سرکاری رہائشی منصوبوں کا فقدان
پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں غریبوں کو رہائشی سہولیات دینے پر توجہ دی گئی تھی
CAIRO:
ملک میں اپنی رہائش ایک اہم ترین مسئلہ بن کر رہ گئی ہے اور ملک کے ان غریبوں کو جن کے پاس ذاتی گھر موجود نہیں اس مہنگائی کے دور میں ان کے لیے کرایوں کے گھروں میں رہنا ایک عذاب بن گیا ہے اور اس اہم مسئلے کا احساس صرف ان لوگوں کو ہے جنھیں ذاتی گھر میسر نہیں اور کرائے کے گھروں میں رہ رہے ہیں وہاں بھی ان کی زندگی عذاب بنی رہتی ہے۔
تقریباً پچاس سال قبل جب پیپلزپارٹی قائم ہوئی تھی کہ جس کے بانی نے ملک کے عوام کو ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا دلکش نعرہ دے کر اپنی پارٹی کو عوام میں مقبول بنایا تھا کیوں کہ اس سے قبل یہ نعرہ کسی پارٹی نے بلند نہیں کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے بانی نے ملک کے غریبوں کو ایک خواب دکھایا تھا۔ جس کو وہ اپنے چھ سالہ مکمل اقتدار میں پورا تو نہ کرسکے تھے مگر ان کے بعد بھی پیپلزپارٹی تین بار اقتدار میں آئی اور وہ اپنے قائدکا اعلان توکیا پورا کرتی اس نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ ہی بھلادیا اور اقتدار میں آکر آؤ ملک سے باہر محلات بناؤ، کرپشن کے ریکارڈ قائم کرو، اپنوں کو نوازو اور غریبوں کو بھول جاؤ کے مشن کو اپنالیا اور پی پی پی کے چار ادوار میں عوام کو اپنا مکان توکیا ملنا تھا غریبوں سے روٹی چھین لی گئی اور جسم پر پھٹے پرانے کپڑے ہی رہ گئے۔
مسلم لیگ پاکستان بنانے کی دعویدار جماعت ہے جو قائد اعظم کی رحلت کے بعد یتیم ہوکر غریبوں کو اپنا نہ سکی اور ملک میں مختلف گروپوں کے نام سے سب سے زیادہ اقتدار میں رہی اور اس نے بھی غریبوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ملک کی تیسری بڑی ملک گیر بڑی جماعت تحریک انصاف بھی ہے جس سے 2013 میں عوام نے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں اور کے پی کے کے عوام نے پی ٹی آئی کو اپنا صوبائی اقتدار بھی دیا مگر اس کے قائد کو وزیراعظم بننے کی سب سے زیادہ فکر ہے مگر اپنے صوبے میں غریبوں کو گھر توکیا پلاٹ بھی دینے کی بھی فکر نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں غریبوں کو رہائشی سہولیات دینے پر توجہ دی گئی تھی اور سرکاری طور پر متعدد رہائشی منصوبوں میں کم قیمت اور قسطوں پر پلاٹ بھی دیے گئے مگر پی پی پی کے زرداری دور کے پانچ سالوں میں سرکاری رہائشی منصوبوں پر توجہ نہیں دی گئی اور جس نئے شہر ذوالفقار آباد کا اعلان ہوا تھا۔ اب تک سندھ حکومت 8 سالوں میں یہ شہر بھی نہ بنواسکی مگر عوام کی سب سے زیادہ خدمت کے دعوے اب بھی ہیں۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت صوبہ سندھ میں کررہی ہے جس کے 8 سالہ اقتدار میں سندھ میں صرف کاغذی اور زبانی ترقی کے سوا ہر طرف کرپشن اور اقربا پروری ہی کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور ترقی کہیں نظر نہیں آرہی۔ سندھ کے حکمرانوں کے لندن، یو اے ای، امریکا اور دیگر ملکوں میں قیمتی محل اور گھر ہیں مگر انھوں نے 8 سالوں میں سندھ میں کسی ایک غریب کوجھونپڑی تک فراہم نہیں کی۔
پی پی پی کے اہم وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے اپنے دور میں اندرون سندھ سیلاب سے متاثر ہونے والوں کو پلاٹ، فلیٹ اور گھر فراہم کرنے کا وعدہ کرکے کراچی بلالیا تھا جن کے عارضی رہائشی کیمپ کافی عرصے تک قومی شاہراہوں کے اطراف نظر آئے مگر بعد میں کئی سالوں تک ان سیلاب متاثرین کو کسی نے نہ پوچھا اور خوار ہوکر بہت سے واپس لوٹ گئے اور واپس نہ جانے والوں کی خواتین کراچی میں مساجد کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے نظر آتی ہیں، جو بچوں سمیت مساجد کے باہر بھیک مانگ کر گزارا کرتی نظر آتی ہیں۔
اس وقت پنجاب اور بلوچستان میں مسلم لیگ ن، سندھ میں پیپلزپارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں داخل ہوچکی ہیں مگر تینوں حکومتوں نے تین سالوں میں اپنے عوام کے رہائشی منصوبوں کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے اقتدار میں آنے کے بعد کم آمدنی والے شہریوں کے لیے سالانہ دس لاکھ مکانات تیار کرکے کم قیمت پر فراہم کرنے کا وعدہ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں کیا تھا جو تین سال گزر جانے کے بعد بھی وفا نہ ہوسکا۔
اس سلسلے میں وزارت ہاؤسنگ کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا جو صرف اپنا گھرکمیٹی کی تشکیل سے آگے نہ بڑھ سکا، ملک میں رہائش سہولیات کی فراہمی میں دلچسپی نہیں لی گئی اور رہائشی مسئلہ تشویشناک صورتحال اختیار کرچکا ہے اور ملک میں مکانوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مہنگائی کے باعث مکانوں کے کرائے بھی مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ملک کے بڑے شہروں میں مکانوں کے کرائے ،کرائے داروں کی پہنچ سے بہت زیادہ باہر ہوچکے ہیں مگر وہ مہنگے کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور اپنے اخراجات کنٹرول کرکے ہی کرائے کے گھروں میں رہ پا رہے ہیں جو ظاہر ہے سڑکوں پر نہیں رہ سکتے۔ بڑے شہروں میں تنہا رہنے والے غریب مزدور ہزاروں کی تعداد میں فٹ پاتھوں اور پارکوں میں بھی سوکر وقت گزار رہے ہیں اور بہت سے لوگ ایک کمرہ کرائے پر لے کر مشترکہ طور پر کرایہ جمع کرکے نہ رہنے جیسی جگہوں پر رہ رہے ہیں بڑے شہروں میں لاکھوں افراد ندی نالوں کے کنارے بدبو میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں کرائے تو کم ہیں مگر انھیں جانی نقصان کے باوجود دوسرا سہارا نظر نہیں آتا۔
اے سی دفاتر، گاڑیوں اور گھروں میں رہنے والے حکمرانوں، سیاست دانوں، ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کو ملک کے غریبوں کا رتی برابر بھی احساس نہیں ہے انھیں صرف ذاتی مفاد عزیز ہے۔کراچی میں کئی سال قبل سرکاری طور پر شہر سے باہر تیسر ٹاؤن منصوبے میں رہائشی پلاٹ دیے گئے تھے جن کی رقم وصول کرنے کے بعد سندھ حکومت بھول گئی اور کئی سال گزرنے کے بعد وہاں ترقیاتی کام شروع ہوئے ہیں نہ وہاں گڑھوں کو بھرواکر پلاٹوں کا قبضہ دیا جارہاہے جس کی وجہ سے پلاٹوں کی کوئی ویلیو نہیں ہے۔
ڈیڑھ سال قبل لاہور میں سرکاری طور پر لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ایل ڈی اے سٹی کی خوشنما اشتہارات اخبارات میں دے کر ایک مہنگے رہائشی منصوبے کا اعلان کیا تھا جو گجو متہ سے آگے ہے اور وہاں پلاٹ بک کرانے والوں کو سنہری خواب دکھائے تھے مگر وہاں اب بھی فصلیں اگائی جارہی ہیں کوئی ترقیاتی کام نہیں کرایا گیا جب کہ ڈیڑھ سالوں میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا اعلان کیا تھا اور کروڑوں روپے وصول کرکے بھی تعمیری کام پر توجہ نہیں دی گئی۔
ملک بھر میں سرکاری طور پر رہائشی منصوبے نہ بنائے جانے کی وجہ سے نیم سرکاری ادارے اور نجی تعمیری ادارے اپنے سیکڑوں منصوبوں کا نہ صرف اعلان کرچکے ہیں بلکہ اکثر نے تعمیری و ترقیاتی کام بھی شروع کراچکے ہیں مگر یہ منصوبے متوسط طبقے کی پہنچ میں ہیں غریبوں کو وہاں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اور تمام رہائشی منصوبے تجارتی بنیاد پر بنائے گئے ہیں اور سرکاری منصوبوں کے برعکس کامیاب ہیں، تینوں بڑی پارٹیوں کے پاس اب دو سال سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اس لیے کم قیمت مکانوں کی تعمیر تو ناممکن نظر آتی ہے مگر بے گھر غریبوں کے لیے سستے پلاٹوں کے منصوبے ہی دے دیے جائیں اور اعلان شدہ منصوبوں میں بنیادی سہولتیں دے کر پلاٹوں کی فراہمی پر ہی توجہ دے لی جائے۔