عوام جمہوری غلامی کی زنجیریں کاٹ دیں
جن ممالک کی معیشت جتنی مضبوط اور غیر ملکی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے
PESHAWAR:
جن ممالک کی معیشت جتنی مضبوط اور غیر ملکی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے وہ ممالک پرامن اور دفاعی طور پر مضبوط ملک ہوتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت سیاسی لیڈروں کی مفاد پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے شروع سے ہی عوام و ملک کے حق میں منفی کر دی گئی، اگرچہ فوجی حکومتیں بھی قائم ہوئیں۔ لیکن ان حکومتوں میں بھی سیاسی لیڈروں نے انتظامی کلیدی عہدے حاصل کرکے معیشت کو اپنے طبقاتی اشرافیہ (ٹرائیکا) کا تابع کر لیا۔ اگر ملکی معیشت کا تجزیہ کیا جائے تو اشرافیہ (ٹرائیکا) کے معاشی گھپلوں، فراڈوں کے لاتعداد انکشافات ہوتے ہیں۔
کتاب پاکستان اکنامک سروے 2013-14، 2014-15 اور 2015-16 کے صفحات سے یہ اعداد و شمار لیے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک حکومت کی تھی۔ کتاب P.E.S 2013-14 کے صفحے 58 کے مطابق مالی سال 2007-08ء کو ٹوٹل ریونیو جو عوام سے وصول کیا گیا۔ اس میں (1)۔ ٹیکس ریونیو 1050696.0 ملین روپے اور (2)۔ نان۔ ٹیکس ریونیو 448684.0 ملین روپے تھا۔
ٹوٹل ریونیو 1499380.0 ملین روپے تھا۔ بجٹ کے ٹوٹل اخراجات 2276549.0 ملین روپے تھے۔ خسارہ 777169.0 ملین روپے تھا۔ کتاب P.E.S 2015-16ء کے صفحے 148 پر ملکی اور غیرملکی قرض وصولی کے اعدادوشمار دیے گئے ہیں۔ 2008ء میں حکومت نے ملکی وغیر ملکی 1324000.0 ملین روپے کا نقد قرضہ وصول کیا تھا۔ کتاب پاکستان اکنامک سروے 2013-14ء کے صفحے 61 پر عوام سے ملکی اور غیر ملکی قرض ادائیگی کے نام پر مالی سال 2007-08ء میں 578236.0 ملین روپے وصول کیے گئے تھے۔ اس میں سود و اصل زر شامل تھے اورکتاب کے صفحے 60 پر Expenditure میں عوام سے ملکی وغیر ملکی قرض وصولی کی رقم کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس طرح اخراجات میں یا ریونیو میں غیرملکی اور ملکی قرض 13 کھرب 24 ارب روپے کی وصولی کا ذکرگول کر دیا گیا بلکہ الٹا عوام سے دونوں قرضوں کی ادائیگی وصول کی گئی ہے قرضے لیے جانے والی بھاری رقم حکومت نے کس اندھے کنوئیں میں 13 کھرب 24 ارب روپے ڈالے؟ 2007-08ء میں ڈالر ریٹ 62.5465 روپے تھا قرض وصولی 13 کھرب 24 ارب روپے جس کی ڈالر میں مالیت 21 ارب 16 کروڑ82 لاکھ 59 ہزار ڈالر تھی۔ یہ رقم کہاں گئی؟ کتاب Statistical Supplement P.E.S 2014-15ء کے صفحے 143 پر Workers Remittance مالی سال 2007-08ء کو ملکی بینکوں نے مقامی کرنسی (روپے) ادا کر کے 6 ارب 45 کروڑ 12 لاکھ 40 ہزار ڈالر وصول کیے یہ ڈالر کس مد میں گئے؟ اس کی مقامی کرنسی میں قیمت 62.5465 روپے فی ڈالرکے حساب سے 4 کھرب 3 ارب 50 کروڑ 24 لاکھ 83 ہزار روپے بنتی ہے۔
اب ملکی اور غیر ملکی قرض وصولی اور ورکرز زرمبادلہ کو جمع کیے جانے کے بعد اس کا ٹوٹل 17 کھرب 27 ارب 50 کروڑ 24 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی قرض نقد وصولی اور عوامی ورکرز کا زرمبادلہ کا ٹوٹل 27 ارب 61 کروڑ94 لاکھ 99 ہزار ڈالر بنتا ہے یہ ڈالر رقم کہاں گئی؟ کیونکہ ریونیو میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے؟ اگر کوئی کہے کہ زرمبادلہ ڈالر کے بدلے مقامی کرنسی دی گئی تو پھر یہ ڈالر بینکوں اور اسٹیٹ بینک میں ہونے چاہیے تھے۔ اور زرمبادلہ کا تعلق ایکسپورٹرز اور امپورٹرز سے نہیں ہے۔ اس رقم سے ان کا یعنی فارن ایکسچینج ریزرو سے تعلق ٹریڈرز سے ہے۔ مالی سال 2007-08ء کا بجٹ خسارہ کتاب P.E.S 2013-14 کے صفحے 58 کے مطابق 7 کھرب 77 ارب 16 کروڑ 90 لاکھ روپے ہوا تھا۔ اگر حکومت کی نیت میں فتور عوام و ملک کے خزانے کو لوٹنا نہ ہوتا تو اس رقم کو ریونیو یا آمدنی میں شامل کرتی تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا۔ جیسے مالی سال 2007-08ء میں ریونیو 14 کھرب 99 ارب 38 کروڑ روپے تھا۔
ورکرز زرمبادلہ + ملکی و غیر ملکی قرض ریونیو میں شامل کیا جاتا ہے تو ریونیو 32 کھرب 26 ارب 88 کروڑ24 لاکھ 83 ہزار روپے ہوتا ہے۔ اگر حکومت عوامی سرمائے کا غبن نہ کرتی اور نیک نیتی سے سرمائے کو عوام پر ہی خرچ کرتی تو بجٹ خسارہ 777169.0 ملین روپے کی جگہ بجٹ 9 کھرب 50 ارب 33 کروڑ 34 لاکھ 83 ہزار روپے سے سرپلس ہوتا۔ حکومت نے سرمائے کو مختلف مدوں اور خانوں میں رکھ کر گھپلے کیے ہیں تا کہ عوام کو پتہ نہ چل سکے۔ مالی سال 2008-09ء کو حکومت نے عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے ریونیو 1499380.0 ملین روپے سے بڑھا کر 1850901.0 ملین روپے وصول کیا۔ ریونیو میں 24 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس طرح حقیقت میں غیر ملکی اور ملکی قرضے عوام کو پرائز بانڈ عوامی جی پی فنڈ، غیر ملکی نقد قرض وصولی اور دوسرے عوامی وسائل کو استعمال کر کے ہر حکومت ملکی قرض وصول کرتی ہے اسی وجہ سے کھربوں روپے عوام سے ٹھگے جانے کے بعد عوام میں اسی نسبت سے غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک حکومت کے دوران 95 کھرب 16 ارب روپے کا غیر ملکی و ملکی قرضہ لیا اور عوامی ورکرز جو بیرونی ملکوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کا بھیجا ہوا زرمبادلہ 2008ء سے 2012ء تک 47 ارب 55 کروڑ 61 لاکھ 60 ہزار ڈالر پیپلزپارٹی کے دور میں وصول کیا گیا۔ یہ بھاری رقوم کہاں گئیں۔ اس کے بعد جون 2013ء سے مارچ 2016ء تک مسلم لیگ (ن) نے ملکی و غیر ملکی قرضہ 2 سال 9 ماہ کے دوران 13 کھرب 4 ارب 20 کروڑ روپے وصول کیے اور عوامی ورکرز زرمبادلہ ایسی مدت کے دوران 62 ارب 85 کروڑ 69 لاکھ 10 ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔ یہ بھاری رقوم کہاں گئیں؟
ٹرائیکا (اشرافیہ) عوام کو ''جمہوری قیدی'' بنا کر عوام کو بے بس اور مکمل بے اختیار کر کے ملک کے تمام عوامی وسائل پر قابض ہو کر ان کو لوٹتی ہے بیرون ملکوں میں عوامی سرمایہ لگا کر عوام میں آئے دن غربت میں اضافہ کرتی ہے۔ عوام و ملک کے وسیع تر مفاد میں عوام میں نچلی سطح پر یا وارڈز کی بنیادی سطح پر اختیارات و وسائل کو استعمال کرنے کا حق قانوناً جائز قرار دیا جائے۔ غیر ملکی دشمن پاکستانی دفاع کو کمزور کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہا ہے دہشتگردی سے عوام و افواج نے کافی جانی نقصان اٹھایا ہے۔
ملکی معیشت ملک کی شہہ رگ ہے سامراجی Currency Devaluation Minus Economic Eevelopment کے ذریعے ملکی لاگتیں بڑھا کر ملکی صنعتی کلچر کو ختم کرتا جا رہا ہے اور سامراجی امپورٹ بڑھتی اور ایکسپورٹ کم ہوتی جا رہی ہیں ملٹی نیشنل کمپنیاں عوامی سرمایہ لوٹ کر باہر لے جا رہی ہیں۔ سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے پاس سے سوٹ کیس بھرے ہوئے نوٹوں کے نکلے تھے کیا عوام اب بھی بھروسہ کرے گی کہ 2018ء کے الیکشن میں کامیاب ہونے والی ٹرائیکا (اشرافیہ) عوام کو خوشحالی دے سکے گی؟
کیا عوام اپنے عوامی سرمائے کا بہاؤ عوام کی طرف کر سکتے ہیں؟ یہ صرف عوامی معاشی انقلاب اور عوامی جمہوری انقلاب سے ہی ممکن ہے کیا خدا نے غلامی عوام کے مقدر میں لکھ دی ہے؟ میں اس بات کو نہیں مانتا عوام کو خدا نے ٹرائیکا کی معاشی اور جمہوری غلام کے لیے نہیں پیدا کیا ہے۔ عوام کو غلامی کی زنجیریں کاٹ ڈالنا ہوں گی ورنہ یہ ٹرائیکی (اشرافیہ) کا دیا ہوا طوق غلامی عوام کی نسل در نسل جھیلنا ہو گا۔ غربت کے تپتے صحرا، کانٹوں اور نوکیلے پتھروں پر چل کر غربت زدہ زندگی گزارنا ہو گی لیکن آخرکار اس ذلت بھری زندگی سے نجات کے لیے عوام کو جمہوری آزادی حاصل کیے بغیرکوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ عوام کی آزادی ہی در اصل ملک کی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے۔
جن ممالک کی معیشت جتنی مضبوط اور غیر ملکی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے وہ ممالک پرامن اور دفاعی طور پر مضبوط ملک ہوتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت سیاسی لیڈروں کی مفاد پرستانہ پالیسیوں کی وجہ سے شروع سے ہی عوام و ملک کے حق میں منفی کر دی گئی، اگرچہ فوجی حکومتیں بھی قائم ہوئیں۔ لیکن ان حکومتوں میں بھی سیاسی لیڈروں نے انتظامی کلیدی عہدے حاصل کرکے معیشت کو اپنے طبقاتی اشرافیہ (ٹرائیکا) کا تابع کر لیا۔ اگر ملکی معیشت کا تجزیہ کیا جائے تو اشرافیہ (ٹرائیکا) کے معاشی گھپلوں، فراڈوں کے لاتعداد انکشافات ہوتے ہیں۔
کتاب پاکستان اکنامک سروے 2013-14، 2014-15 اور 2015-16 کے صفحات سے یہ اعداد و شمار لیے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک حکومت کی تھی۔ کتاب P.E.S 2013-14 کے صفحے 58 کے مطابق مالی سال 2007-08ء کو ٹوٹل ریونیو جو عوام سے وصول کیا گیا۔ اس میں (1)۔ ٹیکس ریونیو 1050696.0 ملین روپے اور (2)۔ نان۔ ٹیکس ریونیو 448684.0 ملین روپے تھا۔
ٹوٹل ریونیو 1499380.0 ملین روپے تھا۔ بجٹ کے ٹوٹل اخراجات 2276549.0 ملین روپے تھے۔ خسارہ 777169.0 ملین روپے تھا۔ کتاب P.E.S 2015-16ء کے صفحے 148 پر ملکی اور غیرملکی قرض وصولی کے اعدادوشمار دیے گئے ہیں۔ 2008ء میں حکومت نے ملکی وغیر ملکی 1324000.0 ملین روپے کا نقد قرضہ وصول کیا تھا۔ کتاب پاکستان اکنامک سروے 2013-14ء کے صفحے 61 پر عوام سے ملکی اور غیر ملکی قرض ادائیگی کے نام پر مالی سال 2007-08ء میں 578236.0 ملین روپے وصول کیے گئے تھے۔ اس میں سود و اصل زر شامل تھے اورکتاب کے صفحے 60 پر Expenditure میں عوام سے ملکی وغیر ملکی قرض وصولی کی رقم کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس طرح اخراجات میں یا ریونیو میں غیرملکی اور ملکی قرض 13 کھرب 24 ارب روپے کی وصولی کا ذکرگول کر دیا گیا بلکہ الٹا عوام سے دونوں قرضوں کی ادائیگی وصول کی گئی ہے قرضے لیے جانے والی بھاری رقم حکومت نے کس اندھے کنوئیں میں 13 کھرب 24 ارب روپے ڈالے؟ 2007-08ء میں ڈالر ریٹ 62.5465 روپے تھا قرض وصولی 13 کھرب 24 ارب روپے جس کی ڈالر میں مالیت 21 ارب 16 کروڑ82 لاکھ 59 ہزار ڈالر تھی۔ یہ رقم کہاں گئی؟ کتاب Statistical Supplement P.E.S 2014-15ء کے صفحے 143 پر Workers Remittance مالی سال 2007-08ء کو ملکی بینکوں نے مقامی کرنسی (روپے) ادا کر کے 6 ارب 45 کروڑ 12 لاکھ 40 ہزار ڈالر وصول کیے یہ ڈالر کس مد میں گئے؟ اس کی مقامی کرنسی میں قیمت 62.5465 روپے فی ڈالرکے حساب سے 4 کھرب 3 ارب 50 کروڑ 24 لاکھ 83 ہزار روپے بنتی ہے۔
اب ملکی اور غیر ملکی قرض وصولی اور ورکرز زرمبادلہ کو جمع کیے جانے کے بعد اس کا ٹوٹل 17 کھرب 27 ارب 50 کروڑ 24 لاکھ روپے بنتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی قرض نقد وصولی اور عوامی ورکرز کا زرمبادلہ کا ٹوٹل 27 ارب 61 کروڑ94 لاکھ 99 ہزار ڈالر بنتا ہے یہ ڈالر رقم کہاں گئی؟ کیونکہ ریونیو میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے؟ اگر کوئی کہے کہ زرمبادلہ ڈالر کے بدلے مقامی کرنسی دی گئی تو پھر یہ ڈالر بینکوں اور اسٹیٹ بینک میں ہونے چاہیے تھے۔ اور زرمبادلہ کا تعلق ایکسپورٹرز اور امپورٹرز سے نہیں ہے۔ اس رقم سے ان کا یعنی فارن ایکسچینج ریزرو سے تعلق ٹریڈرز سے ہے۔ مالی سال 2007-08ء کا بجٹ خسارہ کتاب P.E.S 2013-14 کے صفحے 58 کے مطابق 7 کھرب 77 ارب 16 کروڑ 90 لاکھ روپے ہوا تھا۔ اگر حکومت کی نیت میں فتور عوام و ملک کے خزانے کو لوٹنا نہ ہوتا تو اس رقم کو ریونیو یا آمدنی میں شامل کرتی تو معاملہ اس کے برعکس ہوتا۔ جیسے مالی سال 2007-08ء میں ریونیو 14 کھرب 99 ارب 38 کروڑ روپے تھا۔
ورکرز زرمبادلہ + ملکی و غیر ملکی قرض ریونیو میں شامل کیا جاتا ہے تو ریونیو 32 کھرب 26 ارب 88 کروڑ24 لاکھ 83 ہزار روپے ہوتا ہے۔ اگر حکومت عوامی سرمائے کا غبن نہ کرتی اور نیک نیتی سے سرمائے کو عوام پر ہی خرچ کرتی تو بجٹ خسارہ 777169.0 ملین روپے کی جگہ بجٹ 9 کھرب 50 ارب 33 کروڑ 34 لاکھ 83 ہزار روپے سے سرپلس ہوتا۔ حکومت نے سرمائے کو مختلف مدوں اور خانوں میں رکھ کر گھپلے کیے ہیں تا کہ عوام کو پتہ نہ چل سکے۔ مالی سال 2008-09ء کو حکومت نے عوام پر ٹیکسوں میں اضافہ کر کے ریونیو 1499380.0 ملین روپے سے بڑھا کر 1850901.0 ملین روپے وصول کیا۔ ریونیو میں 24 فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس طرح حقیقت میں غیر ملکی اور ملکی قرضے عوام کو پرائز بانڈ عوامی جی پی فنڈ، غیر ملکی نقد قرض وصولی اور دوسرے عوامی وسائل کو استعمال کر کے ہر حکومت ملکی قرض وصول کرتی ہے اسی وجہ سے کھربوں روپے عوام سے ٹھگے جانے کے بعد عوام میں اسی نسبت سے غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی نے 2008ء سے 2013ء تک حکومت کے دوران 95 کھرب 16 ارب روپے کا غیر ملکی و ملکی قرضہ لیا اور عوامی ورکرز جو بیرونی ملکوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کا بھیجا ہوا زرمبادلہ 2008ء سے 2012ء تک 47 ارب 55 کروڑ 61 لاکھ 60 ہزار ڈالر پیپلزپارٹی کے دور میں وصول کیا گیا۔ یہ بھاری رقوم کہاں گئیں۔ اس کے بعد جون 2013ء سے مارچ 2016ء تک مسلم لیگ (ن) نے ملکی و غیر ملکی قرضہ 2 سال 9 ماہ کے دوران 13 کھرب 4 ارب 20 کروڑ روپے وصول کیے اور عوامی ورکرز زرمبادلہ ایسی مدت کے دوران 62 ارب 85 کروڑ 69 لاکھ 10 ہزار ڈالر وصول کیے تھے۔ یہ بھاری رقوم کہاں گئیں؟
ٹرائیکا (اشرافیہ) عوام کو ''جمہوری قیدی'' بنا کر عوام کو بے بس اور مکمل بے اختیار کر کے ملک کے تمام عوامی وسائل پر قابض ہو کر ان کو لوٹتی ہے بیرون ملکوں میں عوامی سرمایہ لگا کر عوام میں آئے دن غربت میں اضافہ کرتی ہے۔ عوام و ملک کے وسیع تر مفاد میں عوام میں نچلی سطح پر یا وارڈز کی بنیادی سطح پر اختیارات و وسائل کو استعمال کرنے کا حق قانوناً جائز قرار دیا جائے۔ غیر ملکی دشمن پاکستانی دفاع کو کمزور کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہا ہے دہشتگردی سے عوام و افواج نے کافی جانی نقصان اٹھایا ہے۔
ملکی معیشت ملک کی شہہ رگ ہے سامراجی Currency Devaluation Minus Economic Eevelopment کے ذریعے ملکی لاگتیں بڑھا کر ملکی صنعتی کلچر کو ختم کرتا جا رہا ہے اور سامراجی امپورٹ بڑھتی اور ایکسپورٹ کم ہوتی جا رہی ہیں ملٹی نیشنل کمپنیاں عوامی سرمایہ لوٹ کر باہر لے جا رہی ہیں۔ سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے پاس سے سوٹ کیس بھرے ہوئے نوٹوں کے نکلے تھے کیا عوام اب بھی بھروسہ کرے گی کہ 2018ء کے الیکشن میں کامیاب ہونے والی ٹرائیکا (اشرافیہ) عوام کو خوشحالی دے سکے گی؟
کیا عوام اپنے عوامی سرمائے کا بہاؤ عوام کی طرف کر سکتے ہیں؟ یہ صرف عوامی معاشی انقلاب اور عوامی جمہوری انقلاب سے ہی ممکن ہے کیا خدا نے غلامی عوام کے مقدر میں لکھ دی ہے؟ میں اس بات کو نہیں مانتا عوام کو خدا نے ٹرائیکا کی معاشی اور جمہوری غلام کے لیے نہیں پیدا کیا ہے۔ عوام کو غلامی کی زنجیریں کاٹ ڈالنا ہوں گی ورنہ یہ ٹرائیکی (اشرافیہ) کا دیا ہوا طوق غلامی عوام کی نسل در نسل جھیلنا ہو گا۔ غربت کے تپتے صحرا، کانٹوں اور نوکیلے پتھروں پر چل کر غربت زدہ زندگی گزارنا ہو گی لیکن آخرکار اس ذلت بھری زندگی سے نجات کے لیے عوام کو جمہوری آزادی حاصل کیے بغیرکوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ عوام کی آزادی ہی در اصل ملک کی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے۔