بعد از مرگ خراجِ عقیدت کی روایت
آج انسان اپنی صلاحیتوں سے محترم قرار نہیں پاتا بلکہ لابنگ کسی پارٹی سے وابستگی یا میڈیا کی مہربانی ضروری ہوتی ہے ۔
ہمارے معاشرے میں جو روایات مستحکم ہورہی ہیں،ان میں معاشرے کے ممتاز لوگوں کو بعد از مرگ خراجِ عقیدت پیش کرنے کی عجیب و غریب روایت بھی شامل ہے۔ معاشرے میں ممتاز لوگوں کے انتخاب کا مسئلہ بھی متنازعہ ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے کارکنوں کے امتیاز کا تعین جماعتوں سے ان کی وابستگی اور ان کی قربانیوں سے کرتی ہیں، ادبی حلقے اپنے شعبے میں ممتاز لوگوں کا تعین ان کی ادبی خدمات کے حوالے سے کرتے ہیں، فنکاروں کی اعلیٰ کارکردگی کا تعین ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کی بنیاد پرکیا جاتا ہے۔ فلم اور ٹی وی کے آرٹسٹوں کے لیجنڈ ہونے کا تعین بھی ان کی پرفارمنس کے حوالے سے کیا جاتا ہے، نور جہاں کو ملکہ ترنم کا خطاب ان کی آواز اور گائیکی کی انفرادیت کی وجہ سے دیا گیا، مہدی حسن کو شہنشاہِ غزل کا اعزاز ان کی منفرد گائیکی اور آواز کی وجہ سے ہی حاصل ہوا۔ اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں لیجنڈری اور iconic مرتبہ ان شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر ہی ملتا ہے۔ اس حوالے سے معاشرتی اقسام میں اگرچہ بہت تنوع ہے، لیکن ایک حقیقت بڑی واضح ہے کہ فنکاروں اور ادیبوں کی حرمت کا تعین عالمی سطح پر اس لیے کیا جاتا ہے کہ فن اور ادب کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں اور ساری انسانی برادری بلا تخصیص مذہب و ملت ان کی اعلیٰ صلاحیتوں ان کے اعلیٰ وژن سے مستفید ہوتی ہے۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ ان تمام شعبوں کی محترم شخصیتوں کو معاشرے کی طرف سے پذیرائی کے حصول کے لیے عموماً موت کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جب تک کوئی محترم شخصیت زندہ رہتی ہے اس کی خوبیاں، اس کی صلاحیتیں، اس کی خدمات معاشرے کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، جیسے ہی وہ اس دنیا سے حادثاً یا طبعی عمر کی وجہ سے کوچ کرجاتا ہے تو معاشرے اور اس کوچ کرجانیوالے محترم شخص کے حلقوں کو اس کی خوبیوں، اس کی صلاحیتوں، اس کی قربانیوں کا خیال آجاتا ہے اور معاشرہ اس کی خدمات، اس کی صلاحیتوں، اس کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ تعزیتی ریفرنسوں کی شکل میں شروع کردیتا ہے اور خراجِ عقیدت کا حقدار، خراجِ عقیدت کی پذیرائیوں سے دور منّوں مٹّی کے اندر دبا ہوا، سننے، دیکھنے، محسوس کرنے کے احساس اور مسرت سے بے بہرہ ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک یہ محترم لوگ اپنی حیات کے دوران خراجِ عقیدت سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ اہل لوگوں کو ان کی حیات کے دوران ہی خراجِ تحسین، خراجِ عقیدت حاصل ہوجاتے ہیں، لیکن معاشرے کے ان محترم لوگوں کی اکثریت اپنی زندگی میں ان پذیرائیوں سے محروم رہتی ہے بلکہ اپنی زندگی کا آخری حصہ انتہائی تکلیف دہ حالات میں گزار کر رخصت ہوجاتی ہے اور ان کی رخصتی کے بعد معاشرے کو اچانک خیال آجاتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ اور محترم شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ اس سامنے رہتے ہوئے نظروں سے اوجھل مسئلہ کا خیال ہمیں یوں آیا کہ ہم نے بعد از مرگ خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے معراج محمد خان کے ایک قریبی ساتھی سے یہ کہا کہ وہ معراج کو اس پروگرام میں لے آئیں، اس بندۂ خدا نے بڑے تلخ لہجے میں کہا: ''بیدری صاحب! ہم خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے قابلِ احترام لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ انھیں ان کی حیات کے دوران ہی خراجِ عقیدت پیش کرکے انھیں خوش ہونے کا موقع کیوں نہیں دیتے؟''
آج ہم جن عظیم لوگوں کے یومِ پیدائش اور برسیاں دھوم دھام سے مناتے اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرکے فخر محسوس کرتے ہیں، ان لوگوں نے اپنی زندگی ایسے معاشی عذابوں میں گزاری جس کے تصور سے روح لرز جاتی ہے، غالب سے لے کر منٹو تک، منٹو سے لے کر حبیب جالب تک اور نہ جانے کتنے گمنام، لیکن عظیم لوگوں تک یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ آج کی دنیا میں انسان اپنی صلاحیتوں، اپنے وژن کے حوالے سے محترم قرار نہیں پاتا بلکہ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے باضابطہ لابنگ کسی پارٹی سے وابستگی یا میڈیا کی مہربانی ضروری ہوتی ہے اور ان ذرایع سے محترم بننے والوں کی بڑی تعداد اتنی محترم نہیں ہوتی جتنی بنا دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے صرف ہمارے معاشرے ہی ناقدری کے شکار نہیں بلکہ مغرب کے اعلیٰ پائے کے ادیب شاعر دانشور بھی اپنی زندگی میں گمنام رہے اور ان کے گزر جانے کے بعد انھیں صفِ اوّل کا ادیب، شاعر اور دانشور تسلیم کرکے ان کی پوجا کی جانے لگی۔ اس کلچر کو کیا نام دیں، اس جرم کی ذمے داری کس پر عائد کریں؟
انسانی عظمت اور احترام کے معیارات مختلف ہیں جن کا حوالہ ہم نے ابتداء میں دیا ہے یعنی لابنگ، کسی پارٹی یا نظریے سے وابستگی، سرکار دربار سے تعلق، میڈیا کی مہربانی وغیرہ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان کی بڑائی، عظمت و احترام کا حقیقی معیار وژن اور وژن کے حوالے سے اس کی خدمات ہونا چاہیے، غالب کو گزرے ہوئے اب ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہورہا ہے، غالب جس دور میں زندہ تھا وہ دور مغل حکمرانوں کا آخری دور تھا۔ غالب کی شاعری غالب کے وژن کا اس کے دور میں اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس کے برخلاف اس کی معاشی مشکلات کا عالم یہ تھا کہ اپنی پنشن کے حصول کے لیے اسے انگریز حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دینا پڑتی تھی۔ آج ہم غالب کی شاعری، اس کے وژن کا اعتراف یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ''غالب اپنے وقت سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے پیدا ہوگیا تھا۔'' کیا غالب کے دور میں ادب، شاعری، وژن شناس لوگ سرے سے موجود ہی نہ تھے؟ ایسا نہیں ہے، سقراط اور گیلیلو بھی غالب سے سیکڑوں سال پہلے گزرے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ انسانی عظمت ہمیشہ عقائد و نظریات کی دھول اور گرد و غبار میں ڈھکی رہی، لیکن سچائی یا وژن ایک ایسا سورج ہوتا ہے جس کی روشنی کو زیادہ دیر عقائد و نظریات کی دھول، گرد و غبار سے ڈھانکا نہیں جاسکتا۔
المیہ یہ ہے کہ ان عظیم انسانوں کی عظمت کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جاتا ہے، اچھے انسانوں کی خدمات کا ، عموماً ان کے گزر جانے کے بعد ہی ان کی بڑائی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دنیائے ادب کے بہت سارے نامور لوگ بھی اپنی زندگی میں بے ننگ و نام رہے ، کافکا کا شمار دنیا کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے، کاپرنیکس کا شمار دنیا کے نامور ریاضی دانوں میں ہوتا ہے، جان کیٹس کا شمار دنیا کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے، اس نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ اس کی قبر پر یہ لکھوا دیا جائے ''یہاں ایک ایسا شخص محو آرام ہے جس کا نام پانی پر تحریر ہے۔'' یہ سارے عظیم لوگ اپنی زندگیوں میں ناقدری کا شکار کیوں رہے؟ ہوسکتا ہے اپنی خدمات کے حوالوں سے یاد رکھے جانے والوں کا وژن، سقراط، گیلیلو، کافکا، جان کیٹس جیسا نہ ہو، لیکن ان سب کا یہ حق ہے کہ ان کے وژن، ان کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جائے، ان کے مرنے کا انتظار نہ کیا جائے۔بقول شاعر
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
لیکن المیہ یہ ہے کہ ان تمام شعبوں کی محترم شخصیتوں کو معاشرے کی طرف سے پذیرائی کے حصول کے لیے عموماً موت کا انتظار کرنا پڑتا ہے، جب تک کوئی محترم شخصیت زندہ رہتی ہے اس کی خوبیاں، اس کی صلاحیتیں، اس کی خدمات معاشرے کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، جیسے ہی وہ اس دنیا سے حادثاً یا طبعی عمر کی وجہ سے کوچ کرجاتا ہے تو معاشرے اور اس کوچ کرجانیوالے محترم شخص کے حلقوں کو اس کی خوبیوں، اس کی صلاحیتوں، اس کی قربانیوں کا خیال آجاتا ہے اور معاشرہ اس کی خدمات، اس کی صلاحیتوں، اس کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ تعزیتی ریفرنسوں کی شکل میں شروع کردیتا ہے اور خراجِ عقیدت کا حقدار، خراجِ عقیدت کی پذیرائیوں سے دور منّوں مٹّی کے اندر دبا ہوا، سننے، دیکھنے، محسوس کرنے کے احساس اور مسرت سے بے بہرہ ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک یہ محترم لوگ اپنی حیات کے دوران خراجِ عقیدت سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ اہل لوگوں کو ان کی حیات کے دوران ہی خراجِ تحسین، خراجِ عقیدت حاصل ہوجاتے ہیں، لیکن معاشرے کے ان محترم لوگوں کی اکثریت اپنی زندگی میں ان پذیرائیوں سے محروم رہتی ہے بلکہ اپنی زندگی کا آخری حصہ انتہائی تکلیف دہ حالات میں گزار کر رخصت ہوجاتی ہے اور ان کی رخصتی کے بعد معاشرے کو اچانک خیال آجاتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ اور محترم شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ اس سامنے رہتے ہوئے نظروں سے اوجھل مسئلہ کا خیال ہمیں یوں آیا کہ ہم نے بعد از مرگ خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ایک پروگرام میں شرکت کے لیے معراج محمد خان کے ایک قریبی ساتھی سے یہ کہا کہ وہ معراج کو اس پروگرام میں لے آئیں، اس بندۂ خدا نے بڑے تلخ لہجے میں کہا: ''بیدری صاحب! ہم خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے قابلِ احترام لوگوں کے مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ انھیں ان کی حیات کے دوران ہی خراجِ عقیدت پیش کرکے انھیں خوش ہونے کا موقع کیوں نہیں دیتے؟''
آج ہم جن عظیم لوگوں کے یومِ پیدائش اور برسیاں دھوم دھام سے مناتے اور انھیں خراجِ عقیدت پیش کرکے فخر محسوس کرتے ہیں، ان لوگوں نے اپنی زندگی ایسے معاشی عذابوں میں گزاری جس کے تصور سے روح لرز جاتی ہے، غالب سے لے کر منٹو تک، منٹو سے لے کر حبیب جالب تک اور نہ جانے کتنے گمنام، لیکن عظیم لوگوں تک یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ آج کی دنیا میں انسان اپنی صلاحیتوں، اپنے وژن کے حوالے سے محترم قرار نہیں پاتا بلکہ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے باضابطہ لابنگ کسی پارٹی سے وابستگی یا میڈیا کی مہربانی ضروری ہوتی ہے اور ان ذرایع سے محترم بننے والوں کی بڑی تعداد اتنی محترم نہیں ہوتی جتنی بنا دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے صرف ہمارے معاشرے ہی ناقدری کے شکار نہیں بلکہ مغرب کے اعلیٰ پائے کے ادیب شاعر دانشور بھی اپنی زندگی میں گمنام رہے اور ان کے گزر جانے کے بعد انھیں صفِ اوّل کا ادیب، شاعر اور دانشور تسلیم کرکے ان کی پوجا کی جانے لگی۔ اس کلچر کو کیا نام دیں، اس جرم کی ذمے داری کس پر عائد کریں؟
انسانی عظمت اور احترام کے معیارات مختلف ہیں جن کا حوالہ ہم نے ابتداء میں دیا ہے یعنی لابنگ، کسی پارٹی یا نظریے سے وابستگی، سرکار دربار سے تعلق، میڈیا کی مہربانی وغیرہ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ انسان کی بڑائی، عظمت و احترام کا حقیقی معیار وژن اور وژن کے حوالے سے اس کی خدمات ہونا چاہیے، غالب کو گزرے ہوئے اب ڈیڑھ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہورہا ہے، غالب جس دور میں زندہ تھا وہ دور مغل حکمرانوں کا آخری دور تھا۔ غالب کی شاعری غالب کے وژن کا اس کے دور میں اعتراف نہیں کیا گیا۔ اس کے برخلاف اس کی معاشی مشکلات کا عالم یہ تھا کہ اپنی پنشن کے حصول کے لیے اسے انگریز حکمرانوں کے دروازوں پر دستک دینا پڑتی تھی۔ آج ہم غالب کی شاعری، اس کے وژن کا اعتراف یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ ''غالب اپنے وقت سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے پیدا ہوگیا تھا۔'' کیا غالب کے دور میں ادب، شاعری، وژن شناس لوگ سرے سے موجود ہی نہ تھے؟ ایسا نہیں ہے، سقراط اور گیلیلو بھی غالب سے سیکڑوں سال پہلے گزرے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ انسانی عظمت ہمیشہ عقائد و نظریات کی دھول اور گرد و غبار میں ڈھکی رہی، لیکن سچائی یا وژن ایک ایسا سورج ہوتا ہے جس کی روشنی کو زیادہ دیر عقائد و نظریات کی دھول، گرد و غبار سے ڈھانکا نہیں جاسکتا۔
المیہ یہ ہے کہ ان عظیم انسانوں کی عظمت کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جاتا ہے، اچھے انسانوں کی خدمات کا ، عموماً ان کے گزر جانے کے بعد ہی ان کی بڑائی کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دنیائے ادب کے بہت سارے نامور لوگ بھی اپنی زندگی میں بے ننگ و نام رہے ، کافکا کا شمار دنیا کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے، کاپرنیکس کا شمار دنیا کے نامور ریاضی دانوں میں ہوتا ہے، جان کیٹس کا شمار دنیا کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے، اس نے مرنے سے پہلے وصیت کی کہ اس کی قبر پر یہ لکھوا دیا جائے ''یہاں ایک ایسا شخص محو آرام ہے جس کا نام پانی پر تحریر ہے۔'' یہ سارے عظیم لوگ اپنی زندگیوں میں ناقدری کا شکار کیوں رہے؟ ہوسکتا ہے اپنی خدمات کے حوالوں سے یاد رکھے جانے والوں کا وژن، سقراط، گیلیلو، کافکا، جان کیٹس جیسا نہ ہو، لیکن ان سب کا یہ حق ہے کہ ان کے وژن، ان کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کیا جائے، ان کے مرنے کا انتظار نہ کیا جائے۔بقول شاعر
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ