مقامی حکومتیں شہری مسائل اور نئے وزیر اعلیٰ سندھ

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقامی حکومت کی تشکیل ایک پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے


Dr Naveed Iqbal Ansari August 02, 2016
[email protected]

TEHRAN: مقامی حکومت سے عام طور پر وہ انتظامی ادارہ مراد لیا جاتا ہے جو لوگوں کی روز مرہ زندگی پر اثرانداز ہونے والے معاملات کو دیکھتا ہے۔ اس میں مقامی سطح پر مقامی لوگوں کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کو شش کی جاتی ہے۔ مقامی ادارے جمہوریت کے لیے وہی کام کرتے ہیں جو علم کے حصول کے لیے پرائمری تعلیمی ادارے کرتے ہیں۔ اس سے عوام کی سیاسی تربیت بھی ہوتی ہے اور ان میں سیاسی شعور بھی بڑھتا ہے۔

ہمارے ہاں جمہوری حکومتوں کے ادوار میں عموماً مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے اور ان کے منتخب نمایندوں کو کام کرنے میں مدد دینے کے بجائے الٹا رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ آمر حکومتوں کو قومی سطح کی سیاسی قیادت کی چونکہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے انھیں نئے عوامی نمایندوں کی ضرورت پڑتی ہے چنانچہ کسی بھی مارشل لاء حکومت کی ترجیح مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانا ہوتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مقامی حکومت کی تشکیل ایک پیچیدہ مسئلہ ہوتا ہے جس میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کس مقام پر مرکزی حکومت کے اختیارات ختم ہوں اورکہاں سے مقامی حکومتوں کے اختیارات شروع ہوں۔ ایک عام تقسیم تو یہ ہوتی ہے کہ ایسے ملکی معاملات جو ملکی سلامتی کے لیے اہم ہوں وہ مرکزی حکومت کی تحویل میں دیے جاتے ہیں اور ایسے معاملات جو قومی مفادات کے ہوں ، انھیں صوبائی حکومتوں جب کہ روز مرہ زندگی پر اثرانداز ہونے والے معاملات مقامی حکومتوں کے سپرد کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کی تشکیل کے وقت ان اصولوں کو نظرانداز کرکے گروہی اور ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ نظام اپنی افادیت کھودیتا ہے۔

سندھ میں بلدیاتی انتخابات جو عدالتی حکم پر باحالت مجبوری ہوئے انھیں اختیارات کا نہ دیا جانا سیاسی بدنیتی ظاہرکرتا ہے۔ کسی ریاست میں مقامی حکومت کے ادارے جمہوریت کی بقاء اور مضبوطی میں وہی کام انجام دیتے ہیں جوصوبائی اور وفاقی حکومت کے ادارے اور ان کے نمایندے انجام دیتے ہیں۔ مقامی یا بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینے کے عمل سے ایک بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ عوامی ووٹوں کی قوت بجائے عوامی نمایندوں کے نوکر شاہی کے ہاتھ آجاتی ہے۔ موجودہ حالات میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سندھ میں افسرشاہی کا راج ہے اور عوام کے علاقائی مسائل میں اضافہ ہی ہورہا ہے خاص کر کراچی جیسے بڑے شہر میں مسائل کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔

یہ سوال بڑا اہم ہے کہ وہ سیاسی قوتیں جو مارشل لاء دور میں عوام کے لیے اقتدارکی منتقلی کی بھرپور جدوجہد کرتی ہیں اور کوڑوں اور قیدوبند کی سزائیں جھیلتی ہیں وہ ہی قوتیں آج مقامی حکومتوں ، ان کے منتخب نمایندوں کو اختیارات دینا نہیں چاہتیں۔ کراچی شہرکی مثال لے لیں ، پرویز مشرف کے دور میں سٹی ناظم کو اختیارات دیے گئے تو شہر میں دن رات ترقیاتی کام ہوتے رہے، شہر کے ہر علاقے اورکونے میں پل اور سڑکیں بنائی گئیں، شہر میں تاریخی کام ہوئے جو شاید آیندہ نہ ہو ں۔

جب کہ اس وقت کراچی شہر کی ابتر صورتحال کچھ یوں ہے کہ پانی کے بل تو شہریوں کو پابندی سے وصول ہو رہے ہیں جب کہ شہر کے اکثر علاقوں میں پانی کے حصول کے لیے انھیں اپنا پیسہ اوروقت برباد کرنا پڑ رہا ہے۔صبح فجر سے لوگوں کی بڑی بڑی قطاریں پانی کے ٹینکر کے حصول کے لیے لگانی پڑرہی ہے اور کہیں میٹھے پانی کے لیے کولر اور بوتلیں لے کر ٹریٹمنٹ پلانٹ پر کھڑا ہونا پڑرہا ہے،کوئی منرل واٹر کے گیلن اوربوتلیں گھر پرمنگوا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مفت میں نہیں ہورہا ہے بلکہ اس سب پر شہریوں کا کثیرپیسہ خرچ ہورہا ہے۔

ایک ٹینکر تین ہزار روپے سے کم میں دستیاب نہیں اوراس کے لیے بھی لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ اسی طرح گھر پر کم قیمت والا منرل واٹر کا کین بھی اسی روپے سے کم نہیں یوں ایک خاندان جوروزانہ ایک سے دو واٹرکین استعمال کرتا ہے اس کے ماہانہ دوہزار سے زائد پینے کے پانی میں خرچ ہورہے ہیں اور جو ٹینکر استعمال کرتا ہے ، اس کے اس سے بھی کہیں زائد پیسے ہر مہینے پانی پر خرچ ہورہے ہیں اور اس پر ظلم یہ ہے کہ سرکاری ادارے انھیں باقاعدگی سے پانی کا بل بھیج رہے ہیں اور جو شہری یہ بل ادا نہیں کرتے انھیں بل کے ساتھ یہ نوٹس دیا جاتا ہے کہ اگر مطلوبہ رقم ادا نہ کی گئی تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔

پینے کے پانی کے بعد سیوریج کے پانی یعنی نکاسی آب کی بھی صورتحال خراب تر ہے،کراچی شہر کے چھوٹے علاقے تو ایک طرف پوش علاقوں میں بھی منظر کچھ اسطرح ہے کہ ہزار ، ہزار گز کے خوبصورت بنگلوں کے سامنے سیوریج کا پانی جمع ہے، جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں جس کے باعث سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔صحت کے مراکز کی صورتحال بھی قابل رحم ہے، سرکاری اسپتال لوگ جانا ہی پسند نہیں کرتے، مجبوری میں اور بات ہے۔

شہر کا ایک اہم ترین مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کا ہے، اس طرف نظر ڈالیں تو لگتا ہی نہیں کہ اس شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام ہے۔ کوئی ملازم پیشہ آدمی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکرکے اپنے آفس جانے کے قابل نہیں رہتا۔ گرمی، پسینے میں حلیہ اس قدر خراب ہوجاتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ خواتین اور بزرگ کے لیے ان ٹرانسپورٹ میں سفر بہت ہی مشکل ہے، ٹرانسپوٹرکی خصلتیں اور بدتمیزیاں ناقابل برداشت ہیں۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے ہمیشہ اس شہر میں کسی بھی ایسے منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جو کہ شہریوں کے لیے متبادل سفری سہولت فراہم کرتا ہو۔

اس وقت کراچی شہر کے لیے لاہور کے اورنج بس منصوبے کی طرز پر نارتھ کراچی کے روٹ پر نیا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، اس منصوبے پر عمل کے لیے نارتھ کراچی کے ایک طویل ترین ٹریک کی گرین بیلٹ ختم کردی گئی ہے، شہر میں پہلے ہی سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے میں اس گرین بیلٹ کے بڑے درختوں کو کہیں اور منتقل کردیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا، نیز شجرکاری کی ایک بڑی اور منظم مہم کی بھی ضرورت تھی مگر ایسا نہیں ہوا، شاید اس لیے کہ مقامی حکومت کا وجود ہی نہیں، منتخب نمایندے ہی موجود نہیں کہ جنھیں عوام کو جواب دہی کا خوف ہو۔

بہرکیف منظر نامہ بتا رہا ہے کہ اس شہر کی صورتحال انتہائی ابتر ہے جس کو بہتر اس وقت ہی بنایا جا سکتا ہے کہ جب مقامی حکومت کے منتخب نمایندوں کو مکمل اختیا رات دیے جائیں، اس وقت ایک بڑا تاثر یہ بھی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں اختیارات کا یہ مسئلہ اس وجہ سے بھی ہے کہ کچھ قوتیں ایم کیو ایم کے نمایندوں کو یہ اختیارات دینا نہیں چاہتیں۔

بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ شہریوں کا ہے جس میں سب ہی لوگ شامل ہیں خواہ وہ کسی بھی رنگ ونسل اور جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، ان مسائل سے سب ہی پریشان ہیں، قوی امکان ہے کہ اس عمل سے کسی جماعت کو اختیارات سے محروم تو کیا جا سکتا ہے لیکن ردعمل میں اس جماعت سے شہریوں کی ہمدردیاں مزید بڑھ جائیں گی، کیونکہ یہ اس ملک کے عوام کا طرز عمل رہا ہے کہ وہ جس کو مظلوم دیکھتے ہیں پھر اس ہی کو منتخب کرڈالتے ہیں۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ آچکے ہیں اورعوام امید کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل میںانتہائی اہم کردار ادا کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔