سندھ میں کیا ہونے والا ہے
بہت کہنہ مشق سیاست دان، صوبے کو سمجھنے جاننے والے یعنی مزاج شناس کہیے
بظاہروزیراعلیٰ تبدیل،MQM کے متوقع میئرگرفتار، رینجرزکے خصوصی اختیارات خاتمے کے بعد بحال، پاک فوج کے دوسپاہیوں کی شہادت سمیت ایسے درجنوں واقعات ظہور پذیر ہوئے جن کے ترتیب وار ذکر کے بعد لکھنے کو مزید کچھ نہیں رہ جاتا، لیکن جن کا ذکر ہوا اور جن کا نہیں ہوا آپ کے علم میں ضرور ہوں گے۔ان کے درمیان اگر کڑیاں ہیں یعنی کسی قسم کا رابطہ تو انھیں ملاکر کوئی تصویر بنالینی چاہیے اوراگر کوئی تعلق باہمی نہیں تو ماننا ہوگا دو دہائی کروڑ کے بڑے صوبے میں جو ہوا معمول کے مطابق گویا جہاں حضرت انسان تشریف فرما، وہاں غل غپاڑہ بھی، امن وامان بھی، دیکھیے نا وزیراعلیٰ کی تبدیلی خاص واقعہ نہیں۔ شاہ صاحب اچھے منتظم رہے۔
بہت کہنہ مشق سیاست دان، صوبے کو سمجھنے جاننے والے یعنی مزاج شناس کہیے، لیکن عمر کی کثرت کے باعث موجودہ دور میں صحت و یادداشت جیسے مسائل کا شکار، لہٰذا ان کی رخصتی اچھبنے کی بات نہیں۔ نہ ہی مراد علی شاہ، شاہ کا ان کی جگہ لینا عجیب، وہ سابق وزیراعلیٰ سندھ سیدعبداﷲ شاہ کے صاحبزادے ہیں۔ PPP سے جڑا ایک پرانا گھر، بھرپور وابستگی، وفاداری۔
اس موضوع پراگرکوئی بات نئی ہوسکتی ہے تو وہ یہ توقع کے یہاں حالات بدل جائیں گے۔ مراد علی شاہ کسی طوربااختیار وزیراعلیٰ رہ لیں گے۔ ادھر ادھر سے آئے ہوئے احکامات سے روگردانی کرسکیں گے، مجھے اس کی رتی برابر امید نہیں، کیونکہ احکامات حتمی ہوتے ہیں۔ کسی گنجائش کے بغیر، لہٰذا مانے بغیرچارہ نہیں۔ میں سندھ حکومت پر تبصرہ کرنے کو وقت کا قطعی زیاں سمجھتاہوں کیونکہ جہاں ایسے لوگ برسر اقتدار ہوں جو جس شاخ پر بیٹھے اسے علانیہ کاٹ رہے ہیں، زمانہ انھیں متنبہ کررہا ہے۔ آواز دے رہا ہے، ارے بھائی گرجاؤگے۔ زمین پر آرہے ہوں گے۔ تمہارا گھروندا بھی اسی شاخ کے ساتھ ٹوٹ جائے گا، لیکن نہیں سنتے۔ جیسے گونگے بہروں کے اسکول میں پوزیشن لیے بیٹھے ہوں جب دیکھو کرپشن، جہاں دیکھو لوٹ مار، جو سیاست کرتے ہیں توکرپشن کے لیے، تجارت کرتے ہیں توکرپشن کے لیے۔ ان پر آپ کیا ریمارکس دیں گے؟
کیسا مشورہ،کیسی نصیحت، بیکار ہے، البتہ وسیم اختر، رؤف صدیقی اورانیس قائم خانی کی گرفتاری کچھ دیر کے لیے موضوع بحث ہوسکتی ہے۔ میرا خیال ہے ادھر ادھر کی ہانکنے کے بجائے سیدھی بات کرلی جائے اور وہ سیدھی بات یہ ہے کہ مجھے سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا اگلا مرحلہ مکمل ہوتا نظر نہیں آتا کیوں کہ مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ہی کم از کم تین میئر شپ MQM جیت لے گی جن میں کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص سر فہرست ہیں۔ حالانکہ ماہ اگست کو اگلے مرحلے کے الیکشن کا مہینہ قرار دیتے ہوئے 24 اگست الیکشن کی تاریخ مقررکی گئی لیکن دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
میرے یقین نہ کرنے کی وجہ بہت صاف ہے۔ MQM کی اعلیٰ ترین قیادت سے ادنیٰ ترین قیادت پر انڈین خفیہ ایجنسی ''را'' سے تعلقات اور فنڈنگ کے الزامات بمعہ ثبوت ہیں، سرفراز مرچنٹ ہوں یا BBC کا ادارہ یا اسکاٹ لینڈ یارڈ۔ تب ایسے میں آپ کس طرح ایسی جماعت کے نمایندگان کو ملک کے سب سے بڑے شہر کی میئر شپ دے سکتے ہیں۔ جب کہ ان کے پاس واضح اکثریت ہے۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ لگائے گئے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں وہ جماعت جس کے کارکنان و چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہوں۔ اس پر اس قدر سنگین الزامات کے باوجود بھی اس کی حمایت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے۔ جہاں ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے وہاں بہت Strictly ڈیل کرنا ہوتا ہے۔
MQM پر ماضی میں بھی الزامات لگتے رہے ہیں لیکن بعد از تفتیش ان سے نکلا کچھ نہیں۔ بلکہ ان کی Position زیادہ صاف شفاف ہوئی۔ بعد میں بھی متواتر لگتے رہے حتیٰ کہ وہ الزامات کی بھٹی میں اس قدر پک چکے کہ اب کندن کہیں یا کوئلہ۔ بہر حال موجودہ صورتحال بھی اگراپنی پیشرو حالات سے مختلف نہیں تو مسائل پہلے سے زیادہ گمبھیر ہوجائیںگے ادھر بلدیات کے مراحل تکمیل کے آخری مرحلے میں داخل ہونے کو ہیں۔
سندھ میں کیا ہونے جارہاہے اس بارے میں پیشن گوئی تو ڈاکٹر ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن کچھ اندازے ہم جیسے لا علم بھی شاید قائم کرسکیں۔ مجھے صورتحال میں کوئی قابل ذکر اختلاف دکھائی نہیں دیتا، نئے وزیراعلیٰ کو چلانے والے ہاتھ بھی سابقہ ہیں اور پرانی MQM کے انداز و اطوار بھی وہی ، مرلو، گرفتار ہوجاؤ۔ لیکن جو سونے کی کان ہاتھ آگئی جسے کراچی کہتے ہیں اسے نہ چھوڑو۔ سندھ میں کچھ نہیں ہونے والا۔ کیوں کہ لٹیرے وہی، لٹنے والے بھی وہی۔ وہی منافرتیں، تعصبات، نسلی وفرقہ بندی، ذات پات کا ہزاروں سال پرانا دقیانوسی نظام، کاروکاری کرنا، کرپشن کو انعام سمجھنا، کچھ نہیں بدلا۔ ادھر صحرائے تھر میں بھوک وافلاس سے معصوم بچوں کی اموات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، روز 3،2 بچے سسک سسک کر مرجاتے ہیں ایک خبر بن جاتی ہے پڑھ بھی لی جاتی ہے لیکن ایسی خبروں پر دبئی خاموش، رائے ونڈ چپ، کہیں کوئی میٹنگ نہیں، کوئی Operation نہیں۔ میں نے سنا تھا آپ نے بھی سنا ہوگا۔ سندھ کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ قیامت سے 40 سال پہلے تباہ ہوجائے گا۔ مجھے اس سے رتی برابر اختلاف نہیں۔ اگرچہ پیشن گوئی ہے لیکن میں بس اس میں دو صفر کا اضافہ کرکے اسے 40 ہزار سال قبل کرنا چاہتاہوں کیوںکہ حالات کا خراب ہونا یا نامساعد ہونا خطۂ ارض پر کہیں بھی ممکن ہے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں، کرپشن ہوتی ہے لیکن امید کی شرح اتنی کم نہیں ہوتی جتنی ہمارے صوبے میں ہے۔ اصلاح احوال کی رمق ہر جگہ موجود۔ انسان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے لہٰذا آج وہ ارتقا سے آگے بڑھ سکا، ترقی کرسکا، قصہ مختصر یہ کہ دوستو! سندھ کے لیے ایک دفعہ میرے ایک دوست جنھیں تنہا پاتے ہی میں ان پر اپنی علمیت کے جھنڈے گاڑھنا شروع کردیتاہوں وہ مجھ سے ایک سوال ہمیشہ کرتے تھے کہ آخر یہ سندھ ایسے کب تک چلے گا۔ میں نے ایک دن ان کے سوالیہ استقلال سے تنگ آکر جواب دیا کہ ابے جاہل! سن یہ تو ایسے ہی چلے گا۔
بہت کہنہ مشق سیاست دان، صوبے کو سمجھنے جاننے والے یعنی مزاج شناس کہیے، لیکن عمر کی کثرت کے باعث موجودہ دور میں صحت و یادداشت جیسے مسائل کا شکار، لہٰذا ان کی رخصتی اچھبنے کی بات نہیں۔ نہ ہی مراد علی شاہ، شاہ کا ان کی جگہ لینا عجیب، وہ سابق وزیراعلیٰ سندھ سیدعبداﷲ شاہ کے صاحبزادے ہیں۔ PPP سے جڑا ایک پرانا گھر، بھرپور وابستگی، وفاداری۔
اس موضوع پراگرکوئی بات نئی ہوسکتی ہے تو وہ یہ توقع کے یہاں حالات بدل جائیں گے۔ مراد علی شاہ کسی طوربااختیار وزیراعلیٰ رہ لیں گے۔ ادھر ادھر سے آئے ہوئے احکامات سے روگردانی کرسکیں گے، مجھے اس کی رتی برابر امید نہیں، کیونکہ احکامات حتمی ہوتے ہیں۔ کسی گنجائش کے بغیر، لہٰذا مانے بغیرچارہ نہیں۔ میں سندھ حکومت پر تبصرہ کرنے کو وقت کا قطعی زیاں سمجھتاہوں کیونکہ جہاں ایسے لوگ برسر اقتدار ہوں جو جس شاخ پر بیٹھے اسے علانیہ کاٹ رہے ہیں، زمانہ انھیں متنبہ کررہا ہے۔ آواز دے رہا ہے، ارے بھائی گرجاؤگے۔ زمین پر آرہے ہوں گے۔ تمہارا گھروندا بھی اسی شاخ کے ساتھ ٹوٹ جائے گا، لیکن نہیں سنتے۔ جیسے گونگے بہروں کے اسکول میں پوزیشن لیے بیٹھے ہوں جب دیکھو کرپشن، جہاں دیکھو لوٹ مار، جو سیاست کرتے ہیں توکرپشن کے لیے، تجارت کرتے ہیں توکرپشن کے لیے۔ ان پر آپ کیا ریمارکس دیں گے؟
کیسا مشورہ،کیسی نصیحت، بیکار ہے، البتہ وسیم اختر، رؤف صدیقی اورانیس قائم خانی کی گرفتاری کچھ دیر کے لیے موضوع بحث ہوسکتی ہے۔ میرا خیال ہے ادھر ادھر کی ہانکنے کے بجائے سیدھی بات کرلی جائے اور وہ سیدھی بات یہ ہے کہ مجھے سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا اگلا مرحلہ مکمل ہوتا نظر نہیں آتا کیوں کہ مرحلے کی تکمیل کے ساتھ ہی کم از کم تین میئر شپ MQM جیت لے گی جن میں کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص سر فہرست ہیں۔ حالانکہ ماہ اگست کو اگلے مرحلے کے الیکشن کا مہینہ قرار دیتے ہوئے 24 اگست الیکشن کی تاریخ مقررکی گئی لیکن دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
میرے یقین نہ کرنے کی وجہ بہت صاف ہے۔ MQM کی اعلیٰ ترین قیادت سے ادنیٰ ترین قیادت پر انڈین خفیہ ایجنسی ''را'' سے تعلقات اور فنڈنگ کے الزامات بمعہ ثبوت ہیں، سرفراز مرچنٹ ہوں یا BBC کا ادارہ یا اسکاٹ لینڈ یارڈ۔ تب ایسے میں آپ کس طرح ایسی جماعت کے نمایندگان کو ملک کے سب سے بڑے شہر کی میئر شپ دے سکتے ہیں۔ جب کہ ان کے پاس واضح اکثریت ہے۔ ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ لگائے گئے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں وہ جماعت جس کے کارکنان و چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہوں۔ اس پر اس قدر سنگین الزامات کے باوجود بھی اس کی حمایت میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے۔ جہاں ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجائے وہاں بہت Strictly ڈیل کرنا ہوتا ہے۔
MQM پر ماضی میں بھی الزامات لگتے رہے ہیں لیکن بعد از تفتیش ان سے نکلا کچھ نہیں۔ بلکہ ان کی Position زیادہ صاف شفاف ہوئی۔ بعد میں بھی متواتر لگتے رہے حتیٰ کہ وہ الزامات کی بھٹی میں اس قدر پک چکے کہ اب کندن کہیں یا کوئلہ۔ بہر حال موجودہ صورتحال بھی اگراپنی پیشرو حالات سے مختلف نہیں تو مسائل پہلے سے زیادہ گمبھیر ہوجائیںگے ادھر بلدیات کے مراحل تکمیل کے آخری مرحلے میں داخل ہونے کو ہیں۔
سندھ میں کیا ہونے جارہاہے اس بارے میں پیشن گوئی تو ڈاکٹر ہی کرسکتے ہیں۔ لیکن کچھ اندازے ہم جیسے لا علم بھی شاید قائم کرسکیں۔ مجھے صورتحال میں کوئی قابل ذکر اختلاف دکھائی نہیں دیتا، نئے وزیراعلیٰ کو چلانے والے ہاتھ بھی سابقہ ہیں اور پرانی MQM کے انداز و اطوار بھی وہی ، مرلو، گرفتار ہوجاؤ۔ لیکن جو سونے کی کان ہاتھ آگئی جسے کراچی کہتے ہیں اسے نہ چھوڑو۔ سندھ میں کچھ نہیں ہونے والا۔ کیوں کہ لٹیرے وہی، لٹنے والے بھی وہی۔ وہی منافرتیں، تعصبات، نسلی وفرقہ بندی، ذات پات کا ہزاروں سال پرانا دقیانوسی نظام، کاروکاری کرنا، کرپشن کو انعام سمجھنا، کچھ نہیں بدلا۔ ادھر صحرائے تھر میں بھوک وافلاس سے معصوم بچوں کی اموات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، روز 3،2 بچے سسک سسک کر مرجاتے ہیں ایک خبر بن جاتی ہے پڑھ بھی لی جاتی ہے لیکن ایسی خبروں پر دبئی خاموش، رائے ونڈ چپ، کہیں کوئی میٹنگ نہیں، کوئی Operation نہیں۔ میں نے سنا تھا آپ نے بھی سنا ہوگا۔ سندھ کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ قیامت سے 40 سال پہلے تباہ ہوجائے گا۔ مجھے اس سے رتی برابر اختلاف نہیں۔ اگرچہ پیشن گوئی ہے لیکن میں بس اس میں دو صفر کا اضافہ کرکے اسے 40 ہزار سال قبل کرنا چاہتاہوں کیوںکہ حالات کا خراب ہونا یا نامساعد ہونا خطۂ ارض پر کہیں بھی ممکن ہے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں، کرپشن ہوتی ہے لیکن امید کی شرح اتنی کم نہیں ہوتی جتنی ہمارے صوبے میں ہے۔ اصلاح احوال کی رمق ہر جگہ موجود۔ انسان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے لہٰذا آج وہ ارتقا سے آگے بڑھ سکا، ترقی کرسکا، قصہ مختصر یہ کہ دوستو! سندھ کے لیے ایک دفعہ میرے ایک دوست جنھیں تنہا پاتے ہی میں ان پر اپنی علمیت کے جھنڈے گاڑھنا شروع کردیتاہوں وہ مجھ سے ایک سوال ہمیشہ کرتے تھے کہ آخر یہ سندھ ایسے کب تک چلے گا۔ میں نے ایک دن ان کے سوالیہ استقلال سے تنگ آکر جواب دیا کہ ابے جاہل! سن یہ تو ایسے ہی چلے گا۔