لاہورمیں بچوں کے اغواء کے بڑھتے واقعات کے پیچھے کون

پولیس نے بچوں کے گھروں سے غائب ہونے کی وجہ والدین کا رویہ قرار دے کر جان چھڑا لی ہے

پولیس نے بچوں کے گھروں سے غائب ہونے کی وجہ والدین کا رویہ قرار دے کر جان چھڑا لی ہے ۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR:
تصور کیجئے آپ کا بچہ گلی میں کھیل رہا ہویا برابر والی دکان سے کچھ خریدنے جائے اور پھر گھنٹوں گزر جائیں اور وہ واپس لوٹ کر نہ آئے، تو آپ کی کیا حالت ہو گی؟اس وقت لاہور کے بعض علاقوں میں کئی والدین اسی دُکھ اور کرب سے گزر رہے ہیں۔ کسی کا بچہ گلی سے تو کسی کا کھیل کے میدان سے غائب ہوا ۔ کسی کا لخت جگر محلے کے بازار سے تو کسی کے دل کا ٹکڑا اسکول سے واپسی پر راستے ہی سے غائب ہوگیا۔

یہ تمام غمزدہ والدین گزشتہ کئی ماہ سے تھانوں کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر کہیں سے کوئی شنوائی نہیں ہے ۔اگر کسی کا بچہ یا عزیر اس دنیا سے چلا جائے تو وہ کچھ دن رونے دھونے کے بعد بالآخر قدرت کے فیصلے پر راضی ہو کر صبر کر لیتا ہے لیکن اگر کسی کا عزیز کچھ اس طرح سے اچانک لاپتہ ہو جائے کہ اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جائے کہ وہ اغواء کیا گیا ہے یا پھر جبری گمشدگی کا نشانہ بنا ہے ، ایسے میں ان لاپتہ بچوں یاا فراد کے اہل خانہ پر ہر دن قیامت بن کر آتا ہے ۔

وہ اپنے بچے کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میںقطعی لاعلم ہونے کی وجہ سے طرح طرح کے اندیشے کی وجہ سے مسلسل غم میں گھلتے رہتے ہیں۔ لاہور میں بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد اخبارات میں غمزدہ والدین کی تصاویر اور فریادیں مسلسل شائع ہو رہی ہیں جبکہ پولیس اپنے روایتی موقف میڈیا کے سامنے بیان کر رہی ہے جس کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں،غیر رجسٹرڈ آباد کاروں کی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں، جلد آپریشن کیا جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔ پولیس کے بعض اخباری بیانات میں شہر لاہور میں آباد افغان مکینوں کے خلاف سرچ آپریشن کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔

اس سارے منظر نامے میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ ماضی میں بچوں کے اغواء کے واقعات تو کبھی کبھار سامنے آتے تھے لیکن جو تیزی گزشتہ چار ماہ میں آئی ہے کیا اس کا سارا ملبہ افغان پناہ گزینوں پر ڈال کر پولیس اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو سکتی ہے۔ غیر قانونی باشندوں کے خلاف قانونی کارروائی اپنی جگہ اہم ہے لیکن انہیں یک دم بچوں کا اغواء کار قرار دے کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار کس منطق کے تحت درست تسلیم کیا جائے۔



اخباری اطلاعات کے مطابق رواں سال میں جنوری سے جولائی کے دوران 6 ماہ میں صوبے بھر میں 652 بچے اغواء اور لاپتہ ہوئے ہیں۔ میڈیا کو پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ان اغواء یا گمشدہ بچوں میں سے 312کا تعلق لاہور سے ہے جبکہ راولپنڈی سے 62،فیصل آباد سے 27، ملتان سے 25 اور سرگودھا سے 24بچے اغواء ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ سے لاہور کے علاقے بادامی باغ میں اغواء کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ پولیس کے مطابق اب تک صرف بادامی باغ میں ایک درجن کے قریب بچوں کی گمشدگی کے واقعات کی پولیس کو اطلاع ملی ہے ۔

اس کے علاوہ لاہور کے دیگر علاقوں میں گزشتہ چند ہفتوں میں 15سے زیادہ بچوں کے اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں راوی روڈ ،داتا دربار، بھاٹی گیٹ، مغلپورہ اور باغبانپورہ کے علاقے شامل ہیں۔ان میں سے تاحال کسی بھی بچے کے بازیاب ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔یہ تحریر لکھتے ہوئے سامنے ٹی وی پر ایک خبر چل رہی ہے جس کے مطابق لاہور کے علاقے باغبان پورہ میں عوام نے تین افراد کو اس شک کی بنیاد پردھر لیا کہ وہ بچوں کے اغواء کار ہیں ۔

انہیں شدید تشدد کے بعد پولیس کے حوالے کیا گیا ۔جب پولیس اور جرائم کی کھوج لگانے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں مناسب طریقے سے ادا نہیں کریں گے تو پھر بپھرے ہوئے عوامی ہجوم خود ہی چوکوں اور چوراہوں میں عدالتیں لگائیں گے اور تشدد کا شکار ہونے والے افراد کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکے گی۔حکومت اور پولیس کو عوام میں بڑھتے ہوئے اس اشتعال کے اسباب پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ورنہ ملک کے بڑے شہر مستقبل میں بڑے پیمانے پر لاقانونیت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بچوں کے اغواء کے حالیہ واقعات کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ مثاثرہ عوام کی جانب سے اب تک صرف لاہور میں بچوں کے اغواء کی 181 ایف آئی آرز درج کرائی گئی ہیں جبکہ کئی کیس شہریوں کی جانب سے اندراج مقدمہ نہ کروانے کی وجہ سے پولیس نے ازخود عدالتوں میں بھیجے ہیں تاکہ اندراج مقدمہ کے احکامات حاصل کیے جاسکیں ۔

پنجاب پولیس کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود جرائم کے اعدادو شمار کے مطابق سال 2016ء میں پنجاب بھر میںمجموعی طور پر 5649 اغواء کی شکایات درج ہوئیں جن میں سے 2256کینسل کی گئیں جبکہ باقی پر تفتیش جاری ہونے کا دعویٰ ہے۔ ابھی دو دن قبل پنجاب اسمبلی کی ایک رکن حنا پرویز بٹ نے پنجاب اسمبلی سکریٹریٹ میں ایک قرارداد بھی پیش کی جس کے مطابق پنجاب اسمبلی کو ایسی مؤثر قانون سازی کی تجویز دی گئی ہے جس کے ذریعے بچوں کے اغواء کے ان دل دہلا دینے والے واقعات پر قابو پایا جا سکے۔

اس سے قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی نے بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کا از خودنوٹس لیتے ہوئے اس نوع کے مقدمات کے لیے خصوصی بنچ قائم کرنے کی ہدایت کی تھی ۔نئے تشکیل پانے والے ان بنچوں میں میاں ثاقب نثار اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل خصوصی بینچ آئینی اور سول مقدمات کے علاوہ بچوں کے اغواء کے مقدمات کی سماعت کرے گا جبکہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ،جسٹس عمر عطاء بندیال اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نمبر دو فوجداری نوعیت کے مقدمات اور اپیلوں کی سماعت کرے گا۔



مذکورہ بالا اعداد شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال خصوصا حالیہ چھ ماہ میں لاہور سے بچوں کو اغواء کیے جانے کے واقعات غیر معمولی طور پر بڑھے ہیں اور ان وارداتوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان جرائم پیشہ عناصر کے پیچھے انتہائی منظم اور مؤثر قسم کے گروہ موجود ہیں جن تک پہنچنے میں پولیس اور تفتیشی ادارے تاحال ناکام ہیں۔ ہمارے ملک میں جرم کے بڑے واقعات کے بعد تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں جن سے متعلق خبریں دو چار دن تک اخبارات کی زینت بننے کے بعد نئے ایشوز تلے دب جاتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار سپریم کورٹ کی جانب سے لیا جانے والا ازخود نوٹس مثبت نتائج دے پاتا ہے یا نہیں ۔کیا پولیس اور سراغ رساں ادارے اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرتے ہوئے اپنی قانونی و اخلاقی ساکھ اور عوامی اعتمادحاصل کر پائیں گے یا نہیں؟

یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں حکومت پنجاب نے پنجاب پولیس کو جدید ترین آلات سے لیس کرنے ، انہیں بے شمار سہولیات دینے اور جدید پیشہ وارانہ تکنیکیں سکھانے کے بہت سے دعوے کیے ہیں ۔ابھی چند ماہ قبل اسڑیٹ کرائمز کو روکنے کے لیے ''ڈولفن فورس'' کے نام سے ایک نئی پولیس فورس بھی بنائی گئی ہے۔

اس پولیس فورس میں تازہ دم نوجوانوں کو مہنگی ہیوی بائیکس ، جدید ترین اسلحہ اور الیکٹرانک ڈیوائسزفراہم کی گئی ہیں۔ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ شہر کی گلیوں اور شاہراہوں پر مسلسل گشت کریں گے اور جرائم پیشہ افراد کی فوری بنیادوں پر سرکوبی کریں گے۔ اس نئی بننے والی ڈولفن فورس کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس فورس کے تشکیل پانے کے کچھ ہی عرصے بعد اس کے کچھ اہل کاروں کے خلاف رشوت لینے کے واقعات پر مبنی خبریں اخبارات کی زینت بنیں اور عوام کی جانب سے کچھ شکایتی خطوط بھی اخبارات کو موصول ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت پنجاب قومی خزانے میں سے اتنے بھاری اخراجات اٹھا کر اگر اس نوع کی پولیس فورسز بنائے جن کی کارکردگی سرکاری پیٹرول خرچ کرنے اور حکومت سے بھاری تنخواہیں لینے کے سواکچھ نہیں تو اس قسم کے حکومتی اقدامات کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ ایسے اداروں کی تشکیل کے وقت تو حکومت پنجاب کی جانب سے ایسی تشہیر کی جاتی ہے جس سے عوام میں امید پیدا ہوتی ہے لیکن عملی طور پر اس کا نتیجہ صفر ہوتا ہے۔

عوام کے پولیس پر عدم اعتماد کی بڑی وجہ بھی خود یہی ادارہ ہے ۔ چار دن قبل ملک بھر کے اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ لاہور کے ایک پولیس افسر نے ایک نوجوان لڑکی کوجو اپنے گھر کے باہر کھڑی تھی، اپنے ساتھی اہلکاروں کی مدد سے زبردستی اٹھایا اور فرنیچر کے ایک شوروم میں لے جا کر اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی ۔علاوہ ازیں دو ماہ قبل لاہور ہی کے ایک اور اعلیٰ پولیس افسر کے خلاف جنسی زیادتی کا مقدمہ درج ہوا اور کئی دنوں تک اس کی بازگشت میڈیا میں سنی گئی۔ ان حالات میں عوام پریشان ہیں کہ وہ پولیس کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں یا پھر اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ گردانیں۔ تھانوں سے عوام کی بیزاری کا حال یہ ہے کہ اگر وہ سرراہے لُٹ جائیں یا ان کے ساتھ کوئی چوری وغیرہ کی واردات ہوجائے تو وہ بجائے تھانے میں شکایت درج کرانے کے محض ڈاکوؤں کو بددعا دینے پر اکتفاء ہی کافی سمجھتے ہیں۔



تھانوں میں متعین عملہ جس توہین آمیزانداز میں سائلین کے ساتھ گفتگو کرتا ہے ،اس کو دھیان میںلا کر کوئی بھی شریف آدمی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے ازالے کے لیے ادھر کا رخ نہیں کرتا۔ یہاں حکومت اور بالخصوص پولیس کے محکمے کے پڑھے لکھے ذمہ داران کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ وہ اپنی فورس کو اب تک کیوں عوام دوست بنانے میں ناکام ہیں۔وہ کیوں ایسے اقدامات اور تربیتی کورسز نہیں کراتے جن سے تھانوں میں تعینات اہل کاروں کے رویوں کی اخلاقی بنیادوں پر تربیت کی جا سکے؟

گزشتہ برس 16اگست کو پنجاب کے وزیر داخلہ کرنل(ر)شجاع خانزادہ کو نامعلوم دہشت گرد نے خودکش دھماکہ کر کے قتل کر دیا تھا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ایک سال ہونے کو ہے مگرابھی تک حکومت پنجاب کونئے وزیر داخلہ کے لیے پورے پنجاب سے کوئی بھی ایسا موزوں شخص میسر نہیں آسکا ہے جو جرائم کے بڑھتے ہوئے ان واقعات کی راہ روک سکے اور پولیس اور دیگر سراغ رساں اداروں کی کارکردگی کی کڑی نگرانی کر سکے۔ یہ حکومتی نااہلی بھی پنجاب میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ ہے۔


پنجاب کے مختلف علاقوں بالخصوص لاہور میں پیش آنے والے بچوں کے اغواء کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجوہات کے بارے میں ابھی تک کوئی بھی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکی ہے کہ اس مکروہ دھندے کے پیچھے کون ہے؟پنجاب پولیس کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بچوںکی گمشدگی کے ان واقعات میں سے اکثر کا تعلق سماجی مسائل سے ہے ۔

پولیس کے دعوے کے مطابق ان گمشدہ بچوں میں 41فی صد ایسے ہیں جو اپنے والدین کے ترش رویے ،ڈانٹ ڈپٹ اور دیگر گھریلو مسائل کی وجہ سے ازخود گھروں سے بھاگ کر سماج دشمن عناصر کے ہاتھ لگے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کی ایسی کون سی بات ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ چھ ماہ میں لاہور کے مختلف علاقوں میں بسنے والے والدین اپنے بچوں پر اچانک اتنی زیادہ سختی کرنے لگے ہیں کہ وہ گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ہیں؟دوسری جانب یہ افواہیں بھی عام ہیں کہ بچوں کے اس بڑے پیمانے پر اغواء کے پیچھے کچھ ایسے منظم گروہ کام کر رہے ہیں جو انسانی اعضاء کا کاروبار کرتے ہیں۔کچھ لوگ تو اس طرح کی وارداتوں کو اغواء برائے تاوان کے واقعات کے سلسلے کی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں۔ غرض جب تک پولیس اور دیگر سراغ رساں ادارے ٹھوس شواہد کے ساتھ ان جرائم کے محرکات سے عوام کو آگاہ نہیں کریں گے اس وقت تک طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی رہیں گی اور عوام اس انجانے سے خوف کے مہیب سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے ۔

اغواء کے ان انتہائی افسوس ناک واقعات کے بعد پولیس کے ساتھ ساتھ ریاست کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ماضی میں اغواء کاری اور گمشدگی کے کئی ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے ملک کے بڑے اور سیاسی ومالی لحاظ سے آسودہ حال افراد متاثر ہوئے ۔ ان افراد میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی گیلانی، پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کا بیٹا شہباز تاثیراور ماضی قریب میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا بیٹا اویس علی شاہ شامل ہے۔ ان تینوں اونچے گھرانوں کے بچوں کے اغواء کے بعد ملک کے تمام سیکیورٹی اور سراغ رساں ادارے حرکت میں آ گئے اور کسی نہ کسی طرح ان تینوں افراد کو بازیاب کروا لیا گیا ۔ یہاں پاکستان کا ایک عام آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کیسا قانون ہے جو مالداراور بااختیار لوگوں کے لیے تو اپنی تمام تر توانائیوں اور مہارتوں کے ساتھ حرکت میں آ جاتا ہے لیکن غریب شخص کے لیے اس قانون کی مشینری کو زنگ لگ جاتا ہے اوروہ مدتوں کچہریوں اور پریس کلبوں کے سامنے اپنے گلے میں گم شدہ عزیزوں کی تصاویر لٹکائے ہوئے خوار ہوتا رہتا ہے۔



لمحۂ موجود میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب بھر بالخصوص لاہور جیسے بڑے شہروں میں مختلف علاقوں میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی کارکردگی اور ان سے حاصل ہونے والے فوٹیج کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور ان کی آئندہ مسلسل مانٹیرنگ کا بندوبست کیا جائے۔ پنجاب پولیس اور دیگر سراغ رساں اداروں کو جامع پلان کے تحت بچوں کے اغواء کے سدباب کے لیے تیار کیا جائے ۔ڈولفن فورس جیسے سیکورٹی ونگز کو ہدایت کی جائے کہ وہ کسی شکایت کے آنے کا انتظار کیے بغیر از خود شہر کی گلیوں ، تعلیمی اداروں کے آس پاس اور بازاروں میں مشکوک افراد پر نگاہ رکھیں اور سڑکوں پر ناکے لگانے کا کام پولیس ہی کو کرنے دیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس کی وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور نفری میں بھی کمی لائی جائے تاکہ عوام کو بھی اس کا کوئی فائدہ حاصل ہو سکے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ کم سن بچوں کو اکیلے باہر نہ بھیجیں اور انہیں مشکوک افراد سے دور رہنے کی تلقین کریں۔

بچوں کے اغواء کے واقعات... پولیس حکام نے بات کرنا ہی مناسب نہ سمجھا
بچوں کے اغواء کے واقعات کا بروقت نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟ حالیہ لہر کو روکنے کے لئے پولیس نے کیا کردار ادا کیا؟ مغوی بچوں کی بازیابی کے لئے کیا حکمت عملی مرتب کی گئی؟ کب تک پولیس ''بچوں کے گھروں سے غائب ہونے کی وجہ والدین کا ترش رویہ ہے'' جیسے جواز پیش کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتی رہے گی؟ تھانے کب شہریوں کے لئے سہولت سنٹر بنیں گے، جہاں شہری بلاخوف جا کر اپنی شکایات کا اندراج کروا سکیں اور پولیس اہلکار عام شہری کو دھمکانے کے بجائے اس کی شکایت کے ازالے کی کوشش کریں گے؟

یہ اور ان جیسے دیگر سوالوں کے جوابات کے حصول کے لئے ''ایکسپریس'' نے پنجاب پولیس کے اعلی حکام سے رابطہ کی متعدد بار کوشش کی، لیکن اعلی حکام کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ قوم کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیں یا پھر شائد انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ ہی نہیں؟ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو متعدد بار کال کی گئی، جو اٹینڈ نہ کرنے پر ایس ایم ایس کے ذریعے انہیں ایشو کے بارے میں رائے دینے کی درخواست کی گئی، انہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے ہی پی ٹی سی ایل پر کال کرنے کا حکم دیا، جس کی تکمیل پر آپریٹر نے جواب دیا کہ ''صاحب'' فون نہیں اٹھا رہے، پھر جواب دیا ''صاحب'' میٹنگ میں چلے گئے ہیں، اپنا نمبر لکھوا دیں، واپسی پر بات کروا دی جائے گی۔

لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ آئی جی پنجاب سے رابطہ میں ناکامی پر سی سی پی او لاہور امین وینس سے موبائل فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی پی ٹی سی ایل کا نمبر دے کر فوراً کال کاٹ دی، پی ٹی سی ایل پر کال کرنے پر آپریٹر نے پہلے خود راقم کا انٹرویو کیا، پھر ''صاحب'' آفس میں نہیں کہہ کر کال کاٹنے لگا تو اسے بتایا گیا کہ ''صاحب'' سے ابھی موبائل فون پر بات ہوئی ہے، انہوں نے ہی حکم دیا ہے کہ پی ٹی سی ایل پر کال کریں، جس پر آپریٹر نے کال منتقل تو کر دی، لیکن انتظار کروانے کے بعد اس نے یہ کہتے ہوئے کال کاٹ دی کہ ''صاحب'' مصروف ہیں، کال نہیں اٹینڈ کر رہے۔

بچوں کے اغواء یا گھر سے بھاگنے کے واقعات کوکیسے روکا جا سکتا ہے؟ چند تجاویز
بچوں کے اغواء یا گھر سے بھاگنے جیسے واقعات کے پیچھے کوئی ایک محرک نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہمارا معاشرتی ڈھانچہ، خاندانی نظام، معاشی صورت حال، تعلیم و تربیت، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکمران اس کے ذمہ دار ہیں۔ معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسلنے والے ہاتھ روکنے کے لئے ہمیں فوری طور پر گھریلو، معاشرتی اور حکومتی سطح پر درج ذیل اقدامات کرنا ہوں گے۔

٭ محلہ سطح پر کمیٹیوں کا قیام، جن کے پاس سارے محلے کی مکمل معلومات ہوں، تاکہ کسی بھی اجنبی کی فوری پہچان ہو سکے۔

٭ بچوں کے گھروں سے بھاگنے اور پھر جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھنے کی ایک وجہ گھر کا ماحول ہے، جہاں ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ، سکول جانے کا خوف اور بنیادی ضروریات پوری نہ ہونے جیسی شکایات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ لہذا والدین بچوں کو باقاعدگی سے وقت دیں، جس دوران بچوں کے مسائل زیر بحث آئیں اور انہیں حل کرنے کی سعی کی جائے، بچوں کو شفقت اور محبت کا احساس دلا کر ان سے دوستانہ تعلقات بنائے جائیں۔

٭ گھر سے بھاگنے کا ایک محرک غربت بھی ہے، معاشی تنگی صرف بڑوں ہی نہیں بلکہ بچوں کو بھی اثرانداز ہوتی ہے، جس سے راہ فرار کے لئے بچے بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں، لہذا ریاست جو ایک ماں کا درجہ رکھتی ہے، اسے اپنا فرض نبھاتے ہوئے ہر بچے کے لئے صحت، تعلیم، روزگار، رہائش اور خوراک جیسی بنیادوں ضروریات کو پورا کرنے کی سعی کرنا چاہیے۔

٭ حکومتی سطح پر بچوں کے اغواء جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے شعوری و آگاہی مہم چلائی جائے، اگر آگاہی مہمات چلا کر ڈینگی پر قابو پایا جا سکتا ہے تو بچوں کے اغواء جیسے واقعات روکنا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں کو آگاہی مہم میں حصہ لینے کا پابند بنایا جائے۔

٭ تھانہ کلچر میں تبدیلی کا رونا روتے شہری تھک گئے ہیں، خدارا! اس حوالے سے اعلی حکام اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے تھانوں کو سہولت سنٹرز کا درجہ دلائیں تاکہ شہری کسی ڈر و خوف کے بغیر کسی بھی پریشانی کی صورت میں فوری تھانہ میں رپورٹ درج کروا سکیں۔ اور پولیس فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہری کی شکایت کا فوری نوٹس لے کر اسے حل کرنے کی کوشش کرے۔ پولیس گشت کے نظام کو موثر بنایا جائے جس کا کام صرف شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ہو ناں کہ ''دیہاڑیاں'' لگائی جائیں۔ کسی بھی بچے کے اغوا کی صورت میں ایف آئی آر کا فوری اندراج کا نظام سہل بنایا جائے۔ جرم کے ساتھ مجرم کو بھی کیفرکردار تک پہنچا کر دوسروں کے لئے مثالیں قائم کی جائیں تاکہ دوبارہ کوئی ایسی گھنائونی حرکت نہ کرے۔

بچوں کا اغواء صرف سماجی مسئلہ ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے: سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر
معروف ماہر سماجیات پروفیسر ڈاکٹر زکریا ذاکر نے بچوں کے اغوا کے معاملات پر ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ صرف ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں بچوں کے اغواء کے واقعات مجموعی طور پر سماج کے انتشار، بیگانگی اور لاء اینڈ آرڈر کی کمزوری کا واضح ثبوت ہیں۔ معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں جنگل کا نظام ہے، جہاں کوئی کسی کو نہیں جانتا، سب کو صرف اپنی فکر ہے۔ دیکھیں! ہم ایک طرف تو مسلمان کہلواتے ہوئے بلند اخلاقیات اور اقدار کے دعوے دار بنتے ہیں جب کہ دوسری طرف بچوں کے اغوا جیسے واقعات ہماری درندگی کا مظاہرہ ہیں۔ حالاں کہ دوسری طرف دیکھا جائے تو مہذب ممالک میں آپ کو کسی بچے کو ہوس کا نشانہ بنانے کی خبر تو ملتی ہے، لیکن اغوا کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں، جس کی وجہ وہاں کا معاشرتی نظام اور تعلیم و تربیت ہے۔

ڈاکٹر زکریا ذاکر نے مزید کہا کہ ایک بچہ جب ایک بار اغوا ہو جاتا ہے، چاہے وہ ایک ماہ کے لئے ہی ہو، پھر وہ ساری زندگی نفسیاتی طور پر ٹھیک نہیں ہوتا۔ اب فی الحال مجھے یہ نہیں معلوم کہ بچوں کو اغواء کے مقاصد کیا ہیں، آیا ان سے بھیک منگوائی جائے گی، تربیت دے کر دہشت گرد بنایا جائے گا یا جرائم کے دنیا میں بھیجا جائے گا، لیکن ان واقعات نے ایک بہت بڑے کریمنل گروہ کی نشاندہی ضرورت کر دی ہے۔

جرائم پیشہ گروہ کے نزدیک بچوں کا اغوا ایک نرم ٹارگٹ ہے، جس کی وجہ ہمارا قانون بھی ہے، کیوں کہ مجرموں کو پتہ ہے کہ ایک تو وہ جلد پکڑے نہیں جائیں گے اگر پکڑے بھی گئے تو سزا سخت نہیں ہو گی۔ ماہر سماجیات نے بچوں کے اغوا کی وجوہات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو ہر وقت بچوں کے اغوا کے معاملات میں صرف والدین کا نام آ رہا ہے، وہ سراسر غلط ہے، کیا والدین ہر وقت بچوں کے ساتھ نتھی ہو کر رہیں، بچے نے سکول بھی جانا ہے، باہر کھیلنا بھی ہے، کہیں اور بھی آنا جانا ہے تو کیا وہ ہر وقت ان کے ساتھ رہیں۔ دیکھیں! یہ ہمارے معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم ٹیکس کس لئے دیتے ہیں، حکمرانوں کو کس لئے منتخب کرتے ہیں؟ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لہذا میرے خیال میں اس مسئلہ کا کوئی ڈسپرین حل نہیں، اس حوالے سے پورے معاشرے کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہو گی، یہاں نگرانی اور سرپرستی کا نظام لاگو کرنا ہو گا، ہمیں ایک دوسرے سے آگاہی ہونا ضروری ہے۔
Load Next Story