مسئلہ کشمیر ان وجوہات کی وجہ سے حل نہیں ہورہا
جب تک دنیا کوبھارت سےمعاشی فوائد کی امید ہےوہ کبھی بھی اسکو قصوروار نہیں ٹھہرائےگی چاہےوہاں کتنا ہی ظلم کیوں نہ ہوجائے
کشمیر میں جاری کرفیو اور قتل کا سلسلہ تاحال تھما نہیں۔ گزشتہ ماہ 9 جولائی کو وادی میں لگنے والا کرفیو 8 جولائی کے واقعے کے ممکنہ ردِعمل سے نمٹنے کا ایک طریقہ تھا۔ جب بھارتی سیکورٹی فورسسز یقینی طور پر یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہیں کہ برہان وانی اور اس کے ساتھیوں کی کلنگ کے بعد نہتے کشمیریوں پر اندھا دھند گولیاں چلانا کشمیریوں کو کس حد تک لے جا سکتا ہے۔ اب تک 50 سے زائد کشمیری بھارتی ظلم کے ہاتھوں اپنی جانوں سے جاچکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہیں جو شدید زخمی ہیں۔ زخمیوں میں سے سینکڑوں ایسے بھی ہیں جن کی ایک یا پھر دونوں ہی آنکھیں ضائع ہوچکی ہیں اور بہت ساروں کے اعضاء ناکارہ ہوگئے ہیں۔
کشمیر میں ظلم و ستم جاری ہے لیکن دنیا اپنے مسائل اور مشاغل میں غرق نظر آتی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بشمول اقوامِ متحدہ کشمیر میں انسانیت سوز واقعات کو روکنے کے لیے کوئی قابل قدر اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔ امریکہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ قرار دینے پر بضد ہے اور پاکستان بھارت کے جبر و استبداد پر صرف مخصوص حلقوں اور روایتی طریقوں سے احتجاج کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اپنی موجودہ کشمیر پالیسی کے ذریعے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو رکوا سکتا بھی ہے یا نہیں؟
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے اور انہیں کھل کر بھارت کی مذمت کرنی چاہئے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آگے بھی ہونے کے امکانات کم از کم مجھے تو نظر نہیں آرہے کیونکہ اقوامِ عالم کو کشمیر کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ سنہ 2010ء میں اقوامِ متحدہ نے بھارت اور پاکستان کو دوٹوک یہ کہہ دیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، اور آج بھی امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی یہی پوزیشن ہے کہ پاکستان اور بھارت آپس میں مذاکرات کریں۔
ایک اور بات بھی بہت اہم ہے، اور وہ یہ کہ آج کی دنیا میں جنگ و جدل کا کھیل بھی معاشی فوائد کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے، اور کوئی بھی ملک اُسی وقت اِس کھیل میں دوسرے ملک کی حمایت کا مخالفت کرتا ہے کہ ایسا کرنے میں اُس کو مالی طور پر فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ روس اور چین کو کشمیر کے معاملے میں بھارت پر دباو ڈالنا چاہئے۔ تو اِس مطالبے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے اُن دونوں ممالک کو کیا معاشی فائدہ ہے؟ روس کو تو بہرحال رہنے ہی دیا جائے کہ اُس سے بدقسمتی سے پاکستان کے تعلقات ابتداء سے ہی بہت قابل فخر نہیں رہے۔ دوسری طرف اگر چین کی بات کی جائے تو پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ اپنی جگہ، چین اور بھارت کے جھگڑے کے معاملات بھی ٹھیک، لیکن جب بات سرمائے کے حصول کی آتی ہے تو چین کو پاکستان سے کئی گناہ زیادہ معاشی فائدہ آنے والے وقت میں بھارت سے متوقع ہے۔ پھر امریکہ، روس اور چین کے بعد بڑی طاقتوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں۔ فرانس اور جرمنی تو اپنے امن کے ادوار میں کشمیر کے لیے کچھ نہیں کرسکے، اب جب کہ وہ خود حالتِ جنگ میں ہیں تو کیونکر وہ دوسروں کے معاملات میں ہاتھ ڈالیں گے۔ صرف جولائی کے ایک ہفتے میں جرمنی میں دہشت گردی کے چار واقعات پیش آئے ہیں اور کچھ ایسی ہی حالت اِس وقت فرانس کی ہے۔
رہی بات برطانیہ کی تو وہی اصل مسئلے کی جڑ ہے۔ یہ برٹش ایمپائیر کی ادھوری تقسیم کا نتیجہ ہے کہ آج پورا جنوبی ایشاء نیوکلیر جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے۔ علادہ اس کے اگر اسی ضمن میں مسلم ممالک کو دیکھا جائے توسعودی عرب نے کشمیر پر ہمیشہ پاکستانی موقف کی تائید کی ہے، لیکن اس بار کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر سعودی عرب کا نرم موقف اس کے بھارت سے قریبی تعلقات کی عکاس اور ویژن 2030ء کے حصول میں بھارت کے ساتھ خاص تعاون کی ترجمان ہے۔ متحدہ عرب امارات اور ایران کی صورتِ حال بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ایرانی بندرگاہ کھل جانے کے بعد بھارت اور ایران کے تعاون میں مزید اضافہ ہوا ہے اور متحدہ عرب امارات پہلے سے ہی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے قریب ہیں۔
اس صورتِ حال میں اقوامِ عالم سے یہ توقع کرنا کہ وہ بھارت پر دباو ڈال کر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرائیں خاصہ غیر حقیقی مطالبہ نظر آتا ہے، اور اگر اقوامِ متحدہ یا کوئی دوسرا فورم ایسا کرنے کا کہہ بھی دیتا ہے تو کیا بھارت یہ مطالبہ آرام سے مان لے گا؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا۔ اِس کی بنیادی وجہ معاشی فوائد ہی ہیں۔ جب تک دیگر ممالک کو بھارت سے معاشی فوائد کی اُمید ہے وہ کبھی بھی کشمیر پر بھارت کو قصوروار نہیں ٹھہرائیں گے چاہے وہاں کتنا ہی ظلم کیوں نہ ہوجائے۔ اس لیے جہاں پاکستان کو ایک طرف اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے وہیں مضبوط پاکستان کی بھی ضرورت ہے جہاں امن و امان بحال کرکے بیرونی سرمایہ کاری کی جائے، کیونکہ دنیا ایک پُرامن پاکستان کی حمایت تو کرسکتی ہے جہاں اُس کا سرمایہ محفوظ ہو اور جس سے اُسے معاشی فائدہ حاصل ہو، لیکن دہشت گردی کا شکار پاکستان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکتی ہے جس کا ساتھ دینے سے اُنہیں فائدے کے بجائے خطرات کا خوف ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کشمیر میں ظلم و ستم جاری ہے لیکن دنیا اپنے مسائل اور مشاغل میں غرق نظر آتی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بشمول اقوامِ متحدہ کشمیر میں انسانیت سوز واقعات کو روکنے کے لیے کوئی قابل قدر اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔ امریکہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ قرار دینے پر بضد ہے اور پاکستان بھارت کے جبر و استبداد پر صرف مخصوص حلقوں اور روایتی طریقوں سے احتجاج کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اپنی موجودہ کشمیر پالیسی کے ذریعے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو رکوا سکتا بھی ہے یا نہیں؟
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی طاقتوں کی خاموشی مجرمانہ ہے اور انہیں کھل کر بھارت کی مذمت کرنی چاہئے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور آگے بھی ہونے کے امکانات کم از کم مجھے تو نظر نہیں آرہے کیونکہ اقوامِ عالم کو کشمیر کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ سنہ 2010ء میں اقوامِ متحدہ نے بھارت اور پاکستان کو دوٹوک یہ کہہ دیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے، اور آج بھی امریکہ سمیت بڑی طاقتوں کی یہی پوزیشن ہے کہ پاکستان اور بھارت آپس میں مذاکرات کریں۔
ایک اور بات بھی بہت اہم ہے، اور وہ یہ کہ آج کی دنیا میں جنگ و جدل کا کھیل بھی معاشی فوائد کی بنیاد پر لڑا جاتا ہے، اور کوئی بھی ملک اُسی وقت اِس کھیل میں دوسرے ملک کی حمایت کا مخالفت کرتا ہے کہ ایسا کرنے میں اُس کو مالی طور پر فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ روس اور چین کو کشمیر کے معاملے میں بھارت پر دباو ڈالنا چاہئے۔ تو اِس مطالبے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے اُن دونوں ممالک کو کیا معاشی فائدہ ہے؟ روس کو تو بہرحال رہنے ہی دیا جائے کہ اُس سے بدقسمتی سے پاکستان کے تعلقات ابتداء سے ہی بہت قابل فخر نہیں رہے۔ دوسری طرف اگر چین کی بات کی جائے تو پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ اپنی جگہ، چین اور بھارت کے جھگڑے کے معاملات بھی ٹھیک، لیکن جب بات سرمائے کے حصول کی آتی ہے تو چین کو پاکستان سے کئی گناہ زیادہ معاشی فائدہ آنے والے وقت میں بھارت سے متوقع ہے۔ پھر امریکہ، روس اور چین کے بعد بڑی طاقتوں میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی ہیں۔ فرانس اور جرمنی تو اپنے امن کے ادوار میں کشمیر کے لیے کچھ نہیں کرسکے، اب جب کہ وہ خود حالتِ جنگ میں ہیں تو کیونکر وہ دوسروں کے معاملات میں ہاتھ ڈالیں گے۔ صرف جولائی کے ایک ہفتے میں جرمنی میں دہشت گردی کے چار واقعات پیش آئے ہیں اور کچھ ایسی ہی حالت اِس وقت فرانس کی ہے۔
رہی بات برطانیہ کی تو وہی اصل مسئلے کی جڑ ہے۔ یہ برٹش ایمپائیر کی ادھوری تقسیم کا نتیجہ ہے کہ آج پورا جنوبی ایشاء نیوکلیر جنگ کے دھانے پر کھڑا ہے۔ علادہ اس کے اگر اسی ضمن میں مسلم ممالک کو دیکھا جائے توسعودی عرب نے کشمیر پر ہمیشہ پاکستانی موقف کی تائید کی ہے، لیکن اس بار کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم پر سعودی عرب کا نرم موقف اس کے بھارت سے قریبی تعلقات کی عکاس اور ویژن 2030ء کے حصول میں بھارت کے ساتھ خاص تعاون کی ترجمان ہے۔ متحدہ عرب امارات اور ایران کی صورتِ حال بھی کم و بیش ایسی ہی ہے۔ ایرانی بندرگاہ کھل جانے کے بعد بھارت اور ایران کے تعاون میں مزید اضافہ ہوا ہے اور متحدہ عرب امارات پہلے سے ہی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے قریب ہیں۔
اس صورتِ حال میں اقوامِ عالم سے یہ توقع کرنا کہ وہ بھارت پر دباو ڈال کر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرائیں خاصہ غیر حقیقی مطالبہ نظر آتا ہے، اور اگر اقوامِ متحدہ یا کوئی دوسرا فورم ایسا کرنے کا کہہ بھی دیتا ہے تو کیا بھارت یہ مطالبہ آرام سے مان لے گا؟ یقیناً ایسا نہیں ہوگا۔ اِس کی بنیادی وجہ معاشی فوائد ہی ہیں۔ جب تک دیگر ممالک کو بھارت سے معاشی فوائد کی اُمید ہے وہ کبھی بھی کشمیر پر بھارت کو قصوروار نہیں ٹھہرائیں گے چاہے وہاں کتنا ہی ظلم کیوں نہ ہوجائے۔ اس لیے جہاں پاکستان کو ایک طرف اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے وہیں مضبوط پاکستان کی بھی ضرورت ہے جہاں امن و امان بحال کرکے بیرونی سرمایہ کاری کی جائے، کیونکہ دنیا ایک پُرامن پاکستان کی حمایت تو کرسکتی ہے جہاں اُس کا سرمایہ محفوظ ہو اور جس سے اُسے معاشی فائدہ حاصل ہو، لیکن دہشت گردی کا شکار پاکستان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوسکتی ہے جس کا ساتھ دینے سے اُنہیں فائدے کے بجائے خطرات کا خوف ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس۔