عبدالقادرکوغصہ کیوں آیا

عبداالقادر نے67 ٹیسٹ کھیل کر236 وکٹیں لیں جبکہ ذاکرخان کوبغیر کام کیے بورڈ ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ ومراعات دے رہا ہے


Saleem Khaliq August 02, 2016
عبداالقادر نے67 ٹیسٹ کھیل کر236 وکٹیں لیں جبکہ ذاکرخان کوبغیر کام کیے بورڈ ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ ومراعات دے رہا ہے : فوٹو:فائل

''ذاکرخان کیا کام کرتے ہیں''۔

کچھ نہیں آج کل فارغ ہیں، میں نے یہ سوال پوچھنے والے ایک سابق کرکٹر کو جواب دیا۔

''میں نے تمہاری خبر پڑھی تھی کہ غیرفعال ہونے کے باوجود انھیں پی سی بی میں ڈائریکٹر والی تنخواہ سوا چار لاکھ روپے ماہانہ، گاڑی، پیٹرول،موبائل ، میڈیکل و دیگر مراعات دی جا رہی ہیں''۔

درست کہا آپ نے، ایسا کافی عرصے سے جاری ہے، درمیان میں انھیں جونیئر ٹیم کا منیجر بنایا گیا مگر پھر وہاں سے بھی شکایات آنے پر ہٹا دیا گیا، یہ میرا اگلا جواب تھا

''ذاکر نے کتنے ٹیسٹ کھیلے اور وکٹیں لیں''۔

مجھے یاد نہیں شاید ایک یا دو ، ایک منٹ میں موبائل پر دیکھ کر بتاتا ہوں، میں نے گوگل پر سرچ کر کے انھیں جواب دیا 2 ٹیسٹ میں 5 وکٹیں لیں۔

''اچھا اب عبدالقادر کے ٹیسٹ اور وکٹیں بتاؤ''۔

ارے آپ تو آج صحافی بن گئے ہیں، سوال پر سوال، خیر میں جواب دے دیتا ہوں، عبداالقادر نے67 ٹیسٹ کھیل کر 236 وکٹیں لیں۔

'' ذاکر کو بغیر کام کیے بورڈ ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ و مراعات دے رہا ہے حالانکہ ان کی ملک کیلیے کوئی خدمات بھی نہیں ہیں، مگر عبدالقادر جس نے لیگ اسپن بولنگ کے فن سے پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کیا اسے 45 ہزار روپے دیتے ہوئے جان جاتی ہے، اپنے ہیروز کی قدر کرنا سیکھو''۔

یہ کہہ کر وہ سابق کرکٹر چلے گئے اور میں سوچنے لگا کہ واقعی وہ لوگ جنھوں نے ملک و قوم کیلیے بے پناہ خدمات انجام دیں موجودہ بورڈ انھیں لفٹ کرانے کو تیار نہیں، مگر ایسے خوشامدی کرکٹرز جو رقم لے کر جی حضوری کریں وہ آنکھ کا تارا بنے رہتے ہیں، شاید کسی کو سچ سننا پسند نہیں اسی لیے پی سی بی اور ہماری کرکٹ کا یہ حال ہے، عبدالقادر سے میری زیادہ ملاقاتیں نہیں رہیں مگر جتنا ان کے بارے میں جانا اور سنا اس سے یہ اندازہ ہو گیا کہ وہ بڑے حساس اور جذباتی انسان ہیں، جو بات پسند نہ آئے اس پر نتائج کا سوچے بغیر سخت ردعمل دے دیتے ہیں۔

ان جیسے لوگ بورڈ میں زیادہ ٹک نہیں سکتے، میڈیا میں سخت بیانات دینے والے سابق کرکٹرز کیلیے پی سی بی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، انھیں بھی این سی اے میںبٹھا کرماہانہ ڈھائی لاکھ روپے تنخواہ دی جاتی رہی،کچھ عرصے وہ''سکون'' سے رہے مگر پھر جب دوبارہ تیزوتند باتیںکرنا شروع کیں تو پھر 2013 میں فارغ کر دیا گیا،اس کے بعد سے جنگ چھڑی ہوئی ہے، معاملہ اس وقت زیادہ خراب ہوا جب بقول عبدالقادر بورڈ نے ان کی پینشن روک لی، دراصل یہ پینشن نہیں بلکہ بورڈ کی پلیئرز ویلفیئر اسکیم ہے، اگر دیکھا جائے تو اس کا مقصد بھی سابق کھلاڑیوں کی زبان بندی کرنا ہی تھا، اعجاز بٹ بلکہ شاید شہریارخان کے پہلے دور میں اس کا آغازہوا، چیئرمین کو پتا چلا کہ بعض سابق کرکٹرز کی مالی حالت کافی خراب ہے تو ایک اسکیم شروع ہوئی جس کے تحت 1978 سے قبل ڈیبیو کرنے والے سابق کرکٹرز کو ہر ماہ کچھ رقم ادا کی جانے لگی، ابتدا میں 13،14 پلیئرز کو اس سے فائدہ پہنچا، بعد میں دائرہ بڑھا کر 60 سال سے زائد العمر تمام حیات سابق کرکٹرز کو ادائیگی ہونے لگی۔

عمران خان ، ماجد خان، سلیم الطاف اور شفقت رانا بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا رہے ہیں،اس کا ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنا جس کے تحت بینیفٹ لینے والا سابق کھلاڑی بورڈ یا اس کے کسی آفیشل پر غیرضروری تنقید نہ کرے، کرپشن یا کوئی اور الزام نہ لگائے، یہ زبانی معاہدہ تھا اور کسی سے دستخط نہیں لیے گئے، عبدالقادر نے بھی رضامندی ظاہر کرتے ہوئے ماہانہ 45 ہزار روپے لینا شروع کیے اور ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا مگر پھر میڈیا میں سخت بیانات حکام کو گراں گذرے اور انھیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا، ایسے میں معاملہ اس وقت خراب ہوا جب عبدالقادر کو ایک چیک ارسال کیا گیا مگر رمضان المبارک کی مصروفیات میں وہ اسے جمع نہ کرا سکے، انھیں شاید یہ یاد نہ رہا اور پھر آگ بگولا ہو کر الزامات کی بھرمار کردی کہ میری پینشن تک روک دی گئی ہے، شوکاز نوٹس پر انھوں نے جواب میں لکھا کہ ''میری توہین کی گئی ہے۔

بورڈ حکام کو علم نہیں کہ بڑے کرکٹرز سے کیسے بات کی جاتی ہے، معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مجھے بتایا جائے کہ گذشتہ برسوں میں بورڈ نے کتنی رقم کمائی، کتنی خرچ کی، پلیئرز و آفیشلز پر کتنے روپے صرف کیے گئے، میں احتساب کروں گا، اپنے خط کی کاپی وزیر اعظم، چیف جسٹس، نیب اور ایف آئی اے سب کو بھیج رہا ہوں''۔ بورڈ نے بھی ہتھیار نہ ڈالے اور اب عبدالقادر کو جمعرات کے روز کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا ہے ورنہ یکطرفہ ایکشن لے لیا جائے گا، چیف فنانشل آفیسرپی سی بی کمیٹی کے سربراہ جبکہ ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اور انٹرنیشنل کرکٹ کمیٹی ہیڈ اس کے ممبران ہیں، مجھے لگتا ہے کہ عبدالقادر شاید اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، پھر ان کا اگلا اقدام عدالت جانا ہو سکتا ہے، یہ بیحد شرمناک بات ہوگی کہ بورڈ اپنے ہی سابق اسٹارز کے ساتھ قانونی جنگ لڑے ، معاملہ اس حد تک نہیں جانا چاہیے۔

اس کا حل مل بیٹھ کر بھی نکالا جا سکتا ہے ، شہریارخان ان دنوں ملک میں نہیں ہیں، انا کو پس پشت ڈالتے ہوئے نجم سیٹھی عبدالقادر کو بس ایک فون کال کریں ، ملاقات کیلیے بلائیں یقیناً مسئلہ حل ہو جائے گا، دونوں کو انا کی جنگ ختم کرنی چاہیے، افسوس کی بات ہے کہ اس وقت بورڈ کا اپنے سابق اسٹارز کے ساتھ سلوک اچھا نہیں ہے، عظیم کرکٹرز اس ملک کا اثاثہ ہیں انھیں ناراض نہیں کرنا چاہیے، بورڈ کے معاملات ٹھیک نہ ہوں،ٹیم ہارتی رہے تو کون بے وقوف ٹی وی یا اخبارات میں اس کا دفاع کرے گا؟ ایسا تو وہی کر سکتے ہیں جو چند لاکھ روپے کی خاطر اپنا ضمیر بیچ دیں، بورڈ خود کو درست کر لے تو ویلفیئر اسکیم یا کسی اور چیز کی آڑ میں سابق کھلاڑیوں کی آواز دبانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی،شاید یہ سادہ سی بات حکام کو کبھی سمجھ آ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں