ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر کی زبوں حالی
ریڈیو پاکستان کراچی کی درودیوارآج بھی گزرے ہوئے زمانوں کو خود میں قید کیئے ہوئے ہے
فوٹو: راشد اجمیری/ایکسپریس
ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر تاریخ میں اپنے کئی حوالوں کے ساتھ قائم ہے' ریڈیو پاکستان کراچی کا قیام 1950 میں عمل میں آیا۔
کراچی سینٹر کا افتتاح لیاقت علی خان نے کیا۔پاکستان کے قیام کے بعد پشاور سٹیشن پھر لاہور اور اس کے بعد کراچی سٹیشن کوقائم کیا گیا۔ جس کے بعداس ادارے نے فن کی دنیا میں ہزاروں موتی دریافت کیے' جنہوں نے نہ صرف عالمی سطح پر شہرت حاصل کی 'بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا ۔
ریڈیو پاکستان کراچی کی درودیوارآج بھی گزرے ہوئے زمانوں کو خود میں قید کیئے ہوئے ہے جس میں استادامانت علی خا ن کی تانیں' استاد پیر بخش کا طبلہ 'امراؤ بندو خان کی سارنگی' مہد ی حسن ، میڈم نور جہاں کی غزلیں احمد رشدی، اخلاق احمد اور مسعود رانا کے گیت، منی باجی کی صدائیں، شکیل احمد کا خبرنامہ مگر افسوس آج انہیں سننے والا کوئی نہیں۔ ریڈیو پاکستان جسے اکیڈمی کا درجہ حاصل رہا آج اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لئے انتظامیہ کا منتظر ہے کل تک گلشن کی طرح مہکنے والا اداراہ جس کے پھول کھلتے تھے تو انکی خوشبو دنیا کے کونے کونے میں محسوس کی جاتی تھی یہ پھول ایسے مرجھائے کے جیسے کھلے ہی نہ ہوں۔
سات سال قبل ریڈیو پاکستان کراچی میں اچانک آگ لگنے کی اطلاع موصول ہوئی جو چند لمحوں میں خاک کا ڈھیر بن گیا اس آگ میں اس ادارے کے متعداد اثاثے بھی جل گئے جنہیں سالوں کی محنت سے جمع کیا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کا کہنا ہے کے ریڈیو میں جس وقت آگ لگی اس وقت کوئی ٹیکنیشن اور انجنیئریہاں موجود نہیں تھا 'جس کے باعث آگ پر قابو نہیں پایا جا سکااور یہ خلا آج بھی پر نہ ہو سکاہے۔ اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا مگر جب تک اس کی خبر انتظامیہ کو ہوئی اس وقت تک سب کچھ ختم ہوچکا تھا اس حادثے کو گزرے سات برس بیت گئے کسی نے بھی اس معاملے پر توجہ نہیں دی بلکہ فوری بنیادوں پر تمام معاملات کو اے جی سندہ بلڈنگ منتقل کردیا گیا اس امید کے ساتھ کے جلد اس عمارت کی دوبارہ سے تعمیرات کی جائیگی مگر پھر یہ کہہ کے ٹال دیاکہ گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو مگر ان یادوں کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔
جس میں زندگی کی کئی بہاریں اور بہت سے قیمتی لمحات موجود ہیں ملازمین کا کہنا ہے کے گزشتہ دنوں ریڈیو پاکستان خیر پور کا ٹرانسمیٹر خراب ہوگیا 'جس کا حکومت نے فوری نوٹس لیا اور وزیراعلی سندہ نے سات کروڑ روپے کا اعلان کیا مگر کراچی سٹیشن کا کوئی پرسان حال نہیں یہاں ہر شخص اپنی کمپنی چلا رہا ہے۔ ریڈیو کی تباہی کا سبب ملازمین کی کاہلی تو ہے ہی مگر حکومتیں بھی برابر کی شریک رہی ہیں۔جسکا بس جیسے چلا اس نے ویسے ریڈیو کو برباد کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر کسر پوری کرنے کے لئے اپنے من مانے افسران تعینات کیئے جو ریڈیو کی ابجدسے بھی واقف نہیں تھے وقت یوں ہی گزرتا گیا اور آج ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اگر حکومت وقت اب بھی توجہ دے تو اس ادارے کو دوبارہ آباد کیاجا سکتا ہے ۔
سابق ڈپٹی کنٹرولرریڈیو پاکستان یاور مہدی کا کہنا ہے شاید لوگ یہ بھول چکے ہیں کے قوم کومتحد کرنے اور نیا جذبہ دینے میں اس ادارے نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا دوران جنگ یہ ہی ریڈیو تھا جس پر ملی نغمے نشر ہوتے تھے تو مائیں اپنے بچوں کو ملک کی حفاظت کے لئے بھیج دیا کرتی تھیں ۔یاور مہدی نے بتایا کے جس دور میں انہوں نے ریڈیو کا عہدہ سنبھالا اس وقت حکومت اور اداروں کی توجہ ریڈیو تھا 'جیسے جیسے وقت نے کروٹ لی سب کچھ بدل گیااور آج ریڈیو خواب بن کے رہ گیا ہے' مگر یاد رہے جو قومیں اپنا کلچر اپنی اقدار بھول جاتی ہیں وہ تباہ ہوجاتی ہیں۔ ریڈیو کسی فرد کا نام نہیں بلکہ درسگاہ کا نام ہے جسے قائم بھی ہم نے کیا تھا اور تباہ بھی اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔
ریڈیو پاکستان کی عمارت اور اس کے اثاثے بیرون ملک سے آنے والے افراد بہت شوق سے دیکھنے آیا کرتے تھے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ وطالبات محبت اور جذبے سے اس تاریخی عمارت کو دیکھنے آتے تھے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے مگرآنے والوں کومایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جو قابل افسوس عمل ہے ریڈیو پاکستان نے جن فنکاروں کی تربیت کی وہ آج اپنے اپنے فن میں ایک مضبوط حوالہ رکھتے ہیں مگر آنے والا وقت کچھ مختلف دکھائی دیتا ہے جب ادارے نہیں ہونگے تو تربیت کہا ں ہوگی جب کبھی ریڈیو کی بات ہوگی تو ریڈیو پاکستان کا اسٹوڈیو نمبر 9اور 14 کا بھی ذکر ضرور آئیگا یہ دونوں اسٹوڈیو بھی اپنا مضبوط حوالہ رکھتے ہیں آج ان کا حال دیکھ کر رونے کا دل چاہتا ہے۔
ریڈیو پاکستان کی کینٹین کے جہاں تمام فنکار بیٹھ کر ایک دوسرے کے کام پر تبصرہ کرتے تھے آج مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے ریڈیو سے متصل گلی جسے فنکار گلی کے نام سے جانا جاتا تھا آج ویرانی کی نظر ہوچکی ہے شہر کے مختلف علاقوں سے جب لوگ ٹاور کی جانب آتے تھے تواحمد رشدی کا گانا بسوں میں بجتاہوا ملتا تھا(بندر روڈسے کیماڑی میری چلی رے گھوڑاگاڑی بابو ہوجانا فٹ پاتھ پریہ ہے ریڈیو پاکستان گویا خبروں کی دکان) سن کر مسکرایا کرتے تھے اور ریڈیو پاکستان کو نظر بھر کے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے تھے آج بھی تمام چیزیں اپنی جگہ موجود ہیں مگر توجہ سے محروم ہیں ریڈیو پاکستان سے وابستہ فنکاروں کا کہنا ہے جب تک ریڈیو پاکستان ایم اے جناح روڈ پر تھا تو دل کرتا تھا کے ریڈیو کا رخ کیا جائے جو آج نہیں چاہتا۔
ملازمین کا کہنا ہے کے ہم حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کے اس کی بحالی کے لئے عملی اقدامات کرے تو اس ادارے کو آنے والی نسلوں کو تحفے کے طور پر سونپا جاسکتاہے۔ ریڈیو پاکستان کا ہر کونہ پکار رہا ہے کے مجھے بچالو ہر آنے جانے والے کودیکھ کر اسکی درودیوار پکارتی ہیں مگر افسوس اس کی صدا کوئی سننے والا نہیں ریڈیوپاکستان کراچی میں ویرانی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں یہ وہ ہی مقام ہیں جہاں کبھی فرصت کے لمحے میسر نہیں تھے آج صرف کوڑا مٹی اور خاک کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔کراچی کی عوام کا کہنا ہے کے ریڈیو کی کھوئی ہوئی رونقیں بحال کرنے میں سندہ حکومت اپنا کردار ادا کریں حکومت صرف دعووں سے کام نہ لیں بلکہ سچائی کے ساتھ اس ادارے کی بحالی کے لئے کام کریں!!!