نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسداں ڈاکٹرعبدالسلام

اومیگا اور زیڈ بوسون پارٹیکلز کی پیش گوئی پر ڈاکٹر عبدالسلام کو وائنبرگ اور گلاشو کے ساتھ فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے فزکس کے میدان میں نمایاں کارنامہ انجام دے کر نوبل انعام حاصل کیا۔ (فوٹو: فائل)

پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام 29 جنوری 1926ء کے روز جھنگ میں پیدا ہوئے اور میٹرک تک تعلیم اسی شہر سے حاصل کی جب کہ میٹرک کے امتحان میں انہوں نے غیر منقسم پنجاب میں پہلی پوزیشن حاصل کی بعد ازاں وہ مزید تعلیم کےلئے لاہور چلے آئے جہاں انہوں نے 1946ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے پہلی پوزیشن کے ساتھ ریاضی میں ایم اے کیا۔

عبدالسلام کی خوش نصیبی کہ اسی سال انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے ایک اسکالر شپ دے دی گئی اور وہ مزید اعلیٰ تعلیم کےلئے برطانیہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے کیمبرج کے سینٹ جان کالج میں داخلہ لیا جہاں سے اس زمانے میں ''ٹرائی پاس'' (بی اے آنرز) تین سال میں مکمل ہوتا تھا۔ لیکن عبدالسلام نے یہ کورس صرف دو سال میں فرسٹ کلاس کے ساتھ پورا کرلیا اور کیمبرج سسٹم کے تحت ''رینگلر'' کا درجہ بھی حاصل کیا۔ 1949ء میں انہوں نے پی ایچ ڈی کرنے کےلئے کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

واضح رہے کہ وہ کوانٹم مکینکس کا ابتدائی دور تھا جب ریاضی کی جدید اور پیچیدہ تکنیکیں استعمال کرتے ہوئے پارٹیکل فزکس کے جدید مسائل حل کرنے اور مادّے اور توانائی کی نوعیت سمجھنے کی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن قباحت یہ تھی کہ کوانٹم مکینکس کی کئی مساواتیں (ایکویشنز) حل کرتے دوران کچھ عجیب و غریب اعداد و شمار (indeterminate quantities) آجاتے تھے جنہیں ختم کرکے نتائج کو قابلِ فہم بنانا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔ یہی مسئلہ ''میسون تھیوری'' کی مساواتوں کے ساتھ بھی تھا۔

نوجوان عبدالسلام نے اپنے پی ایچ ڈی کےلئے اسی موضوع کا انتخاب کیا اور میسون تھیوری کی مساواتیں حل کرکے انہیں قابلِ فہم بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے ''ری نارملائزیشن'' کہلانے والی تکنیک استعمال کرتے ہوئے یہ مسئلہ صرف 3 ماہ میں حل کرلیا لیکن کیمبرج یونیورسٹی میں رائج قواعد کی وجہ سے انہیں اپنے پی ایچ ڈی کےلئے پورے تین سال تک انتظار کرنا پڑا؛ اور بالاًخر 1952ء میں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مل گئی۔

1951ء میں انہیں پرنسٹن یونیورسٹی، امریکا میں نئے قائم ہونے والے ''انسٹی ٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی'' کی فیلوشپ مل گئی جہاں البرٹ آئن اسٹائن سمیت، دنیا کے عظیم ترین سائنسدان لیکچر دینے آیا کرتے تھے۔

پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام، پاکستان واپس چلے آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ ریاضی (ڈیپارٹمنٹ آف میتھمیٹکس) سے بطور پروفیسر اور بعد ازاں صدرِ شعبہ کی حیثیت سے وابستہ رہے۔ مگر یہاں کا ماحول انہیں کچھ زیادہ راس نہیں آیا اور پے در پے ناخوشگوار واقعات کے بعد انہوں نے 1954ء میں اس ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔

اب وہ ایک بار پھر کیمبرج چلے آئے اور وہاں لیکچرار کے طور پر نوکری کرلی۔ کیمبرج ڈاکٹر عبدالسلام کو پال ڈیراک، میکس بورن، وولف گینگ پاؤلی اور ان جیسے دوسرے عظیم ماہرینِ طبیعیات کا ساتھ حاصل ہوا، جس نے آئندہ زندگی میں ان کی بہت رہنمائی کی۔ ڈاکٹرعبدالسلام نے 1957ء میں امپیریل کالج، لندن میں پہلی بار نظری طبیعیات (تھیوریٹیکل فزکس) کا کورس متعارف کروایا اور 1993ء تک اس کورس کو پڑھانے والے اساتذہ میں شامل رکھے گئے۔


ڈاکٹر عبدالسلام کی عمر ابھی 33 سال ہی تھی کہ انہیں دنیا کی مشہور و معتبر سائنسی تنظیم ''رائل سوسائٹی'' کا فیلو منتخب کرلیا گیا؛ اور یوں وہ رائل سوسائٹی کے سب سے کم عمر فیلو قرار پائے۔ واضح رہے کہ یہ اعزاز پانے کےلئے سائنسدانوں کی عمر گزر جاتی ہے جبکہ دنیا کے بہت ہی کم سائنسدانوں کے نصیب میں رائل سوسائٹی کی فیلو شپ آتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالسلام کو 1961ء میں صدر ایوب خان کا خصوصی مشیر برائے سائنس مقرر کیا گیا؛ اور وہ ''سپارکو'' (SUPARCO) یعنی ''اسپیس اینڈ اپر ایٹماسفیرک ریسرچ کمیشن'' قائم کرنے والے ماہرین میں بھی شامل رہے۔

نظری طبیعیات (تھیوریٹیکل فزکس) ڈاکٹر عبدالسلام کا شوق تھا اور 1960ء میں انہوں نے ایک بین الاقوامی اجلاس کے دوران خواہش ظاہر کی کہ ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جہاں خاص طور پر تیسری دنیا سے نظری طبیعیات کے نوجوان طالب علم، پرانے اور کہنہ مشق سائنسدانوں سے براہِ راست تربیت حاصل کرسکیں۔ پاکستانی بیوروکریسی نے اس تجویز کو ''سائنسدانوں کےلئے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی خواہش'' قرار دے کر مسترد کردیا لیکن اٹلی نے اس مرکز کی میزبانی قبول کرلی اور 1964ء میں تریستے (Trieste) کے مقام پر ''انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس'' (آئی سی ٹی پی) قائم کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے دنیا سے گزرنے کے بعد اس مرکز کو ان کے نام سے معنوِن کردیا گیا۔



1968ء میں ڈاکٹر عبدالسلام اور امریکا کے شیلڈن لی گلاشو اور اسٹیون وائنبرگ نے بنیادی قوتوں کے اتحاد پر کام کیا اور ''الیکٹرو وِیک یونی فکیشن'' کے نام سے ایک نیا تصور پیش کیا جس کے تحت نہ صرف برقی مقناطیسی قوت (الیکٹرو میگنیٹک فورس) اور کمزور نیوکلیائی قوت (وِیک نیوکلیئر فورس) کو یکجا کیا گیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ دو نئے بنیادی ذرّات ''اومیگا بوسون'' اور ''زیڈ بوسون'' کی پیش گوئی بھی کی۔

یہی وہ سائنسی کارنامہ تھا جس کی وجہ سے 1979ء میں گلاشو، وائنبرگ اورعبدالسلام کو مشترکہ طور پر فزکس کا نوبل انعام دیا گیا۔ اس طرح ڈاکٹر عبدالسلام، سائنس کا نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے، اور اب تک کے واحد پاکستانی سائنسدان بنے۔ بعد ازاں ذرّاتی طبیعیات کے یورپی مرکز (سرن) کے سائمن وان ڈر میر اور کارلو روبیا کو اومیگا اور زیڈ بوسون ذرّات کی دریافت پر 1984ء کے نوبل انعام برائے طبیعیات سے نوازا گیا۔

عمر کے آخری برسوں میں انہیں پارکنسن کی بیماری لاحق ہوگئی تھی جس کی شدت بڑھنے پر وہ 1994ء میں آکسفورڈ، برطانیہ چلے آئے اور یہیں 21 نومبر 1996ء کے روز دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
Load Next Story