بے وقت کی ایک راگنی
مخصوص نشستوں میں صرف اقلیتی نشستیں باقی رکھنی چاہئیں۔خواتین، ٹیکنو کریٹس اور مزدوروں وغیرہ کی سیٹیں ختم کردی جائیں۔
مجھے معلوم ہے کہ یہ کالم لکھنے کے بعد مجھے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لگ بھگ آدھی دنیا میرے خلاف ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ گھر میں بھی کچھ ناموافق ردعمل سے سابقہ پڑے گا جس کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ دسمبر کی کچھ خنک راتیں مجھے سڑکوں پر آوارہ گردی میں بسری کرنی پڑیں۔ علاوہ ازیں غصے میں آکر کوئی میری کار کے نیچے پٹاخہ بھی چپکا سکتا ہے۔ پھر بھی چونکہ میں اعلائے کلمۃ الحق پر تُلا ہوا ہوں، اس لیے جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
بات دراصل یہ ہے کہ میں اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے خلاف ہوں اور بہت دنوں سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے پَر تول رہا ہوں۔ ان دنوں عدالت الیکشن سے متعلق کئی معاملات نمٹا رہی ہے، ووٹرز کی فہرستیں درست ہورہی ہیں اور حلقہ بندیوں کا پوسٹ مارٹم بھی ہورہا ہے، تو اسی سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے سیاسی گروہ مخصوص نشستوں کے وجود پر بھی غور فرمالیں۔ یہ کوٹہ سسٹم کی ایک ایسی شکل ہے جو مدتوں سے جاری ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اس سے فیض اُٹھا رہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف علم بلند کرنے والے لوگ بھی نامزدگی کے اس آپشن کو مزے لے لے کر استعمال کر رہے ہیں۔
ایک عرصے سے یہی ہورہا ہے کہ الیکشن ہوتا ہے، بیلٹ بکس سیٹیں جنتا ہے اور پھر سیاست کے دیوتا ان کی گنتی کے لحاظ سے اپنی صوابدید پر مخصوص ٹیسٹ ٹیوب بے بی بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں صنفِ نازک کی مخصوص نشستیں بھی ہوتی ہیں، اقلیتوں کی بھی اور ٹیکنو کریٹس وغیرہ کی بھی۔ یہ سیٹیں الاٹ کرتے وقت وہ جس قسم کا معیار اپنے سامنے رکھتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ آپ اکثر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ یہ قہقہہ بار بھی ہوتا ہے اور اشک آور بھی۔ اشک آور ہونے کے لیے آنسو گیس کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ آورد نہیں بلکہ آمد والا معاملہ ہے۔ خود کفالت کے درجے پر براجمان۔ یاد کیجیے کہ ہماری اسمبلیوں میں ہونے والی سب سے دلدوز مار دھاڑ کا ریکارڈ ہماری کچھ خواتین کے پاس ہے۔
ایک سے بڑھ کر ایک۔ ٹی وی چینلز کے سب سے محبوب اور مقبول مناظر یہیں دستیاب ہوتے ہیں۔ گویا اس سے بڑی تفریح گاہ کرۂ ارض پر اور کوئی نہیں۔ یہ مخصوص نشستیں مدتوں سے چلتی آرہی ہیں، لیکن ایسے کرداروں کی تعداد میں معرکۃ الآراء اضافہ پرویز مشرف نے کیا تھا۔ اس کے شوق بھی نرالے تھے اور انداز بھی۔ بعد میں الیکشن جیتنے اور صوابدیدی تاج سر پر سجانے کے چکر میں تمام سیاسی جماعتیں اس کی ہمنوا ہوگئیں۔ گویا وہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا آئین ساز ہے۔ اس کی ٹھونسی ہوئی لاتعداد تبدیلیاں پلٹ دی گئیں، لیکن مخصوص نشستوں میں اضافے کو من و عن قبول کیا گیا بلکہ کچھ رہنما تو اس سے بھی آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔
خواتین کی شرح کو پچاس فیصد تک لے جانے کی بات کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جمہوری جذبے سے جس کے تحت کچھ لوگ اسے دس بار وردی میں صدر منتخب کروانے کے آرزو مند تھے۔صرف خانہ پُری کے لیے کئی انسانی خانوں سے خالی اور غیر نمایندہ لوگوں سے اسمبلیاں بھرنے کا یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا، سیاسی مصلحتوں میں جکڑے ہوئے حاضر سیاستدان اس عمل کو روکنے سے قاصر ہیں۔
پھر یہ کام کون کرے گا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ پھر کسی ڈکٹیٹر کو بلانا پڑے گا، یا ایسے بندے کو جس نے اگلا الیکشن نہ جیتنا ہو، وہی یہ کام کرسکتا ہے بلکہ وہ تو جھونگے کے طور پر سیاسی بلیک میلنگ کی نذر ہوجانے والے کالا باغ ڈیم کا کام بھی کرسکتا ہے۔ مشرف تو ایک ناجنس حکومت کا سربراہ تھا۔ نہ کوئی مؤقف، نہ کوئی وژن، نہ کوئی اسٹینڈ، نہ کوئی جرأت مندانہ فیصلہ اور نہ کوئی کام۔ ہمت کرکے کالا باغ ڈیم ہی بنادیا ہوتا تو چلو آج نہیں، کل نہیں، دس بیس برس کے بعد تو لوگ اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتے۔ ٹرک کے پیچھے ایوب خان کی طرح کا فوٹو نہ لگتا، تاریخ تو بولتی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ بے وقت کی راگنی کیوں؟ جہاں انتخابات کا انعقاد ہی مشکوک ہو وہاں آئین میں ترمیم جیسا جوکھم کہاں سے آگیا؟ لیکن میری رائے میں ان معاملات پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ اس کا تعلق اسمبلیوں کی کوالٹی، کیریکٹر اور کارکردگی سے بھی ہے اور خانہ پُری کے کرداروں پر اُٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات سے بھی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان نشستوں کے دفاع میں وہ سارے دلائل دہرائے جائیں گے جو کوٹہ سسٹم کے دفاع میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہاں معاملہ کسی فرد کے کیریئر کا نہیں بلکہ ایک ادارے کے کردار کا ہے۔
میری رائے ہے کہ تمام مخصوص نشستوں میں سے صرف اقلیتی نشستیں باقی رکھنی چاہئیں۔ ان کے علاوہ خواتین، ٹیکنو کریٹس اور مزدوروں وغیرہ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں۔ سیاسی جماعتیں ان طبقات کے نمایندوں کو خود سامنے لائیں اور انھیں عام انتخابات میں کھڑا کریں۔ فوراً نہیں تو دو چار انتخابات کے بعد ساری صورتحال متوازن ہوجائے گی۔ فرد کی بجائے جماعت طاقتور ہوگی تو یہ مسئلہ باقی ہی نہیں رہے گا۔ مضبوط پارٹی جسے کھڑا کرے گی وہ جیت جائے گا۔ مرد ہو یا عورت۔ نظریاتی جماعتیں آسانی سے یہ کام کرسکتی ہیں۔ ہماری پارلیمانی تاریخ میں جماعت اسلامی نے نظریاتی لوگوں کو انتخابات جتوائے ہیں۔ اس میں سماجی اور طبقاتی پس منظر کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
غریب اور متوسط طبقے کے لوگ انھوں نے اسمبلیوں میں بھیجے اور جوتوں کی دکان پر کام کرنے والے ایک شخص کو کراچی کا میئر بنا دیا۔ بعد میں یہ کام ایم کیو ایم نے بھی کیا۔ مخصوص نشستوں میں سب سے بڑی تعداد خواتین کی ہے لہٰذا ان کے بارے میں خصوصی طور پر عرض ہے کہ ہمیں نمائشی چہرے نہیں بلکہ براہِ راست الیکشن میں مقابلہ کرکے آنے والی خواتین درکار ہیں۔ ہمیں بے نظیر بھٹو، بیگم عابدہ حسین، تہمینہ دولتانہ اور خوش بخت شجاعت چاہئیں۔ اسمبلی کوئی کیک نہیں ہے کہ تیار ہوگیا تو خوشبو، زیور اور ملبوس کی رنگارنگ ''ٹاپنگ'' سجادی۔ ان فضولیات سے جان چھڑانا ہوگی۔ آج کل خاندانی اجارہ داریوں اور مامے چاچے ٹائپوں کا زور توڑنے کی باتیں بہت ہورہی ہیں۔ مرضی سے بانٹی جانے والی ان سیٹوں کا خاتمہ اجارہ داری کا توڑ ہی تو ہے۔
بات دراصل یہ ہے کہ میں اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کے خلاف ہوں اور بہت دنوں سے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے پَر تول رہا ہوں۔ ان دنوں عدالت الیکشن سے متعلق کئی معاملات نمٹا رہی ہے، ووٹرز کی فہرستیں درست ہورہی ہیں اور حلقہ بندیوں کا پوسٹ مارٹم بھی ہورہا ہے، تو اسی سلسلے میں عرض ہے کہ ہمارے سیاسی گروہ مخصوص نشستوں کے وجود پر بھی غور فرمالیں۔ یہ کوٹہ سسٹم کی ایک ایسی شکل ہے جو مدتوں سے جاری ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اس سے فیض اُٹھا رہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم کے خلاف علم بلند کرنے والے لوگ بھی نامزدگی کے اس آپشن کو مزے لے لے کر استعمال کر رہے ہیں۔
ایک عرصے سے یہی ہورہا ہے کہ الیکشن ہوتا ہے، بیلٹ بکس سیٹیں جنتا ہے اور پھر سیاست کے دیوتا ان کی گنتی کے لحاظ سے اپنی صوابدید پر مخصوص ٹیسٹ ٹیوب بے بی بنانا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں صنفِ نازک کی مخصوص نشستیں بھی ہوتی ہیں، اقلیتوں کی بھی اور ٹیکنو کریٹس وغیرہ کی بھی۔ یہ سیٹیں الاٹ کرتے وقت وہ جس قسم کا معیار اپنے سامنے رکھتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ آپ اکثر دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ یہ قہقہہ بار بھی ہوتا ہے اور اشک آور بھی۔ اشک آور ہونے کے لیے آنسو گیس کی ضرورت نہیں پڑتی، یہ آورد نہیں بلکہ آمد والا معاملہ ہے۔ خود کفالت کے درجے پر براجمان۔ یاد کیجیے کہ ہماری اسمبلیوں میں ہونے والی سب سے دلدوز مار دھاڑ کا ریکارڈ ہماری کچھ خواتین کے پاس ہے۔
ایک سے بڑھ کر ایک۔ ٹی وی چینلز کے سب سے محبوب اور مقبول مناظر یہیں دستیاب ہوتے ہیں۔ گویا اس سے بڑی تفریح گاہ کرۂ ارض پر اور کوئی نہیں۔ یہ مخصوص نشستیں مدتوں سے چلتی آرہی ہیں، لیکن ایسے کرداروں کی تعداد میں معرکۃ الآراء اضافہ پرویز مشرف نے کیا تھا۔ اس کے شوق بھی نرالے تھے اور انداز بھی۔ بعد میں الیکشن جیتنے اور صوابدیدی تاج سر پر سجانے کے چکر میں تمام سیاسی جماعتیں اس کی ہمنوا ہوگئیں۔ گویا وہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا آئین ساز ہے۔ اس کی ٹھونسی ہوئی لاتعداد تبدیلیاں پلٹ دی گئیں، لیکن مخصوص نشستوں میں اضافے کو من و عن قبول کیا گیا بلکہ کچھ رہنما تو اس سے بھی آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔
خواتین کی شرح کو پچاس فیصد تک لے جانے کی بات کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جمہوری جذبے سے جس کے تحت کچھ لوگ اسے دس بار وردی میں صدر منتخب کروانے کے آرزو مند تھے۔صرف خانہ پُری کے لیے کئی انسانی خانوں سے خالی اور غیر نمایندہ لوگوں سے اسمبلیاں بھرنے کا یہ سلسلہ جانے کب تک جاری رہے گا، سیاسی مصلحتوں میں جکڑے ہوئے حاضر سیاستدان اس عمل کو روکنے سے قاصر ہیں۔
پھر یہ کام کون کرے گا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ پھر کسی ڈکٹیٹر کو بلانا پڑے گا، یا ایسے بندے کو جس نے اگلا الیکشن نہ جیتنا ہو، وہی یہ کام کرسکتا ہے بلکہ وہ تو جھونگے کے طور پر سیاسی بلیک میلنگ کی نذر ہوجانے والے کالا باغ ڈیم کا کام بھی کرسکتا ہے۔ مشرف تو ایک ناجنس حکومت کا سربراہ تھا۔ نہ کوئی مؤقف، نہ کوئی وژن، نہ کوئی اسٹینڈ، نہ کوئی جرأت مندانہ فیصلہ اور نہ کوئی کام۔ ہمت کرکے کالا باغ ڈیم ہی بنادیا ہوتا تو چلو آج نہیں، کل نہیں، دس بیس برس کے بعد تو لوگ اسے اچھے لفظوں میں یاد کرتے۔ ٹرک کے پیچھے ایوب خان کی طرح کا فوٹو نہ لگتا، تاریخ تو بولتی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ بے وقت کی راگنی کیوں؟ جہاں انتخابات کا انعقاد ہی مشکوک ہو وہاں آئین میں ترمیم جیسا جوکھم کہاں سے آگیا؟ لیکن میری رائے میں ان معاملات پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ اس کا تعلق اسمبلیوں کی کوالٹی، کیریکٹر اور کارکردگی سے بھی ہے اور خانہ پُری کے کرداروں پر اُٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات سے بھی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان نشستوں کے دفاع میں وہ سارے دلائل دہرائے جائیں گے جو کوٹہ سسٹم کے دفاع میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ یہاں معاملہ کسی فرد کے کیریئر کا نہیں بلکہ ایک ادارے کے کردار کا ہے۔
میری رائے ہے کہ تمام مخصوص نشستوں میں سے صرف اقلیتی نشستیں باقی رکھنی چاہئیں۔ ان کے علاوہ خواتین، ٹیکنو کریٹس اور مزدوروں وغیرہ کی سیٹیں ختم کر دی جائیں۔ سیاسی جماعتیں ان طبقات کے نمایندوں کو خود سامنے لائیں اور انھیں عام انتخابات میں کھڑا کریں۔ فوراً نہیں تو دو چار انتخابات کے بعد ساری صورتحال متوازن ہوجائے گی۔ فرد کی بجائے جماعت طاقتور ہوگی تو یہ مسئلہ باقی ہی نہیں رہے گا۔ مضبوط پارٹی جسے کھڑا کرے گی وہ جیت جائے گا۔ مرد ہو یا عورت۔ نظریاتی جماعتیں آسانی سے یہ کام کرسکتی ہیں۔ ہماری پارلیمانی تاریخ میں جماعت اسلامی نے نظریاتی لوگوں کو انتخابات جتوائے ہیں۔ اس میں سماجی اور طبقاتی پس منظر کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
غریب اور متوسط طبقے کے لوگ انھوں نے اسمبلیوں میں بھیجے اور جوتوں کی دکان پر کام کرنے والے ایک شخص کو کراچی کا میئر بنا دیا۔ بعد میں یہ کام ایم کیو ایم نے بھی کیا۔ مخصوص نشستوں میں سب سے بڑی تعداد خواتین کی ہے لہٰذا ان کے بارے میں خصوصی طور پر عرض ہے کہ ہمیں نمائشی چہرے نہیں بلکہ براہِ راست الیکشن میں مقابلہ کرکے آنے والی خواتین درکار ہیں۔ ہمیں بے نظیر بھٹو، بیگم عابدہ حسین، تہمینہ دولتانہ اور خوش بخت شجاعت چاہئیں۔ اسمبلی کوئی کیک نہیں ہے کہ تیار ہوگیا تو خوشبو، زیور اور ملبوس کی رنگارنگ ''ٹاپنگ'' سجادی۔ ان فضولیات سے جان چھڑانا ہوگی۔ آج کل خاندانی اجارہ داریوں اور مامے چاچے ٹائپوں کا زور توڑنے کی باتیں بہت ہورہی ہیں۔ مرضی سے بانٹی جانے والی ان سیٹوں کا خاتمہ اجارہ داری کا توڑ ہی تو ہے۔