اردو کے نادر و کمیاب شخصی خاکے پہلا حصہ
شخصی خاکوں کی پہلی جلد میں کچھ خاکوں کا ذکر ہوچکا ہے
راشد اشرف کے بڑی جستجو اور محنت سے جمع کیے ہوئے اردو کے نایاب اور نادر شخصی خاکوں کی دوسری جلد میں بھی علم و ادب، سیاست، آرٹ اور فلم کی دنیا کی معروف اور غیر معروف شخصیتوں کا حال انھیں یاد رکھنے والوں کی تحریروں سے ملتا ہے۔ ان خاکوں کو انھوں نے اس طرح مرتب کرکے شایع کیا ہے کہ لکھنے والوں کا تعارف بھی کرایا ہے، خاکوں کی اشاعت کی تاریخ اور یہ جہاں شایع ہوئے تھے ان کی بھی نشان دہی ہے، جہاں جہاں وضاحتوں کی ضرورت ہوئی وہ بھی مہیا کی ہے۔ یہ علم دوستی کی نشانی ہے۔
شخصی خاکوں کی پہلی جلد میں کچھ خاکوں کا ذکر ہوچکا ہے، اس میں ایک خاکہ راشد اشرف نے ''وقت کی قید سے لازوال'' قرار دیا ہے اور ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کے تعاون سے خصوصی طور پر شامل کیا ہے، سید ابو تمیم فرید آبادی کا تحریر کردہ ''چھوٹے ماموں جان۔ مولوی نواب مرزا ضمیر الدین'' کا ہے۔ اس خاکے کا تعارف انھوں نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ تحریر کی دل کشی نے ایسا سماں باندھ دیا ہے کہ جیسے وہ تمام کردار جن کا اس خاکے میں ذکر ہے آپ کے اردگرد زندہ موجود ہوں۔
دوسری جلد میں مظہر محمود شیرانی کا فیاض الملک حکیم منیر واسطی کا خاکہ دلچسپ ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''مجھ پر ان کی شفقت میرے والد مرحوم سے ان کی دلی محبت کا نتیجہ تھی۔ مجھے دیکھ کر انھیں اپنا بچھڑا ہوا جگری دوست یاد آجاتا تھا'' حکیم صاحب 1925 میں بھنبور سے لاہور آئے اور چونا منڈی میں مطب شروع کیا۔ ان کی تدریسی، تحقیقی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی قابل ذکر ہے لیکن ان کا اصل میدان طبابت تھا۔ اس شعبے میں انھوں نے حیران کن کارنامے انجام دیے اور بڑی شہرت حاصل کی۔
ن۔ م راشد کا خاکہ ان کے بیٹے شہر یار راشد نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کی یادیں راشد صاحب کی زندگی کے تین پہلوؤں کی حد تک ہیں۔ بطور باپ، بطور انسان اور بطور شاعر، لیکن وہ ان کی شاعری پر تنقید کی جسارت نہیں کرسکتے۔ شہریار نے راشد صاحب کی زندگی کے جن واقعات کا ذکر کیا ہے ان میں ن۔ م راشد کا ''اپنی گمنام سی جنم بھومی'' سے نکل کر لاہور آنا اور گورنمنٹ کالج میں کامیابی حاصل کرنا۔ دوسرا واقعہ ''ان برسوں سے متعلق ہے جب وہ بے روزگاری کے دن گزار رہے تھے اور تیسرا واقعہ ان کی فوجی ملازمت کا ہے جو انھوں نے برطانوی ہند کے نان کمبیٹ فوجی افسر کی حیثیت سے کولمبو، بغداد اور تہران میں گزارے'' جنگ کے بعد ن م راشد ریڈیو پاکستان میں آگئے پھر اقوام متحدہ کے دفتر اطلاعات میں جگہ مل گئی اور وہ اپنی فیملی سمیت نیویارک آگئے''۔ شہریار بتاتے ہیں کہ ان کے والد مزاج کے سخت تھے لیکن درگزر کرنے کی صفت بھی ان میں موجود تھی۔ راشد صاحب مشاعروں سے بیزار رہتے تھے، گنے چنے لوگوں کی محفل میں نظم سنانا پسند کرتے تھے۔
صادق نسیم نے مولانا عبدالمجید سالک کا خاکہ تحریر کیا ہے۔ صادق فوج میں تھے ان کا سالک صاحب سے تعارف عبدالعزیز فطرت نے کرایا تھا۔ پھر راولپنڈی میں قیام کے دوران اور بعد میں لاہور میں ان کے درمیان تعلق بڑھتا رہا۔ انھوں نے سالک کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں ''سالک صاحب کی زندگی میں فقرہ بازی کے اتنے واقعات ہیں کہ ان پر ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے''۔ ایک مرتبہ شعرا کے ایک استقبالیہ میں سوشلسٹ اور سرخوں کے متعلق فرمانے لگے ''سرخے اور شلغم ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کئی شلغم اوپر سے سفید اور اندر سے لال ہوتے ہیں اور کئی اوپر سے لال اور اندر سے سفید ہوتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں کہ جو اندر اور باہر دونوں طرف سے سرخ ہوں''۔
صادق نسیم لکھتے ہیں: جن دنوں ''انقلاب'' گھاٹے میں جارہا تھا میں سالک صاحب سے ملنے گیا۔ ''میں نے کہا، نام بدل کر کوئی دوسرا اخبار نکال لیں۔ زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ مجھ سے ناراض ہوئے۔ فرمانے لگے اس طرح بہروپ بدل بدل کر سامنے آکر ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہمارا وقت گزر گیا، نئی نسلیں آگئیں ان کی سوچ اپنی، ان کے اخبار اپنے، اب ہمارا نام تاریخ میں چلا جائے گا۔ یہی بہت ہے''۔
پنڈت آنند نارائن ملا کی شخصیت پر عابد سہیل اپنی تحریر میں لکھتے ہیں ''ملا صاحب فرد ہی نہیں اپنی ذات میں انجمن تھے، اردو سے ان کی محبت عملی تھی جذباتی نہیں تھی۔ شاعر وہ بہت بڑے نہیں تھے''۔
عبادت بریلوی نے پروفیسر سید وزیرالحسن عابدی کے خاکے میں ان کا ذکر کیوں کیا ہے۔ اینگلو عربک کالج کے زمانے میں ''میں انھیں دور سے دیکھا کرتا تھا، ہر وقت رواں دواں، بے چین، مضطرب، کبھی کلاس میں کبھی دفتر میں، کبھی لان پر کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے، کبھی لائبریری میں، کبھی طالب علموں سے مشفقانہ انداز میں باتیں کرتے ہوئے، حد درجہ نستعلیق، مجموعی طور پر تہذیب و شائستگی کا مجموعہ''۔ پھر جب چند مہینے بعد عبادت بریلوی کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے عابدی صاحب کو علم کا ایک بحر ذخار پایا، ادبی ذوق صاف ستھرا، پاکیزہ اور گفتگو گل افشانی کے مانند۔ چنانچہ پہلی ہی ملاقات میں دوستی ہوگئی۔
عابدی صاحب کے ساتھ زندگی میں جو انصافیاں ہوئیں ان کا ذکر کرتے ہوئے عبادت بریلوی لکھتے ہیں ''عابدی صاحب اورنٹیل کالج میں 25 سال رہے۔ افسوس کہ وہ ریڈر کی حیثیت سے آئے اور ریڈر کی حیثیت سے ہی ریٹائر ہوئے۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں شاید ہی کسی قابل استاد کے ساتھ ایسا ستم ہوا ہو''۔
مشہور نقاد، شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت پر غلام رضوی گردش اپنے خاکے میں لکھتے ہیں ''فاروقی صاحب کا تنقیدی شعور کالرج، رچرڈس اور ایلیٹ کے زیر سایہ پروان چڑھا، جنھیں وہ تنقید کا بادشاہ کہتے ہیں انھوں نے ان مغربی نقادوں کے طریق کار اور استدلال کو اردو میں اپنانے کی پر خلوص کوشش کی ہے''۔ وہ تاثراتی تنقید کے نہیں عملی تنقید کے قائل ہیں۔
غلام رضوی گردش کے خیال میں فاروقی صاحب دور حاضر کے واحد نقاد ہیں جنھوں نے شعر و ادب کے سلسلے میں کچھ بڑے سوال اٹھائے ہیں۔ تاہم جب کہ شمس الرحمن فاروقی خود کہتے ہیں کہ ان کے نظریات کو مہلک، ماخوذ، رجعت پسندانہ، انتہائی غیر رسمی کسی حد تک نئے گم راہ کن کہا گیا ہے۔فارغ بخاری نے صہبا لکھنوی پر اپنے خاکے میں ان سے اپنی ملاقاتوں کا حال خود صہبا کی زبانی بیان کرنے کا انداز اختیار کیا ہے، لکھتے ہیں ''صہبا لکھنوی ہر دوست کا گرم جوشی سے استقبال کرتا ہے اور پھر جو بولنے پر آئے تو بولتا ہی چلا جاتا ہے کسی مائی کے لال میں یہ ہنر نہیں کہ اسے بریک لگاسکے''۔ (جاری ہے)
شخصی خاکوں کی پہلی جلد میں کچھ خاکوں کا ذکر ہوچکا ہے، اس میں ایک خاکہ راشد اشرف نے ''وقت کی قید سے لازوال'' قرار دیا ہے اور ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کے تعاون سے خصوصی طور پر شامل کیا ہے، سید ابو تمیم فرید آبادی کا تحریر کردہ ''چھوٹے ماموں جان۔ مولوی نواب مرزا ضمیر الدین'' کا ہے۔ اس خاکے کا تعارف انھوں نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ تحریر کی دل کشی نے ایسا سماں باندھ دیا ہے کہ جیسے وہ تمام کردار جن کا اس خاکے میں ذکر ہے آپ کے اردگرد زندہ موجود ہوں۔
دوسری جلد میں مظہر محمود شیرانی کا فیاض الملک حکیم منیر واسطی کا خاکہ دلچسپ ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''مجھ پر ان کی شفقت میرے والد مرحوم سے ان کی دلی محبت کا نتیجہ تھی۔ مجھے دیکھ کر انھیں اپنا بچھڑا ہوا جگری دوست یاد آجاتا تھا'' حکیم صاحب 1925 میں بھنبور سے لاہور آئے اور چونا منڈی میں مطب شروع کیا۔ ان کی تدریسی، تحقیقی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی قابل ذکر ہے لیکن ان کا اصل میدان طبابت تھا۔ اس شعبے میں انھوں نے حیران کن کارنامے انجام دیے اور بڑی شہرت حاصل کی۔
ن۔ م راشد کا خاکہ ان کے بیٹے شہر یار راشد نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کی یادیں راشد صاحب کی زندگی کے تین پہلوؤں کی حد تک ہیں۔ بطور باپ، بطور انسان اور بطور شاعر، لیکن وہ ان کی شاعری پر تنقید کی جسارت نہیں کرسکتے۔ شہریار نے راشد صاحب کی زندگی کے جن واقعات کا ذکر کیا ہے ان میں ن۔ م راشد کا ''اپنی گمنام سی جنم بھومی'' سے نکل کر لاہور آنا اور گورنمنٹ کالج میں کامیابی حاصل کرنا۔ دوسرا واقعہ ''ان برسوں سے متعلق ہے جب وہ بے روزگاری کے دن گزار رہے تھے اور تیسرا واقعہ ان کی فوجی ملازمت کا ہے جو انھوں نے برطانوی ہند کے نان کمبیٹ فوجی افسر کی حیثیت سے کولمبو، بغداد اور تہران میں گزارے'' جنگ کے بعد ن م راشد ریڈیو پاکستان میں آگئے پھر اقوام متحدہ کے دفتر اطلاعات میں جگہ مل گئی اور وہ اپنی فیملی سمیت نیویارک آگئے''۔ شہریار بتاتے ہیں کہ ان کے والد مزاج کے سخت تھے لیکن درگزر کرنے کی صفت بھی ان میں موجود تھی۔ راشد صاحب مشاعروں سے بیزار رہتے تھے، گنے چنے لوگوں کی محفل میں نظم سنانا پسند کرتے تھے۔
صادق نسیم نے مولانا عبدالمجید سالک کا خاکہ تحریر کیا ہے۔ صادق فوج میں تھے ان کا سالک صاحب سے تعارف عبدالعزیز فطرت نے کرایا تھا۔ پھر راولپنڈی میں قیام کے دوران اور بعد میں لاہور میں ان کے درمیان تعلق بڑھتا رہا۔ انھوں نے سالک کی شخصیت کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ لکھتے ہیں ''سالک صاحب کی زندگی میں فقرہ بازی کے اتنے واقعات ہیں کہ ان پر ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے''۔ ایک مرتبہ شعرا کے ایک استقبالیہ میں سوشلسٹ اور سرخوں کے متعلق فرمانے لگے ''سرخے اور شلغم ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کئی شلغم اوپر سے سفید اور اندر سے لال ہوتے ہیں اور کئی اوپر سے لال اور اندر سے سفید ہوتے ہیں اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں کہ جو اندر اور باہر دونوں طرف سے سرخ ہوں''۔
صادق نسیم لکھتے ہیں: جن دنوں ''انقلاب'' گھاٹے میں جارہا تھا میں سالک صاحب سے ملنے گیا۔ ''میں نے کہا، نام بدل کر کوئی دوسرا اخبار نکال لیں۔ زندگی میں پہلی اور آخری مرتبہ مجھ سے ناراض ہوئے۔ فرمانے لگے اس طرح بہروپ بدل بدل کر سامنے آکر ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہمارا وقت گزر گیا، نئی نسلیں آگئیں ان کی سوچ اپنی، ان کے اخبار اپنے، اب ہمارا نام تاریخ میں چلا جائے گا۔ یہی بہت ہے''۔
پنڈت آنند نارائن ملا کی شخصیت پر عابد سہیل اپنی تحریر میں لکھتے ہیں ''ملا صاحب فرد ہی نہیں اپنی ذات میں انجمن تھے، اردو سے ان کی محبت عملی تھی جذباتی نہیں تھی۔ شاعر وہ بہت بڑے نہیں تھے''۔
عبادت بریلوی نے پروفیسر سید وزیرالحسن عابدی کے خاکے میں ان کا ذکر کیوں کیا ہے۔ اینگلو عربک کالج کے زمانے میں ''میں انھیں دور سے دیکھا کرتا تھا، ہر وقت رواں دواں، بے چین، مضطرب، کبھی کلاس میں کبھی دفتر میں، کبھی لان پر کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے، کبھی لائبریری میں، کبھی طالب علموں سے مشفقانہ انداز میں باتیں کرتے ہوئے، حد درجہ نستعلیق، مجموعی طور پر تہذیب و شائستگی کا مجموعہ''۔ پھر جب چند مہینے بعد عبادت بریلوی کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے عابدی صاحب کو علم کا ایک بحر ذخار پایا، ادبی ذوق صاف ستھرا، پاکیزہ اور گفتگو گل افشانی کے مانند۔ چنانچہ پہلی ہی ملاقات میں دوستی ہوگئی۔
عابدی صاحب کے ساتھ زندگی میں جو انصافیاں ہوئیں ان کا ذکر کرتے ہوئے عبادت بریلوی لکھتے ہیں ''عابدی صاحب اورنٹیل کالج میں 25 سال رہے۔ افسوس کہ وہ ریڈر کی حیثیت سے آئے اور ریڈر کی حیثیت سے ہی ریٹائر ہوئے۔ یونیورسٹی کی تاریخ میں شاید ہی کسی قابل استاد کے ساتھ ایسا ستم ہوا ہو''۔
مشہور نقاد، شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت پر غلام رضوی گردش اپنے خاکے میں لکھتے ہیں ''فاروقی صاحب کا تنقیدی شعور کالرج، رچرڈس اور ایلیٹ کے زیر سایہ پروان چڑھا، جنھیں وہ تنقید کا بادشاہ کہتے ہیں انھوں نے ان مغربی نقادوں کے طریق کار اور استدلال کو اردو میں اپنانے کی پر خلوص کوشش کی ہے''۔ وہ تاثراتی تنقید کے نہیں عملی تنقید کے قائل ہیں۔
غلام رضوی گردش کے خیال میں فاروقی صاحب دور حاضر کے واحد نقاد ہیں جنھوں نے شعر و ادب کے سلسلے میں کچھ بڑے سوال اٹھائے ہیں۔ تاہم جب کہ شمس الرحمن فاروقی خود کہتے ہیں کہ ان کے نظریات کو مہلک، ماخوذ، رجعت پسندانہ، انتہائی غیر رسمی کسی حد تک نئے گم راہ کن کہا گیا ہے۔فارغ بخاری نے صہبا لکھنوی پر اپنے خاکے میں ان سے اپنی ملاقاتوں کا حال خود صہبا کی زبانی بیان کرنے کا انداز اختیار کیا ہے، لکھتے ہیں ''صہبا لکھنوی ہر دوست کا گرم جوشی سے استقبال کرتا ہے اور پھر جو بولنے پر آئے تو بولتا ہی چلا جاتا ہے کسی مائی کے لال میں یہ ہنر نہیں کہ اسے بریک لگاسکے''۔ (جاری ہے)