سندھ سوچ سے بدلے گا
اگر بات کچھ زیادہ ہی دانشورانہ ہو گئی ہے تو اسیذرا آسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں
اس سے پہلے کہ اپنا مدعا بیان کروں سندھی سیاست میں پیپلز پارٹی کے کردار کے بارے میں کچھ دیومالائی تاثراتی ریکارڈ کی درستگی ضروری ہے۔
پہلا عمومی تاثر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ پر سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی مگر سندھ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔
عرض یہ ہے کہ اٹھائیس اپریل انیس سو سینتیس کو سر غلام حسین ہدایت اللہ کی پہلی مسلم لیگی حکومت سے لے کر انیس نومبر دو ہزار سات کو ارباب غلام رحیم حکومت کے خاتمے تک سندھ پر مسلم لیگ کے تیرہ وزرائے اعلیٰ نے کل ملا کے بائیس سال حکومت کی۔
مگر یکم مئی انیس سو بہتر سے آج تک کے چوالیس برس میں تو سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کا دورِ حکومت رہا ہے نا؟
جی نہیں۔ان چوالیس برسوں میں ممتاز بھٹو سے مراد علی شاہ تک پیپلز پارٹی کے چھ وزرائے اعلیٰ نے مجموعی طور پر اب تک انیس سال حکومت کی ہے۔باقی پچیس برس فوجی ، مسلم لیگی یا جوڑ توڑ والی حکومتیں رہی ہیں۔
لیکن سندھ کا مسئلہ یہ نہیں کہ یہاں کس نے کتنی بار ، کم زیادہ حکومت کی ہے۔ سندھ کا مسئلہ انیس سو سینتیس سے لے کر اب تک یہ رہا ہے کہ اقتداری میوزیکل چیر گیم میں جتنی کرسیاں روزِ اول سے موجود ہیں آج تک ان میں کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوئی اور اس گیم میں حصہ لینے والوں کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔لہذا تماشائی ( جسے آپ اپنی سہولت کے لیے ووٹر کہہ سکتے ہیں ) کے لیے اس میوزیکل چئیر گیم میں کوئی کشش نہیں۔تماشائی ایک عرصے سے کھلی فضا میں خود کھیلنا چاہتا ہے۔مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے کھیلنے کے لیے کوئی گراؤنڈ ہی نہیں اور آنکھوں کے لیے صرف یہی فرسودہ میوزیکل چئیر گیم میسر ہے۔ (یوں سمجھئے کہ سندھ کی اقتداری سیاست اور کراچی کا سندھ کلب ایک ہی اصول کے قیدی ہیں )۔
اگر بات کچھ زیادہ ہی دانشورانہ ہو گئی ہے تو اسیذرا آسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچھلے اناسی برس کے دوران برٹش سندھ ہو کہ پاکستانی سندھ ، لیگی حکومت ہو کہ پی پی حکومت کہ کوئی تیسری حکومت۔ سب وزرائے اعلی اور ان کے وزیروں مشیروں کو دیکھ لیں۔ ذوالفقار علی بھٹو دور کی صوبائی کابینہ میں شامل چند ناموں کے سوا سب کے سب روایتی بالادست روحانی و سیاسی طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔اور جو لوگ پچھلے چوالیس برس کے دوران روایتی طبقات سے باہر کے بھی تھے وہ ایک یا دو اقتداری باریاں ملنے کے بعد ایسے بدل گئے جیسے حکمرانی سات نسلوں سے ان کے گھر کی دہلیز پر بیٹھی ہو۔
ایسے سیاسی و سماجی خام مال کے ہوتے ہوئے کسی نئی اور جدید سیاسی پروڈکٹ کا انتظار کرنا اپنا وقت برباد کرنے جیسا ہے۔مگر ہماری اور آپ کی قسمت کو وراثت در وراثت منتقل ہونے والا یہ خام مال بھلے فائدہ مند نہ بھی ہو لیکن انگریز دور کی نوآبادیاتی اسٹیبلشمنٹ سے آج کی عسکری سیاسی اسٹیبلشمنٹ تک سب کو ایسا ہی خام مال چاہیے کہ جسے حسب ِ ضرورت کسی بھی پروڈکٹ میں بار بار ڈھال کر مجھے اور آپ کو ہر بار نیا کہہ کربیچا جا سکے۔کبھی لیگی لیبل تو کبھی پی پی لیبل تو کبھی قوم پرست لیبل لگا لگا کر۔
ایسے خام مال سے تیار ہر پروڈکٹ میں ایک چپ بھی لگایا جاتا ہے۔اس چپ میں پروڈکٹ کا تمام اگلا پچھلا ریکارڈ درج ہوتا ہے اور اس چپ کو ریموٹ کنٹرول سے حرکت میں لانے ، ساکت کردینے اور پھر حرکت میں لانے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔
یہ تو ہو گئیں سندھ پر طاری جمود کی برائیاں۔مگر کوئی بھی نظام جتنا بھی برا ہو وہ تب تک ہی چل سکتا ہے جب تک اس میں چند اچھائیاں بھی ہوں۔
سندھ کے عام لوگ بہت پہلے ہتھیار ڈال کر اپنی ہمتوں کا استعفیٰ پیش کر چکے ہوتے اگر ان کے اندر کڑا سے کڑا وقت سہنے کی وہ شکتی نہ ہوتی جو صرف صوفیوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔
پچھلے چوالیس برس میں بالخصوص سندھیوں کے لیے تعلیم ، روزگار ، سیاحت اور دنیا سے جڑنے کے راستے پہلے سے زیادہ کھلے اور اگر پاکستان کی دیگر قومیتوں سے تقابل کیا جائے توسندھیوں کی پچھلی کم ازکم دو پیڑھیوں کو آگے بڑھانے میں انیسویں صدی سے مسلسل جاری جدید تعلیمی و صحافتی روایت نے لگاتار مثبت کردار ادا کیا ہے۔
گذشتہ نسلوں کے برعکس آج کے سندھی مڈل کلاس لڑکے لڑکیاں سرکاری نوکری کے نفسیاتی چنگل سے تقریباً نکل آئے ہیں۔مجھے پچیس برس پہلے ہیھترو ایرپورٹ پر کبھی کبھار سندھی بولی سنائی دیتی تھی مگر آج سانتیاگو سے ٹوکیو تک شائد ہی کوئی جگہ ہو جہاں ڈیپارچر یا ارائیول لاؤنج سے نکلتے ہوئے سندھی کا کوئی جملہ کان میں نہ پڑے۔( یہ میں بھارتی سندھیوں کی نہیں پاکستانیوں کی بات کر رہا ہوں)۔
مگر تین ماہ پہلے حیدرآباد میں ہونے والے لاہوتی میوزیکل لٹریری فیسٹیول میں جا کر مجھے اندازہ ہوا کہ میں سندھ کی نئی نسل کے بارے میں کتنا کم جانتا ہوں۔میں نے پہلی بار بیس پچیس سال تک کے ہزاروں لڑکے لڑکیاں دیکھے جو یا سندھی بول رہے تھے یا انگریزی۔ان سے گفتگو کے دوران لگا کہ ان کے کندھے سے لٹکے بیک پیک میں ایک دنیا بند ہے۔
اس مشاہدے کے بعد سے مجھے سندھ کے روایتی احساسِ محرومی کے مرثئے کو سننے کی حسرت نہیں رہی۔ چند سال ہی کی تو بات ہے۔یہ بیک پیک نسل سب کچھ ٹیک اوور کر لے گی۔کوئی چاہے نہ چاہے حالات کو ٹھیک ہونا ہی ہے۔آپ حالات کو ٹھیک نہیں کریں گے تو حالات آپ کو ٹھیک کر دیں گے۔
میں آج جو بھی بات کر رہا ہوں وہ اندرونِ سندھ کے تعلق سے ہے۔ میں جان بوجھ کر کراچی کو بیچ میں نہیں لا رہا۔کیونکہ اکثریت بھی کراچی سے باہر بستی ہے اور میوزیکل چئیر کے کھلاڑیوں کا تعلق بھی تاریخی و سیاسی اعتبار سے اندرونِ سندھ سے ہے۔ویسے بھی کراچی ڈھائی سو سال سے ہے اور اندرونِ سندھ آٹھ ہزار سال سے ہے۔
ہو سکتا ہے کچھ دوست میری یہ وضاحت تسلیم نہ کریں مگر پنجاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ لاہور کے بارے میں مت سوچیں۔پشاور خیبر پختون خواہ کو سمجھنے کی چابی نہیں ہے ، کوئٹہ میں بیٹھ کر بلوچستان اتنا ہی سمجھ میں آ سکتا ہے جتنا کراچی میں بیٹھ کر اندرونِ سندھ۔
ویسے کمیونکیشن کی تیز رفتاری کے سبب اندرونِ سندھ ایک بے معنی اصطلاح ہو گئی ہے۔آج کے حساب سے تیز رفتار سندھ اور سست سندھ ، نیا سندھ اور پرانا سندھ ، جوان سندھ اور بوڑھا سندھ جیسی اصطلاحات حقیقت سے زیادہ قریب تر ہیں۔بعض اوقات اصطلاحات بدلنے سے بھی سوچ اور پھر حالات بدلنے لگتے ہیں۔