سندھ میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی
قائم علی شاہ بڑے کمال کے آدمی تھے۔ نرم خو اورمرنجان مرنج۔
سید قائم علی شاہ بحیثیت وزیراعلیٰ اپنی آٹھ سالہ طویل ترین اننگزکھیل کر بالآخر رخصت ہوگئے۔ آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا۔ان کے جانے کی افواہیں یا خبریں کافی دنوں سے گردش کر رہی تھیں۔ بقول شاعر:
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
قائم علی شاہ بڑے کمال کے آدمی تھے۔ نرم خو اورمرنجان مرنج۔ شاید یہی ان کی سب سے بڑی خوبی تھی، جی حضوری ان کا سب سے بڑا وصف تھا۔کڑی سے کڑی تنقید برداشت کرنے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ سب سے بناکر رکھنے کا ہنرجانتے تھے جس کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین بھی کرتے ہیں۔ سیکیورٹی کے اداروں کے ساتھ بھی انھوں نے خوب نباہ کی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ قائم علی شاہ کی یہی کمزوری شاید ان کی رخصتی کا سب سے بڑا سبب بنی ورنہ تو وہ مزید کافی عرصے کے لیے اپنے منصب پر قائم رہ کر خود کو اسم بامسمی ثابت کردیتے۔ ایمان داری اور دیانت داری کے اعتبار سے بھی انھیں پاک دامن ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ کسی نے بھی انھیں کرپٹ ہونے کا الزام نہیں دیا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کئی لوگوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ یہ وہ راز ہے جو اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
قائم علی شاہ کا جانا طے ہوگیا تھا، کب جائیں گے صرف اس بات اور وقت کا تعین باقی رہ گیا تھا۔
دل کا جانا ٹھہرگیا ہے' صبح گیا یا شام گیا
وہ اچھے تھے یا برے تھے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، البتہ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے بڑے پرانے اورسینئر رکن تھے اور پارٹی سے ان کی وابستگی اور وفاداری ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر تھی، جس کی خاطر انھوں نے بلاچوں وچرا اپنی وزارت پل بھر میں خوشی خوشی چھوڑ دی۔ یہ اور بات ہے کہ بعض لوگوں کے بقول پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے انھیں قربانی کا بکرا بناکر چھوڑ دیا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ شاہ صاحب اس بات کا بھی کبھی گلہ شکوہ نہیں کریں گے۔
قائم علی شاہ گئے تو ان کی جگہ مراد علی شاہ تخت نشین ہوگئے۔گویا شاہ کی خالی گدی ایک دوسرے شاہ نے آکر سنبھال لی۔ اس طرح شاہوں کی حکمرانی کا تسلسل برقرار رہا۔اس صورتحال پر ہمیں برطانیہ کی سیاست کی یہ مشہورکہاوت یاد آرہی ہے کہ:
The King is dead
Long live the King
قسمت کی دیوی سید مراد علی شاہ پر مہربان ہوگئی اور قرعہ فال ان ہی کے نام پر نکل آیا۔ کابینہ کے سینئر ممبر ان پر رشک بھی کرسکتے ہیں اور ان سے اس بنا پر حسد بھی کرسکتے ہیں کہ جونیئر ہونے کے باوجود انھیں سندھ کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا، لیکن سچ پوچھیے تو یہ کرسی پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ مراد علی شاہ نے بذات خود ایک نجی ٹی وی نیوز چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ امن و امان برقرار رکھنا ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ شاید انھیں صحت اور تعلیم کے حوالے سے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بھی کرنا پڑے۔ انھیں امید ہے کہ وہ سول بیوروکریسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیکیورٹی چیلنجوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ مراد علی شاہ بامراد ہیں، وہ عمر میں چھوٹے سہی لیکن بڑے باپ کے بیٹے ضرور ہیں۔ اور یہ کہاوت تو آپ نے ضرور سنی ہوئی ہوگی کہ ''باپ پر پُوت پِتا پرگھوڑا' بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔''
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بناکر بہت بڑا جوکھم مول لیا ہے کیونکہ اس فیصلے کے بڑے گہرے اثرات آیندہ عام انتخابات پر ضرور مرتب ہوں گے۔ تاہم پارٹی ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ مشکل فیصلہ پارٹی کی بھاری اکثریت کی رائے سے کیا گیا ہے اور اسے پارٹی کی غالب اکثریت کی حمایت وتائید حاصل ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ پارٹی کی قیادت کو نئے وزیر اعلیٰ کی کامیابی کے بارے میں بڑی اچھی امیدیں ہیں اور ظاہر ہے کہ امید پہ دنیا قائم ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ ایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، لیکن ان کا مسئلہ دراصل یہ تھا کہ دوسرے لوگ اپنی بندوقیں چلانے کے لیے ان کے کندھے استعمال کر رہے تھے۔ یہ لوگ کون کون تھے یہ بات اب کوئی راز نہیں ہے۔ خاص خاص تقرریاں اور بھرتیاں ان ہی بااثر اور صاحب کرامات لوگوں کے حکم بلکہ اشارۂ ابرو پر ہوا کرتی تھیں اور بے چارے قائم علی شاہ کے پاس اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ زرداری صاحب کی ہمشیرہ اور ایک منہ بولے بھائی کے آگے قائم علی شاہ بالکل بے بس نظر آتے تھے۔ یہ حکم حاکم مرگ مفاجات والا قصہ تھا۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے بعض وزرا ان سے کہیں زیادہ تگڑے اوربااثر تھے جن کے آگے ان کی ایک نہ چلتی تھی۔
آصف علی زرداری کی مرضی سے دبئی اجلاس میں جو فیصلہ کیا گیا اس کے بارے میں بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما اور پیپلز پارٹی کے سب سے سینئر رہنما سید خورشید شاہ بھی قبل از وقت اس سے لاعلم تھے، گویا:
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ممکن ہے بعض دیگر لوگوں کی طرح ان کا بھی یہ خیال ہو کہ زرداری نے شاید یہ خصوصی اجلاس رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے سوال پر فیصلے کے لیے طلب کیا ہوگا۔
کراچی شہر میں جو بری حکمرانی کے نتیجے میں شہر پناہ سے شہر بے پناہ میں تبدیل ہوچکا ہے رینجرز کو عملاً متوازی اتھارٹی حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم کراچی میں نیم فوجی فورس صوبائی حکومت نے امن عامہ کی تباہی و بربادی کے بعد خود اپنی مرضی سے طلب کی تھی۔ موجودہ کیفیت یہ ہے کہ:
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفردیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظارکر
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ میں رینجرز کے اختیارات میں اضافہ ناگزیر ہوگیا جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری ہوئی، لیکن سیکیورٹی فورس کے بعض اقدامات حکومتی حلقوں کو پسند نہیں آئے جس کے باعث اختلافات کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور سندھ کابینہ کے سربراہ کی تبدیلی کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔
ظاہری آثار بتاتے ہیں کہ سندھ میں محض وزیراعلیٰ کا چہرہ تبدیل کرنے سے شاید کام نہیں چل سکے گا۔ قیاس یہ ہے کہ اسٹینفرڈ کے گریجویٹ مراد علی شاہ سے توقع ہے کہ وہ اپنے پیش رو کی روش سے ہٹ کر زیادہ فعال کردار ادا کریں گے اور قدرے ڈٹ کر معاملات طے کریں گے، مگر ایک خیال یہ بھی ہے کہ عرصۂ دراز تک بیرون ملک رہنے کی وجہ سے شاید وہ مقامی پارٹی پالیٹکس کے نشیب و فراز میں اتنے زیادہ مشاق اور طاق ہونے کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور پارٹی کے اندر موجود مختلف دھڑوں سے باآسانی نمٹ نہ سکیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے حکمرانوں اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بہ یک وقت نمٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت نئے وزیر اعلیٰ کو اپنی پارٹی کے ٹاپ باسسزکا آشیرواد اور مکمل حمایت حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ آزادانہ فیصلے کریں گے توکیا تب بھی یہ صورتحال برقرار رہ سکے گی؟ سندھ کی انتہائی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنا، ناقص حکمرانی کو درست کرنا اور سب سے بڑھ کر دائمی کرپشن کا اعلیٰ سطح پر خاتمہ، سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کو درپیش سب سے مشکل اور سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس انتہائی کڑے امتحان میں وہ کتنے کامیاب رہیں گے۔
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
قائم علی شاہ بڑے کمال کے آدمی تھے۔ نرم خو اورمرنجان مرنج۔ شاید یہی ان کی سب سے بڑی خوبی تھی، جی حضوری ان کا سب سے بڑا وصف تھا۔کڑی سے کڑی تنقید برداشت کرنے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ سب سے بناکر رکھنے کا ہنرجانتے تھے جس کا اعتراف ان کے بدترین مخالفین بھی کرتے ہیں۔ سیکیورٹی کے اداروں کے ساتھ بھی انھوں نے خوب نباہ کی۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ قائم علی شاہ کی یہی کمزوری شاید ان کی رخصتی کا سب سے بڑا سبب بنی ورنہ تو وہ مزید کافی عرصے کے لیے اپنے منصب پر قائم رہ کر خود کو اسم بامسمی ثابت کردیتے۔ ایمان داری اور دیانت داری کے اعتبار سے بھی انھیں پاک دامن ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ کسی نے بھی انھیں کرپٹ ہونے کا الزام نہیں دیا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں کئی لوگوں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے۔ یہ وہ راز ہے جو اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
قائم علی شاہ کا جانا طے ہوگیا تھا، کب جائیں گے صرف اس بات اور وقت کا تعین باقی رہ گیا تھا۔
دل کا جانا ٹھہرگیا ہے' صبح گیا یا شام گیا
وہ اچھے تھے یا برے تھے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، البتہ اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے بڑے پرانے اورسینئر رکن تھے اور پارٹی سے ان کی وابستگی اور وفاداری ہر قسم کے شک و شبے سے بالاتر تھی، جس کی خاطر انھوں نے بلاچوں وچرا اپنی وزارت پل بھر میں خوشی خوشی چھوڑ دی۔ یہ اور بات ہے کہ بعض لوگوں کے بقول پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے انھیں قربانی کا بکرا بناکر چھوڑ دیا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ شاہ صاحب اس بات کا بھی کبھی گلہ شکوہ نہیں کریں گے۔
قائم علی شاہ گئے تو ان کی جگہ مراد علی شاہ تخت نشین ہوگئے۔گویا شاہ کی خالی گدی ایک دوسرے شاہ نے آکر سنبھال لی۔ اس طرح شاہوں کی حکمرانی کا تسلسل برقرار رہا۔اس صورتحال پر ہمیں برطانیہ کی سیاست کی یہ مشہورکہاوت یاد آرہی ہے کہ:
The King is dead
Long live the King
قسمت کی دیوی سید مراد علی شاہ پر مہربان ہوگئی اور قرعہ فال ان ہی کے نام پر نکل آیا۔ کابینہ کے سینئر ممبر ان پر رشک بھی کرسکتے ہیں اور ان سے اس بنا پر حسد بھی کرسکتے ہیں کہ جونیئر ہونے کے باوجود انھیں سندھ کی وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا، لیکن سچ پوچھیے تو یہ کرسی پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ مراد علی شاہ نے بذات خود ایک نجی ٹی وی نیوز چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ امن و امان برقرار رکھنا ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ عندیہ بھی دیا کہ شاید انھیں صحت اور تعلیم کے حوالے سے ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان بھی کرنا پڑے۔ انھیں امید ہے کہ وہ سول بیوروکریسی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سیکیورٹی چیلنجوں سے بخوبی نمٹ لیں گے۔ مراد علی شاہ بامراد ہیں، وہ عمر میں چھوٹے سہی لیکن بڑے باپ کے بیٹے ضرور ہیں۔ اور یہ کہاوت تو آپ نے ضرور سنی ہوئی ہوگی کہ ''باپ پر پُوت پِتا پرگھوڑا' بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا۔''
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے مراد علی شاہ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بناکر بہت بڑا جوکھم مول لیا ہے کیونکہ اس فیصلے کے بڑے گہرے اثرات آیندہ عام انتخابات پر ضرور مرتب ہوں گے۔ تاہم پارٹی ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ مشکل فیصلہ پارٹی کی بھاری اکثریت کی رائے سے کیا گیا ہے اور اسے پارٹی کی غالب اکثریت کی حمایت وتائید حاصل ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ پارٹی کی قیادت کو نئے وزیر اعلیٰ کی کامیابی کے بارے میں بڑی اچھی امیدیں ہیں اور ظاہر ہے کہ امید پہ دنیا قائم ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ ایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے، لیکن ان کا مسئلہ دراصل یہ تھا کہ دوسرے لوگ اپنی بندوقیں چلانے کے لیے ان کے کندھے استعمال کر رہے تھے۔ یہ لوگ کون کون تھے یہ بات اب کوئی راز نہیں ہے۔ خاص خاص تقرریاں اور بھرتیاں ان ہی بااثر اور صاحب کرامات لوگوں کے حکم بلکہ اشارۂ ابرو پر ہوا کرتی تھیں اور بے چارے قائم علی شاہ کے پاس اپنی وزارت اعلیٰ بچانے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ زرداری صاحب کی ہمشیرہ اور ایک منہ بولے بھائی کے آگے قائم علی شاہ بالکل بے بس نظر آتے تھے۔ یہ حکم حاکم مرگ مفاجات والا قصہ تھا۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے بعض وزرا ان سے کہیں زیادہ تگڑے اوربااثر تھے جن کے آگے ان کی ایک نہ چلتی تھی۔
آصف علی زرداری کی مرضی سے دبئی اجلاس میں جو فیصلہ کیا گیا اس کے بارے میں بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما اور پیپلز پارٹی کے سب سے سینئر رہنما سید خورشید شاہ بھی قبل از وقت اس سے لاعلم تھے، گویا:
بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ممکن ہے بعض دیگر لوگوں کی طرح ان کا بھی یہ خیال ہو کہ زرداری نے شاید یہ خصوصی اجلاس رینجرز کے اختیارات میں توسیع کے سوال پر فیصلے کے لیے طلب کیا ہوگا۔
کراچی شہر میں جو بری حکمرانی کے نتیجے میں شہر پناہ سے شہر بے پناہ میں تبدیل ہوچکا ہے رینجرز کو عملاً متوازی اتھارٹی حاصل ہوگئی ہے۔ تاہم کراچی میں نیم فوجی فورس صوبائی حکومت نے امن عامہ کی تباہی و بربادی کے بعد خود اپنی مرضی سے طلب کی تھی۔ موجودہ کیفیت یہ ہے کہ:
باغِ بہشت سے مجھے اذنِ سفردیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظارکر
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ میں رینجرز کے اختیارات میں اضافہ ناگزیر ہوگیا جس کے نتیجے میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری ہوئی، لیکن سیکیورٹی فورس کے بعض اقدامات حکومتی حلقوں کو پسند نہیں آئے جس کے باعث اختلافات کی سی کیفیت پیدا ہوگئی اور سندھ کابینہ کے سربراہ کی تبدیلی کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔
ظاہری آثار بتاتے ہیں کہ سندھ میں محض وزیراعلیٰ کا چہرہ تبدیل کرنے سے شاید کام نہیں چل سکے گا۔ قیاس یہ ہے کہ اسٹینفرڈ کے گریجویٹ مراد علی شاہ سے توقع ہے کہ وہ اپنے پیش رو کی روش سے ہٹ کر زیادہ فعال کردار ادا کریں گے اور قدرے ڈٹ کر معاملات طے کریں گے، مگر ایک خیال یہ بھی ہے کہ عرصۂ دراز تک بیرون ملک رہنے کی وجہ سے شاید وہ مقامی پارٹی پالیٹکس کے نشیب و فراز میں اتنے زیادہ مشاق اور طاق ہونے کا مظاہرہ نہ کرسکیں اور پارٹی کے اندر موجود مختلف دھڑوں سے باآسانی نمٹ نہ سکیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے حکمرانوں اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے بہ یک وقت نمٹنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت نئے وزیر اعلیٰ کو اپنی پارٹی کے ٹاپ باسسزکا آشیرواد اور مکمل حمایت حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب وہ آزادانہ فیصلے کریں گے توکیا تب بھی یہ صورتحال برقرار رہ سکے گی؟ سندھ کی انتہائی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنا، ناقص حکمرانی کو درست کرنا اور سب سے بڑھ کر دائمی کرپشن کا اعلیٰ سطح پر خاتمہ، سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کو درپیش سب سے مشکل اور سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس انتہائی کڑے امتحان میں وہ کتنے کامیاب رہیں گے۔