگا لہٰذا اس مسئلے کو مزید دبایا نہیں جاسکتا۔

مطلوب وڑائچ
(پریس سیکرٹری برائے ڈاکٹر طاہر القادری)
پاکستان عوامی تحریک چند دن پہلے سے تحریک چلانے کیلئے تمام جماعتوں کا مشاورتی اجلاس بلانے پر غور کررہی تھی، ہم نے پہلے جماعت اسلامی سے بات کی، چونکہ 24جولائی کو ان کا جلسہ تھا اس لیے مشاورتی اجلاس کی تاریخ آگے کرنا پڑی، پھر 31 جولائی کو مشاورتی اجلاس کیلئے تمام جماعتوں کے سربراہان کو دعوت نامے بھیجے گئے لیکن اس دوران عمران خان کا 7 اگست کو تحریک چلانے کا اعلان کیا جو ہمارے لیے سرپرائزتھا۔ یہ ان کا فیصلہ ہے لیکن عمران خان نے جلد بازی سے کام لیا اور انہوں نے کسی سے مشاورت نہیں کی۔

عوامی تحریک دھاندلی، پاناما لیکس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن ، تینوں ایشوز کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے، ہم اس حوالے سے تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں تاکہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اس میں شامل کرکے اسے قومی سطح پر ایشو بنایا جاسکے۔ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے تحریک انصاف کو الجھائے رکھا، ایک ماہ عمران خان نے آزاد کشمیر کے انتخابات میں لگا دیا جس سے پاناما لیکس کا مسئلہ کافی پیچھے چلا گیا اور لوگوں کی توجہ ہٹتی گئی۔ عمران خان کو علم تھا کہ انہیں اس انتخابات سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن پھر بھی انہوں نے حصہ لیا۔

سب جانتے ہیں کہ ضمنی انتخابات،فاٹا الیکشن ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے الیکشن میں ہمیشہ حکمران جماعت کامیاب ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود چھ ہفتے آزاد کشمیر انتخابات اور اس سے پہلے ٹی او آرز کیلئے کمیٹیاں بنانے میں وقت ضائع کرنا میرے نزدیک سیاسی ناپختگی ہے۔ اس وقت پاکستان میں مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، ملازمت، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا قتل، اصل مسائل ہیں۔ 7اگست کی تحریک کے اعلان سے عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ الیکشن پراسس کے ذریعے یا سولو فلائٹ سے حکومت بنا لیں گے یا پھر کوئی ادارہ ان کی مدد کرے گا لیکن کوئی کسی کی مدد کو نہیں آئے گا۔ میرے نزدیک موجودہ الیکشن کا نظام مسائل کا حل نہیںہے، پہلے نظام کو بہتر کیا جائے اور پھر انتخابات کی طرف جایا جائے۔

ہم شفاف نظام اور کرپٹ لوگوں کے احتساب کیلئے سب سے مشاورت کررہے ہیں،ہم سب کو مل کر ملکی ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ چلنا ہم نے بھی اور عمران خان نے بھی، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صورتحال بنتی ہے۔ اس وقت اگر پاکستان میں سٹریٹ پاور ہے تو وہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے پاس ہے اور ہمارے کارکنان ہر قسم کا جبر برداشت کرنے کے باوجود اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے۔ ہمارے سامنے اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پاناما لیکس ، دو مسائل ہیں، تمام جماعتوں سے مشاورت کے بعد عوام کو خوشخبری دی جائے گی اور امید ہے تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہوں گی۔
Load Next Story